مسلمانوں کے لیے مژدۂ جاں فزا (حالیہ جنگ فلسطین کے تناظر میں)

                  از فیصل احمد ندوی

          (استاد دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ)

          قرآن کریم میں سب سے زیادہ کسی کی مذمت کی گئی ہے تو ہو اسرائیلی اور یہود ہیں۔ ان کی بدعملی کی متعدد سورتوں کی وضاحت کے ساتھ دینِ الٰہی کے خلاف ان کی بغاوت اور اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ ان کی انتہائی  گستاخی کو بھی جگہ جگہ بیان کیا گیا ہے۔ اور بار بار کہا گیا ہے کہ یہ راندۂ درگاہ اور غضبِ الہٰی کے شکار ہیں؛ تاکہ ان کی حقیقت آشکارا ہوجائے اور مسلمانوں کی آنکھیں کھل جائیں ا ور کبھی وہ ان کیدام میں نہ آئیں۔
          اور یہ بات بھی ایک سیز ائد موقعوں پر کہی گئی ہے کہ عزت وشوکت ان سے رخصت ہوچکی ہے،اب ذلت ومسکنت ان کا مقدر ہے،ان کی مت ماری جاچکی ہے؛لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگرکبھی  لوگوں کا ان کو تعاون حاصل ہوجائے تو ان کو شوکت حاصل ہوسکتی ہے۔
          تاریخ گواہ ہے کہ یہودی  ہمیشہ بھٹکتے رہے اور ہر جگہ مار کھاتے رہے،ذلت ونکبت سے دو چار اور مصائب وآلام کے شکار رہے۔تاآں کہ 1948ء میں برطانیہ کی سازش اور دسیسہ کاری سیاسرائیل کا قیام عمل میں آیا، پھر امریکہ کی اس کو پشت پناہی حاصل ہوئی،جو آج تک کھلے چھپیاس کی مدد کیے جارہا ہے۔اور اہلِ نظر سے یہ بات مخفی نہیں کہ امریکہ کی حمایت اسرائیل کے وجود وبقا کی ضامن ہے۔ اسی کے بعد سے اسرائیل میں جرأت پیدا ہوئی اور وہ بے خوف وخطر دندنانے لگا۔
          اس ستر سالہ عرصے میں ظلم وستم کی کوئی صورت نہیں جس کو اسرائیل نے نہتے فلسطینی مسلمانوں پر روا  نہ رکھا ہو، ظلم وجور کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جس کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ اس عرصے میں متعدد جنگیں بھی ہوئیں اور اسرائیل  کی طاقت وقوت کا مظاہرہ ہوتا رہا۔ عرب حکومتیں ہمیشہ منافقانہ چال چلتی رہیں اور غیرتِ اسلامی کو پامال کرتی رہیں، یہاں تک کہ کچھ عرصے قبل چند عرب ملکوں نے اسرائیل کے ناجائز و ناپاک وجود کو تسلیم کرکے رہی سہی غیرت بھی بیچ ڈالی اور کھلے بندوں اسرائیل کے ساتھ اپنی وفاداری کا ثبوت فراہم کیا۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں پر آرے چلتے رہے اور وہ اسرائیل سے پینگیں بڑھاتے رہے،ہر طرف مایوسی کی فضا چھائی ہوئی تھی    کہ موجودہ  جنگ پیش آئی۔ یہ جنگ اسرائیل کی دادا گیری کی ایک مثال ہے؛ لیکن اس کا یہ غرور چند ہی دنوں میں زمیں بوس ہوگیا،مایوسی کے بادل چھٹنے لگے اور امید کی کرن روشن ہوگئی۔ اور اس روشنی میں اہلِ فلسطین کو اپنا مستقبل تابناک دکھائی دینے لگا اور فتح ونصرت کا وقت ِموعود قریب نظر آنے لگا۔ ہم اس مضمون میں اسی  کی کچھ جھلکیاں دکھانا چاہتے ہیں۔
          سب سے پہلے یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہودیوں کا   غلغلہ پانی کا ایک  بلبلہ ہے،جو سر اٹھا تے ہی بیٹھ جاتا ہے اور ہست سے نیست ہوجاتا ہے۔ مسلمانوں کی فتح و نصرت اور یہیودیوں کی شکست و ریخت قطعی اور یقینی ہے۔ متعدد روایتیں اور دسیوں حدیثیں اس پر شاہد ہیں، یہاں تک کہ درخت گواہی دے گا اور پتھر پکاراٹھے گا کہ یہاں یہودی چھپا ہوا ہے آؤ اور اس کو مار ڈالو(بخاری نمبر۳۵۹۳)
          بخاری اور مسلم کی مشہور روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری امت کے ایک گروہ کی جو حق پر ہوگا ہمیشہ مدد کی جائے گی اور اللہ کی نصرت اس کے شامل حال ہوگی۔ان کی مدد سے ہاتھ اٹھانے والے بلکہ ان کی مخالفت کرنے والے بھی ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکیں گے؛یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ ہوگا۔اسی حدیث میں ایک جگہ یہ اضافہ بھی ہے کہ یہ گروہ بیت المقدس اور اس کے اطراف میں ہوگا (دیکھیے مسند احمد ۲۶۹/۵ والمعجم الکبیر للطبرانی ۱۴۵/۸)
          متعدد آثار و قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات آخری زمانے کے متعلق کہی جارہی ہے۔جس کی ابتداظن غالب میں موجودہ  جنگ فلسطین(مئی ۲۰۲۱ء) سے ہوچکی ہے۔
          اسرائیل نے رمضان کے آخری عشرے کی مبارک ساعتوں میں مسجد اقصیٰ پر ہلہ بول کر مسلمانانِ عالم کے جذبات کو  برانگیختہ کیا،نمازیوں پرحملہ کرکے بچوں اور عورتوں سمیت بے گناہ مسلمانوں کو تہ تیغ کیا۔اور اس طرح پھر ایک دفعہ اپنی بزدلی اور سنگ دلی کا واضح ثبوت فراہم کیا،دھمکی دے کر اہم ترین عمارتوں کو دھماکے سے اڑایا اور وہ سب کچھ کیا کہ ان کو اپنی فتح قریب نظر آنے لگی۔اس پر ایک کہرام مچا،چینخ و پکار بلند ہوئی،دنیا بھر میں مسلمان بے چین ہوگئے،دل اللہ کی طرف جھکنے لگے  دعاؤں کے لیے ہاتھ اٹھنے لگے،کوئی کوئی صدا عرشِ الٰہی سے جاٹکڑائی،رحمت حق جوش میں آئی،دیکھتے ہی  دیکھتے پانسہ پلٹ گیا،اور یہودیوں کا غرور ٹوٹ گیا۔جنگ سے انھوں نے ہاتھ اٹھا لیا اور گیارہ ہی دن میں فائر بندی پر مجبور ہوئے۔فلسطین میں فتح و نصرت کے شادیانے بجنے لگے،اور مجاہدین خوشی سے  اچھلنے لگے۔یہودیوں اور صہیونیوں نے ایسی ایسی باتیں ٹوئٹ کیں اور سوشل میڈیا کے دوسرے ذرائع سے نشر کیں کہ ان کی پول کھل گئی اور حقیقت عالم آشکارا ہوئی۔

Whats-App-Image-2021-06-08-at-8-22-28-PM

          ایک اسرائیلی نے لکھا:آج (۱۷مئی۲۰۲۱) میں ہداسا اسپتال گیا میں نے دیکھا لوگ کٹے ہوئے ہیں،یہ ایک نہایت خوفناک منظر تھا۔ میں کسی کی یہ  حالت دیکھ نہیں سکتا۔کیا بات ہے کہ سوشل میڈیا پر یہ باتیں نظر نہیں آتیں۔اسرائیلی حکومت عمداً جھوٹ بول رہی ہے۔

Whats-App-Image-2021-06-08-at-8-22-30-PM-1
          ایک دوسرے نے لکھا کہ ہم کب تک جھوٹ بول کر اپنے کو دھوکادیں گے۔اسرائیل کا زوال قریب ہے۔واقعات اس پر شاہد ہیں،جن کو ہم دنیا سے مخفی رکھنا چاہتے ہیں۔ہمارے سینکڑوں آدمی مارے جا چکے ہیں،اور زخمیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے،اسرائیلی میڈیا جھوٹ بولتا ہے۔

Whats-App-Image-2021-06-08-at-8-22-31-PM-1
          ایک اور اسرائیلی نے ٹوئٹ کیا ہے کہ میرا چچازاد بھائی سرحدی پولیس کے پاس کام کرتا ہے،اس کہنا ہے کہ وہاں بڑی تعداد میں لاشیں پڑی ہوئی ہیں، صورتِ حال بہت دردناک اور حد درجہ خوفناک ہے۔نیز وہ لکھتا ہے کہ اسرائیل ان تفصیلات کو راز میں رکھنا چاہتا ہے اور دنیا کے سامنے نہیں آنے دیتا۔اسرائیل شکست کھا چکا ہے۔

Whats-App-Image-2021-06-08-at-8-22-29-PM
          ایک نے لکھا یہ ملک اب ہمارا نہیں ہے۔دوسرے نے لکھا میں  نہیں سمجھتا کہ یہ جنگ ختم ہوگی،ہم سالہاسال سے اس کو جھیل رہے ہیں، بس ہم کو یہاں سے نکل جانے کی ضرورت ہے،فلسطینی اپنی سرزمین سے محبت کرتے ہیں اور موت  کے لیے تیار ہیں،مگر ہم مرنا نہیں چاہتے۔

Whats-App-Image-2021-06-08-at-8-22-29-PM-1
          ایک نے غصے کے ساتھ لکھا: میں اسرائیل سے محبت کرتا ہوں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم جنگ اور خوف کے ساتھ جیئیں،ہم اس کی طاقت نہیں رکھتے۔جنگ کو روک دو ورنہ ہم ان ملکوں میں واپس چلے جائیں گے جہاں سے آئے ہیں۔
          ایک نے لکھا: اس ملک میں رہنااور جہنم میں رہنا برابر ہے۔

Whats-App-Image-2021-06-08-at-8-22-30-PM
          دوسرے نے لکھا: حماس کے راکٹوں کہ وجہ سے ہمارا جینا دوبھر ہو گیا ہے، ہم نہایت مایوسی کے عالم میں جی رہے ہیں، ہرقابلِ احترام اسرائیلی سے میں عاجزانہ درخواست کرتا ہوں کہ وہ فلسطین کو چھوڑ کر چلاجائے، اس لئے کہ ان لوگوں نے ہماری پوری زندگی تباہ کر کے رکھ دی ہے، ہمیں اپنے ملکوں میں واپس لوٹادو۔ایک ایسے ملک میں جس پر ہر وقت جنگ کے خطرات منڈلاتے رہتے ہیں، ہم روزانہ اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں، اسرائیل! افسوس ہے تم پر، میں تو جا رہا ہوں، مجھے لگتا ہے کہ میں یہاں سکون کے ساتھ کبھی رہ نہ سکوں گا۔
          یہودیوں کا جو نفسیاتی اور جسمانی نقصان ہوا اس کی کچھ جھلکیاں آپ نے ملاحظہ کیں، اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل کا زبردست مالی نقصان بھی ہوا۔اسرائیل نے خوداعتراف کرتے ہوئے کہا: حماس جو راکٹ فائر کرتے تھے اس کی قیمت تین سو ڈالر سے زیادہ نہیں ہوتی تھی،مگر اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں جو راکٹ داغنے پڑتے تھے اس کی قیمت پچاس ہزار ڈالر ہے۔صرف دو دن میں اسرائیل کو جو مالی خسارہ اٹھانا پڑا اس کا اندازہ اس نے ۹۲۲ملین ڈالر سے لگایا ہے۔
          بالآخر اسرائیل کو اعتراف کرنا پڑا کہ مسجد اقصی پر ہمار حملہ ایک سنگین غلطی ثابت ہوا جس کا ہمیں بالکل وہم و گمان بھی نہیں تھا۔

Whats-App-Image-2021-06-08-at-8-22-32-PM
          ایک یہودی صہیونی رائٹر نے لکھا کہ آخری وقت قریب ہے اور ہمارا زوال یقینی ہے،بالخصوص جب کہ علاقے کے عرب بیدار اور ہر قربانی کے لیے تیار ہیں،اور ہمارے لیے یہاں رہنا دشوار ہے۔ امریکہ اور عرب حکام ہماری مدد کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ہمارا اگلا رخ یورپ کی طرف ہوگا۔ یورپ کو پناہ گزیں کے طور پر ہمارے استقبال کے لیے تیار ہونا چاہیے،قبل اس کے  یہ عرب ہم کو زندہ نگل لیں۔
          جنگ بندی کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے جو بیان جاری  کیا ہے، اس سے جہاں اس کی اندرونی کیفیت کا پتا چلتا ہے وہیں فلسطین کے مجاہد دھڑوں کی حقیقت بھی معلوم ہوتی ہے،تیسری طرف عباس کی قیادت میں الفتح پارٹی کی فلسطینی حکومت اور عرب ممالک کا مسئلہ فلسطین  کے سلسلے میں جو منفی کردار رہا ہے وہ بھی عیاں ہوتا ہے:
         ‘‘حماس کامیابی سے ہم کنار ہوئے،اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری شکست عنقریب ہونے والی ہے،اس سے عباس کی حکومت کاکوئی فائدہ ہوگا نہ عرب ملکوں کا کچھ بھلا ہوگا(اور اس نے ان سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا) اس لیے تم سب کے لیے ضروری ہے کہ پوری قوت کے ساتھ اسرائیل کی مدد کرو اور اس کو طاقت پہنچاؤ۔یہ صرف اسرائیل کی شکست  نہیں ہے، بلکہ مشرقِ وسطیٰ کے تمام ممالک اور تمام عرب حکومتوں کی شکست ہے ’’۔
          دوسری طرف امریکہ کی خارجی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین کو بھی یقین ہورہا ہے کہ اسرائیل کا زوال قریب ہے۔چناں چہ امریکی خارجہ سیاست کی میگزین میں ہارورڈ یونی ورسٹی کے پروفیسر اسٹیفین والٹ نے لکھا:امریکہ اور اسرائیل کے درمیان جو خصوصی تعلقات تھے،اس کا آخری وقت قریب آچکا ہے؛ اس لیے کہ اسرائیل کا ساتھ دینے میں جو مصالح امریکہ کے پیش نظر تھے،اس کے نتیجے میں جو نقصانات سامنے آئے ہیں وہ اس سے زیادہ ہیں۔
          یعنی دوسرے لفظوں میں جب امریکی اسرائیلی تعلقات ٹوٹ جائیں گے تو اسرائیل کو اپنا وجود  سنبھالنا مشکل ہوجائے گا اور وہ اپنی موت مرے گا۔
          جب اسرائیل اور امریکہ دونوں کو یقین ہے کہ اسرائیل کے زوال کا وقت قریب ہے،تو کیا مسلمانوں کو اس میں تذبذب یا تردد کی کوئی گنجایش رہ جاتی ہے؟جب کہ ان کے پاس بشارتیں ہی بشارتیں ہیں!
          
غزوہٴ خندق  کے بعد حضور اکرم ﷺ نے فرمایا تھا: الآن نغزوھم ولا یغزوننا(بخاری نمبر ۴۱۱۰) یعنی اب ہم ان کی طرف  بڑھیں گے اور ان پر حملہ آور ہوں گے وہ ہم پر فوج کشی نہیں کریں گے۔
          حضور ﷺ نبی برحق تھے۔آپ کی ہر بات وحی کی روشنی میں ہوتی تھی۔اس لیے وہ حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی۔کوئی اس طرح قطعی پیشین گوئی تو نہیں کرسکتا؛ تاہم موجودہ جنگ فلسطین کے بعد اسرائیلی حکومت اور عوام کی جو صورت حال ہے، وہ جس بوکھلاہٹ میں مبتلا ہیں،اور عالمی سیاسی تجزیہ نگاروں کا جو خیال ہے، اس کے تناظر میں ہم قوی امید رکھ سکتے ہیں کہ اب فلسطین میں بھی شاید یہی بات ہولیکن؛اس کے لیے ضروری ہے کہ:
۱- حماس طاقت کی فراہمی کی کوششوں کے ساتھ پورے ایمان و یقین کے ساتھ اپنے موقف پر ڈٹے رہیں۔
۲- فلسطین میں حماس کے علاوہ جو دوسری مجاہد تنظیمیں ہیں وہ اپنے اختلافات  بھلا کر ان کا ساتھ دیں،اور کسی حال میں اپنے حقیقی موقف سے سودا  نہ کریں اور اپنی روح اور اساس کو نقصان نہ پہنچائیں۔
۳- عرب حکومتیں سمجھ داری سے کام لیں اور بچی کچی حمیت اسلامی اور غیرتِ ایمانی کا ثبوت فراہم کریں۔اب بھی اگر وہ ہوش کے ناخن نہیں لیں گے تو پھر کب راہِ راست پر آئیں گے۔
۴- جو لوگ اخوان المسلمون اور حماس کے نظریات سے اختلاف رکھتے ہیں،اور اُن کے فکروخیال پر آپے سے باہر ہوجاتے ہیں وہ کم سے کم ایسے موقعوں پر اپنے جذبات پر قابو رکھیں اور اپنے کسی قول و عمل  سے ان مجاہدین کو نقصان نہ پہنچائیں جو تنہا غاصب یہودیوں سے پنجہ آزمائی کر رہے ہیں؛لیکن افسوس یہ لوگ اب بھی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے!جب اسرائیلی غزہ پرراکٹ داغ رہے تھے اور حماس کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہے تھے تو شیخ ربیع بن ھادی مدخلی  کی جماعت سے انتساب کرنے والا اور مشہور یمنی عالم  ومحدث شیخ مقبل بن ھادی الوادعی سے تعلق جتانے والا ایک شخص خوشی سے اچھل پڑا  اور اس نے صاف لکھا کہ اخوان المسلمین (اور اس نے اپنی کد کا  اظہار کرتے ہوئے اخوان المسلمین کے بجاے اخوان المفلسین لکھا) ایک گمراہ اور منحرف فرقہ ہے اوروہ  یہود و نصاریٰ سے زیادہ خطرناک ہیں۔اور اس نے پوری ڈھٹائی کا اظہار کرتے ہوئے اس پر علماے سلف کے اجماع کا دعویٰ کیا اور لکھا کہ ان میں سر فہرست شیخ ربیع مدخلی اور شیخ مقبل وادعی ہیں۔
          جب ہم اس طرح کے سنجیدہ موقعوں پر بھی انتشار پھیلانے والی ایسی باتوں سے باز نہیں آئیں گے تو دشمن کے خلاف کبھی جنگ نہیں جیت سکتے!
۵-تمام مسلمانوں کو اپنے اختلافات  بالائے طاق رکھ کر یہیودیوں سے لوہا لینے والے ان جیالوں کی تائید کرنی چاہیے،اور اپنی دعاؤں،دواؤں،مالیات کی فراہمی  کی کوششوں اور دوسرے ممکنہ اور پر امن ذرائع کے ساتھ ان کو طاقت پہنچانا چاہیے۔جب ہم ان باتوں کا خیال رکھیں گے تو ان شاء اللہ اللہ کی مدد آکر رہے گی۔
نصر من اللہ وفتح قریب وبشر المؤمنین

 

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں)

«
»

جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے