مولانامحمدشمیم ندوی
مدرسہ ریاض الجنۃ، برولیاڈالی گنج، لکھنو
ماہ محرم اسلامی سال کا پہلا مہینہ جو حرمت وعظمت والااور اہم ترین واقعات اور بڑی اہمیت کا حامل ہے،اس کی اہمیت اسلام میں ہی نہیں بلکہ ایام جاہلیت میں بھی تھی،اس کے سال کا اختتام ماہ ذی الحجہ پرہوتاہے،اس کی دسویں تاریخ(عیدالاضحی) کامل بندگی کا بے مثال نمونہ اورحضرت ابراہیم علیہ السلام کے عشق الہی کاجذبہ و حضرت اسمعیل علیہ السلام کی آرزوئے شہادت کا نقشہ پیش کر تی ہے، اور ۰۱/ محرم الحرام ۱۶/ ہجری کونواسہئ رسول حضرت امام حسین ؓ نے ا للہ کی رضا اور اسلام کی بقاء کے لئے شہادت دے کر نہ صرف اپنے عہد میں غرور ملوکیت کو چکنا چور کیا، بلکہ پوری تاریخ کا رخ موڑ دیا، اور ان کے چھوٹے بڑے اعزا واقارب نے دشمن کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر کہاتھا”عزت کی موت ذلت وخواری کی زندگی سے بہتر ہے“ اور شہادت عظمی کا مرتبہ حاصل کرکے دنیائے انسانیت کے سامنے اسلام کے آفاقی پیغام کو ایک ایسے اندازمیں پیش کیا، اور اپنے اوپرہونے والے ظلم وستم کو سہ کرحق وباطل کے درمیان جو حدفاصل کھینچی، اور حق گوئی وشہادت کی ایسی عظیم مثال قائم کی کہ وہ رہتی دنیا کے لئے آزادی، مساوات، اور جمہوریت کی علامت بننے کے ساتھ اقامت دین و تحریکات اسلامی کے لئے چشمہئ ہدایت بن گئے، نواسۂ رسول کی شہادت تاریخ انسانیت کی بہت بڑی قربانی تھی،یہ کوئی شخصی یاانفرادی واقعہ نہیں تھا، بلکہ یہ چمنستان نبوی کے پورے گلشن (خاندان) کی شہادت کاواقعہ تھا، جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی ہے،اس طرح اسلام ابتداء سے لیکر انتہاء تک قربانیوں کا نام ہے،گویا ایک مسلمان کی زندگی ایثار وقربانی سے عبارت ہے۔
آپ ﷺ کے وصال کے بعد ۱۴/ ھ کے قبل ومابعد زمانہ کو مسلمانوں نے دو حصوں میں تقسیم کردیا،اور ایک کا نام خلافت راشدہ اور دوسرے کا نام ملوکیت رکھا، خلافت راشدہ کے بعد ملوکیت کے دور کا آغاز ہوتا ہے، دھیرے دھیرے ملوکیت اپنے شباب پر پہونچنے لگی،اور یزید کا تخت حکومت اسلامی کا فرماں رواں بنتے ہی دورجاہلیت شروع ہوگیا، وہ ظلم وستم کا ایسانمونہ تھا کہ اسکے عہد جانشینی میں ہی تعلیمات اسلامی بالکل مسخ ہوکر رہ گئی تھی، بیت المال رعایا کی امانت نہیں بلکہ ان کی جاگیراور ذاتی خزانہ بن گیا،اقربانوازی، کنبہ پروری،اور دوسری اخلاقی خرابیاں جو خلاف راشدہ کے زمانہ میں سخت معیوب تھیں عام ہوگئیں،اور قبائلی عصبیتیں زندہ ہوئیں، اسلام کا اجتماعی ڈھانچہ بدل رہا تھا، قیصر وکسری کی سنت زندہ کی جارہی تھی، اسلامی نظام اور اسکے اصول وقاعدے کو الٹ دیا، ظالم وجابر حاکموں نے شدت پسندی اختیار کی،اسلامی ریاست کے دستور، اسکے مزاج،اسکے مقصد میں تبدیلی کرنے، ضمیروں اور زبانوں کو خرید نے کے ساتھ ظلم نے انسان کو خاموش رہنے پر مجبور ہی نہیں کیا، بلکہ باطل نے حق سے بیعت کا مطالبہ کردیا، بقول مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ:”زخم خوردہ جاہلیت اپنے فاتح حریف سے انتقام لینے پرتلی ہوئی، تھی،اور چالیس برس کا حساب ایک دن میں پورا کرنا چاہتی تھی“۔
ایک صاحب بصیرت، نواسہئ رسول ﷺ کی نگا ہ کو سیاسی حالات نے آنکھیں دکھائیں،وطنی مفاد آڑے آئے،وقت اور ماحول نے ساتھ دینے سے انکار کردیا،مصلحتوں نے دامن پکڑا،مشکلات نے راستہ روکا،ہلاکتو ں کا طوفان نمودار ہوا،فخر ومباھات کی تیز آندھیاں اپنا زور دکھارہی تھیں، لیکن اہل دین اور صحابہ عظام کا دینی ضمیر اس تبدیلی کو برداشت نہیں کرسکتاتھا، امام حسینؓ اور ان کے چھوٹے بڑے اعزاء و اقرباء کب یزید کی بیعت کرسکتے تھے اسلئے کہ جنتی جوانوں کے سردا ر حضرت امام حسینؓ حق وباطل کے درمیان ایک فیصل کامقام رکھتے تھے،ان کی تعلیم وتربیت کا گہوارہ آ پ ﷺ کی گودتھی، اور آپ ﷺ کی آغوش میں پل کر اپنی حیات کاآغاز کیا تھا، آپ ﷺ نے حضرت امام حسن ؓ اور حضرت امام حسین ؓ کے بارے میں فرمایا دنیا میں میرے یہ دو پھول ہیں،اور فرمایاکہ اے اللہ میں ان دونوں کو محبوب رکھتاہوں،تو بھی انھیں محبوب رکھ، اور جو ان سے محبت کرتا ہے،انہیں بھی محبوب رکھ، ان کی رگوں میں ماں فاطمہ زہرا کا دودھ اور باپ علی مرتضیؓ کاخون دوڑ رہا تھا، اخلاق، پیار ومحبت، عظمت وبزرگی، حکمت وشجاعت، صداقت، ایمانداری، عدالت وسخاوت، صبر وشکر اخلاق وکردار، حکمت وعفت، عدالت اور جود و سخا میں آپ ﷺ کی جیتی جاگتی تصویر اور عملی نمونہ تھے، ان کی ہر ادا سنت مصطفی تھی، وہ قرآن حکیم کے ہر فرمان کے عملی پیکر بن کر رہے، انھوں نے اقتدار کا مقابلہ بلندکرداری سے،کثرت کا مقابلہ قلت سے،ظلم وبربریت کا مقابلہ مظلومیت اور بے بسی سے کرنے کے ساتھ انکی ہمت وجسارت، ان کی جوانمردی، صبر و استقامت کے خون کا ایک ایک قطرہ بہادیا، لیکن آپ نے اپنی آواز میں پستی نہ آنے دی،اور خلافت وملوکیت کے درمیان ایک دیوار کھینچ دی،کہ عقیدہ کی پختگی اور صبر واستقامت سے ہی ایک مسلمان کی زندگی دنیا و آخرت میں کامیاب وسرخ روہوسکتی ہے،خود حضرت امام حسینؓ کا قول تاریخ میں موجود ہے کہ، امام وہی ہے جو کتاب اللہ پر عامل،انصاف کا خوگر،حق کاتابع،اور تعلق مع اللہ کی صفت سے متصف ہو۔
چنانچہ مدینہ سے ہجرت کرکے کربلاکی جانب عازم سفر ہوئے، اور دو(۲) محرم ایکسٹھ(۱۶)ہجری سرزمین کربلاپر قدم رکھا،جس میں بچوں اور جوانوں کے علاوہ سن رسیدہ اصحاب رسول، اصحاب حسین اور انصار کی ایک عظیم جمعیت بھی شامل تھی، اور تادم آخر یہ کہتے رہے: اے رب العالمین اگر تو اسی پر راضی ہے تو ہم بھی تیری رضا پر راضی ہیں، اور۰۱/محرم۱۶/ ہجری بمطابق ۰۱/ اکتو بر ۰۸۶ء کوبوقت عصرسجدہئ خالق اداکرکے حق کو ہمیشہ ہمیش کے لئے سربلند اور باطل کو دفن کردیا،اور یہ ثابت کردیا کہ ”شہید اپنے خون کے ہر قطرے سے مردہ قوم کی رگوں میں زندگی کی حرارت پیداکرتا ہے، جہاں شہید کی موت قوم کی زندگی ہے،وہیں اگر یقیں محکم،اور مقصد نیک ہو،تو راہ خدا میں آنے والے مصائب وآلام اور باطل قوتوں کی دولت وطاقت کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ وہ یزیدیت کو للکار نے کی قیمت سے آگاہ تھے، لیکن(علامہ ابن تیمیہ کی یہ تحریر) حکمت الہی یہ تھی کہ امام حسین ؓ کو شہادت کے بلند وارفع مقام تک پہنچایاجائے تاکہ وہ شہداء کا عیش اور سعداء کی منزل پاسکیں،اور غلط اور فاسد اقتدار کے خلاف اعلان حق کی ایک زندہ نظیر باقی رہ جائے۔
مولانا محمدعلی جوہر کے لفظوں میں: قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلاکے بعد
تاریخ شاہد ہے کہ حق وباطل، خیر وشر، اسلام وکفر کے مابین ہزاروں معرکے ہوئے ہیں،اور اسلام کا اولین دور توبے شمار شہادتوں سے لبریز ہے،اور جب بھی باطل نے حق کے مقابلہ میں سر اٹھانے کی کوشش کی، تو حق نے اسکے سر کو کچلا ہے،اور اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا،لیکن واقعہ کربلاتمام شہادتوں سے ممتاز اور منفرد نظر آتا ہے،کیونکہ نواسہئ رسول خانوادہئ رسول کے چشم وچراغ ہیں،یہ داستان شہادت کسی ایک پھول پرمشتمل نہیں بلکہ یہ پورے گلشن کی قربانی ہے،اور شہید ہونے والوں کی آ پ ﷺ کے ساتھ خاص نسبتیں ہیں۔
یوں تو دنیا کی تاریخ کا ہرورق انسان کے لئے عبرتوں کا مرقع ہے، لیکن معرکہ کربلاتاریخ عالم میں حق وباطل کاایک ایسانادر ونایاب معرکہ ہے جو رہتی دنیاتک عظیم پیغام، اور دعوت وتبلیغ کا ایک اعلی نمونہ ہے،جس کی یاد غمزد ہ بھی کرتی ہے،اور باطل کے خلاف طاقت وتوانائی بھی عطاکرتی ہے، جسں میں اہل نظر کے لئے ہزاروں عبرتیں ونصیحتیں پوشید ہ ہیں، حسینیت نام ہے صبر وتحمل،اخوت ومحبت،اور اتحاد کا، حسینیت نام ہے اسلام کی دیواروں کو پھر سے اٹھانے کا،اور اسلامی نظام کو نافذ کرنے کے لئے قربانی دینے کا نام ہے،ان شہیدوں کاتذکرہ باعث برکت بھی ہے،اور ان کے نقوش قدم کی اتباع میں کامیابی اورنجات ہے۔
اللہ ہم سب کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے (آمین)
٭ ٭ ٭
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
27اگست 2020فکروخبر
جواب دیں