موت اس کی ہے کرے جس پہ زمانہ افسوس
عاقب شھباز ابن ابو محمد ساوڑا (بحرین)
تعزیتی کلمات بروفات سابق سکریٹری مرحوم جناب ساوڑا مولی صاحب..
انسان جب اس دنیا میں آتا ہے تو وہ اپنی ایک متعینہ مدت ساتھ لاتا ہے پھر وہ ایک دن اس دنیا سے رخصت ہو کر موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے اور موت ایک سچی اور اٹل حقیقت ہے، جس سے کسی کو مفر نہیں، تقدیر کا لکھا ہر فیصلہ اسی کے عین مطابق ہوتا ہے اسکی کی مرضی کے آگے کس کا بس چل سکتا ہے؟ تقدیر میں لکھا کون مٹا سکتا ہے؟ موت کے وقت کو کون ٹال سکتا ہے؟ دنیا میں کسی نعمت کے چھن جانے سے انسان کو غم کاہونا فطری تقاضا ہے،
مؤرخہ 30 محرم الحرام 1442ھ مطابق 18 ستمبر 2020 ؑ بروز جمعہ کا سورج طلوع ہوتے ہوتے ہمیں یہ افسوسناک خبر دے گیا کہ شہر منکی کا ایک چمکتا آفتاب اپنی روشنی بکھیر کر آج ہمیشہ کیلئے غروب ہوگیا۔۔۔۔ انا لله وانا اليه راجعون..
سوشل میڈیا کے ذریعے یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ہر طرف سے انا للہ اور مغفرت کی دعائیں دیں جانے لگی ہر چھوٹا بڑا غم کا اظہار کرنیلگا گھر والے رشتے دار ہر ایک غمزدہ و ماتم کدہ تھا لوگوں پر ایک طرح کا سکوت سا طاری تھا۔۔اور کیوں نہ ہو؟ ایک طرف وہ جو ایک طویل عرصے تک خلوص دل سے مسجد کے خدمت کی ہو اور اک مدت تک جامع مسجد کے منارے سے حی علی الصلوٰۃ و حی علی الفلاح کی صدا بلند کیا ہو، اور دوسری طرف وہ جو اسی مؤذن کی آواز سن کر بچپن سے ہمیشہ اسی مسجد میں نماز پڑھتا ہو۔ اور قوم کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو لٹا دیا ہو، ان دونوں کے جنازے جب ایک ہی وقت میں ایک ساتھ اسی مسجد میں جمع ہوں اور اسی گلیوں سے سپردخاک کے لئے لے جایا جا رہا ہو تو اس سے دل سوز و غم ناک منظر کیا ہوسکتا تھا۔۔
اس دنیامیں کچھ روح ایسی جنم لیتی ہیں جو ہر ذی روح کی روح بن جاتی ہے جو کبھی بھولایا نہیں جا سکتا انہیں میں سے ایک مرحوم جناب ساوڈا محمد مولیٰ صاحب کی شخصیت تھی جن کی خدماتاور قربانیوں کو قوم کبھی بھلا نہیں پائے گی۔۔
موصوف کا تعلق ایک دینی اور متوسط گھرانے سے تھا۔ موصوف سادہ مزاج، ملنسار، متفکر، صوم و صلوٰۃ کے پابند اور خوش طبع انسان تھے۔ آپ کی آواز و الفاظ میں وہ جادو اور سچائی تھی کہ ہر سننے والے کے دل میں نقش ہوجاتے۔آپ میں حکمت، دانائی، صداقت و متانت تھی، بیرون سے لوٹنے کے بعد اپنے آبائ شہر منکی میں ہی ملّی و اجتماعی کاموں سے منسلک رہے اور بطور سکریٹری کے چھ سال تک پوری امانتداری کے ساتھ اپنی خدمات انجام دی اور دونوں اداروں (جماعت اور مدرسہ) کی ترقی کی ہر وقت فکر و کوشش کیں، آپ کے اندر دینی و فلاحی کاموں کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا تھا قوم کی خدمت کو اپنا اولین فریضہ سمجھتے تھے حتی کہ کبھی اپنے نیجی کاموں کے لئے کہیں جاتے تو جماعتی مسائل اور کاموں کو پہلے پیش کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو چند ایسی خوبیوں اورصلاحیتوں سے نوازا تھا۔ جو باقی لوگوں میں بہت کم پائی جاتی ہیں۔ آپ کے اندر حکمت عملی اور دوراندیشی تھی، آپ صاحب الرائے تھے،مشکل ترین اور ہنگامی حالات میں بھی بڑی باریکی سے جائزہ لے کر اطمنان سے فیصلہ لینے کا ہنر آپ میں موجود تھا، دینی و شرعی معاملات میں علماء کی زیرِ نگرانی مسائل حل کرنا آپ کا شیوہ رہا۔ حاضر جوابی اور پیچیدہ اور الجھے ہوئے مسائل کو منٹوں میں سلجھانے کا فن آپ میں موجود تھا۔۔
عشاء کی نماز کے بعد ریڈیو میں اخبار سنتے ہوئے اپنے گھر کے چبوترے پر بیٹھ کر کی گئی انکی وہ نصیحت مجھے آج بھی یاد ہے کہ ان کے یہ الفاظ "دیکھو جو علم تم نے حاصل کیا ہے وہ بڑا زبردست ہے۔ ضروری نہیں کہ تم کو پڑھی ہوئی ہر چیز یاد ہو بس جو جسکا علم تمہیں ہے اسکو دوسروں تک پہنچاؤ اور جو تم جانتے ہو اس پر مکمل عمل کرو۔ کسی کو اپنی طرف اشارہ کرنے کا موقع نہ دو اور اپنے اندر خوداعتمادی پیدا کرو، دل میں جو ہے زبان سے وہی کہو اسکا اثر ضرور ہوتا ہے اور حق بولنے میں کبھی نہ گھبراؤ اور کسی کی پرواہ نہ کرو چاہے لوگ تمہارے خلاف ہی کیوں نہ ہو جائے"
پھر کچھ سالوں بعد گردشِ ایام نیآپ کو ایسا جام پلایا کہ آپ ایک لاعلاج مرض میں مبتلا ہوۓ اوراپنی زندگی کے آخری ایام دنیا اور اسکی رنگینی سے کٹ کر بستر مرگ پرگذارنے پر مجبور ہو گئے۔ پھردیکھتے ہی دیکھتے اسی مرض نے آپ کو موت کی آغوش میں ڈال دیا۔۔ ان کٹھن و نازک حالات میں آپ کی اہلیہ نےاپنی پیرانہ سالی اور کمزوری کے باوجود جوخدمت انجام دی ہے گویا انہوں نے ایک بیوی کا پورا پوراحق ادا کیا ہے اور اس خدمت میں اپنی معذوری کے باوجود انکی دختر نے اپنی والدہ کا جو ساتھ دیا،جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔۔
اللہ تعالیٰ آپ تماموں کو اس خدمت کا بھرپور اجر عظیم عطا کرے۔آمین
یہ بات مسلّم ہے کہ جب بندہ کسی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے اور وہ اس پر صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسکے گناہ معاف فرما کر اس کے درجات بلند فرماتا ہے، اسں طویل علالت کے دوران آپ کو کبھی کسی سے اپنی تکلیف اور اپنے اس مرض کی شکایت کرتے نہیں دیکھا، شاید آپ اپنا کرب اور درد اسی رب سے سنایا کرتے تھے۔۔ نہ جانے بندے نے اپنی تنہائی میں اپنے رب سے کتنی دعائیں کی ہوگی،نہ جانے کتنی راتیں خدا سے سرگوشی و آہ وزاری کی ہوگی، اپنی اعمال کی قبولیت اور اپنے گناہ پر ندامت کے آنسو بہائے ہونگے یہی انکی مغفرت کے لیے کافی ہے کہ جو منظر انکے جنازے کا تھا شاید کہ اس سے پہلے کبھی دیکھا گیا ہو۔۔۔۔
بہر کیف مرحوم مولیٰ صاحب میں بہت سارے اوصاف اور خوبیاں تھیں جو ہمارے لئے مشعلِ راہ ہے۔
۔دعا ہے کہ اللہ تعالی مرحوم کی مغفرت فرمائے، انکے سیئات حسنات میں مبدل فرمائے اور انکی قبر کو جنت کا باغ بناۓ اور ضمۂ قبر، فتنۂ قبر اور عذابِ قبر سے نجات عطا فرمائے اورانھیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔ اور ان کی اولاد کو،بھائیوں بہنوں، بیوی اور ان کے جملہ تمام خویش و اقارب کو صبرِ جمیل نصیب فرمائے۔ آمین۔۔۔۔
جواب دیں