مولانا وحید الدین خان کی وفات

 

     از _  مفتی فہیم الدین صاحب بجنوری دامت برکاتہم 

      استاذ تفسیر و فقہ دارالعلوم دیوبند 

گذشتہ شب، رحلت کی خبر عام ہوئی تو ہنگامہء گیر ودار تھم گیا، عباقرہ زماں، نظریہ ساز شخصیات، بانیانِ افکار کے احوال وادوار اور ان کے عہد کے رنگ وآہنگ کو جاننے، برتنے اور مشاہدہ کرنے میں دلچسپی رکھنے والے نو خیزوں کے لیے، مولانا کی معاصرت میں، بھر پور اور شاندار تسکین تھی۔
انگلیوں میں بلا کا سحر تھا، تخلیق وابداع، اعجازِ بیان اور حسنِ تحریر، قاری کے لیے زنجیر وسلاسل تھے، یہی وجہ ہے کہ اختلاف رکھنے والوں کی صفوں میں بھی، زبان وبیان کی حد تک، سیرابی پانے والے کم نہیں۔ 
نو عمری میں ان کی نگارشات کا چسکا تھا، دسیوں کتابوں سے شاد کام ہوا، الرسالہ کے بے انداز شمارے پڑھے، ان کے یہاں اسلوب کی طاقت، فکری خامیوں کا بہترین نقاب ہے، اس راہ میں کوئی قلم مزاحم ہوا، تو وہ نقاب کشائی کے لیے درکار تاثیر فراہم کرنے میں ناکام رہا۔
ان کی شخصیت کا پُر اسرار پہلو، مجھے ان کے دولت کدے تک لے گیا، یہ دو ہزار دو کی بات ہوگی، دارالعلوم کی نسبت سے ملاقات کے لیے آمادہ ہوگئے تھے، پچھتر سالہ ضعیف العمر شخصیت کے اولین مواجہہ سے، ان کے اتاہ مطالعے کا اندازہ لگانا سامنے کی بات تھی، ان کی آنکھیں، کتب بینی کی ہزار داستان کہہ رہی تھیں۔
مجلس کی گفتگو بہت جلد تنقید میں تبدیل ہوئی، ان کے لٹریچر کا قاری تھا؛ اس لیے چونکنے والی کوئی بات نہ تھی، گویا تحریری عجائبات کو بالمشافہ تحصیل کی سند فراہم ہورہی تھی۔
مطالعے سے متعلق استفسار پر فرمایا کہ اس باب میں آزاد رہا ہوں، ملحدین تک کو خوب پڑھا ہے، حد یہ ہے کہ غیروں کو نسبتا زیادہ پڑھا ہے، یہ جملہ بیس سال بعد بھی میرے کانوں میں گونج رہا ہے، میرے نزدیک یہی نکتہ، بہت حد تک، ان کے افکار واختلاف کا سر چشمہ ہے، سچ ہے کہ سب کچھ نہیں پڑھنا چاہیے، منھ لگانے سے قبل، چشمے کا استناد دیکھنا چاہیے، بلا شبہ بہت سے بیان جادو ہیں۔
میری بابت معین مدرس جان کر خوش ہوئے، پھر تدریس سے قبل، تربیت وٹریننگ کی اہمیت وضرورت کو واضح کیا اور مادر علمی کے اس نظام کو خوب سراہا۔
ملاقات نے بعض غلط فہمیاں بھی دور کیں، ان کو بتایا گیا تھا کہ دیوبند میں، ان کی کتابوں اور ماہنامے کی فروخت پر پابندی ہے، ہم نے اس کی تردید کی، اس وقت مسلم فنڈ سے آگے موڑ پر، ایک صاحب ان کا لٹریچر فروخت کرتے تھے۔
تصانیف کیا ہیں! تخلیق اور فکر وفن کے شاہ کار ہیں، "علم جدید کا چیلنج" تو آپ کی شخصیت کا آفاقی تعارف ہے، فہرست تصانیف میں وہ ایک نمبر پر تھی، ہے اور رہے گی، ساتھ میں غیر متنازع بھی ہے، اپنے ماحول میں جو تالیف ہوئی، اس کے علاوہ "پیغمبر اسلام" اور "خاتون اسلام" یہ دو کتابیں بھی معرکۃ الآراء ہیں، آخر الذکر کی پیشانی پر چسپاں یہ جملہ: "اسلام یہ کہتا ہے کہ مرد مرد ہے اور عورت عورت"
ایک صدی کا جملہ ہے۔
  آج ان کی وفات پر استاذ گرامی حضرت مولانا ریاست علی بجنوری علیہ الرحمہ یاد آئے، آپ نے ایک سیاق میں فرمایا تھا کہ انھوں نے جماعت تشکیل نہیں دی ہے؛ اس لیے خاص موجب تشویش نہیں، بر خلاف مودودی صاحب کے، جب وہ گئے تو ان کے افکار کی آب یاری کے لیے، اخلاف واعقاب کا انبوہ تیار تھا.

محمد فہیم الدین بجنوری 
22 اپریل 2021ء

«
»

موت کا ایک دن متعین ہے

آ خر بار بار شان رسالت میں گستاخی کیوں اور گستاخوں کے سروں پر کس کا ہاتھ؟؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے