چراغ بجھتےجارہےہیں، تاریکی بڑھتی جا رہی ہے

 

 

تحریر: محمد غفران قاسمی

استاذ جامعہ اسلامیہ مظفرپور اعظم گڑھ

 

             موت ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جسکا نوالہ ہر کسی کو بننا ہے ، کوئی جاندار اس روئے زمین پر ایسا نہیں آیا جسے موت سے سابقہ نہ پڑے ، اس دنیا کی ہر چیز فانی ہے ، کسی چیز کو قرار نہیں، جو بھی اس دنیا میں آیا اسے فنا کے گھاٹ اترنا پڑیگا ، ایک دن یہ دنیا چھوڑنی پڑیگی ، قرآن پاک میں خدائے وحدہ لا شریک لہ نے ارشاد فرما دیا ہے کل شیئ ھالک الا وجھہ خدائے پاک کے سوا کوئی چیز دائمی اور ابدی نہیں ، سب کچھ وقتی ہے،کب مٹ جائیگی ؟ کچھ کہا نہیں جا سکتا ، کسی چیز کی کوئی گارنٹی نہیں ، پہر بھی انسان ہے بہت غافل ، اس کے منصوبے ہیں کہ بنتے ہی رہتے ہیں ، ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے ، آرزوئیں ہیں کہ نت نئی نئی شکلیں اختیار کرتی رہتی ہیں جبکہ زندگی کا کچھ بھروسہ نہیں ،

 

 کیا بھروسہ ہے زندگانی کا 

آدمی  بلبلہ  ہے  پانی کا

 

بلبلہ کا کیا ٹھکانہ اٹھتا ہے اور ختم ہو جاتا ہے ، ادھر سر اٹھایا ادھر ختم ، بس پلک جھپکنے کی دیر ہوتی ہے،ایک اچھا خاصا چلتا پھرتا انسان یوں اچانک اس دار فانی کو الوداع کہ جاتا ہے کہ لوگ مبہوت ہو جاتے ہیں ، سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کیا ہوگیا ، ایسے ہی موقع پر زندگی کی بے ثباتی پوری طرح آشکارا ہو جاتی ہے ، وہی انسان جو اب تک  چل پہر رہا تھا ، بات چیت کر رہا تھا، بالکل خاموش بے حس و حرکت ہو جاتا ہے ، اب کوئی اسے کتنا ہی پکارے لیکن جواب نہیں مل سکتا ، جو جسم اب تک ترو تازہ تھا اب اس کی تازگی فنا ہوگئی ، اب اسے نکھرنا نہیں بکھرنا ہے ، ختم ہونا ہے، اور مٹی میں مل جانا ہے۔

 

  زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب

موت  کیا ہے انہیں اجزا  کا پریشاں ہونا

 

ویسے تو آئے دن بہت سی موتیں ہوتی رہتی ہیں ، لوگ اس دنیا کو داغ مفارقت دیکر جاتے رہتے ہیں ، غم ہر کسی کے جانے پر ہوتا ہے ، سوگ سب کا منایا جاتا ہے، لیکن ان کا دائرہ بہت محدود ہوتا ہے ، اس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد بہت قلیل ہوتی ہے ، لیکن کچھ موتیں ایسی ہوتی ہیں جن سے ایک عالم سوگوار ہوجاتا ہے ، غم کی ایک ایسی لہر اٹھتی ہے جو نہ جانے کتنے لوگوں کو گھائل کر جاتی ہے، کتنے دل غم و اندوہ سے کراہ اٹھتے ہیں ، لوگوں کی چیخیں نکل جاتی ہیں، آنکھوں سے اشک رواں ہو جاتے ہیں، کائنات کا ذرہ ذرہ بلک بلک کر رو پڑتا ہے، جدھر دیکھئے غمزدہ چہرے جہاں جائیے شکستہ دل لوگ ہی ملتے ہیں ، ہر کوئی تعزیت کا مستحق نظر آتا ہے ، سب کے جگر پاش پاش ہوتے ہیں، سب کا دل خون کے آنسو رو رہا ہوتا ہے، گیا صرف ایک ہوتا ہے، لیکن محسوس یوں ہوتا ہے جیسے پورا شہر چلا گیا ہو ، ہر طرف ویرانی چھا جاتی ہے، ایک مہیب سناٹا پھیل جاتا ہے، وہی دنیا ہوتی ہے، دنیا کی ہر چیز وہی ہوتی ہے مگر پہر بھی کچھ خالی خالی لگتا ہے ، کسی چیز کی کمی محسوس ہوتی ہے ، بجا فرمایا ہے کسی نے

 

وہی میکدہ ہے مگر سونا سونا 

وہی جام و مینا مگر خالی خالی

        اور          

بچھڑا وہ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی   

اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

 

سال ۲۰۲۰ کو اگر غم کا سال کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا ، بہت سے اساطین علم و فن جو اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، جنکا وجود دنیا کیلئے باعث خیر تھا ، جن کے آلہائے نیم شبی سے رحمت خداوندی ٹوٹ کر برستی تھی ، جنکی دعاؤں کی برکت سے آفتیں اپنا رخ تبدیل کر لیتی تھیں ، جو منجدھار میں پہنسی ہوئی کشتئی امت کے منجھے ہوئے ناخدا تھے، جنہیں حالات سے نبرد آزما ہونے کا ہنر معلوم تھا ، جنکا وجود ہی امت کیلئے ڈھارس کا باعث تھا ، جنکی مجلسوں میں تشنہ کامان علم کیلئے تسلی و سیرابی کا سامان وافر مقدار میں موجود تھا ، جن کے لبوں کو جنبش ہوتی تھی تو علم کا دریا رواں ہو جاتا تھا، جنکی بزم سجتی تو علم کے آبدار موتی اس سخاوت سے لٹائے جاتے کہ بٹورنے والے مالا مال ہو جاتے ، جنہیں پڑھنے پڑھانے سے عشق تھا ، جو نونہالان امت کی علمی پیاس بجھانے کو اپنا فرض منصبی سمجھتے تھے ، جو کتابوں کی دنیا میں چلے جانے کے بعد اس طرح خوش ہوتے تھے جیسے انہیں ہفت اقلیم کی دولت ہاتھ لگ گئی ہو ، جو کسی کتاب کا مطالعہ شروع کرتے تو اس میں ایسے ڈوب جاتے جیسے انہیں اور کوئی تقاضہ ہی نہ ہو ،جنکا علم نہایت پختہ اور ایسا مستحضر تھا کہ تجربہ کرنے والے عش عش کر اٹھتے، اور دل سے داد دینے پر مجبور ہو جاتے ، جن کے قوت حافظہ اور یاد داشت پر رشک آتا تھا ، جو تھے تو اسی دنیا کے باسی لیکن اس سے یکدم الگ تھلگ ، بقدر ضرورت اس سے واسطہ رکھنا جنکی عادت ثانیہ بن چکی تھی۔ 

 

ہمیں دنیا سے کیا مطلب مدرسہ ہے وطن اپنا

مریں گے ہم کتابوں پر ورق ہوگا کفن اپنا

              

جنہونے خدمت علم دین کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ، اور تمام الجھنوں سے دامن بچاتے ہوئے اسی میدان کے ہو کر رہ گئے ، حالات آئے ، مشکلوں نے ستایا ، بہت سی رکاوٹیں آئیں جنہونے ان کا رخ اور ان کی سوچ بدلنی چاہی ، لیکن ناکام رہیں ،خدمت علم دین کا جو عظیم فریضہ انہونے اپنے کندھے پر اٹھا لیا تھا تا زندگی پوری یکسوئی اور جانفشانی کے ساتھ اسی میں لگے رہے۔

 

کیا لوگ تھے جو راہ وفا سے گذر گئے

جی چاہتا ہے نقش قدم چومتا چلوں  

جن کے اخلاق اتنے عمدہ اور سیرت اتنی دلکش تھی کہ جس کا ان سے واسطہ پڑا ان کا اسیر ہوگیا ،جن کا کردار اتنا پاکیزہ تھا کہ جو ملا سو سو جان سے نثار ہو گیا ، جن کو ہمیشہ اسی بات کی فکر رہتی تھی کہ کسی کو ان سے اذیت نہ  پہنچے، جن پر سب کو راحت پہنچانے کی دھن سوار رہتی تھی، جنہیں طالبان علوم نبوت کو تراش خراش کر امت مسلمہ کی خدمت کیلئے تیار کرنے کی فکر اس طرح رہتی تھی جیسے وہ ان کی اپنی اولاد ہوں ، ایسے قدسی صفات علماء ربانیین کے فیض سے ہم محروم ہوئے جا رہے ہیں، افسوس تو اس بات کا ہے کہ یہ مقدس ہستیاں یکے بعد دیگرے اس طرح اس دار فانی کو الوداع کہ رہی ہیں جیسے کوئی دھاگہ ہو جس میں موتی پروئے ہوئے ہوں اور دھاگے کی گرہ کھل گئی ہو جس سے موتی یکے بعد دیگرے گر رہے ہوں ابھی ایک صدمہ سے ہم نہیں نکل پاتے کہ دوسرا اس سے بھی بھاری صدمہ پیش آ جاتا ہےعلم کی بزم ہے کہ سونی ہوئی جا رہی ہے، انگشت بدنداں ہے کس کس کا ماتم کرے، کس کس کو روئے، اور کتنا روئے، کیسے ضبط کرے، ایسے ایسے رفقاء دیرینہ سے جدائی کا کرب ناک صدمہ اسے جھیلنا پڑ رہا ہے جو اس کی زینت کی ضمانت تھے، جن کی علمی نکتہ سنجیوں پر اس نے ایک طویل عرصہ تک سر دھنا تھا، مست ہو ہو کر جھومی تھی، آج وہی لوگ اسے اس طرح ایک کے بعد ایک چھوڑتے جا رہے ہیں، اس کا جگر ہے کہ چھلنی ہوا جا رہا ہے، اس بات کا اندیشہ اسے کھائے جا رہا ہے کہ کہیں وہ ایسے علم کے شناوروں سے یکدم خالی نہ ہو جائے، اور ان کی جگہ ایسے لوگ نہ لے لیں جو اس کی تابناک پیشانی پر دھبہ لگائیں، اس کے صاف شفاف اجلے چہرے پر بد نما داغ بن جائیں، وہ کرے تو کیا کرے، اسے کچھ سجھائی نہیں دیرہا ہے، اس کی بیچارگی تو دیکھئے کہ انہیں چاہ کر بھی روک نہیں سکتی، اس کا بس چلتا تو وہ ان میں سے کسی کو بھی نہ جانے دیتی ،موت کے پنجہ سے چھین لاتی، لیکن یہ اس کی بے بسی ہے کہ وہ دل مسوس کر اپنے ان ستودہ صفات یاران باصفا کو یوں ساتھ چھوڑ کر جاتے ہوئے دیکھتی رہ جا رہی ہے، اور ماتم کناں ہے کہ ۔

 

 جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں

  کہیں سے آب بقائے دوام لا ساقی

 

  اسے رہ رہ کر حدیث پاک یاد آ رہی ہے کہ دو جہاں کے سردار جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالی علم کو دنیا سے اس طرح نہیں اٹھائیگا کہ اہل علم رات کو سوئیں اور صبح بیدار ہوں تو ان کے سینے جو علم کے گنجینے تھے بالکل خالی ہو جائیں، علم رخصت ہوجائے، بلکہ اس طرح اٹھائے گا کہ اہل علم ایک ایک کرکے اٹھتے جائیں گے ،اور ان کی جگہ لینے والا کوئی نہ ہوگا، پہر جب تمام اہل علم اٹھا لئے جائیں گے، تو لوگ جاہلوں کو اپنا سردار بنا لیں گے، اور ان سے مسائل پوچھیں گے، وہ ان کو غلط مسئلہ بتا کر ایسے ہی گمراہ کریں گے جیسے وہ خود گمراہ ہیں۔

 

    یہ حدیث اسے بار بار یاد آ رہی ہے، اور اس کا کلیجہ پھٹاجارہا ہے کہ میرا کیا ہوگا جب مجھ پر ایسے جاہل لوگ قابض ہو جائیں گے، جو میری نیک نامی کا خاتمہ کرکے مجھے بدنام کر دیں گے، یہی چیز ہے جو اس کیلئے سوہان روح بنی ہوئی ہے، یہ عجیب و غریب صورتحال ہے کہ علم کی محفلیں سونی ہوتی جارہی ہیں، اور یہ سوناپن انہیں کتنا کھل رہا ہوگا، کتنا تڑپا رہا ہوگا، کیسا لگتا ہوگا جب اس کی غمزدہ نگاہیں اس جگہ پڑتی ہونگی جہاں کبھی یہ علم کے بحر بے کراں جلوہ افروز ہوتے رہے ہونگے ، جہاں بیٹھ کر وہ معرکۃ الآرا علمی بحثیں ذکر کرتے رہے ہونگے ، خدائے پاک کی بارگاہ میں وہ گڑ گڑا رہی ہوگی کہ خدایا اس خالی نشست کو کسی مناسب علمی شخصیت کی جلوہ سامانیوں سے با رونق فرما، خدا کرے کہ اس کی یہ دعا بارگاہ ایزدی میں شرف قبولیت حاصل کرے، اور یہ سوناپن ختم ہو، وہ یہ بھی دعا کر رہی ہوگی کہ اے بار الہا اب جو بچے کھچے رفقاء ہیں ان کی مصاحبت سے مجھے محروم نہ کر ، ان کا فیض ابھی جاری رکھ ، تیرے وہ بندے جو ان سے فیض یاب ہو رہے ہیں، انہیں کچھ اور موقع نصیب کر دے ان سے فیض اٹھانے کا ، خدا کرے کہ اس کی یہ دعا بھی مقبول ہو اور بزرگان دین کے جانے کا یہ سلسلہ تھمے۔       

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

«
»

ماہنامہ پھول سے ادارہ ادب اطفال تک (قسط ۲)

مرکز تحفظ اسلام ہند کی فخریہ پیشکش ”سلسلہ عقائد اسلام“ کا آغاز!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے