ہندوستان کے مسلمانوں کے بنیادی مسائل اور انکا حقیقی حل۔۔۔۔ مفکراسلام حضرت مولانا ابوالحسن ندوی کی تحریروں کی روشنی میں

    

 

  محمدانتخاب ندوی

 ہندوستان اور مسلمان
 مسلمانوں نے ہمیشہ اس ملک کو اپنا وطن،اپنا گھر،اور اپنادائمی قیام گاہ سمجھا،انھون ہمیشہ اس ملک کو اپنی ثروت سمجھتے ہوۓ اپنی بہترین صلاحتیں اور خدا داد قابلیتیں صرف کردی؛
مسلمانوں کی آمد سے پہلے یہ ملک تہذیبی لحاظ سے متمدن دنیا سے عرصہ دراز سے بالکل الگ تھلگ تھا،جسکا انداز بابر کی مندرجہ ذیل تحریر سے کیا جاسکتا
ہندستان میں لطافت کم ہے لوگ نہ سی نہیں نہ میرا جوڑ کے اچھے نون کا ادراک اعلی درجے کا ہے نہ ان میں مروت مہربانی اور ادب ہے ہنر و اور کاموں کی ترتیب بھی اچھی نہیں گھوڑا یہاں اندھا نہیں ہوتا ہے گوشت اچھا نہیں ہوتا ہے خربوزے اور میوہ اچھے نہیں ہوتے ہیں عوام ننگے پاؤں پھرتے ہیں نعت سے دو مٹھی نیچے کپڑا بنتے ہیں اسکول لنگوٹھا کہتے ہیں یہ ایک اڑا کپڑا الٹا ہوا ہے اس کے نیچے کا اڑا کونا لٹکتا رہتا ہے اس کا دوسرا کونا  اور ہے عورت ایک لونگی باندھتی ہے
 بحوالہ تزک بابری بابر نامہ ص٣٥٣ 
لیکن مسلمانوں نے اسے ایک نیا، مبنی برعقل وحکمت اور عملی دین دیا،پختہ علوم، ترقی یافتہ تمدن،شائستہ تہذیب اور متعدد تہذیبوں کے قیمتی تجربات سے آراستہ کیا،مسلمانوں نے سب سے نئ اور قیمتی تحفہ توحید کے بعد اسلامی اخوت ومساوات کا  اس ملک کو دیا جسکی گواہی پنڈت جواہر لال نہرونے ان الفاظ میں دی ہے
"شمال مغرب سے آنے والے حملہ آوروں اور اسلام کی آمد ہندوستان کی تاریخ میں کافی اہمیت رکھتی ہے، اس نے ان خرابیوں کو جو ہندو سماج میں پیدا ہو گئی تھی یعنی ذاتوں کی تفریق،چھوت چھات اور انتہا درجے کی خلوت پسندی کو بالکل آشکارا کر دیا،اسلام کے اخوت کے نظریے اور مسلمانوں کی عملی مساوات نے ہندوؤں کے ذہن پر بہت گہرا اثر ڈالا خصوصا وہ لوگ جو ہندو سماج میں برابری کے حقوق سے محروم تھے اس سے بہت متاثر ہوئے
 ملاحظہ تلاش ہند ص٥٢٥ 
 مسلمانان ہند کی موجودہ صورت حال پر ایک اجمال نوٹ 
اس وقت ہمارا ملک ہندوستان جو صدیوں تک اسلامی اقتدار عزت و شرف اور اسلامی علوم و فنون کا مرکز رہا ہے،جسکا بنیادی اصول جمہوری (Democratic)اورنامذھبیت (Sccular) ہمیشہ سے رہا ہے یہاں بھائ چارہ بقاۓ اہم اور امن وامان کی حکمرانی رہی ہے مگر اب ان اصولوں کو پامال کیا جارہاہے،جنکے لیے ٧٥٨١؁ سے٧٤٩١؁ تک جنگ آزدای لڑی گئ اور اسکے لیے بڑی بڑی قربانیاں دی گئیں اسمیں مسلمانوں نے صرف حصہ لیا بلکہ اسک قیادت کی اور اسکے لیے سب زیاد قربانیاں پیش کیں،جیساکہ مفکراسلام حضرت مولانا علی میاںؒ نے اپنی مشہور کتاب ہندوستانی مسلمان (ایک تاریخ جائزہ)میں مفصل انداز میں روشنی ڈالی ہے،مگر افسوس آج وہ مسلمان آزمائشی دور سے گزر رہے ہیں،شر پسند عناصر انکے خلاف زہر اگل کر نئ نسل کے اذھان کو مسموم کررہے ہیں،ہزاروں سال پرانی گنگا جمنی تہذیب کے مسلمانوں کو گاؤوں خالی کرنے دھمکیاں دی جارہی ہیں،ملک کو اسکے سکولرزم اور جمہوریت کی راہ اور ڈگر سے ہٹا ہندوراسٹریہ بنانے کا خواب تنگ نظرلوگ دیکھ رہے ہیں وہ اس ملک میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں بے دست وپا کرنے کی کوشش کررہیہیں، دیوبنداور علی گڑھ جیسے قدیم شہروں کے نام تبدیل کرنے کی ناپاک سازشیں کی جارہی ہیں،بلکہ کئ شہروں کے نام توبدلے بھی جاچکے ہیں اور اس بھی بڑا اور کیا ظلم ہوسکتا ہیکہ میرٹھ کی میونسپل کارپوریشن میں وندے ماترم نہ پڑھنے پر عوام کے ووٹوں سے منتخب شدہ مسلم نمائندوں کی ممبر شپ کو ختم ختم کرنے کا اعلان کیا جانے لگا، گاؤکشی کے نام پرمسلمانوں میں دہشت پھیلائ جارہی ہے، تعلیم گاہوں؛ اورثقافتی اداروں میں ہندی زبان،اور ہندی رسم الخط ہندو ثقافتCultures اور تعلیم گاہوں میں ہندو دیو مالاHindumithology کی تعلیم نافذ کرنے کی سازش کی جارہی ہے جس سے یہ ملک نہ جمہوری شکل میں قائم رہا اور نہ ہی مذہبی بلکہ ملک ایک واحد وہ منفرد مذہب، ثقافت، زبان،رسم الخط کا حامل اور مذہبی عصبیت اور منافرت کا شکار ہو چکا ہے،مسلمان شدید مذہبی منافرت اور تعصب تہذیبی و ثقافتی محاذ آرائیconfrontation کا شکار بنایا جا رہا ہے پھر نصاب تعلیم صحافتPress اور ابلاغ عامہPublic Madia کے ذریعے مسلمانوں کی آئندہ نسل کو اولا تہذیبی و ثقافتی ارتداد، ثانیا ایمانی و اعتقادی ارتداد کا شکا بنانے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہیجسکا نتیجہ ہے آج مسلمانان ہند کو ملک ہندوستان میں اپنی زندگی کا تسلسل جسمانی وجود عزت و آبرو مساجدومدارس اور صدیوں کا دینی و علمی اثاثہ اور قیمتی سرمایہ بھی خطرات کے بادل منڈلاتے نظرآرہے ہیں اس صورتحال کی اگر کوئی مثال پچھلی تاریخ مل سکتی ہے تو وہ ساتویں صدی ہجری میں تاتاریوں کا ترکستان ایران اور عراق پر حملہ ہے  الحاکم اسباب سے سو فیصد متفق ہے کہ مسلمان ہیں جن مصائب و مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں بعض خود ان کی اپنی غلطیوں کا نتیجہ ہے اور بعض پچھلی تاریخ کا بقایا ہم یہاں مسلمان ہند کی چند مخصوص مسائل اور اہم مشکلات کا تذکرہ کریں گے جو دھیمی آنچ کی طرح مسلمانوں کی ملی بھگت کے لیے ُخطرہ بنے ہوئے ہیں اور ساتھ ساتھ ان کا بہترین حل مفکراسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی کی تحریر و تقریر اور مکتوبات کی روشنی میں پیش کریں گے“                                      
 مفکر اسلام حضرت مولاناعلی میاںؒ کی جامعیت 
مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں (1914۔1999)کی ذات کسی تعارف کی محتاج نہیں جنکی شخصیت گوناگوں خصوصیات کی حامل تھی،ان میں علم وعمل کے متعدد نادرہ روزگار صفات غیرمعمولی طور پر جمع ہوگئ تھیں وہ بیک وقت عالم دین،مفسر، محدث، مؤرخ مفکر،مصنف،صحافی اور ہمہ جہت انسان تھے بہ دیگرے الفاظ علوہمت انکی زندگی کا طغراۓ امتیاز تھا، انھوں نے فکر وعمل کے دائرہ میں اپنے زمانہ کی سطح اور اپنے ہم عصروں کی کسی منزل پر قناعت نہیں کی اور جس ترقی یافتہ مقام پر پہونچے انکے کانوں میں یہی صدا آئ
ع  مسافر یہ تیرا نشیمن نہیں ہے"
مفکر اسلام بذات خود اپنی زندگی کے موقف کو  بیان کرتے ہوۓ رقمطراز ہیں:میں ان لوگوں کی اگلی صف میں ہوں، جو مسلمان قوموں میں صحیح سیاسی شعور کے داعی ہیں،اور ہراسلامی ملک میں صالح قیادت کو بروۓ کار دیکھنا چاہتے ہیں،میں ان لوگوں میں ہوں جنکا اعتقاد ہے کہ دینی معاشرہ اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا، جب تک دین کو اقتدار حاصل نہ ہو،اور حکومت کا نظام اسلامی بنیادوں پر استوار نہ ہو،میں اسکا داعی ہوں۔اور زندگی کی آخری سانس تک رہونگا۔
پروفیسر عتیق اللہ تابش صدر شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی تحریر کرتے ہیں کہ:

مولانا ابوالحسن ندوی کے ذہنی اور معنوی سلسلے عبدالماجد دریابادی اور سید سلیمان ندوی سے ہوتے ہوۓ شبلی نعمانی تک پہنچتے ہیں(مطالعہ تصنیفات مفکراسلام ابوالحسن علی ندویؒ ص٤٢٦)
حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندویؒ تحریر کرتے ہیں کہ
 مولانا ابو الحسن علی الحسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے سماجی ملی اور تہذیبی تینوں سطح پر بڑا کام انجام دیا ہے انسانیت اور خاص طور پر مسلمانوں کے علمی و مذہبی ترقی کے لیے اہم خدمات انجام دیے ہیں جن کو ملک اور بیرون ملک بھی تسلیم کیا جاتا ہے اور قدر کی جاتی ہے علمی لحاظ سے وہ ایک بلند پایہ عالم اور ایک کامیاب مصنف سماجی لحاظ سے ایک مربی اور مصلح اور مذہبی لحاظ سے ایک عظیم المرتبت بزرگ اور مقبول عام خطیب تھے
 اسی کے ساتھ ساتھ وہ اپنے ملک کے لیے وطن دوست اور اس کی ترقی کی فکر رکھنے والے تھے اس کے حق کو ادا کرنے کی بھی کوشش کرتے تھے چنانچہ اپنی کتابوں میں اسے حق شناسی کی ضمن میں انہوں نے ہندوستان کے علمی و تہذیبی ترقیات کا کھلے دل سے ذکر کیا ہے ان سے روشناس کرایا ہے اس سلسلے میں ان کا مجموعہ مضامین "المسلمون فی الھند"اور"الدعوة الاسلامیة وتطوراتھا فی الھند"قابل مطالعہ ہے،
 بحوالہ مولانا ابوالحسن علی ندوی(عہد ساز شخصیت) ص٢٠٠ 
 آپ نے اپنے افکار وخیالات کے جو روش چراغ جلاۓ ہیں یقینا رہتی دنیا تک لوگ اپنی تاریک راہوں کے لیے روشنی فراھم کرتے رہینگے،

 بنیادی مسائل کا مفکر اسلام کی تحریروں کی روشنی میں ترتیب وار حقیقی حل 
مذھبی اور دینی مسائل
اس اہم مسئلہ کے ذیل میں سب سے پہلے آئین ہند کے آرٹیکل 25کو تحریر کرنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے تاکہ عیاں ہوجاۓ کہ کس طرح موجودہ حکومت مسلمہ حقیقت کو مسخ کرتے ہوۓ مسلمانان ہند کے مذھبی اور دینی راہوں میں روڑے اٹکا رہے ہیں چنانچہ ڈاکٹر امبیڈکر تحریر کرتے ہیں کہ
 تمام اشخاص کو آزادئ ضمیر اور آزادی سے مذہب قبول کرنے اس کی پیروی اور اس کی تبلیغ کرنے کا مساوی حق ہے بشرطیکہ امن عامہ اور اخلاقی عامہ یاما اس حصہ کی دیگر تو توضیعات متاثر نہ ہوں 
یہ حقیقت ہے کہ سرزمین ہند میں مسلمان ہرقسم کے دنیاوی مفاد اور مادی منفعت سے بے نیاز ہوکر خالص دین جذبات کے تحت داخل ہوۓ تھے تاکہ غلامی اور اور محکومی کی آہنی زنجیروں سے جکڑے ہوئے بے بس انسانوں کو خالق کائنات کی بخشی ہوئی آزادی سے مستفید ہونے کا موقع دلائیں جن کے سایہ عاطفت میں ہندوستانی معاشرے کے ستائے ہوئے ہزاروں مظلوموں کو نہ صرف نہ ملی بلکہ وہ ان کے حل کے باپ بیٹوں اور بھائیوں کی طرح رہنے لگے،
اس بات سے کون ناواقف ہوگا کہ اسلام ایک دعوتی ودینی مذہب ہے پوری دنیا میں اسلام دعوت وتبلیغ ہے کے ذریعہ پھیلا اور یہ سلسلہ مسلمانوں کے اخیر دور تک اور پھر انگریزی حکومت کے آخری زمانہ تک جاری رہا ہرسال کثیر تعداد میں غیر مسلم بہ رضاورغبت حلقہ بگوش اسلام ہوتے رہے مگر جب سے مسلمانان ہند اور برادران وطن کے درمیان سیاسی معرکہ آرائ قائم شروع ہوئ دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف شکوک وشبہات کی نہ مٹنے والی تلخی پیدا کردی چنانچہ یہ جذبہ نفرت ہندوستان میں اسلام کی دعوت وتبلیغ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گئ جسکا نتیجہ ہے کہ آج کبھی اذان پر پابندی لگا نے کی سازش رچی جاتی ہے تو کبھی تبلیغی جماعت پر بے جا الزامات تراشے جاتے ہیں،کبھی لو جہاد کے نام پر مذھب اسلام کو بدنام کیا جاتا ہے تو کبھی نو کبھی داعی اور مدعو کوٹارچر!
سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسے حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے،ایا حوصلہ کو مضبوط کرتے ہوۓ آگے بڑھنا چاھیے یامنجانب اللہ مفوضہ ذمیداریوں سے سبکدوش ہوجانا چاہیے تو 
چنانچہ مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاںؒ اپنی کتاب ہندوستانی مسلمان(ایک تاریخی جائزہ)  
میں دینی ومذھبی  مسائل کے حقیقی حل تحریر کرتے ہوۓ لکھتے ہیں کہ:
" مسلمان دعوت وتبلیغ کا کام حکمت عملی،خلوص اور بے غرضی سے کریں،ان کے سامنے کوئی سیاسی مقصد اقتدار کی ہوس اور قومی برتری کا خیال نہ ہو، رشدوہدایت،خدمت خلق،وعظ وارشاد اور بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی اور شفقت،انہیں دنیاوآخرت کی ہلاکت خیزیوں سے نجات دلانا، ان کے پیش نظرہو،ہندی اور دوسری علاقائی زبانوں میں سیرت نبویﷺ اور اسلامی تعلیمات پر مشتمل دلآویز اور فکر انگیز لٹریچر جدید اسلوب نگارش میں ہندوستانی سماج کے سامنے پیش کیا جائے اپنی روحانی واخلاقی صلاحیتوں کا ثبوت دینا اس ملک کے ساتھ اخلاص و محبت اور اس کی ترقی و خوشحالی کے لئے جدوجہد بھی نہایت ضروری چیز ہے
ملاحظہ ہندوستانی مسلمان ص١٨٥
مفکراسلام مسلمانوں کو متنبہ کرتے ہوۓ مزید تحریر فرماتے ہیں کہ 
آج ایسے مردان کار کی ضروت ہے جوصرف اسی دعوت کے پیچھے ہورہیں،اپنا علم،اپنی صلاحتیں، اور اپنا مال و متاع اس کے لیے وقف کر دیں، کسی جاہ و منصب یا عہدہ وحکومت کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھیں، کسی کے لئے ان کے دل میں کینہ و عداوت نہ ہو،فائدہ پہنچائیں،مگر خود فائدہ نہ اٹھائیں،دینے والے ہوں، لینے والے نہ ہوں، ان کا طرز عمل سیاسی رہنماؤں کے طرز عمل سے ممتاز اور ان کی دعوت و جدوجہد سیاسی تحریکات (جس کا مطمع نظر محض حصول اقتدار ہوتا ہے)مختلف اور جداگانہ ہو، اخلاص ان کا شعار ہو اور نفس پرستی،خود پسندی،اور ہر قسم کی عصبیت سے بالا تری کا امتیاز
 ملاحظہ مقالات مفکر اسلام 
ج٢ص٦٢

حقیقت تو یہ کہ آج مسلمان مادی زندگی سے خوش اور عام شہری زندگی کے حصول پر قناعت کرچکے ہیں،مفکر اسلام ایسے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوۓ لکھتے
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ مادی زندگی کی آسائشوں اور عام شہری حقوق پر قناعت نہ کریں وہ پوریخلوص اور جوش کے ساتھ اسکا بھی مطالبہ کریں اور اسکے لیے جدوجہد بھی کہ وہ اپنت تمام ملی تشخصات اور اور اپنی پوری تہذیب وثقافت اور اپنی پوری مذہبی آزادی کے ساتھ اس ملک میں رہینگے ہم کو کسی حال میں ان کتوں کے پست مقام پر نہی  اترنا چاہیے جنکو اگر راتب مہیا کردیا جاۓ تو وہ مطمئن اور قانع ہوجاتے ہیں 
 حوالہ کاروان زندگی ص٩٨  ج٢

حکومت کا جارحانہ نظام تعلیم
دوسرا بنیادی مسئلہ موجودہ نظام تعلیم کا مسئلہ ہے اور یہ ملت اسلامیہ ہندیہ کے اہم ترین اور موت وحیات کا فیصلہ کرنے والے مسائل میں ایک اہم مسئلہ ہے کہ کس طرح مسلمانوں کی نئ نسل کا اسلام کے بنیادی عقائد،ایمانیات،اور انکے ملی تشخص اور امتیاز باقی رکھا جاۓ اوراس  سیکولر میں ہندواحیائیت کی موجودگی  سچر کمیٹی کی رپورٹ کے،اور غیر مذہبی واضعین نصاب نے اس اہم مسئلہ اور بھی پیچیدہ اور پریشان کن بنادیا ہے اور ابھی بہت سارے ایسے اسکول اور کالجز ہیں جہاں بیسک ریڈروں میں ہندودیومالا کی باتیں اور مشرکانہ کہانیوں کے ذریعہ نئ نسل کو ملت براہیمی اور امت محمدی سے خارج کیا جارہاہے،چنانچہ یہ مسئلہ پہلے مسئلہ سے بھی زیادہ خطرناک ہے کیونکہ بقول مفکر اسلام "تبلیغ دین کی راہ میں جو دشواریاں پیش آتی ہیں ان سے تو صرف اسلام کی توسیعی سرگرمیوں کو نقصان پہونچنے کا خطرہ ہے، لیکن تعلیم کا مسئلہ تو مسلمانان ہند کی قومی وملی وجود کے لیے ایک مستقل خطرہ ہے،جس سے انکے مخصوص کلچر،مخصوص تہذیب اور مخصوص عقائد پر ضرب پڑتی ہے" حوالہہندستانی مسلمان ص١٧٦
 اور حد یہ کہ انسانیت کے عظیم ترین محسن کائنات پیغمبر اسلام کی ذات گرامی کیتعارف میں ایسے نامناسب ونازیبا کلمات بعض کتابوں میں موجود ہیں جو تاریخی مسلمات کے بالکل خلاف اور شدید جہالت اور تعصب پر مبنی ہے اور جسکا نتیجہ ہے کہ بہت سارے خاندانوں کے معصوم بچے اور بچیاں غیر اسلامی اور صریح مشرکانہ عقائد ورسوم سے متاثر نظر آرہی ہیں جومسلمانوں کے بڑی تشویش اور ا ذہنی کشمکش کاشکار ہیں 
 مسئلہ کا حل
اس سلسلہ میں راقم الحروف مفکر اسلامؒ کی وہی تحریر بطور حل مسئلہ سپرد تحریر کرتا ہے جو آپ نے اس وقت کے
مسلمانوں کے لئے بطور مشورہ رقم فرمایا تھا، چنانچہ آپ جارحانہ نظام تعلیم کا جائزہ لینے کے بعد دوران تحریر مسلمانوں کو آئین ہند کے دفعہ سے واقف کراتیہوۓلکھتے ہیں کہ"ہراقلیت کو اپنی مرضی کے مطابق تعلیمی ادارے قائم کرنے اور انکو چلانے کی اجازت وحق ہوگا، کسی سیاسی پارٹی یا انتظامیہ کے لئے اکثریت یااقلیتوں کے ان مسائل ومعاملات میں مداخلت کرکے ان میں غیرضروری بیچینی پیدا کرنے اور اپنی توانائیوں کو ملک کی تعمیرو ترقی اور اپنے فرائض منصبی ادا کرنے کے بجاۓ اپنے مذہب،عائلی قانون،تعلیم یا ثقافت وزبان کے مسائل پرمرکوز کردینے کا ذریعہ بننا ہرگز دانشمندی اورحقیقت پسندی کی بات نہیں۔
 بحوالہ کاروان زندگی ج٤ ص١٥٦ 
آپ جارحانہ نظام تعلیم کے خلاف مسلمانوں کو ایکشن لینے کیلئے مزید لکھتے ہیں کہ ایسی صورتحال  میں کرنے کے دو کام ہیں ایک سلبی(NEGATIVE)اور ایک ایجابی(POSITIVE)، منفی اور انتظامی تو یہ کہ حکومت سے مطالبہ کہ وہ اپنی تعلیمی پالیسی میں دیانت داری کے ساتھ نامذھبی اور غیر جانبدار ہوکر اور سب فرقوں کے ساتھ یکساں معاملہ کیا جاۓ،نیز یہ کہ نصاب کو بھی انگریزی دور کی طرح سیکولر بنایا جاۓ،جس کی نصابی کتابوں میں عام معلومات کی چیزیں یا کتے،بلی کی بے ضرر کہانیاں ہوتی تھیں،لیکن کس مذھب کی تلقین نہیں کی جاتی تھی،مثبت یہ کہ بیسک اور بنیادی تعلیم کا انتظام مسلمان اپنے بچوں کے لئے خود کریں اس کے لئے مکاتیب و مدارس قائم کریں،جن میں اردو اوت عقائد ودینیات کی ابتدائ تعلیم ہو،اور مسلمان بچوں کے ذہن میں اسلامی نقوش ثبت ہوجائیں 
 بحوالہ کاروان زندگی ج١ص٤٦٠
اور اس موقع پر حضرت مولانا وہ تاریخ ساز تقریر بھی تحریر کرنا مناسب سمجھتا ہوں جس نے حکومت کو بھی جھکنے پر مجبور کردیا تھا
١/٢جون٩٨٩١؁میں کل ہند پیمانہ پر دینی تعلیمی کونسل اترپردیش کے زیر اہتمام سرزمین ندوةالعلماء میں ہوئ کانفرنس کو خطاب کرتے ہوۓ فرمایا اور پورے شدومد کے ساتھ ریاست ایر پردیش کے دونوں مکاتب اور مدارس کے لیے Minimum Wage اور رجسٹریشن کو رد کرتے ہوۓ فرمایا 
"ہم حکومت کے ان قوانین وضوابط کے خلاف احتجاج کرنے پر مجبور ہیں جو آزادی دینی تعلیم اور آزاد مدارس ومکاتب کے قیام اور ان کے آزادی سے تعلیمی خدمت اور علم وثقافت کی اشاعت اور مسلمانوں کو اپنے دین سے اس درجہ واقف کرانے کے کام میں خلل انداز ہوں جو انکے مذہبی طور پر ضروری ہے
 حوالہکاروان زندگی ج٤ص٨٤
آپ مزید لکھتے ہیں کہ

 "ضرورت ہے کہ مغرب سے درآمد کیا ہوا نظام تعلیم جو پورے عالم اسلام میں رائج ہے، ایک بار نئے سرے سے اس کا جائزہ لیا جائے،اور پوری طرح کھنگالا جائے اور اس کو ایک قالب میں ڈھالا جائے،جو مسلم اقوام کے قد وقامت پر راست آۓ، اس کے عقیدہ و پیغام سے ہم آہنگ ہو اور جس سے مسلم قوم کی معنوی خصوصیات نمایاں اور اس کی انفرادیت آشکار، ہو مادی و الحادی عناصر سے پاک ہو،تا کہ کائنات کا صرف مادی تصور اس کے سامنے نہ ہو، کیونکہ جہاں تک علوم کا تعلق ہے وہ سب ایک دوسرے کا کاٹ کرنے والی اکائیاں ہیں جب کہ نظام فطرت ایک بے قید اور سب کو پامال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، تاریخ انسانی کے اضطراب و بے چینی اور آپس کی جنگوں کے لامتناہی افسانوں کا پلندہ ہے،ان کو بنیاد بنا کر جب عقل انسانی کی پرورش اور اس کے نمو و بالیدگی کی کوشش کی جائے گی تو کامیابی کا دائرہ محدود سے محدود تر ہوگا
    نظام تعلیم میں جزوی اصلاحات اور معمولی کتر بیونت کارآمد نہیں ہو سکتی، اس  لئے  ضرورت ہے کہ خواہ جس قدر بھی وسائل اور غور و فکر کی ضرورت پڑے اچھے سے اچھے ذہن وفکر سے مدد لی جائے، بہتر سے بہتر وسائل اختیار کئے جائیں، تاکہ پائیدار اور مفید نظام تعلیم وتربیت امت کو مل جائے کیونکہ اس کے بغیر عالم اسلام اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو سکتا اپنی عقل اور اپنے ارادے کے مطابق کام نہیں کر سکتا اس کے بغیر نہ تو حکومتوں کو مسلمان کارندہ مل سکتے ہیں نہ مخلص منتظمین  مل سکتے ہیں، نہ ایسیو مومن مخلص افراد مل سکتے ہیں جو اسلامی تعلیمات کے مطابق سرکاری دفاتر، عوامی رفاہیت  کے اداروں، انتظامیہ اور عدلیہ دانشگاہوں اور وسائل اعلام کو پابند کر سکیں تاکہ اسلام کا نظام معاشرت و حکومت پوری جمال و کمال کے ساتھ سامنے آئے اور مسلم سوسائٹی اپنی خصوصیات و انفرادی امتیازات کے ساتھ دنیا کے سامنے آئے
 بحوالہ مقالات مفکر اسلام ج٢ ص٣٥٧۔٣٥٨

 مفکراسلام حضرت مولانا علی میاںؒ اوربھارت کے سیاسی مسائل
              
   آزادی سے پہلے مسلمانوں کے پاس دو طرح کی قیادت موجود تھی۔ ایک سیاسی قیادت اور دوسری مذہبی قیادت۔ 1947  کے بعد سیاسی قیادت پوری طرح سے ختم ہوگئی۔ ہندوستان کا مسلمان مذہبی قیادت کے زیر اہتمام زندگی گزارنے لگا۔ مسلم تنظیموں نے مسلمانوں کا مسیحا بننے کا دعویٰ کیا اور اس کا اثر مسلم سماج پر آج بھی صاف طور سے دیکھا جارہا ہے، لیکن مسلمانوں کو کیا ملا۔ جمیعت علما، جماعت اسلامی، امارت شرعیہ، ادارہ شرعیہ، ملی کونسل وغیرہ اس کے علاوہ مذہبی گروپ جیسے سنی، شیعہ، وہابی، دیوبندی، بریلوی، تبلیغی جماعت۔ مسلمانوں کی تنظیم یا مسلمانوں کا مذہبی گروپ الگ الگ طریقہ سے مسلمانوں کے مسئلہ پر اپنی آواز اٹھاتا رہا۔ کسی کو تھوڑی کامیابی ملی اور کسی کو نہیں ملی۔ کسی نے مسلمانوں کو دکھا کر سیاسی فائدہ حاصل کیا تو کسی نے مذہب کا نعرہ دیکر سماج میں اپنی لیڈرشپ قائم کی۔ سب کچھ ہوا، لیکن مسلمانوں کا بنیادی مسئلہ حل نہیں ہوا۔ ان تنظیموں نے مسلمانوں کو حکومت پر منحصر کرنے کا راستہ ہموار کیا۔ کوئی بھی کام ہو، حکومت ذمہ دار ہے۔ مسلمان خود کھڑا ہوکر اپنے مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش میں کافی پیچھے چھوٹتا چلا گیا۔اور صورت حال ایں جارسد کہ مسلمانوں سے حب وطنی کا ثبوت مانگا جارہا ہے بلکہ یوں کہیے کہ مسلمان بازیچہ اطفال بن چکے ہیں جنھیں جو بھی جس وقت بھی اور جسطرح سے بھی چاہے Useکرسکتا ہے تو موقع ہر ہمیں کرنا چاہیے تو آییے آپ سامنے حضور مفکر اسلام کی چشم کشا تحریر پیش کرتے
 آسان حل
حضرت مولانا نے فرمایا کہ
 مسلمان اس ملک میں اپنا سیاسی وزن ثابت کرنے کے لیے اور اس حقیقت کے اظہار کے لیے کہ وہ پاس میں فیصلہ کن ثابت کا درجہ رکھتے ہیں کسی سیاسی پارٹی یا حکمران جماعت کے پابند رہیں اور اپنے حق رائے دہندگی کا آزادانہ استعمال کریں کیونکہ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ مسلمانوں کا مستقبل اور قسمت مستقل طور پر کانگریس سے وابستہ ہے اور مسلمانوں کے ووٹ اسی کی جیب میں پڑے ہوئے ہیں،ہم یہ چاہتے ہیں کہ یہ بات واضح ہوجاۓ کہ مسلمانوں نے کسی جماعت کے نام خط غلامی نہیں لکھ دیا ہے،اور انھیں اپنے عمل سے یہ ثابت کرنا چاہیے کہ جس طرح ان میں نفع پہونچانے کی صلاحیت ہے، ضرر پہونچانے کی بھی صلاحیت ہے (چاہے وہ اپنی شرافت سے کس وقت اس کا ثبوت نہ دیں) تاکہ کوئ جماعت ان کو صرف نفع کا ذریعہ سمجھ کر ان کے حقوق ومسائل سے چشم پوشی نہ کرے میں اسوقت اکثر اقبال کے یہ دوشعر پڑھتا تھا؎
تمیز خاروگل سے آشکارا    نسیم صبح کی روشن ضمیری
حفاظت پھول کی ممکن نہیں 
اگر کانٹے میں ہو خوۓحریری
 ملاحظہ کاروان زندگی ج٢ص٩٠
آپ مزید لکھتے ہیں کہ
کسی سیاسی پارٹی یا قیادت کا بلاترجیح واستحقاق کا بلا ترجیح واستحقاق کے مدت دراز تک منصب قیادت پر فائز رہنا اور ملک کے نظم ونسق پر حاوی اور قابض رہنا بہت سی خرابیوں کا باعث ہوسکتاہے،ایسی اجارہ داری (MONOPOLY) کی شکل میں اس جمہوری حکومت اور سیاسی اور آئینی حکمراں جماعت میں وہ معائب اور کمزویاں پیدا ہوسکتی ہیں، جوزمانہ سابق میں طویل المیعاد خاندانی وموروثی سلطنطوں اور حکمراں خاندانوں میں پیدا ہوئیں،اور جنکی تفصیلات اور مثالیں ہر ملک کی تاریخ میں موجود ہیں،یہ فطرت انسانی ہے،جس سے بچنااور جس پر غالب آنا تقریبا خلاف فطرت اور بعید از قیاس واقعہ ہے۔
 بحوالہ۔کاروان زندگی ج ٤ص١٥٢
 مسلمانان ہند کے لئے ایک اہم پیغام
مفکراسلامؒ فرماتے ہیں کہ 
"مسلمان قوم کا یہ امتیاز اور اس ملک کا جمہوری نظام،پھر مسلمانوں کی اتنی بڑی آبادی،یہ ساری باتیں مواقع فراہم کرتی ہیں کہ ہم یہاں کے نظم ونسق پر اثر انداز ہوں، یہاں قانون بنانے میں ہمارا حصہ ہو سکتا ہے، پھر اس ملک کو جمہوری ہونے کی وجہ سے اس ملک کی قیادت کا منصب حاصل کر سکتے ہیں، اگر ہم اپنے کو اخلاقی طور پر، باطنی طور پر، ذہنی طور پر بھی اور عملی طور پر بھی ممتاز وفائق ثابت کردیں، اس ملک کی قیادت کے ہم طالب نہیں ہوں گے، ملک کی قیادت خود ہماری طالب ہوگی، ہمیں سورج کا چراغ لے کر ڈھونڈے گی، یہاں کے خاک کے ذرہ ذرہ، درخت کے پتہ پتہ سے آواز آئے گی کہ اس ملک کو بچانے والے کہاں ہیں؟آئیں اور اس ملک کو بچائیں۔ آپ کی حیثیت نہیں ہے کہ آپ کو کچھ آسانیاں چاہیں، آپ کو کچھ آسامیاں چاہیں،آپ ملک کے نجات دہندہ ہیں۔آپ اس ملک کے آخری امید ہیں۔اس ملک کے باشندوں کو ہم عدل کا پیغام دیں،عقل سلیم کا پیغام دیں،خدا ترسی اور دوستی کا پیغام دیں، اور اسمیں اسکا لحاظ رکھیں کہ ہمارا وہ پیغام اسلامی عقیدہ اور ایمانی جذبہ کے ساتھ مربوط اور جڑا ہوا ہو،
بحوالہ مقالات مفکر اسلام (ج٢ ص٣٣٨)

مسلمانوں کے اقتصادی مسائل حل مفکراسلام کی تحریروں کی روشنی میں 
                
                   
پانچواں بنیادی مسئلہ اقتصادی مسئلہ ہے،اس میں تو کسی قسم کے شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں کہ سرمایہ کسی بھی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے اسی لیے تو دانشوروں نے کہا ہے کہ سمجھ دار لوگ برے دنوں کے لئے کچھ بچا کر رکھتے ہیں اور بقول مفکراسلام حضرت مولانا علی میاں" فلسفہ تاریخ اور قوموں کے عروج و زوال کی داستان کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ معاشی حالت قوموں کی فکری و ذہنی حالت اور صحت میں بڑی حد تک اثر انداز ہوتی ہے جو قوم معاشی مشکلات اور فقر و فاقہ اور اس کے نتیجے میں غذائی بد حالی، مواقع ترقی سے محرومی، مستقبل سے مایوسی، کم ہمتی اور ملک کی اہم ذمہ داریوں سے محرومی کا شکار ہوتی ہے، وہ ترقی یافتہ اور بلند ہمت قوموں کی صف سے خارج ہوکر پسماندہ اور ذلیل اور کم ہمت قوموں کی برادری میں داخل ہوجاتی ہے اس کی ذہنی و فکری صلاحیت اور دماغ اپج ختم ہو کر رہ جاتی ہے"
 بحوالہ ہندستانی مسلمان تاریخی جائزہ ص١٩٦
نہ مسلمانوں کے پاس زمین وجائیداد کی کثرت ہے اور نہ ہی دولت وثروت کی ریل پیل،انڈیا کے تمام سرکاری عہدے برادران وطن سے معمور ہیں،کانسٹبل کا عہدہ ہو یا فوج کا،مسلمانوں کی نمائندگی خال خال نظر آتی ہے،  اور اگر خوش قسمتی سے انکے حق سرکارے عہدے کا فال نیک نکل جاتا ہے تو فوری طور پر برخواست کی سازشیں کی جانیلگتی ہیں،حالانکہ مسلمانوں

«
»

بہ یاد یار مہرباں

میڈیا۔کووڈ کے بعد………..

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے