حیدرآباد الیکشن۔ مجلس کا دبدبہ برقرار۔ٹی آر ایس جیت کر ہار گئی؟

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویزحیدرآباد

    حیدرآباد بھی آخرکار زعفرانی سائے میں آگیا۔ بلدی انتخابات میں اگرچہ کہ ٹی آر ایس اور مجلس نے کامیابی حاصل کی مگر بی جے پی کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے اِن دونوں جماعتوں کو اپنی کامیابی کا جشن منانا چاہئے یا نہیں‘ ایک سوالیہ نشان ہے؟ مجلس کو تو زیادہ نقصان نہیں پہنچا مگر بی جے پی نے اس سے سبقت حاصل کرلی۔ اس سے بڑا نقصان اور کیا ہوسکتا ہے۔ مجلس کو ایک نشست سے محرومی کے باوجود مجموعی طور پر کوئی نقصان نہیں ہوا۔ ٹی آر ایس 40فیصد سے زائد نشستوں سے محروم ہوئی۔ اور 2016ء میں صرف 4نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے والی بی جے پی نے 10گنا سے زائد47 نشستیں حاصل کرکے یہ اشارہ دے دیا کہ اگلے انتخابات میں وہ حیدرآباد پر قبضہ کرسکتی ہے۔ ٹی آر ایس کو سب سے زیادہ نشستیں آنے کے باوجود اگر 40سے زائد نشستوں پر نقصان ہوتا ہے تو ٹی آر ایس کی صفوں میں مایوسی، انتشار پیدا ہونا فطری ہے‘ بلکہ عنقریب کئی ارکان ٹی آر ایس سے بی جے پی میں شامل ہوکر حیدرآباد کا میئر بننے کے خواب کو پورا کرسکتے ہیں۔ ٹی آر ایس جیت کر بھی کیوں ہاری اور بی جے پی نے اپنی گرفت مضبوط کیسے کرلی؟ اس سوال کا جواب کوئی بھی دے سکتا ہے۔ ٹی آر ایس تو یقینی طور پر ترقیاتی اقدامات کئے۔ سرکاری ملازمین کو سہولتیں دیں‘ پولیس کے اختیارات اور وسائل میں اضافہ کیا۔ وظیفہ کی عمر کی حد میں دو سال توسیع کی۔ وظیفہ خواروں کو کئی سہولتیں فراہم کیں اس کے باوجود یہ سوال یقینا دعوت فکر دیتا ہے کہ سرکاری ملازمین کی ایک بڑی تعداد ٹی آر ایس کو نظر انداز کیا۔ پوسٹل بیالٹس کی گنتی کے دوران اس کا اندازہ ہوگیا جو سرکاری ملازمین کی جانب سے روانہ کئے جاتے ہیں‘ جب پوسٹل بیالٹس کی گنتی ہورہی تھی‘ تب 80وارڈس میں بی جے پی کو سبقت حاصل تھی۔ جس سے سرکاری ملازمین کے رجحان کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ بی جے پی کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس نے جس طرح سے پارلیمنٹ میں 40سال کے عرصہ میں دو نشستوں سے 300سے زائد نشستوں کا ٹارگٹ حاصل کیا اُسی طرح مجلس بلدیہ  حیدرآباد میں بھی بی جے پی نے رفتہ رفتہ پختہ باشد کے مصداق اپنی طاقت کو بڑھایا۔ تعلیم یافتہ اور نوجوان طبقہ پوری طرح سے بی جے پی کی حمایت میں ہے۔ بی جے پی کی کامیابی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ اس سے دوسری جماعتوں کو سبق لینا چاہئے‘ کس طرح سے پارٹی کا ہر کارکن ایک دوسرے سے ربط میں ہے۔ کس طرح سے ان کے مختلف شعبے کام کررہے ہیں۔ کس طرح سے ان کے مرکزی قائدین اپنی پارٹی کے مفاد اور اپنے نصب العین کی تکمیل کے لئے ذاتی طور پر قربانیاں دیتے ہیں۔ انہوں نے اقتدار حاصل کرنے کے لئے ہاتھ آیا کوئی موقع نہیں چھوڑا۔ جس طرح بعض ریاستوں میں بی جے پی کی کامیابی کے بعد یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ نوٹ بندی، جی ایس ٹی، بلکہ اس وقت کسانوں کا احتجاج کا عام ووٹر پر کوئی اثر نہیں ہوتا‘ یہ بات ان کے ذہن نشیں ہوچکی ہے کہ مسائل تو آتے رہیں گے‘ جو اقتدار پر ہے جیسا بھی ہے‘ ان کے قابل قبول ہے‘ کیوں کہ اس نے کم از کم ایک مخصوص فرقہ کو کچل کر رکھ دیا۔ انہیں مسائل ئکا شکار بنادیا۔ بی جے پی کی کامیابی میں کانگریس اور دوسری جماعتوں کا بھی بڑا اہم رول ہے۔ حیدرآباد میں کانگریس ایک عرصہ سے ختم ہوچکی تھی۔ اُتم کمار ریڈی نے تلنگانہ پردیش کانگریس کمیٹی کی صدارت سے استعفیٰ دیا اگر بلدی انتخابات سے پہلے وہ مستعفی ہوتے ان کی جگہ کوئی حرکیاتی لیڈر پارٹی کی قیادت سنبھالتا تو شاید تھوڑی بہت عزت بچ جاتی۔ اسمبلی الیکشن ہو یا پارلیمانی‘الیکشن کانگریس نے زمینی سطح پر کام کرنے کے بجائے بقول غلام نبی آزاد فائیو اسٹار کلچر اختیار کیا۔ فائیو اسٹار ہوٹلس میں منتخب افراد کے درمیان تقاریر کرلینے سے کوئی بھی الیکشن جیتا نہیں جاسکتا۔ بلدی انتخابات میں کانگریس کے ووٹس بھی ٹی آر ایس کی مخالفت میں بی جے پی کو ملے۔اور بہت ساری جماعتوں کے ووٹس بھی۔ سیاسی مخالفت اس قدر شدت اختیار کرلیتی ہے کہ اس میں نہ تو سیکولر کردار کا تحفظ مقصد رہ جاتا ہے۔ نہ ہی اپنی پارٹی کے وقار کا احساس باقی رہتا ہے۔ کانگریس کم از کم تلنگانہ اور حیدرآباد میں ونٹی لیٹر پر ہے۔ اسے نئی زندگی ملے گی یا بی جے پی کانگریس مکت بھارت کے عزائم میں کامیاب ہوجائے گی‘ یہ بہت جلد پتہ چل جائے گا۔قومی سطح پر کانگریس سے شیرازہ بکھر چکا ہے۔ 
    ٹی آر ایس کے لئے اگلی منزل کے لئے کٹھن راہوں سے گزرنا ہوگا۔کے سی آر اور کے ٹی آر کے بارے میں یہ شکایت عام ہے کہ عام آدمی تو دور کی بات ہے‘ان کی پارٹی کے ارکان اسمبلی سے تک ملاقات نہیں کرتے۔ انہیں اب اپنا جائزہ بڑی سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ کیوں کہ سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے باوجود ٹی آر ایس کیڈر میں مایوسی اور دوسری مقام پر پہنچنے والی بی جے پی کی صفوں میں نیا جوش اور ولولہ ہے۔
    جہاں تک مجلس کا تعلق ہے‘ اس نے 51امیدوار میدان میں اُتارے۔44پر کامیابی حاصل ہوئی‘ پہلے بھی 44نشستیں تھیں۔ حالانکہ بی جے پی کے مرکزی قائدین کی زہریلی تقاریر کے بعد مجلس کے ووٹرس میں جوش اور ولولہ پیدا ہونا چاہئے تھا‘ بی جے پی قائدین نے عام ٹی آر ایس اور کانگریس کے ووٹرس کو بی جے پی کا ووٹرس بنانے میں کامیابی حاصل کی۔ مجلسی قائدین اپنے ووٹرس کی تعداد بڑھانے میں پوری طرح سے کامیاب نہیں ہوئے۔ یہ ان کاقصور نہیں ہے‘ بلکہ مسلم قوم کا المیہ ہے۔ جس قوم پر شہریت ترمیمی بل قانون، این پی آر، این آر سی کی تلواریں لٹک رہی ہوں‘ جن کی قوم پرستی وطن سے وفاداری پر ہر لمحہ شک کیا جاتا ہو۔ جنہیں بار بار یہ احساس دلایا جارہا ہے کہ وہ اپنے جمہوری اور دستوری حقوق کا استعمال کرے‘ وہ قوم خواب غفلت میں رہے‘ تو اس قوم کے حاکم سے محکوم اور عادل سے مظلوم ہوجانے پر کون افسوس کرے گا!!
     انتہائی افسوس اور شرم کی بات ہے کہ ہر الیکشن میں مسلم ووٹرس کی تعداد گھٹتی جارہی ہے۔ اور یہ ہمارے لئے خطرے کی علامت ہے۔ کاش! اسے سمجھنے کی کوشش کی جاسکے۔ اور کوئی سمجھانے والا پیدا ہوجائے۔ مسلم قوم کا ایک اور المیہ یہ بھی ہے کہ ایک اُبھرتی ہوئی طاقت کو کمزور کرنے کے لئے کئی طاقتیں ایک ہوجاتی ہیں۔ دوسری طرف نظریاتی، طبقاتی اختلافات کے باوجود آپ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کرنے والے بظاہر ایک دوسرے کی مخالفت کرتے ہیں۔ مگر جب وقت آتا ہے تو سب اس طاقت کو اور مضبوط کرنے کے لئے صرف ایک دن کے لئے ایک ہوجاتے ہیں۔ ہندوستان کی موجودہ سیاست‘ اس کی مثال ہے۔ مجلس نے دانشمندی کا کام کیا۔ انہی حلقوں سے امیدوار اُتاری جہاں سے کامیابی کا یقین تھا۔ اس کے باوجود دو نشستوں سے محرومی ہوئی ہے۔اب انہیں نئے سرے سے کام کرنے کی ضرورت ہوگی۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر بیرسٹر اسدالدین اویسی حیدرآباد کے ناقابل تسخیر طاقت ہے۔ یہ امیج برقرار رکھنا ضروری ہے۔ نیشنل میڈیا جسے گودی میڈیا کا نام دیا گیا ہے‘ حیدرآباد میں بی جے پی کی کامیابی پر آپے سے باہر ہے۔ اس کی پرواہ نہیں۔ بی جے پی اور اس کی ہم خیال، ہم قبیل طاقتوں نے میڈیا کو اپنی گرفت میں رکھا ہے۔ مجلس کو بھی بہت سارے خولوں کوتوڑ کر باہر نکلنا ہے۔ اور جو جو مخالفین ہیں‘ انہیں اگر دوست نہ بھی بناسکے تو کم از کم انہیں دشمنی سے باز رکھنے کی ضرورت ہے۔ 
    حیدرآباد کے بلدی انتخابات کے نتائج ایک طرف حیدرآباد کے ان شہریوں کے لئے کسی حد تک طمانیت بخش ہے جو حیدرآباد کی روایتی سیکولر کردار ہے کی برقراری کے خواہاں ہیں۔ دوسری طرف تیزی سے بڑھتے ہوئے زعفرانی سائے سے خوفزدہ بھی ہیں۔ کیوں کہ اکثر آسمان کے کناروں پر جب زعفرانی سائے گہرے ہوتے ہیں تو کسی طوفان یا سونامی کے آثار اس میں تلاش کئے جاتے ہیں۔ آنے والے طوفان اور سونامی کو روکنے کے لئے ٹی آر ایس اور مجلس کے پاس کیا حکمت عملی ہے؟ کونسے وسائل ہیں‘ اور کیا وہ اسے استعمال کرنے کے اہل ہے۔ آنے والا وقت بتائے گا۔ سب سے پہلا آزمائشی مرحلہ میئر کا انتخاب ہے۔ جب یقینا ٹی آر ایس ارکان کو خریدنے کی کوشش کی جائے گی۔ٹی آر ایس نے گذشتہ الیکشن میں 99 نشستیں حاصل کی تھی۔ اس لئے ڈپٹی میئر کے عہدہ کے لئے کسی قسم کی سودے بازی ممکن نہیں تھی‘ مگر اب ٹی آر ایس کو مجلس کی ضرورت ہے۔ اور مجلس کو ڈپٹی میئر کا عہدہ ملنا چاہئے۔ اس مسئلہ پر اختلاف بھی ہوسکتا ہے۔ کیوں کہ کسی اور کو یہ شکایت ہوسکتی ہے کہ بعض حلقوں سے جہاں مجلس کے امیدوار نہیں تھے وہاں ٹی آر ایس کے امیدواروں کو خاطر خواہ تائید نہیں ملی‘ جس کی وہ امید کئے ہوں گے۔
    بہرحال! الیکشن 2020یادگار بھی ہے‘ تاریخ ساز بھی اور چشم کشا بھی۔کسی سے ناراضگی سے گذرا ہوا وقت ہاری ووہوئی نشستیں واپس نہیں آتیں۔ اپنا ایمانداری سے محاسبہ اور ایک نئے سفر کا نئے جوش اور ولولے کے ساتھ آغاز ضروری ہے۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری ہے۔

 

«
»

ماہنامہ پھول سے ادارہ ادب اطفال تک (قسط ۲)

مرکز تحفظ اسلام ہند کی فخریہ پیشکش ”سلسلہ عقائد اسلام“ کا آغاز!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے