استقبالِ رمضان اور لاک ڈاؤن

 

تحریر :شگفتہ عبدالخالق ،ممبرا 

 

     جوں ہی حکومت کی طرف سے اعلان ہوا کہ پانچ افراد سے زیادہ کا مجمع ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتےاور دوبارہ پورے ملک میں لاک ڈاؤن سی کیفیت بنائی جارہی ہے ۔ دل پر قلق واضطراب کی کیفیت طاری ہو گئ کہ اب پھر سے ہم مسجدوں میں نماز پڑھنے سے محروم ہو گئے گزشتہ کئی دنوں سے پلاننگ تھی کہ ان شاءاللہ اس بار مسجدوں میں باجماعت فرائض و نوافل،تراویح کا اہتمام کریں گےتاکہ مساجد میں نماز پڑھ کر ایک الگ سی فرحت وشادمانی محسوس کریں ۔پھر ساتھ ہی ایک دوسرے کو دیکھ کر ہمت و حوصلہ میں اضافہ ہوتا ہے نیکیوں میں سبقت کا جذبہ پیدا  ہوتا ہے ۔

رمضان المبارک کی آمد سے دنیا کا ہر مسلمان خوشی سے جھوم اٹھتا ہے۔ افطار سے چند وقفہ کے بعد مرد و خواتین ، بچے،بزرگ سبھی  مسجدوں کی طرف دوڑتے ہوئے آتے ہیں ۔تاکہ زیادہ سے زیادہ نیکیوں کا اجتماع ہو۔لیکن! اب پھر سے وہی حال جو گذشتہ رمضان میں ہوا یہ سوچ کر حزن و ملال سا طاری ہو جاتا ہے۔لیکن پھر اندر سے ایک آواز آرہی ہے کہ :  مایوس نہ ہو ں امیدوں کی حوصلہ شکنی نہ کریں ،خود اعتمادی کا جذبہ پیدا کریں  یہ لاک ڈاؤن ہمارے لئے نیا نہیں ہے اس سے قبل بھی ہم ان حالات سے دوچار ہو چکے ہیں صبرو تحمل سے کام لیں۔ اور غور کرے کہ اب آگے ہمیں کیا کچھ کرنا چاہئے ؟ 

اس رمضان المبارک کے لئے پلاننگ کریں تمام افراد مل کر اپنا ٹائم ٹیبل بنائیں،منصوبہ بندی کریں اور اس عظیم قدر ومنزلت والے ماہ میں اپنے ا وقات کی حفاظت کریں۔ اس لئے کہ یہ ماہ رمضان المبارک اپنے اندر خیر و برکت کو سموئے ہوئے ہے، جو کسی اور ماہ کو حاصل نہیں ہے۔ اور ہو بھی کیوں نہ !اس ماہ کے صیام کے متعلق اللہ فرماتا"روزہ میرے لئے ہیں اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا" اللہ  سرکش جنّ و شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیتا ہے تاکہ اس کے بندے خشوع و خضوع سے عبادتیں کریں۔

اس ماہ میں جنت کے دروازہ کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازہ بند کر دئے جاتے ہیں اور حکم الٰہی سے منادی کرنے والا ندا دیتا ہے کہ " اے خیر کے متلاشی آگے بڑھ اور اے شر کے متلاشی رُک جا"اس ماہ کی مبارک رات میں اللہ نے قرآن مجید کا نزول فرما کر اس رات کولیلة القدر سے موسوم کیا جس رات کی عبادت ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ جو عبادتوں ریاضتوں کا مہینہ ہے ،صبرو ضبط،صدقہ و خیرات ،غم گساری ،صلہ رحمی

«
»

موت کا ایک دن متعین ہے

آ خر بار بار شان رسالت میں گستاخی کیوں اور گستاخوں کے سروں پر کس کا ہاتھ؟؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے