اگر اظہار راۓ کی آزادی نہ بچی، تو آئینی جمہوریت نہیں بچ پائے گی

  عبیداللہ ناصر

اظہار راۓ کی آزادی جمہوریت کا بنیادی ستون ہے جس کی گارنٹی ہندوستان کا آئین بھی دیتا ہے اور یہ عوام کا بنیادی حق بھی ہے، اسی بنیادی حق کے بطن سے مخالفت کی آزادی، احتجاج کی آزادی اور میڈیا کی آزادی نکلتی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ متعدد بار، متعدد ریاستی حکومتوں اور مرکزی حکومت نے اس آزادی پر قدغن لگانے کی کوشش کی، لیکن حزب اختلاف میڈیا اور خاص کر عوام کے دباؤ کے آگے حکومتوں کو جھکنا پڑا۔

اس کے ساتھ تعزیرات ہند میں اس بات کا بھی انتظام کیا گیا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی کے نام پر ملک کی مختلف اکائیوں اور طبقوں میں منافرت پھیلانے، سماجی ہم آہنگی کو بگاڑنے دوسرے ملکوں سے ہندوستان سے تعلقات خراب کرنے کی اور ایسی ہی منفی حرکتوں کی روک تھام کے لئے اقدام کیے جائیں اور اس آزادی کا استعمال کرنے والوں کے خلاف ان دفعات کے تحت قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے، اس لئے میڈیا سمیت عوام کی اس آزادی پر روک لگانے کے لئے کسی نئے قانون کی ضرورت نہیں ہے۔ جمہوریت کے تحفظ کے لئے عوام کو حساس ہونا ہی پڑے گا اور بنا اظہار رائے کے جمہوریت بے معنی ہوگی اس لئے اس آزادی اور اپنے اس بنیادی حق کے تحفظ کے لئے عوام کو ہی بیدار رہنا پڑے گا۔

اپوزیشن میں رہتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی اظہار رائے کی آزادی، احتجاج کی آزادی حکومت کی نکتہ چینی اور مخالفت کی آزادی ایک تحفظ کے لئے بڑے بڑے دعوے کرتی رہی ہے، لیکن آج جب وہ خود بلا شرکت غیرے بر سر اقتدار ہے تو اس آزادی کو صلب کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے، مودی- امت شاہ اور یوگی برانڈ سیاست کی یھ کامیابی ہے کہ انہوں نے بنا کسی قانون کے اپنا ڈیایسٹی نگر بنا لیا ہے، میڈیا سہی معنوں "ہز ماسٹر وائس" بن چکا ہے، الیکٹرانک میڈیا نے تو خاص کر ہر وہ حرکت کی ہے جس سے ملک کا سماجی تانا بانا منتشر ہو جائے، سماج کے مختلف طبقوں کے درمیان غلط فہمی نہیں، بلکہ نفرت پھیلے اور ایک مخصوص ایجنڈہ ہی ملک میں نافذ رہے۔ نیوز چینلوں کی بے لگامی غیر ذمہ داری اور لا قانونیت کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ اس زمرہ میں پرائیویٹ پارٹیوں کو لا کر غلط کیا گیا ہے، بہتر یہی ہوتا کہ دور درشن اور آل انڈیا ریڈیو کی خود مختاری کو آئینی درجہ دے کر یقینی بنا دیا جاتا تو کم سے کم ایسی غیر ذمہ دارانہ صحافت اور ایک خاص مقصد سے عوام کی ذھن شوئی کی لعنت سے ملک بچا رہتا۔

میڈیا کے کارپوریٹ کے ہاتھوں میں چلے جانے سے میڈیا کی آزادی کو حکومت سے زیادہ مالکان کے تاجرانہ مفاد سے خطرہ پیدا ہو گیا ہے، ایسا نہیں کہ اس سے پہلے بڑے تاجر گھرانے اخبارات نہیں نکالتے تھے، بڑلا جی اور گوینکا جی سمیت متعدد بڑے تاجر اخبارات نکالتے رہے ہیں، لیکن انہوں نے صحافت کے تقدس اور آزادی سے کبھی سمجھوتا نہیں کیا، لیکن اس کے بعد تاجروں اور میڈیا کا کیرکٹر بدلنے لگا اور میڈیا کی آزادی پر ان کے تاجرانہ مفاد حاوی ہونے لگے، ایسے میں صحافیوں کو بھی جھکنا پڑا لیکن پھر بھی بہت سے ایسے صحافی ہوئے ہیں جنہون نے قربانیاں دے کر بھی صحافت کی آبرو اور اپنے قلم کا تقدس برقرار رکھا، انہوں نے سرکار کا عتاب جھیلا، بیروزگار ہوئے، مقدموں میں الجھائے گئے، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، یہاں تک کہ بسا اوقات اپنی جانوں کا بھی نذرانہ پیش کر دیا، لیکن اپنے پیشہ کے تقدس کو داغدار نہیں ہونے دیا۔ ایسے ہی چند معتبر اور سینئر صحافیوں کو کسان تحریک کے دوران کسانوں کے حق میں کھڑا ہونے کی پاداش میں مقدموں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ان میں راج دیپ سردیسائی، ظفر آغا ،مرنل پانڈے جیسے چند نامور اور سینئر صحافی شامل ہیں تو مندیپ پنیا جیسا نوجوان صحافی بھی شامل ہے۔ حکومت کے اشارہ پر جس طرح ان سینئر صحافیوں کے خلاف ملک کے مختلف مقامات پر مقدمہ درج کرائے گئے اور ان میں بغاوت تک کی دفعات شامل کی گئیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ حکومت کا مقصد ان بے باک صحافیوں کو حراساں اور پریشان کرنا ہے۔ یہ حکومت کے تکبر انا اور مخالفت کو برداشت نہ کرنے کی غیر جمہوری سوچ کا آئینہ ہے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ حکومت کو جمہوری اقدار اور روایتوں کا کوئی پاس لحاظ نہیں ہے وہ صرف ایک ڈکٹیٹر کی طرح اپنی تعریف سننا چاہتی ہے۔

یہ درست ہے کہ یوم جمہوریہ کے موقع پر جب دہلی میں کسان احتجاج کر رہے تھے اور ایک کسان کی موت ہو گئی تھی اس وقت تین صحافیوں نے کسان کی موت پولیس فائرنگ سے ہونے کا ٹوئٹ کیا تھا لیکن جیسے ہی ان لوگوں کو پتہ چلا کہ کسان کی موت پولیس کی گولی سے نہیں بلکہ ٹریکٹر پلٹ جانے سے ہوئی تھی، ان سبھجی لوگوں نے فوری طور سے وہ ٹوئٹ ڈلیٹ کر دیا اور کسان کی موت ٹریکٹر پلٹ جانے سے ہونے کا ٹوئٹ کیا، یہ انسانی چوک ایسی بڑی نہیں تھی کہ ان معتبر اور سینئر صحافیوں اور ایک ممبر پارلیمنٹ کے خلاف ملک میں متعدد جگہوں پر سخت قوانین کے تہت مقدمے درج کر لئے جائیں۔ نوجوان صحافی مندیپ پنیا کی غلطی یہ ہے کہ اس نے حکومت کی سازش بے نقاب کر دی تھی۔ سنگھو بارڈر پر جب کسانوں پر بی جے پی کے ایک کارکن کی قیادت میں پتھراو کیا جا رہا تھا اور جسے سبھی ٹی وی چینل کسانوں پر عوام کا حملہ بتا رہے تھے، تب اس نوجوان صحافی نے ثبوت کے ساتھ اس بی جے پی کارکن کا کچا چٹھا عوام کے سامنے رکھ دیا تھا۔ حکومت اپنی سازش اور بی جے پی اپنی پول کھل جانے سے اتنی ناراض ہوئی کی اس نے مندیپ کو گرفتار کر لیا اور مجسٹریٹ نے انھیں ریمانڈ پر بھی بھیج دیا، خوشی کی بات ہے کہ مندیپ کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے لیکن حکومت نے اپنے چہرہ کی نقاب ہٹا دی اور اپنی غیر جمہوری شکل ایک بار پھر عوام کے سامنے پیش کر دی۔ دہلی کے سینئر اور نوجوان صحافیوں نے بہر حال حکومت کے اس تانا شاہی رویہ کے خلاف صداۓ احتجاج بلند کی ہے، لیکن اقتدار کے نشہ میں چور حکومت کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔

جہاں تک دہلی پولیس کی بات ہے کبھی وہ ملک کی سب سے بہترین اور پروفیشنل پولیس فورس سمجھی جاتی ہے کیونکہ مرکزی وزارت داخلہ کے تحت ہونے کی وجہ سے اس پر سیاسی دباؤ بہت کم ہوتا تھا لیکن بی جے پی حکومت خاص کر امت شاہ کے وزیر داخلہ بننے کے بعد سے وہ پرانے زمانہ کے زمین داروں کے لٹھیت جیسی ہوگئی ہے جس کا کام اپنے آقا کے اشارہ پر مخالفین کا سر پھوڑنا رہ گیا ہے، اس کی گراوٹ کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ سپر کاپ کہے جانے والے جولیو ربیرو سمیت سو سے زید سبکدوش آئی پی اس افسروں نے دہلی فساد کے دوران اس کے طرز عمل اور پھر ان فساد کی تحقیقات میں اس کی کھلی جانب داری کے خلاف دہلی پولیس کے سربراہ کو خط لکھ کر انھیں ان کا فرض منصبی یاد دلایا، حالانکہ کون سنتا ہے "فغان درویش "

ایمانداری اور گہرائی سے دیکھا جائے تو اس وقت ہماری جمہویت اور آئینی نظام شدید خطرہ سے دو چار ہے، کیونکہ کمال ہوشیاری سے ان کے الفاظ کو برقرار رکھتے ہوئے اس کی روح کو نکال دیا گیا ہے۔ اگر عوام اب بھی بیدار نہ ہوئے تو جمہوریت کو نہیں بچا پائیں گے اور اگر جمہوریت نہ بچی تو ملک بھی اس شکل میں مشکل سے ہی بچ پائے گا۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

07فروری2021

«
»

’اندھیر نگری، چوپٹ راجہ‘… نواب علی اختر

یہ کیا،میرے ملک کا دستور ہوگیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے