رویش کا بلاگ: آپ جاسوس کمال کے ہیں، راجا کیسے بن گئے…

امر چتر کتھا کی پرانی کاپیاں  منگائی جا چکی تھیں۔ آئیڈیا ڈھونڈنے کے لیے کہ پرانے زمانے میں راجاعوام  کا حال پتہ کرنے کے لیے کیا کرتے تھے۔ راجا نے سنتے ہی ڈانٹ دیا۔ کون رات بھر سردی گرمی برسات میں بیٹھا رہےگا۔نوجوانوں  کی ٹیم نے کئی سارے آئیڈیا دیےمگر سب خارج ہو گئے۔راجا کو رات میں نکلنا پسند نہیں آ رہا تھا۔

راجا نے سمجھایا کہ اس شہر کے چپے چپے پر میری تصویر لگی ہے۔ میری مفت اسکیموں کی تصویرمنصوبوں کے پہنچنے کے پہلے گھر گھر پہنچ گئی ہے۔ میں نے مفت کو بھی مہنگا بنا دیا ہے۔ لوگ سوتے جاگتے، گھومتے پھرتے میری ہی تصویر دیکھتے ہیں۔ اس لیے باہر نکلتے ہی پہچانے جانے کا خطرہ  ہے۔

راجا کی بات سہی تھی۔نوجوانوں کی ٹیم نے ایک چھوٹی ٹیم کی تشکیل  کی اور شہر کے دورے پر بھیج دیا۔ انہیں شہر کا ایک ایسا گوشہ تلاش کرنا تھا جہاں سو میٹر کے گھیرے میں راجا کی تصویر نہ لگی ہو۔

ایسی ایک ہی جگہ ملی، جہاں راجا کی ایک بھی تصویر نہیں لگی تھی۔ طے ہوا کہ یہیں راجا بھیش بدل کر بیٹھےگا۔ راجا نے انکار کر دیا۔ راجا من سے بات کرنے لگا۔ میں کون سا بھیش بدل کر جاؤں گا۔ میں نے ہر طریقے کے بھیش بدل لیے ہیں۔ بدلنے کے لیے کوئی نیا بھیش نہیں بچا ہے۔

میرا صرف اصلی چہرہ بچا ہے، جسے لوگوں نے نہیں دیکھا ہے۔ وہ بھی اصلی نہیں لگتا۔ میں بھی اصلی چہرے کو بھول گیا ہوں۔ لوگوں کے پاس اسمارٹ فون ہوتے ہیں۔ اس میں ہر کسی کے پاس وہاٹس ایپ ہے۔ فیس بک ہے۔ بہتوں نے میری تصویر کی پروفائل پکچر لگائی ہوئی ہے۔ رات کو باہر جانا ٹھیک نہیں رہےگا۔ کوئی نہ کوئی پہچان لےگا۔

راجا اپنادکھ کس سے کہتا کہ وہ سچ جاننا چاہتا ہے۔ جھوٹ پھیلاتے پھیلاتے سچ کی طلب لگی ہے۔ ایک نوجوان  نے شرارت میں سوال کر لیا۔ جب سچ ہی جاننا تھا، تب جھوٹ کا اتنا پروپیگنڈہ  کیوں کیا۔

راجا کے پاس اس کا بھی جواب تھا۔ اس نے کہا کہ یہ پتہ لگانا بہت ضروری ہے کہ جس سچ کو میں جانتا ہوں، اس سچ کو شہر میں اور کتنے لوگ جانتے ہیں۔ اگر ان لوگوں سے میرا سچ عوام کے بیچ پھیل گیا تو میرا اصلی چہرہ دکھنے لگ سکتا ہے۔

ٹیم کے ایک بہاد ممبر نے موقع دیکھ کر راجا سے کہا۔ کوئی آپ کا سچ کیوں جاننا چاہےگا۔ جب جھوٹ ہی سچ ہو چکا ہے تو سچ جھوٹ کا کیا بگاڑ لےگا۔ کسی کو آپ کا سچ مل بھی جائےگا تو اسے چھاپےگا کون۔ دکھائےگا کون۔

من کی بات میں ڈوبا راجانوجوان کی اس بات سے خوش ہوا، لیکن جلدی ہی اس کی خوشی چلی گئی، کیونکہ اس سوال نے ایک نیا جواب پیدا کر دیا تھا۔

راجا نے دھیمے لہجے میں کہا کہ پریشانی  یہ نہیں ہے کہ سچ چھپ جائےگا۔پریشانی  ہے کہ سچ رہ جائےگا۔ بچا ہوا سچ چھپے ہوئے سچ سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ جب تک بچا ہوا سچ ہے تب تک ہمارے نہیں بچنے کا اندیشہ ہے۔ اس لیے میں جاننا چاہتا ہوں کہ میرے علاوہ میرا سچ اور کون کون جانتا ہے۔

راجا کے ساتھ کام کرتے کرتے نوجوانوں  کا تجزبہ جھوٹ پھیلانے کا تھا۔ انہیں ہمیشہ جھوٹ ہی سونپا گیا۔ اس لیے ان کا تجربہ  سچ کو لےکر نہیں تھا۔ راجا کے جواب سے وہ سمجھ گئے۔ بچے ہوئے سچ کا پتہ لگانا ہے۔ پھیلے ہوئے جھوٹ سے بچے رہنے کی فکرنہیں کرنا ہے۔

امر چتر کتھا کی پرانی کاپیوں  کا بنڈل باندھا جانے لگا۔ کتھا ساہتیہ کے ڈسٹری بیوٹر کو لوٹانا بھی تھا۔

غوروخوض ہوتا رہا۔ ٹیم کے ایک دوسرے ممبر کو خیال آیا۔ اس نےفوراًراجا کے موبائل فون پرپیغام ٹھیل دیا۔ راجا جی سچ ہی جاننا ہے تو گودی میڈیا سے کہتے ہیں کہ وہ سچ دکھائے۔ ہم گھر میں ہی بیٹھ کر سارا سچ دیکھ لیں گے۔

اس پر راجا گھبرا گیا۔ بھاگا بھاگا ‘بچار ومرش کیندر’ میں پہنچ گیا۔ چلانے لگا۔ نہیں نہیں۔ایسا ہرگز نہیں کرنا۔مشکل سے انہیں جھوٹ کی لت لگائی ہے۔ اب انہیں سچ کی لت مت لگاؤ۔تبھی ایک خاتون ممبر نے کہا، فون کی جاسوسی کرتے ہیں۔ بچار ومرش کیندردنگ رہ  گیا۔

مرکز میں موجود سبھی نے اس خاتون  کی طرف فخریہ اندازسے دیکھا۔ اس کی صلاحیت  کی تعریف ہوئی۔ راجا نے اس سے پوچھا، کیا تم وہی بیٹی ہو جسے پڑھانے کے لیے بچایا گیا تھا؟ پر تم نے پڑھا کہاں؟ تم جیسی بیٹیوں کو پڑھانے کے لیےاساتذہ  تو بچایا ہی نہیں گیا تھا۔

خاتون  نے کہا یہ علم کلاس کا نہیں ہے۔ ہندوستان کی عظیم الشان روایت سے آیا ہے۔خاتون ممبر کے اس راشٹروادی جواب پر سب نے نعرے لگائے۔ بھارت ماتا کی جئے۔آنسوؤں کی ندیاں  بہنے لگیں۔آئیڈیا پاس ہو گیا۔ ٹکنالوجی کی ٹیم بلائی گئی۔ وائرس کا فارمولہ تیار ہوا۔ راجا وائرس بن کر ہر دن سو فون میں جائےگا۔ سو گھروں کی بات لےکر آئےگا۔

راجا دن رات لوگوں کی باتیں سننے لگا۔ رات کو جب فون والا سو رہا ہوتا، راجا جاگ رہا ہوتا۔ راجا سوتا نہیں ہے۔یہ خبر گاؤں گاؤں پھیل گئی۔ راجا بھی خوش ہوا۔

یہ خبر کسی کو نہیں لگی کہ راجا سوتا کیوں نہیں ہے۔ جاگ کر کیا کرتا ہے۔ راجا سب دیکھنے لگا۔ فون والا نہا رہا ہے۔ فون والا کھا رہا ہے۔ فون والا باہر جانے کے لیے پینٹ بدل رہا ہے۔ فون والی ساڑی بدل رہی ہے۔ فون والا فوٹو کھینچ رہا ہے۔ فون والا بتیا رہا ہے۔ فون والا باہر جا رہا ہے۔ فون والا کسی کاروباری  سے مل رہا تھا۔ فون والا راجا کا سچ ڈھونڈ رہا ہے۔

اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ گھبراہٹ میں راجا نے سچ کا اسینڈ بٹن دبا دیا۔ راجا کا سچ فون والے کے فون میں پہنچ گیا۔ راجا فون والےکی زندگی  جینے لگا۔ بھول گیا کہ وہ راجا ہے۔ وہ فون والا بن گیا۔ اس کی زندگی  جینے لگا۔

فون والا جس طرح کے کپڑے پہنتا، راجا بھی اسی طرح کے کپڑے پہننے لگا۔ فون والا اپنے دوستوں کو پیغام بھیجتا،راجا بھی اپنے دوست کو میسیج کرنے لگا۔ فون والا ٹوئٹ کرتا تو راجا بھی اسی طرح کے ٹوئٹ کرنے لگا۔

فون والا کھانے کے لیے جو کچھ آرڈر کرتا، راجا بھی وہی آرڈر کرنے لگا۔راجا کا ہاؤ بھاؤ بدلنے لگا۔ وہ دوسروں میں خود کوتلاش کرنا چھوڑ، خود کو خود میں تلاش کرنے لگا۔اب فون والا اور راجا مل کر راجا کو تلاش کرنے لگے۔

کئی دنوں بعد ٹیم کے ممبروں  نے راجا سے پوچھا۔ تجربہ کیسا رہا۔ کیا کیا دیکھا۔ کیا کیا ملا۔ جواب میں راجا نے کہا کہ اب میں وہ نہیں ہوں جو تھا۔ میرا سچ ان لوگوں کو مل گیا ہے۔ میں نے غلطی سے انہیں اپنا سچ دے دیا۔ ان کی جاسوسی کرتے کرتے وہ میری جاسوسی کرنے لگے۔ میں اپنی جاسوسی کرنے لگا ہوں۔

خاتون ممبر نے کہا، آپ جاسوس کمال کے ہیں۔ راجا کیسے بن گئے۔

(یہ مضمون  رویش کمار کے فیس بک پیج پرشائع ہوا ہے۔)

 

«
»

کرناٹک :حکومت نے بی جے پی کے ذریعہ ختم کئے گئے اقلیتی اسکالرشپاسکیم کو بحال کر دیا

اسپتال کس لئے،، علاج کے لئے یا کمائی کے لئے؟؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے