(یادرفتگاں:۱۳۵)
14/ اکتوبر 2024ء بروز پیر صبح دس بجے کے قریب فرزند سید قطب نے یہ اندو ہناک خبر سنائی کہ محمد اسلم جوکاکوصاحب نے اپنی زندگی کی آخر ی سانس لی اور اپنے مولائے حقیقی سے جا ملے ، إنا للہ وإنا إلیہ راجعون ۔
کتنی مشکل زندگی ہے کس قدر آساں ہے موت
گلشن ہستی مانند نسیم ارزاں ہے موت
مرحوم اسلم صاحب سے راقم کی آخری ملاقات غالبا ً ۲۹/ ستمبر۲۰۲۴ ء اتوار کے دن جا معہ اسلامیہ کے مہمان خانے میںہوئی تھی جہاں وہ مولانا سید بلال حسنی ندوی ( ناظم ندوۃ العلماء لکھنؤ ) سے ملاقات کے لیے آئے تھے ، مرحوم ہمیشہ کی طرح ہنس مکھ چہرے سے ملے اور خیر خیر یت پوچھی ، اور اپنے وہ کلمات دہرائے جن کو وہ اکثر ملاقات کے وقت کہتے ہیں کہ ’’ کہاں ہیں مولانا بہت دن ہوئے آپ سے ملاقات نہیں ہوئی؟ ‘‘ اس ملاقات کے بعدوہ اپنی بیماری سے ایک دن پہلے تیگنگنڈی کے جناب محمد غوث صاحب اور سلیمان صاحب(یہ دونوں سڑک حادثے میں زخمی ہو گئے تھے اور مڑدیشور کے ہسپتال میں ایڈمٹ تھے) کی عیادت کے لیے گئے تھے۔بیماری کے ایام :اس کے بعدبیماری نے مرحوم پر اچانک حملہ کر دیا ، ان کوفوراً منگلور لے جایا گیا ،جہاں ان کوایمرجنسی واڈ (I.C.U)میں داخل کیا گیا ، پھر خبر یہ پھیلی کہ مرحوم کو برین ہمریج ہو گیاہے ، کئی دن منگلور ہسپتال میں زیرعلاج رہے ، پھر ڈاکٹر کے مشورے ہی سے ان کو بھٹکل لائف کیر میں منتقل کیا گیا ، جہاں وہ ڈاکٹر وںکی سخت نگرانی میں رہے ، راقم کو بھی ایک دن ہسپتال جاکر عیادت کا موقعہ ملا ، مرحوم کے قریبی رشتے داروں سے بالخصوص مولانا انصار خطیب صاحب سے مرحوم کے بارے میںراقم معلومات حاصل کرتا رہا ،لیکن وہ دن آہی گیا جس کا کھٹکا تھا ، اور یہ دن ہم سب کے لیے مقدر ہے ،’’ آج وہ کل ہماری باری ہے ‘‘ سب کو ایک دن موت کا مزہ چھکنا ہے ، کسی بھی ذی روح کو اس سے مفر نہیں ہے ، اس کا اعلان خالق کا ئنات نے اپنے کلام پاک میں ان الفاظ میں کیا ہے { کل نفس ذائقۃ الموت} لیکن کامیاب ہے وہ شخص جو آخر ت کی تیاری کرکے یہاں سے چلا جائے تو اس کے لیے پورے پورے اجر کا وعدہ ہے ، فرمایا {وإنّما توفون اجو رکم یوم القیامۃ ، فمن زحزح عن النار وأدخل الجنۃفقد فاز} تم کو قیامت کے دن تمھارے دنیا میں کیے ہوئے اعمال کا پورا پورا اجر دیا جائے گا،جو جہنم سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا تووہ کامیاب شخص ہے، پھر اس کے بعدکی آیت میں قیامت تک آنے والے انسانوں کو متنبہ بھی کیا گیا کہ دیکھو دنیا دھوکے کی ٹٹی ہے ،اس سے دھوکہ مت کھانا اور آخرت کو بھول نہ جانا ، فرمایا { وما الحیوۃ الدنیا إلا متاع الغرور} دنیاوی زندگی محض دھوکے کی ٹٹی ہے ، لیکن انسا ن ہے کہ اس دنیا کو سب کچھ سمجھ کر آخرت کی ہمیشہ ہمیش کی زندگی سے غافل ہو جاتا ہے ۔آخرت کی تیاری :آخرت کی ہمیشہ ہمیش کی زندگی میں کامیابی کے حصول کے لیے مرحوم اسلم صاحب نے رات دن ایک کر دیے،اور آخرت کی راحت پانے کے لیے دنیا کی راحت کی پرواہ نہیں کی بلکہ زندگی کی آخری سانس تک دعوت و تبلیغ سے جڑے رہے، اور ایسے جڑے رہے کہ مرحوم نے اس کام کو اپنا اورڈھنا بچھونا بنا لیا ، ہر وقت اسی کی فکر سوار رہتی تھی ، صبح آنکھ کھلنے کے بعد سے رات گیے دیر تک اس میں لگے رہتے ، گویا انھوں نے خود کو فنا فی التبلیغ کر دیا تھا، کتنے ہی بے نمازی پنج وقتہ نمازی بن گئے ، کتنے ہیں جو روزے دار بنے ، کتنے ہیں جو آداب نیم شبی کے پابند بن گئے،کتنے ہیں جو ذکر و تلاوت سے لذت حاصل کرنے لگے، کتنے ہیں جو دعا و مناجات میں لگ گئے ، کتنے ہیں جوغفلت کی زندگی سے باز آئے اور خود کو اللہ کے حوالہ کیا، ان کا ثواب مرحوم کو بھی ملتا رہے گا۔شاعر کہتا ہے :
أ لھتک لذۃ نو مۃ عن خیر عیش
مع الخیرات في غرف الجنان
تعیش مخلداً لا موت فیھا
و تنعم في الجنان مع الحسان
تیقظ من منا مک إن خیراً
من النوم التھجد بالقرآن
ترجمہ :رات کی نیند نے تمھیں حقیقی زندگی سے غافل کر دیا ۔ جو زندگی جنت کے بالا خانوں پر ہر قسم کے خیر کے ساتھ ہوگی ۔ جہاںتم کو ہمیشہ کی زندگی ملے گی اور جنت میں حوروں کے ساتھ مزے ہوں گے ۔ اٹھو کہ سونے سے بہتر یہ ہے کہ تہجد میں قرآن کی تلاوت کرو۔
حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندویؒ کی بھٹکل آمد کے موقع پر شاذلی مسجد (تبلیغی مرکز) میں بھی آپ کے بیانات ہوتے تھے، ایک مرتبہ کے بیان میں آپ نے فرمایا تھا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس آخر ی امت کی بہ نسبت پچھلی امتوں کی عمریں لمبی ہوتی تھیں، اس اعتبار سے ان کے اعمال بھی اس امت کے مقابلے میں زیادہ ہوتے تھے،اس لیے اللہ تعالی نے اس آخری امت کو لیلۃ القدر جیسی بابرکت رات عطاکی،اس رات کو جو عبادت کرے گا، اس کو ۸۳/ سال کی عبادت کا ثواب ملے گا، اس طرح اللہ تعالی نے آخری امت ہونے کی وجہ سے دعوت والا کام مرحمت فرمایا، یعنی لوگوں کو نما ز،روزہ،زکوٰۃ اسی طرح اعمال صالحہ کی دعوت دینا،بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے ان کو روکنا اور اس دعوتی فریضہ کی وجہ سے اللہ تعالی نے اس امت کو خیر امت کا لقب دے دیا، فرمایا:{کنتم خیر أمۃ أخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنھون عن المنکر} یعنی تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے نکالی گئی ہو، تم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتی ہو اور برائی سے روکتی ہو ، یہ ایک ایسا وظیفہ ہے جو بھی اس پر عمل کرے اس کے لیے ثواب ہی ثواب ہے۔
پھر حضرت نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا تھا: مثلا کوئی کسی کو نماز کا حکم دے اور وہ نماز پڑھنے لگے، تو اس کا ثواب اس شخص کو بھی ملے گا، جس نے نماز کا حکم دیا تھا، پھر اس دوسرے سے تیسرے کو ، تیسرے سے چوتھے کو اس طرح آگے ان سب کے پڑھنے کا ثواب اس پہلے والے شخص کے نامۂ اعمال میں جاتارہے گا اور یہ سلسلہ تا قیامت چلتا رہے گا، تو اس اعتبار سے اس امت کی عمریں تو کم ہوگئیں لیکن اس طرح دعوتی کام کرنے کی وجہ سے اس کے نامۂ اعمال میں ثواب کی کثرت ہوجائے گی۔
مرحوم کے اخلاق :
مرحوم اسلم صاحب اچھے اخلاق کے حامل تھے ، متواضع تھے ، مؤدب و مہذب تھے ، لوگوں سے محبت سے ملتے تھے ، جس سے ہر کوئی یہ خیال کرتا کہ اسلم صاحب ہم سے زیادہ محبت کرتے ہیں ، ایک داعی کے اندرجو صفات ہونی چاہیے وہ صفات مرحوم کے اندر بدرجہ اتم پائی جاتی تھیں ، نبی کی جملہ صفات عالیہ میں ایک نمایاں صفت یہ بھی تھی جس کو قرآن نے نقل کیا ہے ، ’’ فبما رحمۃ من اللہ لنت لھم ، ولو کنت فظاًّ غلیظ القلب لانفضوا من حولک‘‘(آل عمران )ترجمہ : بس اللہ ہی کی رحمت تھی کہ آپ نے ان کے ساتھ نرمی فرمائی اور اگر آپ تند خو سخت دل ہوتے وہ آپ کے پاس سے کب کے منتشر ہوگئے ہوتے ۔ترش روی سے کا م بنتا نہیں ہے بلکہ بگڑجاتا ہے ، اس کے مقابلے میں نر م خوئی سے کام بن جاتا ہے ، اس لیے بالخصوص داعی کو نرم بات کرنے حکم دیا گیا ہے ۔
مرحوم اسلم صاحب لوگوں سے بہت محبت کرتے ، علماء کا لحاظ کرتے اور ’’ انزلو ا الناس علی قدر منازلھم ‘‘ اور ’’ کلموا الناس علی قدر عقولھم و منازلھم ‘‘ کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے سب سے باتیں کرتے تھے ، اسلم صاحب اس شعر کے زیادہ مصداق تھے :
احب الصالحین و لست منھم
لعل اللہ یرزقنی صلاحا
یعنی میں نیک لوگوں سے محبت کرتا ہوں جبکہ میں نیک نہیں ہوں ، یہ اس لیے ہے کہ میں بھی صالحین کے زمرے میں شامل کیا جاؤں۔مرحوم اسلم اور مولانا محمد غزالی ؒ:مرحوم اسلم صاحب ہمارے عظیم داعی و مبلغ حضرت مولانامحمد غزالی مرحوم سے بے پناہ محبت کرتے تھے ، مولانا مرحوم جب بھی نظام الدین دہلی سے بھٹکل تشریف لاتے ، بھائی اسلم صاحب ان سے ایسے لگے رہتے جیسے گھر والے یا کوئی قریبی رشتے دار لگا رہتا ہے ، اسلم صاحب مرحوم کی مولانا سے محبت للہ فی اللہ تھی ، دعوت و تبلیغ کی نسبت سے تھی ، اس کے علاوہ اور کوئی وجہ نہیں تھی ، مولانا بھی اسلم صاحب سے دل سے اور چاہت سے محبت کرتے تھے ، مولانا کی بھٹکل آمد کی خبر ملتے ہی ان کے گھر جاتے ، روزانہ ملاقاتوں کا پروگرام بنتا اور اس پروگرام کے مطابق اسلم صاحب مولانا کو اپنی بائک پر لے جاتے ، راقم نے بارہا مولانا کو اسلم صاحب کے ساتھ جامعہ اسلامیہ میں آتے دیکھا ، یہ تھی مولانا کو اسلم سے اور اسلم صاحب کو مولانا سے محبت ، ایسی مثالیں بہت کم ملیں گی ۔مرحوم اسلم صاحب معہد امام حسن البنا میں بھی کئی بار آئے ، جب بھی آئے بڑی چاہت سے ملے ، مولانا غزالی صاحب کو بھی اپنے ہمراہ کئی بار لائے ، مولانا مرحوم کو کتابوں سے عشق کی حد تک محبت تھی ، مولانا کا مطالعہ وسیع تھا ، نئی کتابوں کے بارے میں پوچھتے رہتے تھے ، مولانا مرحوم کی وفات پر رسالہ نقوش طیبات کے خصوصی شمارہ جو۷۲۶/ صفحات پر مشتمل ہے شائع ہوا تھا ، اس شمارے میں ہمارے اسلم صاحب کا مضمون بھی شامل ہے ، یہ ان سے محبت کی اعلی مثال ہے کہ کبھی کچھ نہ لکھنے والے نے اپنے الفاظ میں مافی الضمیرادا کرنے کی کوشش کی ہے ،اس مضمون کے دوایک اقتباس ملا حظہ فرمائیں :مولاناغزالی صاحب کااکثروقت تووطن سے دور دہلی مرکز میں گزرتا تھا اوربظاہر بھٹکل کی مختلف سرگرمیوں سے الگ نظرآتے لیکن مجھے چونکہ آپ سے بہت قریب رہنے کاموقع ملا، اس لیے میں خوب جانتا ہوں کہ مولاناکو بھٹکل کی بڑی فکرتھی بسا اوقات باریک باریک چیزوں پربھی نظررکھتے تھے اوراسی طرح نئی چیزوں کو ہمارے ماحول اورثقافت کے لیے نقصان دہ سمجھتے تھے یہاں کے حالات اورسرگرمیوں سے واقف رہتے تھے۔اسی طرح مولانا مرحوم اپنے پرانے دوست و احباب، کلاس فیلو وغیرہ کہیں نظرآتے تو ان سے بڑی محبت سے ملتے ان کی خیریت معلوم کرتے۔طبیعت میں تواضع بہت تھا، ہرجگہ اپنے آپ کو چھپائے رکھا، چھوٹابن کررہنا پسندکرتے،ملنسار تھے،ہرایک سے اچھے اخلاق سے ملتے،کبھی ہم لوگ بھی کوئی مشورہ دیتے تو قبول کرتے،زندگی بڑی سادہ گزاری، لباس،کھاناپیناسب میں سادگی تھی، اپنی اولادکی تربیت بھی اسی انداز سے کی،اولادکی شادی بھی بھٹکل جیسے ماحول میں جہاں شادی میں بڑااہتمام کیاجاتاہے آپ نے سادگی کے ساتھ کرنے کوترجیح دی ۔مولانا غزالی صاحبؒ کی زندگی آپ کے اخلاق آپ کا رہن سہن آپ کاتواضع واعتدال ان میں ہم لوگوںکے لیے نمونہ ہے، آپ کی زندگی بڑی صاف ستھری لڑائی جھگڑے اورکینہ کپٹ حسد وبغض سے دور تھی ۔ (نقوش طیبات ،مولانا غزالی نمبر/ص :۴۵۶)مرحوم اسلم کے نامور چچا شمس الدین جو کاکوؒ :مرحوم شمس الدین کی تاریخ پیدائش ۱۹۱۲ء کی ہے اور تاریخ وفات ۱۹۶۴ء کی ہے، گویا آپ کے دنیائے فانی سے رخصت ہوئے آج سے تقریباً ۵۷/۵۸ سال ہو گئے صرف ۵۲/سال کی عمر پائی، لیکن کام وہ کیا جو سو سال کی عمر والے سے بھی بمشکل ہو پائے، اس وقت راقم کی عمر کوئی ۸/۹ سال کی رہی ہو گی مرحوم کا نام اور کارناموں کی باتیں اس وقت کانوں سے ٹکرائیں جب ہم جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکے تھے، ہم نے نہ آپ کو دیکھا اور نہ آپ کی باتیں سنیں، لیکن آپ کے نام کا ڈنکا اپنوں ہی میں نہیں بلکہ غیرمسلم بھائیوں میں بھی بارہا سنا، آپ کی وفات کے بعد قوم آپ کو بھولی نہیں بلکہ آپ کوسراہا اور یاد رکھا اور اس یاد کو باقی رکھتے ہوئے کئی یادگاریں قائم کیں، بھٹکل کے ایک مصروف ترین چوراہے کو ’’شمس الدین سرکل‘‘ کے نام سے منسوب کیا، اسی طرح ادارہ تربیت اخوان والوں نے اپنے اسکول کا نام ’’شمس نرسری اسکول‘‘ رکھا جو کہ بھٹکل کا ایک مشہور و معروف قابل قدر اسکول سمجھا جاتا ہے۔مرحوم شمس الدین صاحب قوم نوائط کے پہلے وکیل تھے، عصری تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود آپ کے اندر اسلامیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ آپ نے ابتدائی تعلیم بھٹکل کے مقامی علماء سے حاصل کی تھی، اس لیے بچپن کی اس تعلیم نے آپ کو اسلام کا شیدائی بنا دیا تھا، آپ علماء و صلحاء کا بے حد احترام کرتے تھے، صوم و صلاۃ کے بڑے پابند تھے، وکالت سیکھی، وزارت کے عہدے پر فائز ہوئے لیکن نماز کے اتنے پابند تھے کہ آپ جہاں کہیں رہتے، کورٹ میں ہوں یا کچہری میں، سفر پر ہوں یا حضر میں ، جب نمازکا وقت آجاتا تو اذان دیتے اور مصلی بچھا کر نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے، حصول علم کے لیے آپ نے خوب محنتیں کی ہیں، پہلے بھٹکل میں بجلی نہیں تھی، لالٹین اور موم بتی کی روشنی میں یا سرکاری روشنی جو راستوں اور سڑکوں پر آویزاں ہوتی ہیں اس روشنی میںآپ اپنے اسباق کی تیاری کرتے، اس شوق و جذبے نے آپ کو وکالت سے وزارت کے عہدے پر پہنچا دیا اور اس عہدہ پر رہ کر بلا لحاظ مذہب و ملت ایسے ایسے فیصلے کیے جن کو آج تک ہمارے غیر مسلم بھائی یاد کرتے ہیں۔قسام ازل کی طرف سے اگر چہ آپ نے زندگی کم پائی تھی، صرف ۵۲ سال عمر مستعار آپ نے پائی تھی، لیکن اس مدت میں آپ نے قوم و ملت کی جو خدمت کی ہے وہ قابل رشک بھی ہے، اور ناقابل فراموش بھی ،جن عہدوں پر آپ فائز تھے ان کو شمار کیا جائے تو اس کی ایک لمبی فہرست بن جائے ۔مرحوم شمس الدین صاحب جوکاکو کی ابتدائی تعلیم انجمن ہی میں ہوئی، جب کہ انجمن اس وقت اپنے ابتدائی مرحلے میں تھا، لیکن ذمہ داروں نے اس طالب علمی کے شوق و ذوق کودیکھتے ہوئے اس کو آگے بڑھایا، باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا، ان کے علاوہ اور کوئی سہارا اس کا نہیں تھا، غربت اور فقر نے بھی اپنا ڈیرہ ڈالا تھا، ان سب کے باوجود مرحوم نے ہمت نہیں ہاری، ذہین و فطین تو تھے ہی، محنت و لگن، جہد و جفاکشی جیسے اوصاف سے بھی آراستہ تھے، اس لگن اور جذبۂ شوق نے آپ کو اتنا آگے بڑھایا کہ وہ (B.A) کی سند حاصل کی، پھر اسی جہد مسلسل اور عمل پیہم نے آپ کو ایل ایل بی (L.L.B) کی سند اعلیٰ تک پہنچادیا اور انجمن برابر آپ کی پشت پناہی کرتی رہی، اب یہ قوم کے پہلے وکیل کے طور پر ابھر کر سامنے آئے، اللہ تعالیٰ کسی کو نوازنا چاہے تو اس کے لیے کوئی چیز آڑے نہیں آتی، اللہ اگر چاہے تو کم عمری ہی میں اس کو بڑے بڑے مناصب سے نوازتا ہے، اگر نوازنا نہ چاہے تو کچھ ہاتھ نہیں آ سکتا، ’’ذالک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشاء‘‘ ’’وتعز من تشاء وتذل من تشاء‘‘ قرآنی آیات ہمارے سامنے ہیں، اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور جنت میں بلند درجات سے نوازے۔مرحوم کی تعلیم :مرحوم اسلم صاحب کا بچپن اور تعلیم کیرالہ میں ہوئی ، وہاں ان کا آبائی کارو بار تھا ، اس لیے مرحوم کا بچپن اور جوانی وہاں گزری ، ایس ایل سی (S.S.L.C )کے بعد بی کام(B.COM) تک تعلیم حاصل کی ، اس دوران جماعت تبلیغ سے بھی وابستہ رہے ، ان کا پوراگھرانہ تبلیغی تھا ، ان کے بڑے بھائی جناب عبد الجلیل جو کا کو بھی تبلیغ سے جڑے ہوئے ہیں ، ان کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی مدرسہ کے فارغ التحصیل ہیں ، سر پر ٹوپی ، چہرے پر ڈارھی اورسفید جبہ لنگی ہمیشہ زیب تن کیے ہوئے رہتے ہیں ، مرحوم اسلم صاحب کے چار بھائی ہیں ،عبد الجلیل صاحب ان میں سب سے بڑے ہیں ، دوسرے عبد القیوم صاحب مرحوم ہیں ، ان کا انتقال کالیکیٹ میں مختصر سی بیماری میں آج سے دو سال پہلے ہوا تھا ، راقم کو بہت پہلے کا لیکیٹ میں مرحوم عبد القیوم کے گھر مولانا عبد الباری مرحوم کی رفاقت میں دو ایک دن قیام کا موقعہ ملا تھا ، مرحوم نے ہماری خوب مہمان نوازی کی تھی، ان کے دو فرزند معوذ صاحب اور معاذ صاحب راقم کی خوب جان پہچان ہے ، معاذ صاحب کا سعودیہ میں کا رو بار ہے ، ماشاء اللہ خو ش مزاج ہیں، مرحوم اسلم کے تیسرے بھائی عبد المجید صاحب ہیں اور چھوٹے اور آخری بھائی مرحوم اسلم صاحب ہیں ۔ذریعۂ معاش :مرحوم اسلم صاحب نے ابتداء میں ذریعہ معاش کے لیے مسقط کا رخ کیا ، اپنی عمر کے کئی سال وہاںگزارے ، اور لوگوں کو بذریعہ بس (BUS)حج و عمر ہ لے جاتے ، ایک طویل مدت تک مرحوم نے وہاں یہ کام کیا ،ظاہر ہے اس کا م میں رہنے کی وجہ سے مرحوم نے کئی حج و عمر ے بھی اداکئے ہوں گے ، اس کے بعد ۹۳ ء میں بھٹکل آئے تو یہیںکے ہوکر رہ گئے اور زندگی کی آخر ی سانس تک دعوت و تبلیغ سے جڑے رہے ،اللہ تعالیٰ شرف قبو لیت بخشے ۔مرحوم کی مقبو لیت :مرحوم اسلم صاحب نہ عالم تھے ، نہ حافظ ، اور نہ کوئی قد آور شخصیت لیکن ایک مخلص داعی ضرور تھے ، اس لیے مرحوم کے جنازے میں جم غفیر تھا ، یہ مرحوم کی عوام میں مقبو لیت کی علامت تھی ، یہ دینی کا موں میں جڑے رہنے کی برکت تھی ، اور یہ خود کو مٹا نے اور اپنے آپ کو دین کے لیے وقف کرنے کی ایک علامت و پہچان تھی ، جو دین کے کاموں میں خود کو وقف کر دیتا ہے ،اللہ تعالیٰ اس کو دنیا میں مقبو لیت عطا کرتا ہے ، اورمرنے کے بعد بھی وہ زندۂ جاوید ہوجاتا ہے ، لوگ اس کی صفات و اخلاق کا چرچہ کرتے ہیں اور اپنے مابین اس کا ذکر خیر کرتے ہیں اوراس کی کمی کو محسوس کرتے ہیں ۔نماز جنازہ:مرحوم کی نماز جنازہ جامع مسجد میں مولانا انصار خطیب ندوی کی امامت میں پڑھی گئی ، موصوف غالبا ًمرحوم کے خالہ زاد بھائی ہیں ، پوری مسجد نمازیوں سے بھر ی ہوئی تھی ، مرحوم تو پس ماندگان ،شہر کے عوام اور ہزاروں واقفین کو غمزدہ و سو گوار چھوڑ کر اپنی ابدی آرام گاہ اور سفر آخر ت کی طرف روانہ ہوگئے ، اور زبان حال سے یہ کہتے ہوئے چلے :
شکریہ اے قبر تک پہنچانے والو شکریہ
اب اکیلے ہی چلے جائیں گے اس منزل سے ہم
اللہ پاک مرحوم اسلم صاحب کی بال بال مغفرت فرما ئے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے، راقم اور معہد حسن البنابھٹکل کے تمام اراکین مرحوم کے جملہ اہل خانہ کے اس غم میں برابر کے شریک ہیں ۔اللھم اغفرلہ وارحمہ