داعی اعظم کی دلآویز شخصیت کا اصل راز

تسنیم فرزانہ

بنگلور، کرناٹک

 

داعی اعظم کی دلآویز شخصیت کا اصل راز یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قول و عمل میں کوئی فاصلہ نہ تھا

آپ اپنی تعلیمات کا اعلیٰ ترین نمونہ تھے،جو دوسروں کو بتاتے اسے خود کر کے دکھاتے، قول و عمل کی بے مثال مطابقت ایسی تھی جو آپ سے ملتا وہ آپ کا گرویدہ ہو جاتا

آپ صلی اللہ علیہ و سلم انسانوں میں پیدا کئے گئے انسانوں ہی کی طرح پیدا کئے گئے اور انسانوں ہی میں آپ نے اپنی پوری زندگی کے شب و روز گزارے

آپ باپ بھی تھے، بیٹے، بھائی شوہر، اور ساتھی بھی تھے – خسر بھی تھے اور داماد بھی، عمر میں چھوٹے بھی تھے اور بزرگ بھی،رفیق سفر بھی تھے اور تجارت کے شریک بھی، آقا و مولی بھی تھے، محنتی و جفاکش بھی _

مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شخصیت اس قدر کامل و جامع تھی کہ کسی ایک آنکھ نے بھی کبھی کردار کے کسی رخ میں کوئی جھول محسوس نہیں کیا – آپ انسانیت کے لئے اسوہء کامل تھے، تعلقات، معاملات اور خاندان و سماج میں مختلف حیثیتوں سے آپ کے تابناک کردار کا ہر رخ سامنے آیا

قارئین کرام.! آئیے ہم چند واقعات کے ذریعے داعی اعظم کی مبارک شخصیت کے مختلف پہلو پر روشنی ڈالنے کی سعی کریں گے

 

کردار کی ہیبت….

قبیلہ اراش کا ایک شخص مکے میں اونٹ بیچنے لایا، ابوجہل نے سارے اونٹ خرید لئے اور قیمت ادا کرنے میں ٹال مٹول کرنے لگا، اراشی نے کئی روز مکے میں ٹہر کر قیمت کا

تقاضا کیا، مگر ابوجہل حیلے بہانے کرتا رہا ایک دن اس نے حرم کعبہ میں ہیٹھے ہوئے سرداروں سے کہا کہ میری رقم دلوادو میں ایک غریب الوطن مسافر ہوں – اتفاقاً اسی وقت حضور اکرم کعبہ کے ایک گوشے میں تشریف فرما تھے، سرداران قریش کو مذاق سوجھا انہوں نے اس اراشی سے کہا، جاؤ اس کونے میں جو صاحب بیٹھے ہیں ان سے کہو وہ دلوادیں گے، آراشی فریاد لے کر حضور اکرم کے پاس گیا آپ اسی وقت آٹھ کھڑے ہوئے اور آراشی کو لے کر ابوجہل کے گھر گئے اور آواز دی ابو جہل نے پوچھا. کون ؟آپ نے فرمایا.. محمد، ابو جہل حیران ہو کر باہر آیا خدا کے رسول کو دیکھ کر اس کا رنگ فق ہو گیا – آپ نے رعب دار آواز میں اس سے کہا "تم نے جو اراشی سے اونٹ خریدے اس کی رقم ابھی لا کر دو" ابوجہل منھ سے ایک لفظ بھی کہے بغیر گھر کے اندر گیا اور رقم لا کر اراشی کے ہاتھ پر رکھدی – قریش کے سرداروں کو جب یہ خبر پہنچی تو انہوں نے ابوجہل کو بہت ملامت کی کہ بڑا بزدل نکلا – ابوجہل نے کہا کم بختو! تمہیں بتاؤں مجھ پر کیا گزری، جس وقت محمد نے دروازہ کھٹکھٹایا، میں نے ان کی اواز سنی تو ہیبت اور رعب سے میری حالت بے جان پتلا ہو اور بے اختیار میں نے لرزتے کانپتے میں نے وہ کیا جو تم نے دیکھا

 

محسن آقا

 

یہ ہیں زید بن حارثہ، جنہیں لٹیروں عکاظ کے بازار میں فروخت کر دیا تھا.. حکیم بن حزام نے خرید کر اپنی پھوپی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کے حوالے کیا اور انہوں نے اپنے محبوب شوہر کے حوالے اس بچے کو کیا.. دن گزرتے گئے اور زید حضور اکرم کی خدمت میں رہنے لگے ادھر ان کے والدین کو پتہ چلا کہ بچہ مکے میں ہے تو ان کے والد اور چچا ان کو لینے آئے اور حضور اکرم کی خدمت میں پہنچے، حارثہ نے کہا "آپ انتہائی کریم النفس اور میری طرف سے اجازت ہے شریف ہیں ہمارے بچے کو ہمارے ساتھ کر دیجیے اس کی ماں کا رو رو کر برا حال ہے آپ جو فدیہ فرمائیں گے حاضر ہے" بچے کے چچا کعب نے کہا "آپ کے اخلاق کریمانہ سے ہمیں پوری توقع ہے کہ آپ بچے کو ہمارے حوالے کر دیں گے"

محسن اعظم نے کہا" بے شک اپنے جگر گوشے کو آپ لے جا سکتے ہیں، میں زید کو بلاتا ہوں اگر وہ جانا چاہے تو میری طرف سے بالکل اجازت ہے"زید بلائے گئے آپ نے پوچھا ان دونوں کو جانتے ہو؟ زید نے کہا جی ہاں یہ میرے والد اور یہ میرے چچا ہیں ،حضور نے فرمایا.. میری طرف سے تمہیں پوری آزادی ہے تم چاہو تو ان کے ساتھ جاؤ یا چاہو تومیرے ساتھ رہو، زید نے اپنے والد اور چچا پر نظر ڈالتے ہوئے فیصلہ کن انداز میں کہا "میں آپ کو چھوڑ کر اب کہیں نہیں جاؤں گا، زید کا جواب سن کر باپ اور چچا حیران رہ گئے اور کہا آزادی کو چھوڑ کر غلامی کو پسند کرتے ہو؟ اپنوں کو چھوڑ کر غیروں میں رہنا چاہتے ہو؟ زید کا دل دھڑکنے لگا اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے بھرائی ہوئی آواز میں بولے" ابا جان بے شک آپ میرے والد اور یہ چچا ہیں بے شک میری ماں مجھے یاد کر کے بے چین ہو گی مگر میں نے میرے آقا کے جو اوصاف دیکھے ہیں ساری زندگی مجھے ان کی غلامی مجھے منظور ہے اب میں دنیا میں کسی کو بھی اپنے محسن آقا پر ترجیح نہیں دے سکتا – یہ جواب سن کر والد اور چچا نے کہا اگر ایسی بات ہے تو ہم خوشی سے اجازت دیتے ہیں کہ تم یہیں رہو، محسن آقا نے زید کو اسی وقت آزاد کر کے اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا

 

 

یتیموں کے والی

 

ذرا اپنے تصور کی نگاہوں سے دیکھیے……… عید کا دن ہے مدینے کی گلیوں میں ہر طرف چہل پہل ہے سارے لوگ صاف ستھرے کپڑے پہنے خوشبو لگائے عید گاہ جا رہے ہیں، مدینے کی فضائیں تکبیر و تہلیل سے معطر ہو رہی ہیں، رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم بھی عید کی نماز کے لئے عید گاہ کی طرف تیز تیز قدموں سے جا رہے ہیں… لیکن…. یہ کیا؟. اچانک آپ کیوں رک گئے؟ چند بچے اچھے کپڑے پہنے خوش خوش کھیل رہے ہیں کچھ فاصلے پر ایک بچہ سب سے الگ افسردہ اور غمگین بیٹھا میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس حسرت سے کھیلنے والے بچوں کو دیکھ رہا ہے، رسول اکرم اس بچے کے پاس پہنچے اور سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا "بیٹے تم نہیں کھیلتے؟ تم نے کپڑے نہیں پہنے اور تم افسردہ اور غمگین کیوں ہو؟ بچے نے سر اٹھا کر دیکھا ہمدردی اور پیار کا برتاؤ پا کر اس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے ایک لمبی سانس لے کر بولا" کوئی بات نہیں، میری قسمت میں خوشی اور کھیل کہاں؟ میں تو غم کھانے کے لیے ہی پیدا ہوا ہوں اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا – بچے کو روتا دیکھ کر رحمت عالم کا دل بھر آیا اور آنکھوں میں آنسو آ گئے، لڑکے کو گلے سے چمٹا لیا اور فرمایا" بیٹے بتاؤ تو سہی تم پر کونسی مصیبت آ پڑی ہے تمہیں کیا دکھ ہے؟ اس پر بچے نے کہا" میں ایک یتیم ہوں میرے باپ جنگ میں خدا کے دشمنوں سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے اور میری ماں نے دوسری شادی کر لی اور میرے باپ کا سارا سامان لے کر نئے گھر چلی گئی میرے دوسرے باپ نے مجھے گھر سے نکال دیا اب نہ میرا گھر ہےنہ ولی اور سر پرست اب مجھ پر ترس کھانے والا کوئی نہیں، میری امی بھی مجبور تھی کچھ نہ کر سکیں ان کے بس میں کچھ نہیں ہے، لڑکے کی ہچکی بندھ گئی، بچے کی حالت دیکھ کر حضور اکرم کی آنکھیں چھلک پڑیں کچھ دیر اپنے آپ پر قابو پانے کے بعد بچے سے کہا "بیٹے کیا تم یہ پسند کرو گے کہ محمد تمہارے باپ ہوں، عائشہ تمہاری ماں ہوں اور فاطمہ تمہاری بہن اور حسن و حسین تمہارے بھائی ہوں؟" محمد اور فاطمہ کا نام سن کر بچہ سنبھلا اور بولا یا رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم! مجھے معاف کیجیے میں نے آپ سے لا پروائی سے بات کی، حضور نے تسلی دی، پھر اس بچے کہا یا رسول اللہ! آپ کے خاندان کو پانے سے زیادہ خوش نصیبی اور کیا ہوگی میں دل و جان سے آپ کی خدمت کروں گا، یتیموں کے والی نے بچے کا ہاتھ پکڑا اور اسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے پاس لائے اور کہا "اے عائشہ! خدا نے عید کے دن تمہیں ایک بیٹا تحفہ میں دیا ہے – – – – لو اپنے بیٹے کو نہلاؤ اور اچھے کپڑے پہناؤ – – اسے کچھ کھلاؤ – – – اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا چہرہ کھل اٹھا..

 

مثالی شوہر…

 

محبوب بیوی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ روٹھ گئی ہیں، کسی گھریلو اور نجی بات پر شوہر نامدار صلی اللہ علیہ و سلم سے اختلاف ہو گیا ہے – جذبات کی تلخی میں آواز بلند ہو گئی ہے لیکن تاجدارِ مدینہ مسکرا مسکرا کر صبر و تحمل کے ساتھ بات کو سمجھا رہے ہیں، اتنے میں حضرتِ عائشہ کے والد حضرت ابوبکر آگئے، بیٹی والد محترم کے سامنے بھی شوہر سے اسی طرح اونچی آواز میں بات کر رہی ہیں، میاں بیوی. میں اختلاف دیکھ کر والد محترم بہت غمزدہ ہوئے کہ ایک طرف خدا کے رسول ہیں دوسری طرف اپنے جگر کا گوشہ ہے – بیٹی کی آواز جب اونچی ہوئی تو ابوبکر برداشت نہ کر سکے کہنے لگے "تم خدا کے رسول سے منہ زوری کر رہی ہو؟ تمہاری جرآت اتنی بڑھ گئی؟". غصے میں اٹھے اور ہاتھ اٹھا کر مارنا ہی چاہتے تھے کہ درمیان میں فخر کائنات آ گئے، حضرت عائشہ سہم کر بیٹھ گئیں حضرت ابوبکر باہر چلے گئے – – – سرور کونین کب برداشت کرتے کہ ان کی حبیبہ حضرت عائشہ کے دل کو ٹھیس لگے اور وہ ذرا دیر کے لئے بھی اداس ہوں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے قریب گئے اور پیار بھرے انداز میں کہا "کہو عائشہ کیسے بچایا؟" عائشہ صدیقہ مسکرا پڑیں اور رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم سے لپٹ گئیں اور کہا "یا رسول اللہ! معاف کر دیجیے، نہ جانے مجھے کیا ہو گیا تھا، خدا معاف کرے ____اور مثالی شوہر اور بیوی میں صلح و پیار قائم ہو گیا..

 

شفیق باپ….

 

مدینے میں جگر گوشہء رسول حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کا مکان کاشانہء رسول سے ذرا فاصلے پر تھا،ایک دن رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم اپنی بیٹی سے ملنے کے لیے ان یہاں تشریف لائے، شفیق باپ نے شفقت بھرے لہجے میں فرمایا "لختِ جگر! تم بہت دور رہتی ہو میرا جی چاہتا ہے کہ تمہیں اپنے قریب بلالوں – باپ کے قریب رہنے کی بات سن کر حضرت فاطمہ بے چین ہو گئیں بولیں.. یا رسول اللہ حارث بن نعمان کے کئی مکان ہیں، ایک تو آپ کے بہت ہی قریب ہے اگر آپ ان سے فرما دیں تو وہ انکار نہ کریں گے، حارث کو کسی طرح یہ بات معلوم ہو گئی خود ہی دربار رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا، یا رسول اللہ میرے مکان کا آپ کے پاس رکھنا مجھے اپنے لئے رکھ لینے سے زیادہ محبوب ہوگا، میرا جو مکان بھی آپ کو پسند ہے حاضر خدمت ہے، میری بھی خوشی ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا آپ کے قریب رہیں-رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم نے حارث کو دعائیں دیں اور اپنی محبوب بیٹی کو قریبی مکان میں بلا لیا

 

نرم دل نانا…..

یہ دیکھیے…… حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم منبر پر کھڑے ہو کر خطبہ دے رہے ہیں.. دیکھا کہ سامنے حضرت حسن اور حسین تیز تیز قدم بڑھاتے ہوئے نانا جان کے پاس جلد پہنچنا چاہتے ہیں لیکن قدم لڑکھڑا رہے ہیں اور ہر قدم پر خطرہ ہے کہ کہیں گر نہ جائیں، چھوٹے چھوٹے معصوم بچے، سرخ جوڑا پہنے بڑے پیارے لگ رہے ہیں – ننھی ننھی ٹانگیں لرز رہی ہیں اور وہ نانا جان کی طرف بڑھ رہے ہیں، خدا کے رسول کچھ دیر تک تو دیکھتے رہے، مگر ضبط نہ کر سکے، ممبر سے اترے نواسوں کو آغوش مبارک میں لیا اور لے جا کر سامنے بٹھا لیا – –

 

غرض ہر پہلو سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم شخصیت دلآویز تھی، چاہے وہ ادب شناس بیٹے کے روپ میں حلیمہ سعدیہ کا احترام ہو یا حق شناس بھائی کے روپ میں شیما سے حسن سلوک اور عزت و اکرام کے ساتھ انعام عطا فرمانا ہو – – مہربان خسر کے طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہ کے درمیان صلح کرانا ہو – رحمدل بھتیجے کے کردار میں حضرت حمزہ کی شہادت پر یہ فرمانا کہ "کیا حمزہ کا ماتم کرنے والا کوئی نہیں ہے" یا حضرت عباس کے قید میں کراہنے کی آواز سن کر بے چین ہو جانا – ضعیفوں کے ماوی کے روپ میں بوڑھی خواتین کی مدد کرنا ہو – – ہر روپ میں آپ کا کردار ہمارے لئے مثالی ہے

اللھم صلی علی محمد

 

(داعی اعظم…. حیات رسول کے ایمان افروز واقعات سے ماخوذ کردہ)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے