وقف ترمیمی بل 2024  آئین کے ذریعہ پیش کردہ ’’آئیڈیا آف انڈیا‘‘کے خلاف :حضرت امیر شریعت

خانقاہ رحمانی میں تیسرے تحفظ اوقاف ورکشاپ میں جھارکھنڈ ، اڈیشہ اور مغربی بنگال وغیرہ  سے قضاۃ کی شرکت، حضرت امیر شریعت کا علمی محاضرہ

    امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم سجادہ نشیں خانقاہ رحمانی مونگیر نے خانقاہ رحمانی میں منعقدہ  تیسرے  سہ  روزہ تحفظ اوقاف ورکشاپ میں شرکت کرنے والے  قاضی حضرات کے سامنے مجوزہ وقف بل اور وقف ایکٹ 1995  کا موازنہ کرتے ہوئے وقف ترمیمی بل 2024 کے مضر اثرات کی تفصیل پیش کی۔ وقف بل پر تفصیلی گفتگو سے پہلے پس منظر کے طور پر آزادی کے وقت دنیا اور برصغیر کے حالات پیش کیا اور فرمایا کہ ہ’’ماری آئین ساز شخصیتوں نے اس وقت کی نزاکتوں کو سامنے رکھتے ہوئے بہترین آئین تیار کیا اور اونچے توقعات کے ساتھ آئندہ نسلوں کے  حوالے کیا ۔ اس لئے آئین میں ہر مذہبی اور ثقافتی گروہ  کو اپنے مذہب اور اپنی ثقافت پر عمل کرنے کی آزادی دی گئی ہے اور ان کے اس حق کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔چنانچہ دفعہ 26 بی کے تحت  ہر مذہبی گروہ کو اپنے مذہبی معاملات کو خود سے منظم کرنے اور چلانے کا اختیار دیا ہے۔

حضرت امیر شریعت نے فرمایا کہ بھارت کا سیکولرازم فرانس کے سیکولرازم یعنی لادینیت کے ہم معنی نہیں ہے۔بلکہ اس کا مطلب اتنا ہے کہ ریاست مذہبی طور پر غیر جانب دار رہے گی۔اس کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہوگا۔البتہ شہریوں کو اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے اور مذہبی ادارے قائم کرنے اور چلانے کی آزادی ہوگی۔لہذا جب حکومت ایک مذہب کی طرف دار بن کر دوسرے مذہبی گروہ کے خلاف تعصب برتنے لگے تو یہ واضح اشارہ ہے کہ حکومت آئینی سیکولرازم کے خلاف جاکر خلاف آئین پالیسی اختیار کر رہی ہے۔ ایسے وقت میں ہمارا فرض ہے کہ آئینی روح کی حفاظت کے لئے آگے آئیں۔ 

حضرت امیر شریعت نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے آرٹیکل 14 اور آرٹیکل 26 بی کی وضاحت کی اور فرمایا کہ  بنیادی حقوق کے یہ دونوں آرٹیکل نہایت اہم ہیں اور حالیہ مجوزہ وقف ترمیمی بل کا تجزیہ ان دونوں آرٹیکل کے حوالے سے لینا بھی ضروری ہے۔ انہوں نے بہار ہندو ریلیجئس ٹرسٹ ایکٹ کی دفعہ 24 اور ذیلی دفعہ ایک کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا ہے کہ کوئی ایسا شخص ہندو ریلیجئس ٹرسٹ ایکٹ کا سپری انٹینڈینٹ بننے کا اہل نہیں ہے اگر وہ ہندو نہیں ہو۔ اور پندرہ سال کا تجربہ نہیں رکھتا ہو۔ آرٹیکل 14 اور 26 بی کا تقاضا ہے کہ اسی طرح مسلم وقف بورڈ کے سی ای او بھی صرف مسلمان کو ہونا چاہئے۔چنانچہ وقف ایکٹ 1995 میں اس کا لحاظ رکھا گیا ہے۔

لیکن افسوس کہ مجوزہ بل میں اس شرط کو ہٹاکر آئین کے ان دونوں آرٹیکل کے برعکس راہ اختیار کی جا رہی ہے۔

حضرت امیر شریعت نے مزید فرمایا کہ نہ صرف یہ کہ سپری انٹینڈینٹ کے لئے یہ شرط ہے بلکہ دفعہ 9 کے تحت واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ایسے شخص کا بطور بورڈ ممبر بھی انتخاب یا تقرر نہیں ہو سکتا جو ہندو نہ ہو۔و

اضح رہے کہ تقریباً تمام اسٹیٹ ہندو انڈومنٹ ایکٹس میں خواہ وہ کرناٹک کا ایکٹ ہو یا تمل ناڈو کا ہو ، اس طرح کی شق  موجود ہے۔سوال یہ ہے کہ یہی اصول موجودہ حکمراں جماعت کو وقف بورڈ کے لئے گوارہ کیوں نہیں۔ایسی کون سی ضرورت پڑگئی کہ حکومت اس کے خلاف راہ اپنانے پر مجبور ہوئی  ہے اور بورڈ بنانے کے لئے ایسی تجویزیں رکھی گئی ہیں کہ اگر یہ بل ایکٹ بن گیا تو وقف بورڈ میں مسلمانوں کی نمائندگی گھٹ کر بہت کم ہو سکتی ہے۔ بے شک یہ مذہبی تفریق ہے۔ ایسے مذہبی تفریق کے خلاف سارے بھارتی شہریوں کو سامنے آنا چاہئے کہ یہ صرف وقف کی حفاظت کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ آئین اور آئین کی روح کا مسئلہ ہے۔

حضرت امیر شریعت  نے محاضرہ کے دوران انٹرنیٹ کے ذریعہ شرکا  سے ملٹیپل چوائس سوالات پوچھے جس سے لوگ لطف اندوز بھی ہوتے رہے اور محاضر کو یہ پتہ بھی چلتا رہا کہ ان کا پریزینٹیشن مکمل طور پر شرکا  کو سمجھ میں آ رہا ہے۔ ورکشاپ کا آغاز جناب مولانا قاری احسان صاحب کی تلاوت کلام اللہ اور جناب مولانا منظر قاسمی رحمانی کی نعتیہ کلام سے  ہوا۔حضرت امیر شریعت کے محاضرہ سے قبل  جناب مولانا جمیل احمد صاحب مظاہری ناظم تعلیمات جامعہ رحمانی مونگیر نے خانقاہ رحمانی کے وسیع خدمات کی تاریخ پر وقیع روشنی ڈالی۔ 

«
»

اسلاموفوبیا اور مسلمانوں کا معاشرتی کردار‎

وقف ترمیمی بل : آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے وفد کی ٹی ڈی پی سربراہ چندرابابونائیڈو سے ملاقات