یوگی کی کرسی بچانے آر ایس ایس میدان میں

  از۔ ذوالقرنین احمد 

بھارت میں مودی اقتدار کے دوسرے دور میں ان 7 سالوں میں ملک کی جو حالت ہوئی ہے وہ کافی سنگین صورتحال بیان کر رہی ہے۔ مودی حکومت نے سنگھی فرقہ پرستوں کو خوش کرنے کیلئے بہت سارے کالے قانون کو پارلیمنٹ میں پاس کیا ہے۔ جس میں یو اے پی اے ترمیمی قانون، آری ٹی آئی ترمیمی قانون، سی سی اے اے، شہریت ترمیمی قانون، جسے کچھ ریاستوں میں نافذ بھی کردیا گیا ہے۔ اسی طرح مودی حکومت نے سینٹرل سیول سروسیز پنشن رولز 1972 میں ترمیم کرکے اپنی نوکریوں سے سبکدوش ہونے والے سیکورٹی افسران، انٹلیجنس ایجنسیوں کے افسران، راؤ وغیرہ کے افسران کو حکومت سے پیشگی اجازت کے بغیر میڈیا، میں ، خود کتاب لکھ کر ، یا خط کے ذریعے کسی بھی معلومات کو افشا کرنے پر پابندی عائد کردی ہے جن افسران جس ادارے میں کام کیا ہے اسکی کوئی بھی معلومات جو ملک کی سیکورٹی سے تعلق رکھتی ہو اس پر نیا نوٹیفیکیشن جاری کرکے پابندی لگا دی ہے۔ اگر کوئی افسر اسکے خلاف ورزی کرتا ہے تو اسکی پنشن روک دی جائے گی۔ ملک کی حفاظت کیلئے اور خاص سیکورٹی سے متعلق معلومات کا محفوظ رہنا ضروری بھی ہے لیکن یہاں مودی حکومت کی نیت صاف نہیں ہے اسکے پیچھے سنگھی پالیسی کے ناجائز عزائم موجود ہے۔ جو ہندو راشٹر کے نفاذ کیلے راستے ہموار کر رہی ہے۔

سوچنے کی بات ہے جب کوئی افسر ریٹائرڈ ہوتا ہے تو وہ جتنے سال سیکورٹی اداروں میں کام کرتا ہے وہ  اسکے معلومات کو بلکل محفوظ رکھتا ہے۔ لیکن ملک کے سسٹم میں جو سنگھی عناصر اعلیٰ عہدے پر فائز کیے گئیں ہے انکے کرپشن اور کالے کارنامے جس پر پردہ ڈالنے کیلئے سنگھی حکومت کسی بھی حد تک گر سکتی ہے۔ جیسے 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے وقت مودی حکومت نے پلوامہ کے فرضی حملے بے میں  قصور فوجیوں کی جانیں لی تھی۔ جس کا راز مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے کچھ عرصے بعد ہوا۔ جس طرح ہیمنت کرکرے کو 26 /11 کے حملے میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ کیونکہ وہ مالیگاؤں بم دھماکہ میں ملوث سنگھی عناصر کو کٹ گھرے میں کھڑا کرنا چاہتا تھا جو سسٹم میں موجود  زہریلے افراد کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہتا تھا جس میں پرگیہ سنگھ ٹھاکر ملوث ہے۔ جو ممبر آف پارلیمنٹ بن چکی  ہے۔ ایسے بہت سارے سسٹم میں موجود خطرناک جرائم میں ملوث افراد کی پول کھولنے والے ایماندار افسران کو ہدف بنانے کیلئے سینٹرل سیول سروسیز پنشن قانون ترمیم کی گئی ہے۔تاکہ آئیندہ انتخابات میں اگر بی جے پی اقتدار حاصل کرنے میں ناکام ہوتی ہے تو پھر وہ اپنے کرپٹ لیڈران کو محفوظ رکھ سکے، اور کوئی بھی سیکیورٹی فورسز کا اہلکار ان کے کرپٹ لینڈران کی پول کھولنے سے باز رہے۔ 

 

2022 میں اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات ہونے والے ہے اور اس کیلئے بی جے پی اور سنگھ پریوار کرونا وائرس وبا کے دوران اپنی پالیسی تیارکر رہی ہے۔ سنگھ کے سنچالک موہن بھاگوت نے ایک اہم میٹنگ بھی لی ہے جس میں بات چیت ہوئی ہے کہ یو پی کے انتخابات کی تشہیر میں مودی کے چہرے کا استعمال نہیں کیا جاے گا، یہ اس وجہ سے کہا گیا ہے کہ ملک میں کرونا وائرس کی پہلی اور دوسری لہر میں مودی حکومت پوری طرح ناکام ثابت ہوئی ہے۔ اور اپوزیشن نے مودی حکومت کی شبیہ کو خراب کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ اس وجہ سے یوگی حکومت نے بی جے پی اتر پردیش کے ٹویٹر اکاؤنٹ سے بھی مودی کی تصویر حذف کردی ہے۔ تاکہ یوپی انتخابات میں مودی کی بدنامی کی وجہ سے بی جے پی کو خطرہ لاحق نہ ہو۔ 

اسی وجہ سے یوگی حکومت کو بچانے کیلئے سنگھ پوری طرح سے میدان میں اتر چکا ہے۔اس بار سنگھ نے اپنی پالیسی میں کچھ تبدیلی بھی کی ہے جس میں اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں کو بھی ٹیکٹ دینی بات کی ہے۔ جس پر ابھی فیصلہ نہیں لیا گیا ہے۔ لیکن بی جے پی کو آپریٹ کرنی والی تنظیم آر ایس ایس نے اس بار کچھ نیا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ انتخابات سے قریب یہ بات جھوٹی ثابت ہو کے مسلم امیدواروں کو بھی بی جے پی ٹیکٹ دے گی۔ یوپی میں مسلمانوں کی کافی بڑی تعداد ہے۔ ایک اندازے  کے مطابق 70 سیٹوں پر مسلم امیدوار انتخابات لڑ سکتے ہیں۔ لیکن مختلف سیکولر پارٹیوں سے ہر علاقے میں ایک سے زائد مسلمانوں کو انتخابات لڑنے کی وجہ سے اسکا سیدھا فائدہ بی جے پی کو پہنچ سکتا ہے۔ 

ملک میں جہاں کہی بھی انتخابات کا موسم قریب ہوتا ہے وہاں سنگھی فرقہ پرست عناصر بھوکنے لگ جاتے ہیں اور ہندو ووٹوں کو متحد کرنے کیلئے مسلم مخالف ماحول تیار کرتے ہیں، جبکہ مسلمان امن پسند ہے لیکن جان بوجھ کر فرقہ پرست سے امن کے دشمن آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں کے لیڈران مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنا شروع کردیتے ہیں ۔ انتخابات قریب ہے اور یوگی حکومت ہندو مسلم فرقہ وارانہ فسادات کروانے کیلئے تیار ہے۔ یو گی حکومت اپنے فرقہ پرست عناصر کے ذریعے کہی مسجدوں پر حملے کروا رہی ہے تو کہی مسلم نوجوانوں کو ماب لنچنگ کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یوگی حکومت میں جرائم پیشہ افراد ماب لنچنگ کرنے والے قاتل، اور سنگھی فرقہ پرست عناصر کھلے عام گھوم رہے ہیں۔ حال ہی میں ایک ویڈوں وائرل ہورہا ہے کرنی سینا کا ریاستی صدر ٹھاکر سینگر چوہان نامی شخص کھلے عام مسلمانوں کو دھمکی دے رہا ہے اور ویڈوں میں کہتا سنائی دے رہا ہے کہ اگر ہندؤں کو ایک کھروچ بھی آئی تو مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر عورتوں کے پیٹ میں جو بچہ ہوگا اسکو بھی نکال کر مارے گے‌۔ اس قدر نفرت کرنے والا شخص کھلے عام ویڈوں وائرل کررہا ہے اور حکومت تماشائی بنی ہوئی ہے۔  ایسے شخص پر حکومت کو قومی تحفظ ایکٹ نہیں لگا رہی ہے ناہی دہشت گرد مخالف قانون کے تحت گرفتار کرکے مقدمہ دائر کر رہی ہے۔

ایسی حالت میں اپوزیشن پارٹیوں کے افراد کو مسلمانوں نے دھیان میں رکھنا چاہیے کہ وہ سیکولر پارٹیوں کے لیڈران جو مسلمانوں کے ووٹوں کا ووٹ بینک کے طور پر استعمال کرتے آئیں ہے انہوں نے اس تعلق سے کونسا اسٹیٹمینٹ میڈیا میں آکر مسلمانوں کے حق میں دیا ہے۔ یا مجرم سنگھیوں کے خلاف سڑکوں پر اتر کر احتجاج کیا ہو،  مسلم نوجوانوں کی آئے دن ہورہی ماب لنچنگ پر حکومت سے  اسکے خلاف سخت قانون سازی کی اپیل کی ہے یا قانون کو  لاگو کرنے کیلئے پریشر کیا ہو۔ 

 مسلمانوں کا یہ عجیب المیہ ہے کہ انہیں ہوش تب آتا ہے جب پانی سر کے اوپر گزر جاتا ہے۔ وقت رہتے اگر مسلمان ملکی سطح پر کوئی لائحہ عمل تیار کرلے تو بہتر ہوگا، جب یو پی کے انتخابات قریب ہے اور بی جے پی اس کیلئے زمین ہموار کرنے مصروف ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کو بہت پہلے سیاسی پالیسی تیار کرلینی چاہیے تھی ۔  اب فرقہ پرست یوگی حکومت مکمل مخالف ماحول تیار کرکے ہندو ووٹوں کو متحد کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔ یوپی کے مسلمانوں کو  چاہیے کہ بڑی سیکولر پارٹیوں سے اس بنیاد پر ساتھ دینے کی بات کی جائے کہ وہ کتنے مسلمانوں کو امیدواری دے گی حکومت سازی کیلئے کتنے مسلم امیدواروں کو کیبنیٹ میں اعلیٰ عہدوں میں جگہ دے‌ گی۔ حصہ داری کی بات کرنی چاہیے۔ ورنہ ایک نئے سیکولر سیاسی محاذ کی تشکیل دینے چاہیے ۔

 اتنا ہی نہیں مسلم تنظیموں کے‌کیڈر  کو چاہیے کے اپنی عوام کی ذہن سازی کریں اور یہ کام خاموش کے ساتھ انجام دیا جائے، جس طرح تبلیغی جماعت کے افراد گھر گھر جاکر ایک ایک فرد سے‌ روزانہ ملاقات کرتے ہیں اسی صورت میں باشعور مسلمانوں کو پوری ریاست میں جہاں مسلم اکثریتی علاقے ہے وہاں مسلمانوں کی ذہن سازی کرنا چاہیے یہ بے حد ضروری ہے۔ سیاسی شعور کو پیدا کیے بغیر سیات میں قدم جمانا بہت مشکل  ہے۔ لاکھ یوگی حکومت کی شبیہ پوری دنیا میں داغدار ہوئی ہے۔ گنگا کنارے لاشوں کا بہنا ہو، یا اسکے اطراف میں آخری رسومات ادا کیے بغیر ریت میں دفن کی لاشیں ہو۔ ہاسپٹل میں آکسیجن کی کمی سے‌مرنے والوں کی قطاریں ہو، یا شمشان گھاٹ میں لمی لائن ہو، کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن میں یوگی حکومت میں اتر پردیش میں جو سنگین حالات سے عوام بدحال پریشان ہوئی ہے  اتنا کسی اور ریاست میں نہیں ہوا ہے۔ یوگی کی شبیہ کو بچانے کیلئے اور   بی جے پی اقتدار والی ریاست کو ہاتھ سے نکلنے کے ڈر سے سنگھ  میدان میں اتر چکی ہے۔ مسلمانوں کو اس سے سیکھ حاصل کرنی چاہیے۔ کہ سیاست میں ایک رات یا دن میں قدم نہیں جمائے جاسکتے ہیں بلکہ عوام کی ذہن سازی بے حد ضروری ہے۔ 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 9 جون 2021

 

«
»

جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے