مرحوم دامدا عبد الرشید ” رَجُلٌ رَشِيدٌ "””

 تحریر:۔  سید ہاشم نظام ایس ایم ندوی
www.fikrokhabar.com۔          

(قابلِ رشک زندگی اور قابلِ رشک موت)

یہ حیات ومرگ کے سلسلے، ہیں قضا وقدر کے فیصلے:۔

عجیب ماجرا ہے کہ ابھی تین ہفتوں کے فرق کے ساتھ دو خالاؤں یعنی دو بہنوں کی اچانک حادثۂ موت کے غم والم سے سنبھل نہیں پائے تھے کہ مزید ایک حادثۂ وفات کی خبر نے پورے خاندان ہی نہیں بلکہ پوری بستی کوحزن وملال کی کیفیت سے دوچار کیا۔تین روز پہلے بیماری کی خبر ملی، فون پر بات  ہوئی تو آپ نے  کافی اطمانمن کا اظہار کیا اور ہمیں مسرت بھی ہوئی، پھر جب دوبارہدو روز قبل علالت کی خبر آئی، تو ان کے فرزندِ ارحمند جناب زکریا صاحب سلمه الله تعالى سے بات ہوئی جو اس وقت ان کی تیمار داری میں "مینگلور" ہسپتال  میں مقیم تھے، پھر ان کے ہمشیر زادے اور ہمارے برادرِ نسبتی جناب جاوید سلمه الله تعالى کے فون پر ان سے بات کرنی چاہی تو یک طرفہ بات ہوئی، یعنی ہم بات کرتے رہیاور دعا کرتے رہے، اور وہ وہاں سے بات نہ کر سکے مگر ہماری باتیں سنتے رہے، پھر دعا کی درخواست پر بات ختم ہوئی۔ گویا یہ ہماری  ان سے فون پر  آخری ملاقات تھی۔ جس کے دوسرے روز  انھیں اے سی یو (ICU) میں منتقل کیا گیا اور اسی دن غروبِ آفتاب یعنی  رمضان المبارک کی پندرھویں شب شروع ہوتے ہوتے آپ کی روح بدن سے جدا ہو گئی اور سن ۱۹۳۸ عیسوی کو دنیا میں جنم لینے والی  روح اپنی  زندگی کی تیراسی بہاریں گزار کرہمیں داغِ مفارفت دے گئی۔إنا لله وإنا إليه راجعون۔

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا

زندگی اور زندہ دلی کے پیکر، خلوص ومحبت نچھاور کرنے والے،سدا بہار شخصیت کے مالک ہمارے ماموں عبد الرشید دامدا کو آج کس دل سے مرحوم لکھا جائے، لیکن دل چاہے یا نہ چاہے بہر حال قضا اور قدر پر یقین رکھتے ہوئے ہر معاملے کو اللہ کے سپرد کرنے کے سوا کوئی چارہ کار بھی نہیں ہے، ایک سچے مومن کے لیے تسلیم ورضا ہی میں اصل کامیابی  اور صبر کے دامن کو تھامنے ہی میں رب کی رضامندی ہے۔اللہ تعالی کی حکمتوں اور مصلحتوں کو ظاہری عقل رکھنے والے  سمجھنے سے عاجز ہیں،بے شک خالقِ کائنات اور  ارحم الراحمین اپنے بندوں کے حق میں جو فیصلہ کرتا ہے، وہ ان کے حق میں صحیح  اور نتیجے کے اعتبار سے بہتر ہوتا ہے۔

تذکرۂ والدِ ماجد جناب عبد القادر دامدا:۔
ان کے والدِ ماجد جناب عبد القادر باشہ رحمۃ اللہ علیہ مجلسِ اصلاح وتنظیم کے طویل المیعاد جنرل سکریٹری تھے، وہ  جماعت المسلمین کے رکنِ رکین  اور جامعہ اسلامیہ کی پہلی مجلسِ شوری میں دوسرے نمبر پر منتخب ہو کر آنے والے رکنِ شوری اور اس دینی دانش گاہ کے پہلے  ٹرسٹی تھے، ان کی زندگی قومی کاموں اور خدمتِ خلق کے لیے وقف تھی، انھوں نے پوری ایک صدی کا عرصہ پایا، پورے سو سال بقیدِ حیات تھے۔
  ان کی کل گیارہ اولاد تھیں۔  ایک کا انتقال بچپن میں ہو  چکا تھا، باقی دس بچوں میں بالترتیب جناب محمد سعیدصاحب، جناب مرحوم عبد الرشید صاحب، جناب نظام الدین صاحب، جناب محمد اسماعیل صاحب، جناب محیی الدین چڈو باپا صاحب اور جناب محمد یحیی ہیں، اور بچیوں میں محترمہ مرحومہ  زہرہ زوجہ مرحوم (کوچو باٍپا) محمد حسن کے ایم،اپنی والدہ ماجدہ محترمہ سکینہ زوجہ سید نظام الدین ایس ایم، محترمہ مرحومہ خدیجہ زوجہ جعفری دامدا، اور رحمت النساء زوجہ محمد جعفر ڈی ایف ہیں۔ الحمد للہ سبھی خوش اور اپنے والد ِ ماجد کی با برکت زندگی کے اثرات سے مستفید ہو رہے ہیں۔ 
نانا مرحوم اپنے گھر والو ں کے حق میں سراپا رحمت، بچوں کے لئے سراپا شفقت، بیوی کے لئے سراپا محبت اور مہمانوں کے لئے پر نمونۂ ضیافت، رشتہ داروں کے لئے انس ومودت، فقیروں اور مسکینوں کے لئے دستِ سخاوت اور محتاجوں کے حق میں اللہ کی بہت بڑی نعمت تھے، آپ خلیفہ محلہ میں واقع دامدا ہاوس (بڈورا گھرے) میں مذکورہ بالا تمام صفات کا عملی نمونہ تھے، ہم نے بھی اپنے شعور کے ساتھ آپ کو انہی صفاتِ حسنہ اور اخلاقِ کریمانہ کا عملی پیکر پایا تھا، بالخصوص اہلِ دین واولیاء اللہ، علماء وصلحاء اور حفاظ وائمہ کے لئے آپ کا سینہ حد درجہ کشادہ تھا، اور قلب میں بے انتہا وسعت اور عقیدت ومحبت تھی، ہمارے  پاس اس ضمن میں جو واقعات موجود ہیں اگر مثالوں کے ساتھ تحریر کرنا شروع کریں تو بیسیوں صفحات سیاہ ہو سکتے ہیں۔

زندگی جن کی گذرتی ہے اجالوں کی طرح
یاد رکھتے ہیں انھیں لوگ مثالوں کی طرح

ہمارے ماموں جان اور دو خالاؤں کے یکے بعد دیگرے انتقال پر نانا مرحوم کی چند صفات کا ذکر اس لیے ضروری تھا کہ تعلیم وتربیت  کے میدان میں کام کرنے والوں کا کہنا ہے اور تجربے سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ والدین میں جو خوبیاں پائی جاتی ہیں، یا بچے اپنے والدین کو جس طرح کا سلوک کرتے دیکھتے ہیں وہی صفات اور اخلاقیات اولاد میں فروغ پاتی ہیں، بڑے ہونے کے بعد بچوں میں وہی اخلاقی پہلو نظر آتے ہیں یا وہ بڑی حد تک اس کو برتنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لہذا ہمیں بھی چاہئے کہ اگر ہم اپنی اولاد کو اخلاقی اور دینی تربیت دینا چاہیں تو ان کے سامنے دینی زندگی کے تابند نقوش چھوڑیں، جس سے ہماری تربیتی ذمے داری کا بڑا حق ادا ہوگا اور ہم غیر شعوری طور پر انھیں معاشرے کا ایک صالح عنصر بنانے میں کامیاب ہوں گے۔

تعلیم وتدریس :۔
    انجمن حامی مسلمین بھٹکل سے ایس ایل سی  (میٹرک)  کے امتحان میں امتیازی نمبرات سے کامیابی حاصل کی، اس کے بعد اعلی تعلیم کی غرض سے کاروار کی پولی ٹیکنک انجینیرنگ کالج میں دو سال کا ڈپلوما کورس کیا، وہاں کے رفقاء میں مرحوم سید خالد برماور اور مرحوم عثمان صاحب رکن الدین بھی انجینیرنگ میں زیرِ تعلیم تھے۔
    اسی دوران  مرحوم عثمان حسن ماسٹر انجمن ہائی اسکول کے منصبِ اہتمام کو زینت بخشتے ہوئے ہیڈ ماسٹر بن گئے، آپ نیاس عہدے پر آ ٰتے ہی  یہ مہم چلانے کی کوشش کی کہ باہر سے اساتذہ کو لے آنے  کے بجائے ہم خود یہیں رہ کر اپنے قومی اساتذہ تیار کریں، قوم کے فرزندوں کو تعلیم وتدریس کے میدان میں آگے بڑھائیں، لائق وفائق طلبہ کو آگے بڑھا کر تدریسی مواقع فراہم کئے جائیں۔ اسی فہرست میں ہماریبہنوئی جناب عبد الستار دامدا مرحوم اور  ماموں مرحوم عبد الرشید بھی شامل تھے۔اول الذکر نے ایک سال تک تدریسی خدمت انجام دینے کے بعد طبی میدان میں اعلی تعلیم کے لیے چلے گئے اور ایک اچھے ڈاکٹر بن کر آئے۔ ثانی الذکر ہمارے مرحوم ماموں نے بھی تقریبا دو سے تین سال تک بلا تنخواہ رضا کارانہ تدریس خدمات انجام دی۔  خود ہمارے خالو اور سسر جناب جعفر صاحب ڈی ایف بھی ان کی شاگردی میں تھے،اسی طرح ہمارے سابق قاضی مرحوم مولانا محمد اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی آپ کے شاگرد تھے۔

ملازمت:۔
انجمن حامی مسلمین میں اپنی زندگی کی ابتدائی خدمات سے سبکدوش ہو کر اپنے  والدِ ماجد کے ساتھ تجارت میں شامل ہوگئے، ایک مختصر عرصہ ان کے ساتھ رہے، گویا یہ آپ کی زندگی میں تجارتی ہنر سیکھنے اور بڑوں کی زیرِ نگرانی کام کرنے کا پہلا موقعہ تھا۔ اس کے بعد  مزید ترقیوں کے منازل کو طے کرتے ہوئے عروس البلاد " ممبئ" تشریف لے گئے، یہاں پر سب سے پہلے جوتوں کی" کرونا ساہو شو کمپنی" کے آفس میں ملازمت اختیار کی، چند سال یہاں گزارے۔ پھر یہاں کی ملازمت کو بھی خیر باد کہتے ہوئے آندھرا چلے گیے۔  یہاں آنے کے بعد اور ایک نئے میدان میں قدم رکھا،  ہوٹل کی لائن اختیار کی، اپنے قریبی لوگوں کے ساتھ مل کر بھی کام کرنے کا موقع ملا، زندگی کے نشیب وفراز سے گزرے، سخت و سست برداشت فرمایا، کبھی کچھ اچھے دن تو کبھی کچھ کٹھن مراحل سے بھی گزرنا پڑا۔ ماموں جان نے مجھے آندھرا کے تعلق سے بہت سے واقعات بتائے ہیں، جس میں زندگی کے تجربات اور لوگوں کے ساتھ پیش آئے کچھ   واقعات بھی ہیں،یہاں تقریبا سات یا آٹھ سال کا عرصہ گزارا۔
ایک قصہ جس میں ہم سب کے لیے معاملا ت کی صفائی اور دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کرنے کی اہمیت اور ضرورت پر روشنی پڑتی ہے وہ یہ کہ انھیں ایک آندھرا شخص سے سابقہ پڑا تھا، غالبا ان سے متعلق تھوڑی بہت ادائیگی باقی تھی، رقم انتہائی کم تھی۔ لیکن آپ نے سفرِ حج سے پہلے اور بعد بھی کئی بار اس شخص سے یا ان کے اہلِ خانہ سے رابطے کی کوشش کی، جو کامیاب نہیں ہو سکی۔ پیر کے آپریشن کے بعد بھی سفر کی مشقت برداشت کرتے ہوئے تین چار مرتبہ اسی غرض سے سفر کئے۔ لیکن ہر کوشش ناکام رہی، ہم سے اس سلسلے میں بار بار مسئلہ پوچھا اور  وہ رقم ان کے نام پر صدقۂ جاریہ کی نیت کرتے ہوئے ایک سے زیادہ مرتبہ ادا فرمائی۔ ان شاء اللہ خدا کی ذات سے امید ہے کہ آپ کی نیت کے مطابق فیصلے ہوں گے اور ان کے ذمے سے یہ رقم ادا ہوگی۔ 
آندھرا کے بعد آپ کا اگلا سفر متحدہ عرب امارات کا ہوا، جو آپ کی زندگی میں ملازمت کرنے کا آخری دور تھا۔ یہاں ایک مدت تک تیل کی سرکاری کمپنی میں ملازمت اختیار کی، ٹرِگ پر آپ کا جانا رہتا، دن بڑے اچھے گزارے، یہیں سے آپ نے مادی اعتبار سے ترقی کی، روشن مستقبل کے آثار یہیں سے شروع ہوئے۔

تجارتی میدان :۔
    جب متحدہ عرب امارات سے ملازمت ترک کرنے کاارادہ کیا تو زندگی کے باقی ایام گزارنے کے لیے ہندوستان ہی کو اپنی محنت کا میدان بنایا۔ شہرِ ممبئ میں سکونت اختیار کی، مختلف تجارتی منصوبوں میں تجربات سے گزرتے رہے۔ بالآخر اپنے فرزندوں کے ساتھ تجارتی میدان میں قدم رکھا،  جِلدیات (لید ر۔ leather)کی مصنوعات میں کاروبار شروع کیا،جس کے آغاز میں بالخصوص ان کے فرزندارجمند جناب زکریا صاحب دامدا   حفظه الله تعالى کی كوششوں اور ان کے دن رات کی محنتوں کا بڑا حصہ ہے، اس کے بعد یکے بعد دیگرے سب فرزندوں کو اس میں شامل کیا۔ اللہ نے یہیں سے ترقی کے منازل طے کرائے،توفیقِ الہی کے بعد اپنی فطری ذہانت، عقل مندی کی مدد سے بہت آگے بڑھے، خوب محنت کی، صاف ستھری تجارت کو فروغ دیا، نئے نئے تجربوں سے گزرے، اس ضمن میں ہندوستان (India)  کی مختلف بستیوں اور ریاستوں سے لے کرچین (China)  تک کے اسفار ہوئے۔ جو آج الحمد للہ معاشرے کے اندرتجارتی میدان میں قومِ نوائط کا جانا پہچانا نام بن چکا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی اس میں مزید برکت اور ترقی عطا فرمائے۔ اسے مرحوم کے کارِ خیر کو جاری رکھنے کا سبب بنائے۔

ذاتی اوصاف اور حسنِ اخلاق:۔
اللہ نے ان کوحسنِ ظاہری کے ساتھ عالی اخلاق کا پیکر بنا  دیا تھا۔صلۂ رحمی آپ کا خصوصی وصف تھا، دوستوں سے اس طرح ملتے جیسے عزیزوں اور قریبوں سے اور عزیزوں و رشتہ داروں کو اپنے نفس کی طرح عزیز رکھتے تھے۔ خاندان کے ایک ایک فرد تک پہنچنا اپنا فرض سمجھتے،قریبی اوردور کے  رشتے داروں تک خود پہنچتے، ان کے حالات معلوم کرتے، حتی المقدور تعاون فرماتے، اس سلسلے میں کچھ واقعات وہ ہیں جسے ہم جانتے ہیں، جو خاندان کے بڑے چھوٹوں کے علم میں ہیں، مگر ایک لمبی فہرست  وہ بھی ہے، جسے ان کے اور اللہ کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں جانتا، بعض واقعات ان کے انتقال کے بعد لوگوں کے بتانے سے ہمارے علم میں آئے ہیں۔
مرحوم بڑے مہمان نواز تھے، گھر جانے پر پر تکلف خاطر داری کرتے، کسی کے گھر خود مہمان بن کر جاتے تو اکثر وبیشتر ساتھ کچھ نہ کچھ ضرور لے جاتے۔ آپ مجلسی آدمی بھی تھے،سب کے ساتھ مل جل کر رہنا پسند کرتے،  باتوں میں اپنائیت اور چاہت تھی، ہنسنا ہنسانا آپ کے مزاج میں شامل تھا، مگر اس میں بھی فرقِ مراتب کا خیال رکھتے، عزت واحترام کو ملحوظ رکھتے۔  خوش رہنا اور دوسروں کو خوش رکھنا پسند فرماتے، اہلِ علم سے تعلق رکھتے، ان سے ملاقات پر علمی باتوں کو بڑے غور سے سنتے۔ علمائے دین کا اکرام فرماتے، بڑوں کا احترام کرتے، چھوٹوں کے بے پناہ شفقتوں سے نوازتے۔
اور رہا آپ کاسلوک اپنے ما تحتوں اور دکان کے ملازمین کے ساتھ،تو  اس کی گواہی ان کے پاس کام کرنے والا ہر کوئی دئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ آپ اپنے ملازمین کے ساتھ مشفقانہ برتاؤ فرماتے، انھیں اپنی محبت اور چاہت دیتے، کسی کی غلطی پر اگر تنبیہ کرنا ہو یا سمجھانا ہو تو الگ بلا کر بتاتے، ان کے درد رکھ میں سہارا بنتے، خوشی اور غم میں ان کے ساتھ رہتے۔
کتابوں کا مطالعہ تو برائے نام ہی رہا ہوگا، البتہ کتاب دوستی ضرور تھی، مجھے زمانِۂ طالبِ علمی میں کافی کتابیں بمبئ سے لا کر دیتے رہے، کچھ کتابوں کو میرے طلب کرنے پر لے آئے، بالخصوص میرے ذاتی کتب خانے میں موجود معارف القرآن اورتدبر قرآن کی ضخیم جلدوں کے علاوہ درجنوں کتابیں میرے مطالبہ پر آپ کی طرف سے ہدیہ کی ہوئی ہیں۔جن دنوں آپ مجھے کتابیں لا کر دے رہے تھے، اس دوران ایک مرتبہ ہمارے  گھر کتابوں کا ڈھیر دیکھا، بتایا کہ ترتیب سے رکھو، میں نے جوابا عرض کیا کہ ان شاء اللہ اس بار کی عیدی کی رقم سے نئی الماری بنوا لوں گا،دوسرے ہی دن گھر تشریف لائے اور ایک رقم میرے حوالے کر کے فرمایا کہ فورا ایک الماری لے آؤ۔
آپ ایک فن کار اوراچھے آڑٹسٹ بھی تھے، خوش خط لکھتے، اردو اور انگریزی دونوں رسم الخط میں خوش خطی کی  مہارت تھی، ہمیں بھی آپ سے استفادے کے مواقع ملے، ہم کو بچپن میں اپنا آڑٹ دکھاتے تھے۔ یہ فن آپ سے آپ کے بچوں میں بھی منتفل ہوا ہے۔ بالخصوص بڑی بیٹی اور چھوٹے بیٹے دونوں میں یہ فن بڑی حد تک پایا جاتا ہے۔

خدمتِ خلق اور امدا دِ باہمی:۔
خدمتِ خلق آپ کی زندگی کا روشن عنوان تھا، اس میں آپ عجیب لذت محسوس کرتے تھے، دوسروں کی مدد کرنا، کسی کے کام آنا  ان کی فطرت میں شامل تھا۔صرف مالی نہیں بلکہ اپنے وقت اور عمل سے بھی اس کو کر کے دکھایا۔اس کے بعد جب خوش حالی میں اضافہ ہوا، مال ودولت کی نعمت سے مالا مال ہوئے،توآپ نے اس کا صحیح استعمال کیا، دولت کی نمائش کرنا آپ کے مزاج میں نہیں تھا۔اسی لیے  مال کو اللہ کی طرف سے نعمت اور ایسی ایک امانت بھی سمجھتے،اسے اسراف اور فضول خرچی سے بچ کر رب کی رضا مندی  کے کاموں میں خرچ کرنا ضروری ہے۔لہذا قومی اور ملی  کاموں کے لیے بھی  آپ کی دولت کا ایک حصہ وقف تھا۔ مساجدکے سالانہ عطیات ہوں یا دیگر ملی مساعدات، جب بھی کوئی اس عنوان سے حاضر ہوتا، بخوشی اس کا استقبال کرتے، گھر بٹھاکر حسبِ توفیق عطا کرتے۔ 
آپ کی عادت یہ تھی کہ جو اپنی ضرورت لے کر آتا، بخوشی اپنی سعادت سمجھتے ہوئے اس کی حاجت روائی کرتے، اسی لیے اگر کوئی ان سے کام نکالنا چاہتا یا کسی کو ان سے کوئی ضرورت پڑتی تو انھیں یاد نہیں رہتا کہ کون اپنا ہے اور کون غیر۔ ضرورت مندوں کے لئے کبھی قرض پر تو کبھی قرضِ حسنہ اور مدد کی شکل میں تعاون بہم پہنچایا۔ بہر کیف وہ ہوں یا ان کے فرزندان نیک کاموں اور کارِ خیر میں کہاں تک حصہ لیتے ہیں، یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اس کا اندازہ پورے خاندان میں کسی بھی فرد کو  لگانا آسان نہیں ہے۔
مثال کے طور پر مادیت اور دنیا پرستی کے دور میں یہ اپنی  نوعیت کا ایک الگ اور نادر واقعہ ہے جو گزشتہ سال "  کرونا " یعنی کویڈ Covid19کے  دوران پیش آیا۔ ماموں جان  کے پاس اک شخص گذشتہ تین ماہ کا کرایہ لئے حاضر ہوا، جس کی رقم ایک لاکھ سے بھی تجاوز کر چکی تھی، موصوف نے اس متنفر ماحول میں "ألیس منکم رجل رشید" کا جواب دیتے ہوئے یہ اعلان کردیا کہ "عبد الرشید" ہی حقیقت میں "دین رشید" کی صحیح ترجمانی کرنے کا حق رکھتا ہے، اور بغیر  کسی تردد کے اس رقم کے لنیی سے انکار کردیا، سبب دریافت کرنے لگے تو کہہ اٹھے کہ "لاک ڈاؤن" کی وجہ سے چونکہ دکان وغیرہ بند تھی اس لئے میں اس رقم کو لینا صحیح نہیں سمجھتا ہوں،برائے مہربانی  آپ لے جائیں، اللہ آپ کی تجارت میں برکت عطا فرمائے۔خدمتِ خلق کے ساتھ ماموں جان کا خاص وصف یہ بھی تھا کہ وہ کسی کا تعاون کر کیاس کا تذکرہ نہیں کرتے، کسی  سیبیان نہیں کرتے، جو بن پڑتا خاموشی سے کر دیتے، کسی  کی ضمیر اور غیرت وحمیت پر آنچ آنے نہیں دیتے تھے۔

موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آتے ہیں مرنے کے لیے

سفرِ حج،دینی رجحان اورزندگی میں تبدیلی:۔
سن ۲۰۰۲ عیسوی میں جب اپنے والدین، چھوٹی خالہ  اور  چھوٹی ہمشیرہ کے ہمراہ راقم الحروف کو سفرِ حج کی توفیق حاصل ہوئی تھی، تو یہ بھی ہماری  خوش قسمتی تھی کہ مرحوم  ماموں عبد الرشید علیہ الرحمۃ بھی اپنی اہلیہ اور فرزند جناب زکریا صاحب ہمارے ہمراہ  تھے۔  ہمارا ان کے ساتھ یہ تاریخی سفر تھا، میں سمجھتا ہوں کہ اگر اسی ایک سفر کو عنوان بنا کر کچھ لکھنے کی کوشش کروں تو دسیوں صفحات تحریر کیے جا سکتے ہیں۔ درحقیقت یہ ایک سفر ہمارے مرحوم کے لیے ایک نئی زندگی کا آغاز تھا،حدیثِ پاک میں جو بشارت اور خوش خبری ایک حاجی کے لیے سنائی گئی ہے، اللہ کی ذاتِ اقدس سے امیدِ کے کہ وہ بھی اس کے حق دار ہوں گے اور ایک نو مولود جیسے اپنی ماں کے پیٹ سے جنم لیتے وقت گناہوں کے پاک وصاف اور معصوم پیدا ہو تا ہے بالکل یہی مثال اس حاجی کی بھی ہے جس کے نصیب میں مقبول حج لکھا جاتا ہے۔
 یہ ماموں جان مرحوم کی زندگی کے لیے ایک انقلابی اور تاریخ ساز سفر تھا،  اسی سفر میں آپ نے اپنی پرانی زندگی میں ہوئی کوتاہیوں کا اقرار کرتے ہوئے اپنے رب سے گڑ گڑا کر دعائیں کی تھیں، خوب روئے تھے، حج کے سفر کا ایک ایک لمحے کو غنیمت کرنے کی کوشش کی تھی۔ چوں کہ غیرتِ ایمانی ور جوشِ اسلامی اپنے والدِ ماجد سے ورثہ میں ملی ہی تھی، اس لیے بس زندگی میں حقیقی تبدیلی کے لیے کچھ لمحات کا انتظار تھا جو آپ کو اس سفرِ حج میں نصیب آئے،اسی وقت آپ  نے سنت کو زندہ کرنے کی نیت سے داڑھی رکھی،  جو اب بڑی ہو کر خوب سفید اور پرنور نظر آتی تھی، ہاتھ میں عصا لے کر چلنے میں نبوی سنت کی چاشنی محسوس کی،  اسی سفر  میں ایمان کی مضبوطی کے ساتھ  عبادات کے پابند ہوئیاور صبح وشام کی تسبیحات کا اہتمام شروع ہوا،  ذکر واذکار اور روزانہ کے معمولات پر عمل کیا، پنج وقتہ نمازوں کو باجماعت ادا کرنے کا اہتمام کیا، رات جلدی سونے اور جلدی اٹھنے کا معمول بنایا۔ یقینا آپ کی عبادات میں اس قدر پابندی اور اتنی مستعدی حیرت انگیز تھی،تہجد،چاشت اورنفل نمازوں کااہتمام قابل ِرشک تھا۔ اس طرح آپ نے زندگی میں حقیقی تبدیلی آنے اور ایمان  کی چاشنی پانے کے بعد عملِ صالح اور استقامت کی دولت سے بہرہ مند ہو کر قابلِ رشک زندگی گزاری۔"اللهم اغفرله وارحمه وأسكنه فسيح جناتك"

شہرِ"ممبئ"  کی زندگی کچھ جھلکیاں:۔
آپ کی زندگی کا بڑا حصہ تجارتی شہر ممبئ میں گزرا، رزقِ حلال کی تلاش میں جوانی کا ایک حصہ یہیں بسر ہوا،  یہاں رہ کر تجارتی مواقع حاصل ہوئے، اس کے تجربات سے فائدہ اٹھائے، ہر تجارت میں جی جان کی بازی لگائی، نفع ونقصان کے خطرات کو سامنے رکھ کر اپنی قسمت آزمائی، کبھی نقصان ہونے پر شکایت نہیں کی، اسے اپنا مقدر سمجھا۔ اس طرح آگے بڑھتے گئے اور اپنی کوشش ومحنت کے ثمرات کو یہیں پایا، اسی زمین سے وسیع رزق کے دورازے کھل گئے، جس پر زبانی اور عملی شکر ادا کرتے ہوئے ایک کامیاب ونفع بخش تجارت حصے میں آئی۔
انھوں نے یہاں رہ کر قومی اور ملی میدان میں خدمات انجام دی۔  " بھٹکل مسلم جماعت ممبئ " سے وابستہ رہ کر اپنے اسلاف کی طرح اس کی آبیاری کی، جماعت کی تعمیر وترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، جماعتی وابستگی کے ذریعہ  مادرِ وطن بھٹکل کی فکریں کی، جماعتی استحکام سے قومی کاموں کو تقویت دی، اور دامے درمے سخنے امداد  واعانت فرمائی۔
گزشتہ ماہ آپ نے"ممبئ"  کا سفر  کیا۔اس سفر کے بارے میں ان  کے برادرِ مکرم  جناب نظام الدین صاحب فرماتے ہیں کہ میری بیٹی محترمہ نصرت سلمہا اللہ (زوجہ جناب زکریا صاحب)  کہتی ہیں کہ اس بار آپ ماشاء اللہ صحت مند نظر آئے، بڑے خوش گزار دن گزارے،وہ  روزانہ آفس تشریف لے جاتے۔ اسی طرح اس بار بڑے  اہتمام کے ساتھ   کئی ایک  پرانے تعلقات  والوں سے خود جا کر مل آئے، اس پر ماموں نظام الدین صاحب نے پوچھا بھی کہ کیا آپ کے ان سے  کچھ پرانے  معاملات باقی ہیں یا نئے تجارتی تعلقات دوبارہ شروع ہوئے ہیں، اس کے جواب میں ماموں مرحوم فرمانے لگے کہ  نہیں،  ایسی کوئی بات نہیں ہے،بس جی میں آیاکہ اس بار ان کے پاس جا کر ملاقات کی جائے، پرانے تعلقات والوں سے رابطہ کریں، ان سے تجدیدِ تعلقات کرلیں۔ ماموں نظام الدین صاحب اس سے بھی زیادہ حیرت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بھائی عبد الرشید پیروں کے درد کی وجہ سے سیڑھی چڑھنے سے معذور ہیں، ہماری رہائش گاہ آنے کے لیے کوئی لفٹ بھی نہیں ہے، اس کے باوجود جب میں نے گھر مدعو کیا، تو آنے پر رضا مندی کا اظہار فرمایا، دعوت دینے پر چلے آئے۔ 
اسی طرح ان کے پاس تقریبا ۲۵ سال تک برسرِ روزگار رہنے والے جناب سید حنظلہ کریکال صاحب لکھتے  ہیں کہ "اس سفر میں آپ کے ساتھ بہت ساری گفتگو ہوئی،آپ نے مجھے بہت ساری نصیحتیں بھی کی تھی، آپ کی یادیں اور باتیں بہت ساری ہیں، جو زندگی بھر یاد رہیں گی۔ ان شاء اللہ"۔ اس سفر سے واپسی کے دن بھی ہماری آپ سے فون پر تفصیلی گفتگو اور ہماری خالہ محترمہ خدیجہ  صاحبہ کی وفات پر تعزیتی بات ہوئی تھی۔  آہ، مگر کسے پتہ تھا  کہ ان کے  محبوب شہرممبئ کا یہ سفر ان کی زندگی کا آخری سفر ثابت ہوگا۔

ادارہ فکر وخبر اور صحافتی میدان:۔
ماموں جان کو  ملکی اور عالمی اخبار سے واقفیت رکھنے کا شوق تھا، صحافتی زندگی سے مناسبت تھی۔ راقم الحروف کا قیام جب شہرِ حیدر آباد میں تھا اور بالخصوص " روزنامہ سیاست " کے صدر دفتر کے ایک جانب ہمارا آفس تھا، تو جناب زاہد علی خان، ان کے چچا زاد بھائی جناب ظہیر الدین خان اور فرزند جناب عامر علی خان صاحب  کے ساتھ کافی اٹھنا بیٹھنا رہتا تھا۔ اسی دوران تقریبا دس سال پہلے  ہمارا سفر ممبئ کا ہوا، ہمارے ساتھ دبئ کے مہمان ڈاکٹر عز الدین بن زغیبہ بھی تھے۔ پہلے ہم نے  آپ سے آفس میں ملاقات کی، مگر آپ نے اس ملاقات کو ناکافی سمجھا،اصرار کے ساتھ گھر بلایا، ظہرانے پر حاضری کی بات طے ہوئی،عرب مہمان کے ساتھ  ہم وقتِ مقررہ پر حاضر ہوئے۔ بڑی پر تکلف دعوت تھی، عرب مہمان کے ذوق کا بھی پورا خیال رکھا گیا تھے۔ گھنٹوں آپ کے ساتھ وقت گزرا، مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی، اس موقعہ کو غنیمت جان کر میں نے اسلامی میڈیا کے قیام کے سلسلے میں گفتگو کی، صحافت کے ذریعے اسلامی افکار کو پیش کرنے کی اہمیت اور افادیت پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ آپ کو باتیں پسند آئیں، اس کا تذکرہ اپنے فرزندوں سے بھی کیا، دبئ آتے ہی ان کے چھوٹے فرزند جناب ساجد صاحب نے اپنے والد کے حوالے سے بات کی۔ جس کے تقریبا دو سال بعد " ادارہ فکر وخبر" کا قیام عمل میں آیا۔ میں نے اس کے شروع ہونے کے بعد جب رجسٹریشن کا وقت آیا تو بحیثیت ٹرسٹی آپ کو شامل ہونے کی درخواست کی، آپ نے بلا تامل، زیادہ سوچے بغیر فوراً  پورے شرحِ صدر کے ساتھ آمادگی ظاہر فرمائی۔
جب  "ادارہ فکر وخبر" کے رجسٹریشن کی کاروائی شروع ہوئی تو اس وقت آپ کا قیام دبئ میں تھا، ہمیں کاروائی کے لیے ہندوستانی سفارت خانے سے "پاور آف اٹارنی" کے کاغذات تیار کر کے روانہ کرنے تھے۔ یہاں سے مولانا عبد المعز منیری ندوی اور جناب ابراہیم خلیل شوپا صاحب بھی موجود تھے، ہم صبح سویرے اپنے وقت پر پہنچ گئے، جب ہم پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ماموں صاحب ہم سے پہلے ہی پہنچ چکے ہیں، یہ تھا آپ میں ذمے داری کا احساس اور اس کام کے لیے آپ میں پائے جانے والا اخلاص۔جس کا تذکرہ کل کے تعزیتی پیغام میں وہ  خود ہم سے کر رہے تھے۔ اللہ تعالی انھیں اس کا اجرِ عظیم عطا فرمائے۔

حسنِ تربیت اور اولاد :۔
    جب اولاد کا ذکر آتا ہے تو ساتھ ہی اس خاتون کا بھی تذکرہ ہوتا ہے جس کی گود میں اولاد کی تربیت پاتی ہے، جس کی گودبچوں کا پہلا مدرسہ ہوتا ہے۔ ہماری ممانی محترمہ بی بی عائشہ صاحبہ کاتعلق شہر کے شریف خاندان سے ہے،خود بھی  نیک اور شریف خاتون ہیں، بہت سی صفات اورخصوصیات کی حامل ہیں، بڑی صابرہ  اور عابدہ ہیں، خیر کے کاموں میں حصہ لینا، غریبوں کی مدد کرنااس کی عادت ہے۔
چوں کہ آپ نے بیوی بھی نیک سیرت پائی اور خود بھی دینی   تربیت یافتہ تھے،اس لیے آپ نے اپنی اولاد  کو بھی حسنِ تربیت سے آراستہ کیا، انھیں اچھی تعلیم دلائی، علم کی دولت سے سرفراز کرایا اور انھیں دینی ماحول فراہم کیا۔ ساتھ ہی آپ  کی یہ بھی کوشش رہی کہ  بچوں کے ساتھ ساتھ پوتوں پوتیوں،  نواسوں اور نواسیوں کو بھی تعلیم سے بہرہ ور کیا جائے، دینی تربیت کے ساتھ ساتھ انھیں اعلی تعلیم دی جائے، جس میں آپ کے مشورے اورسرپرستی بھی شامل تھی۔  اس ضمن میں دو چار واقعات ذہن میں ہیں جسے مضمون کی طوالت کی غرض سے چھوڑ دینا مناسب ہے۔  
آپ کی کل سات اولاد ہیں، چار بیٹوں میں بالترتیب، جناب محمد اسلم صاحب، جناب محمد زکریا صاحب،  جناب عبد الماجد صاحب اور جناب محمد ساجد صاحب ہیں اور بچیوں میں بڑی محترمہ شہناز صاحبہ، ان کے بعد محترمہ صبیحہ صاحبہ اور چھوٹی محترمہ شارقہ صاحبہ ہیں۔ ماشاء اللہ آپ کی اولاد میں بھی بہت ساری خوبیاں اور صفات پائی جاتی ہیں، والدِ ماجد کی بھی کئی ایک  خوبیاں ان کے اندرموجودہیں۔ اللہ تعالی ان کو اپنے والدین کے نقشِ قدم پر چلائے، دارین کا خیر مقدر فرمائے اور ان کے لیے ذخیرۂ آخرت بنائے۔ آمین۔

آخری رسومات:۔
نمازِجنازہ ہمارے ہمشیر زادے مولوی عبد الاحد بن عبد الباری فکردے ندوی نے پڑھائی، پھر نوائط کالونی میں واقع قربستان میں تدفین عمل میں آئی، مرحوم کے بڑے فرزند جناب زکریا صاحب زید مجدہ، جناب مولوی عبد النور فکردے اور مولوی سید احمد ایاد سلمہ اللہ نے بوقتِ سحر سپردِ خاک کیا۔ اللہ رب العزت ان کی مغفرت فرمائے، ان کی سیئات کو حسنات میں مبدل فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔آمين يا رب العالمين۔
آسماں تیری لحَد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نَورُستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

تاریخ پیدائش:۔  ۱۹۳۸ عیسوی۔ 
تاریخِ وفات:۔١٥/رمضان المبارک ١٤٤٢، مطابق 26/اپریل 2021۔  بروز پیر ۔ بعد نماز مغرب۔

 

«
»

غیرمسلم میت اور اسلامی تعلیمات

"پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے”””

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے