لو جہاد: حکومت کو چھوڑیں، اپنا گھر سنبھالیں!!

غلام مصطفیٰ نعیمی دہلی

آخرکار یوپی کی بی جے پی حکومت نے مبینہ لو جہاد کے خلاف آرڈیننس کے ذریعے قانون پاس کر دیا۔جلد ہی ایم پی، گجرات، اتراکھنڈ،کرناٹک اور ہماچل پردیش کی بی جے پی حکومتیں بھی یہ قانون پاس کرنے والی ہیں۔اس قانون کے مطابق دوسرے مذہب کی لڑکی کو بَہلا کر، فریب،لالچ، یا جبراً شادی کرنا تبدیلی مذہب مانا جائے گا اور ایک تا دس سال کی سزا اور 25 ہزار تک جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ساتھ ہی شادی میں مدد کرنے والے بھی برابر کے مجرم مانے جائیں گے۔
حکومت اور متشدد تنظیموں کی بد نیتی
آئے دن ملک کے مختلف علاقوں سے Different religions کے لڑکے لڑکیوں کے مابین شادیوں کی خبریں آتی رہتی ہیں۔آزادانہ میل جول، مخلوط تعلیم اور مغربی طرز زندگی کی وجہ سے یہ معاملات بڑھتے ہی جارہے ہیں۔بین مذاہب شادیوں میں عموماً لڑکی ہی تبدیلی مذہب کرتی ہے لڑکا نہیں۔لڑکی چونکہ اپنا گھر چھوڑ کر آتی ہے تو اپنا آبائی مذہب چھوڑ کر شوہر کے مذہب وکلچر کو ہی اپنا لیتی ہے۔ایسے معاملات میں لڑکی کبھی ہندو ہوتی ہے کبھی مسلم، کبھی سِکھ تو کبھی عیسائی۔لڑکے بھی الگ مذہب کے ہوتے ہیں مگر لڑکی کا معاملہ زیادہ حساس ہوتا ہے اور مذہب وکلچر بھی وہی بدلتی ہے۔اس لیے اکثر لڑکی والوں کی جانب سے ہی اعتراض اور قانونی چارہ جوئی ہوتی ہے۔
ایسے رشتوں میں لڑکی مسلمان ہو تو کسی کو کوئی دقت نہیں ہوتی۔لیکن اگر لڑکا مسلم نکل آئے تو حکومت،انتظامیہ اور متشدد تنظیمیں آسمان سر پر اٹھا لیتی ہیں۔صحیح بات یہ ہے کہ لو جہاد کا پروپیگنڈہ در اصل مسلم لڑکیوں کو مرتد بنانے کی سازش ہے۔تاکہ کام بھی ہوجائے اور بدنامی بھی نہ ہو۔پچھلے کچھ وقت سے بین مذاہب شادیوں کے جن معاملوں میں لڑکی مسلم اور لڑکے ہندو تھے۔ان میں سے اکثر لڑکوں کا تعلق متشدد تنظیموں سے تھا اور انہیں تنظیموں نے قانونی معاملات میں ایسے لڑکوں کو بھرپور مدد بھی فراہم کی۔صاف ظاہر ہے کہ متشدد تنظیمیں مسلم لڑکیوں کو مرتد بنانے کی سازش میں ملوث ہیں۔اکھل بھارتیہ یوا ہندو مورچہ، ہندو جن جاگرن سمتی جیسی کئی ہندو تنظیمیں کھلے عام مسلم لڑکی کو بہو بنانے کے لیے ڈھائی لاکھ روپے اور قانونی مدد کا اعلان کر چکی ہیں۔ایسے قانون شکن اعلانات کے باوجود ان تنظیموں کے خلاف نہ حکومت کوئی قدم اٹھاتی ہے نہ انتظامیہ کو اپنا فرض یاد آتا ہے؟جبکہ تمام تر تحقیقات کے باوجود سازش کا ادنیٰ ثبوت نہ ملنے کے بعد بھی مسلمانوں پر حکومت وانتظامیہ لو جہاد کی سازش رچنے اور ہندو لڑکیوں کو ورغلانے کا الزام لگاتی ہیں۔آج ہی لا کمیشن کے چئیرمین جسٹس آدتیہ ناتھ متّل کا بیان اخبارات میں شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے قبول کیا ہے کہ یوپی میں لو جہاد کا کوئی ڈیٹا حکومت وانتظامیہ کے پاس نہیں ہے۔اس سے قبل سابق وزیر داخلہ اور حالیہ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ پارلیمنٹ میں آن ریکارڈ لو جہاد کی تھیوری کو مسترد کر چکے ہیں۔لیکن اس کے باوجود بی جے پی حکومتوں کا رویہ خالص مسلم دشمنی پر مبنی اور اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنا ہے۔
اپنا گھر سنبھالیں!!
ہمارے علم وتحقیق کے مطابق غیر مسلم لڑکیوں سے شادی کرنے والے افراد کے دو طبقات ہیں۔
1-لبرل اور آزاد خیال۔
2-چھوٹے کاروباری اور پیشہ ور افراد۔
طبقہ اول میں اعلی تعلیم یافتہ،ملازمت پیشہ،فلمی اداکار اور سیاسی توقعات رکھنے والے افراد شامل ہیں۔طبقہ اول کی بڑی تعداد رسمی سی مسلمان ہوتی ہے۔دین سے دوری،دینی  ماحول کی کمی اور سیاست وبزنس میں آگے بڑھنے کی خواہش کی وجہ سے یہ طبقہ کسی بھی مذہب سے رشتہ جوڑنے میں جھجک محسوس نہیں کرتا۔انہیں لگتا ہے کہ بین مذہبی شادی سے وہ لبرل اور آزاد خیال سمجھے جائیں گے۔جس سے انہیں اپنی سیکولر امیج اور دنیوی فائدہ ملنے کا یقین ہوتا ہے۔اب جو طبقہ اپنے مفاد کی خاطر دین کو داؤں پر لگادے اس سے مذہبی تبلیغ کی امید بیل سے دودھ کی امید رکھنے جیسا ہے۔
طبقہ دوم میں کپڑوں کی پھیری کرنے والے، راج مستری، رنگ پتائی،سلائی اور اسی طرح کے ہنرمندانہ پیشوں سے وابستہ افراد شامل ہیں۔اس کے علاوہ ہندو آبادیوں میں رہنے والے افراد بھی طبقہ دوم کا حصہ ہیں۔یہ لوگ غیر مسلم آبادیوں میں رہنے یا اپنے کاموں کی وجہ سے معاشرتی اختلاط ہونے کی وجہ سے غیر مسلم لڑکیوں کے رابطے میں آتے ہیں وقتی محبت کے جوش میں شادی بھی کر لیتے ہیں، مگر اس کی وجہ صرف مخلوط معاشرت اور وقتی محبت ہوتی ہے۔سازش کا تصور دور دور تک نہیں ہوتا۔طبقہ دوم کے نوجوان خود اپنے گھر والوں کی نگاہ میں مجرم ہوتے ہیں کیوں یہ لوگ عموماً روایتی مسلم گھرانوں سے ہوتے جہاں دین داری کا غلبہ واثر ہوتا ہے۔اس لیے ان گھرانوں میں آسانی سے بین المذاہب شادیوں کو قبول نہیں کیا جاتا۔اس طرح یہ صاف ہوجاتا ہے کہ دونوں ہی طبقات لبرلزم اور وقتی جذبات کے تحت ایسی شادیاں کرتے ہیں۔سازش اور لو جہاد کا شوشہ محض پروپگنڈہ ہے۔
مذکورہ قانون کے بعد طبقہ دوم کے نوجوان ہی حکومت وانتظامیہ کے رڈار پر ہوں گے۔کیوں کہ طبقہ اول کو تو خود حکومت بڑے عہدے سے نوازتی ہے تاکہ اس کے ذریعے اپنے مقاصد کو سادھ سکے۔پورے معاملے کا سب سے تشویش ناک پہلو مسلم لڑکیوں کے خلاف ہونے والی سازش ہے۔جس کے تحت اچھے گھر مکان اور اعلی سوسائٹی میں رہنے کا لالچ دیکر مسلم لڑکیوں کو مرتد بنایا جاتا ہے۔اس سازش کے دو بنیادی مقصد ہیں:
1-مسلم معاشرے میں ارتداد پھیلانا۔
2-نفسیاتی طور پر مغلوب کرنا۔
عام طور پر حکومتی ملازمت اور کاروبار میں غیر مسلم نوجوانوں کا تناسب مسلم نوجوانوں سے زیادہ ہوتا ہے۔غیر مسلم علاقے بھی مسلم علاقوں سے زیادہ ترقی یافتہ ہوتے ہیں۔انہیں چیزوں کا لالچ دیکر مسلم لڑکیوں کو ورغلایا جاتا ہے۔اس کے ساتھ ہی ان پر پردے وغیرہ کے حوالے سے نفسیاتی حملہ بھی کیا جاتا ہے۔کیوں کہ اسلام میں معاشرتی زندگی کے لیے کچھ حدود وقیود ہیں جبکہ دیگر مذاہب میں پردے وحیا کا تصور سرے سے نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ بڑی تیزی کے ساتھ مسلم لڑکیاں غیر مسلم لڑکوں سے شادیاں کر رہی ہیں۔اس بڑھتے ہوئے رجحان میں سنیما اور ٹی وی سیریل بھی اہم رول ادا کر رہے ہیں۔ضرورت ہے کہ والدین اپنے بچوں خصوصاً بچیوں پر بہت زیادہ دھیان دیں۔تعلیم،ٹیوشن اور ملازمت کے نام پر چھوٹ دینا بچیوں کا ایمان اور اپنی رسوائی کا سامان کرنا ہے۔علما اور مبلغین بھی ایسے موضوعات پر عوامی بیداری پیدا کریں تاکہ معاشرے کی اصلاح ہوسکے۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے

«
»

ماہنامہ پھول سے ادارہ ادب اطفال تک (قسط ۲)

مرکز تحفظ اسلام ہند کی فخریہ پیشکش ”سلسلہ عقائد اسلام“ کا آغاز!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے