خدا را! مجھے پڑھنے دو، میں پڑھنا چاہتا ہوں

(کورونا عہد میں تقریباً ایک سال سے اسکول بند رہنے پر ایک طالب علم کے جذبات)

  ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی 

میں ایک دن حسب معمول اپنے بھائی کو سائیکل پر بیٹھاکر آلو خریدنے کے لئے سبزی منڈی جارہا تھا۔ اسکول کی عمارت کے سامنے گزرتے ہوئے اچانک میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور کچھ وقت کے لئے میں اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا کہ اس راستے سے اپنے ٹوٹے ہوئے چپل کی مرمت کرانے موچی کے پاس جاسکتا ہوں، نانی کے لئے پان خریدنے جاسکتا ہوں، اپنے چھوٹے بھائی بہن کو ہنڈولے پر جھولا جھلانے جاسکتا ہوں، اخبار کی ردّی فروخت کرنے جاسکتاہوں اور اپنی سائیکل کا پنچر جڑوانے کے لئے جاسکتا ہوں۔ غرضیکہ چھوٹے چھوٹے کام کے لئے بھی روزانہ کئی مرتبہ اس راستے سے گزرتا ہوں، نہ کوئی مجھے روکتا ہے اور نہ کوئی کورونا پھیلنے کے اندیشہ کا اظہار کرتا ہے۔ ہر وقت میرے دل میں یہ سوال چبھتا رہتا ہے کہ میں اس راستے سے اپنی امیدوں کی آماجگاہ یعنی اسکول کیوں نہیں جاسکتا؟ حالانکہ جب میں اسکول جاتا تھا تو نہاکر یا کم از کم اچھی طرح ہاتھ منہ دھوکر اور صاف ستھرے کپڑے پہن کر جاتا تھا۔ اسکول میں بھی صفائی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اساتذہ اور اسکول کی انتظامیہ بھی حکومت کی تمام ہدایات پر عمل پیرا ہونے کا عزم مصمم کرتی ہے۔ میں صبح سے شام تک گلی کے بچوں کے ساتھ گندے کپڑوں میں کھیلتا رہوں، شادی بیاہ اور پارٹیوں میں شرکت کرتا رہوں، دوستوں کے ساتھ گھومتا رہوں اور شرارت کرتا رہوں تو کوئی کورونا مجھے نہیں لگتا مگر جب اسی راستے سے کاغذ وقلم لے کر اپنے مستقبل کو سنوارنے کے لئے اسکول جانا چاہوں تو مجھے روک دیا جاتا ہے کہ تمہیں کورونا ہوجائے گا، یعنی ایسا لگتا ہے کہ کورونا ساری دنیا سے نکل کر صرف اور صرف اسکول کے دروازے پر چپک کیا گیا ہے۔
 جب کوئی شخص اسکول کھلنے کی بات کرتا ہے تو میرا دل باغ باغ ہوجاتا ہے کہ میں اب جلدی ہی اسکول جاکر خوب دل لگاکر پڑھوں گا، مگر تبھی اعلان آجاتا ہے کہ سروے سے معلوم ہوا کہ بچوں کے والدین کی اکثریت کورونا کے خوف سے اسکول بھیجنے کے لئے تیار نہیں ہے اس لئے اسکول ابھی بند ہی رہیں گے۔ اس خبر سے رنجیدہ ہوکر میں اپنے تمام ساتھیوں اور ساتھیوں کے دوستوں کے پاس جاکر معلوم کرتا ہوں کہ کیا تمہارے والدین تمہیں اسکول بھیجنے کے لئے تیار نہیں ہیں، مگر سب سے ایک ہی جواب ملتا ہے کہ ہمارے والدین اسکول نہ کھلنے سے تنگ آگئے ہیں اور وہ یہی چاہتے ہیں کہ پہلی فرصت میں اسکول کھل جائیں تاکہ بچوں کے تعلیمی نقصان کی تلافی کے لئے کوششیں شروع کی جائیں۔ میں ایسے والدین سے ملاقات کا خواہشمند ہوں جو کورونا وبائی مرض میں بازار، بارات گھر، کھیل کے میدان، سینما گھر، پارک، میلے، سیاسی ریلی، روڑ شو اور پکنک وغیرہ کے لئے اپنے بچوں کو بھیجنے کے لئے تیار ہیں مگر کورونا کے خوف سے اسکول بھیجنا نہیں چاہتے، مگر تلاشِ بسیار کے باوجود مجھے ابھی تک کوئی ایک ایسا شخص نہ مل سکا۔ 
سرکار بھی یہ کہہ کر اپنا دامن جھاڑ لیتی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی تو اسکول وکالج بند ہیں اور وہاں پر بھی صرف آن لائن تعلیم پر اکتفا کیا جارہا ہے اور مستقبل میں بچوں کو نئی ٹکنالوجی سے ہی آگے بڑھنا ہے۔ مگر میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ہمارے ملک کے بچوں کا امریکہ اور مغربی ممالک کے بچوں سے مقابلہ کیسے کیا جاسکتا ہے؟ کیونکہ ترقی یافتہ ممالک میں طلبہ وطالبات کو جو تعلیمی سہولیات فراہم ہیں ان کا تصور کرنا بھی ہمارے لئے ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں بڑے وثوق کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ تقریباً ۵۲ فیصد میرے ساتھیوں کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہوگیا ہے اور اب وہ چائے کی دکان پر چائے بنارہے ہیں یا اپنے والد کے کام میں ہاتھ بٹارہے ہیں یا ایسے ہی گھوم رہے ہیں۔ غرضیکہ ان کے والدین کا اپنے بچوں کو افسر یا پروفیسریا ڈاکٹر یا انجینئر بنانے کا خواب چکنا چور ہوچکا ہے۔ یہ تو میرے اُس شہر کا حال ہے جہاں اوسط درجہ کی تعلیمی سہولیات دستیاب ہیں۔ دیہات کے بچوں کی اچھی خاصی تعداد پورے سال کتاب کا ایک ورق بھی نہ پڑھ سکی اور اب انہیں پڑھنے پڑاھنے کی گفتگو بھی اچھی نہیں لگتی۔ مجھے خدشہ ہے کہ اگر تعلیمی اداروں کے بند رہنے کا سلسلہ مزید جاری رہا تو تعلیم کو خیر آباد کہنے والے بچوں کی تعداد کافی زیادہ ہوجائے گی، جس سے ملک میں نا خواندگی کی شرح میں غیر معمولی اضافہ ہوجائے گا۔ ایک طرف دنیا خاص کر ہمارا ملک اقتصادی بحران سے دوچار ہے جس کی وجہ سے لوگوں کے مالی حالات بہت زیادہ خراب ہیں، دوسری طرف جہالت بھی بڑھ جائے گی۔ ہمیں تو یہی پڑھایا گیا ہے کہ جہالت اور معاشی بحران سے دوچار لوگوں کی کثرت سے ملک کے امن وسکون اور شانتی میں خلل پڑتا ہے۔ 
اسکول تقریباً ایک سال سے بند ہیں، صرف آن لائن تعلیم جاری ہے، آن لائن تعلیم درسگاہ کا بدل تو نہیں ہوسکتی مگر موجودہ صورت حال میں اس کے علاوہ ہمارے پاس چارہ کیا ہے۔ تعلیمی عزائم ومقاصد کو پورا کرنے والوں کا اس وقت آن لائن تعلیم کو یہ کہہ کر خیر آباد کہنا عقلمندی نہیں ہے کہ آن لائن تعلیم سے کیا حاصل ہے کیونکہ جن بچوں نے آن لائن تعلیم جوائن نہیں کی، اُن کی تعلیمی حالت بد سے بدتر ہوگئی۔ میں اپنے دوستوں سے بار بار یہی کہہ رہا ہوں کہ اگر آپ کے گھر سمارٹ فون موجود نہیں ہے تو کم از کم ٹیوشن اور گھر پر تعلیم جاری رکھتے ہوئے اپنے اساتذہ اور اسکول کی انتظامیہ سے ضرور رابطہ میں رہیں ورنہ تعلیمی زندگی بالکل تباہ ہوجائے گی اور پھر افسوس ہی کرنا ہوگا۔
اسکول کی جانب سے آن لائن تعلیم جوائن کرنے کی بار بار ترغیب آتی رہی لیکن میرے بعض ساتھیوں کے والدین یہی سمجھتے رہے کہ یہ تو اسکول والے فیس وصول کرنے کے لئے صرف حیلہ کررہے ہیں۔ اب جبکہ پورا سال ایسے ہی گزر گیا اور اپریل سے نئے تعلیم سال کے آغاز کے متعلق کوئی واضح ہدایات حکومت کی طرف سے ابھی تک نہیں آئیں تو کچھ والدین کو فکر ہوئی مگر تاخیر ہوگئی، اب میرے اُن ساتھیوں کو پڑھنے میں مزہ نہیں آرہا، اُن کے لئے تعلیم بوجھ بن رہی ہے۔ 
زرا آپ بھی سوچیں کہ جس وقت کورونا وبائی مرض اپنے شباب پر تھااور اسکول جانا تو درکنار گھر سے باہر نکلنا بھی جرم تھا چنانچہ گھر سے باہر نکلنے والوں پر پولیس لاٹھی چارج کرتی تھی مگر اُسی وقت سرکاری اعلان کے مطابق شراب کی دوکانیں کھول دی گئیں حالانکہ طبی ماہرین کے مطابق ملک میں فروخت ہونے والی شرابیں لوگوں کی صحت کے لئے انتہائی مضر ہیں۔ شراب کی دکانیں کھولنے کے لئے نہ تو لوگوں سے رائے لی گئی اور نہ ہی ٹی وی چینلوں پر اس کے لئے کوئی بحث ومباحثہ ہوا اور نہ ہی اس کے لئے کوئی تحریک چلانی پڑی۔ جس وقت شراب کی دوکانیں کھولی گئی تھیں تمام ہدایات کی دھجیاں اڑاکر ہزاروں افراد کی بھیڑ جمع ہوئی تھی مگر مرکزی اور صوبائی حکومتیں اپنے مفادات کے لئے خاموش تماشائی بنی رہیں۔ غرضیکہ حکومت کو اپنے فائدہ کے لئے شراب پینے والوں کا تو خیال ہے مگر طلبہ وطالبات کے مستقبل سے کھلواڑ کیا جارہا ہے۔ آپ خود ہی بتائیں کہ اگر بچے ایک سال تک اسکول سے منسلک نہیں رہیں گے تو کیا تعلیمی اعتبار سے بچوں کی ریڑھ کی ہڑی باقی رہے گی کہ اُس کے بعد انجینئر یا ڈاکٹر بننے کی ان کی آرزو کبھی پوری ہوسکے۔ 
کورونا وبائی مرض کی موجودگی میں بہار میں اسمبلی الیکشن ہوا، جس میں سیاسی پارٹیوں نے بڑے بڑے جلسے اور روڑ شو کرکے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ ایک دن میں کئی کئی ریلیاں کرکے ریکارڈ بنایا گیا۔ بنگال میں آئندہ الیکشن کی تیاری کے لئے ملک کے وزیر داخلہ امت شاہ کا روڑ شو ہوا اور اس کے بعد بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی کا بھی روڑ شو ہوا۔ جموں وکشمیر میں پنچائتی الیکشن کا انعقاد کیا گیا اور حیدر آباد میں میونسپل بورڑ کے انتخابات عمل میں آئے جن میں سیاسی پارٹیوں نے جیت حاصل کرنے کے لئے اپنی پوری طاقت جھونکی۔ غرضیکہ کورونا سے متعلق قوانین وہدایات کی پامالی کرکے ملک کے طول وعرض میں سیاسی اجتماعات ہوتے رہے جس میں بچوں نے بھی شرکت کی، مگر کسی کو کورونا پھیلنے کا کوئی خوف نہیں ہوا۔ افسوس صد افسوس! اسکول میں بچوں کی آمد کو کورونا کے پھیلنے کا سب سے بڑا سبب سمجھا جارہا ہے، حالانکہ معتبر رپورٹ کے مطابق ہمارے ملک میں کورونا وبائی مرض میں بچوں کے مبتلا ہونے کے واقعات بہت کم ہیں۔ 
ایک طو یل عرصہ گزرنے کے بعد بعض صوبائی حکومتوں کو تو فیق ہوئی کہ انہوں نے ۹ویں جماعت سے ۲۱ ویں جماعت کے طلبہ وطالبات کو شرائط کے ساتھ اسکول آنے کی اجازت دی مگر ۸ ویں جماعت کے بچے ابھی بھی اسکول جانے کے لئے ترس رہے ہیں، والدین بھی بچوں کی حرکتوں سے تنگ آگئے ہیں، مگر اس طرف نہ تو حکومت اور نہ ہی دیگر سماجی ورفاہی تنظیمیں اور انجمنیں توجہ دے رہی ہیں۔ حالانکہ سبھی لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر بچوں کی ابتدائی تعلیم کمزور رہ گئی تو اس کی تلافی پوری زندگی ممکن نہیں ہوسکتی، جس کا نتیجہ واضح ہے کہ طلبہ آگے اپنے تعلیمی سفر کو جاری نہیں رکھ سکیں گے۔ اس طرح لاکھوں بچے تعلیم چھوڑ کر چائے اور پکوڑی کی دکان پر کام کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ اخباروں میں شائع شدہ مضامین پڑھ کر معلوم ہوا کہ حکومتیں بھی اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے ایسے اقدامات کرتی ہیں۔ مجھے اس بات پر یقین تو نہیں آرہا مگر بزرگ لوگ تجربات کی روشنی میں ہی ایسی قیمتی باتیں تحریر کرتے ہیں۔ ممکن ہے کہ اسکول کھلنے سے بعض بچوں کے کورونا مرض میں مبتلا ہونے کے چانس ہوں، مگر جب اس مرض کے خاتمہ سے قبل ہی ساری چیزیں کھول دی گئیں تو تعلیم کے لئے اسکولوں کو بھی کھولنا چاہئے جو بچوں کا سب سے بڑا حق ہے۔ ہمارے ملک میں کورونا ٹیسٹ میں پوزیٹب آنے والے ۸۹ فیصد سے زیادہ مریض کسی دوا یا ویکسین کے بغیر صحیح ہوگئے اور مرنے والوں کا تناسب ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ مرنے والوں میں بھی بڑی تعداد وہ ہے جو بلڈ پریشر یا شوگر جیسے کسی دائمی مرض میں مبتلا تھی۔ 
مجھے سماجی خدمات انجام دینے والے افراد سے بھی شکوہ ہے کہ وہ کورونا کے ابتدائی دور میں پرائیویٹ اسکولوں میں فیس معافی کے لئے تو افسران کے پاس میمورنڈم دینے کے لئے جاتے تھے اور فوٹو سوشل میڈیا پر شیئر کرتے تھے لیکن پورا سال گزرنے کوآگیا وہ حضرات ایک مرتبہ بھی اسکول کھولنے کے لئے کوئی میمورنڈم دیتے نظر نہیں آئے۔ بھلا آپ ہی بتائیں کہ پرائیویٹ اسکول فیس کے بغیر کیسے چل سکتے ہیں۔ ہاں پرائیویٹ اسکولوں کی انتظامیہ سے میری اپیل ہے کہ لوگوں کے اقتصادی حالات ابھی تک خراب ہیں، اس لئے انہیں رعایت دینی چاہئے۔ میرے پڑوس میں ایک اسکول (النور پبلک اسکول، سنبھل) گزشتہ سال ہی قائم ہوا ہے۔ اس میں ابتدا سے ہی اسکول میں آن لائن سلسلہ جاری ہے۔ بچوں کی کاپیاں بھی چیک کرنے منگوائی جاتی ہیں۔ بچوں کی فیڈ بیک لینے کے لئے والدین کو وقتاً فوقتاً فون بھی کیا جاتا ہے۔ تمام امتحانات بھی وقت پر ہورہے ہیں۔ وہاں کے اساتذہ بھی خوش نظر آتے ہیں، اس لئے مجھے یقین ہے کہ انہیں تنخواہ بھی وقت پر مل رہی ہوگی۔ ان سب کے باوجود اسکول کی انتظامیہ نے اپریل سے دسمبر تک ۹ ماہ کے بجائے صرف ۳ ماہ کی فیس وصول کی ہے۔ اللہ تعالیٰ النور پبلک اسکول کو دن دو گنی اور رات چار گنی ترقی عطا فرمائے۔ آمین۔
میں ایک طالب علم ہوں اور پڑھ لکھ کر ملک اور قوم وملت کی خدمت انجام دینا چاہتا ہوں، مگر کورونا وبائی مرض کی سب سے زیادہ مار میری تعلیم پرپڑی ہے۔ اسکول تو درکنار کالج اور یونیورسٹیاں بھی بند کردی گئی ہیں۔ لہذا میں سرکار سے اپیل کرتا ہوں کہ جس طرح میں بازار، منڈی، پارک، شادی گھر، بس اسٹاپ، ایک شہر سے دوسرے شہر بلکہ ایک ملک سے دوسرے ملک جاسکتا ہوں، غرضیکہ میں کسی تاریخی مقام کو صرف دیکھنے کے لئے بھی جاسکتا ہوں تو مجھے اسکول جانے کی بھی اجازت دی جائے تاکہ میں اپنے مستقبل کو بنانے کی تیاری میں مصروف ہوجاؤں کیونکہ تعلیم میری اور ہر بچہ کی سب سے اہم ضرورت ہے اور تعلیم کے بغیر کوئی بچہ کامیابی کے منازل طے نہیں کرسکتا ہے۔ 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

«
»

ویلما روڈولف: ایک معذور لڑکی جس نے تاریخ رقم کی!

2020: پوچھ اپنی تیغ ابرو سے ہماری سرگزشت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے