مولانا محمد سلمان مظاہری؛کمالات و امتیازات کے آئینہ میں

از قلم:مفتی احمد عبید اللہ یاسر قاسمی

قرآن کریم کا واضح اعلان ہے کہ ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے، موت سے کسی کو مفر نہیں، یہاں جو بھی آیا جانے کے لیے ہی آیا ہے؛لیکن وہ لوگ جن کے دم اور خم سے اللہ تعالیٰ کی زمین سکون پاتی تھی، راستے، ہوائیں، فضائیں اور بر وبحر جنکی کی وجہ سے رحمت ِحق سے فیض یاب ہوتے تھے،جنکا وجود پوری امت کے لیے باعث رحمت ہوتا تھا،ایسے نیک أشخاص اور علوم نبوت کے حاملین کا یکے بعد دیگرے چلے جانا ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے تسبیح کے دانوں کی لڑی ٹوٹ گئی ہو، یقیناً اس صورت حال نے دل کو مضطرب اور روح کو بے چین کر رکھا ہے، 2020 کا یہ سال حوصلہ شکن، صبر آزما اور اضطراب انگیز حالات کی بنا پر عام الاحزان بن کر رہ گیا، کن کن اکابر علماء کرام کا نام شمار کیا جائے؟اور کن کا تذکرہ کیا جائے، ایک عظیم ہستی کی محرومی کے غم سے ملت اسلامیہ ہندیہ باہر نکل نہیں پاتی کہ ایک اور جلیل القدر شخصیت اس مادی زندگی کو خیر باد کہہ کر حقیقی زندگی کی طرف محو سفر ہوجاتی ہے، بالخصوص رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں ام المدارس دار العلوم دیوبند کی عبقری شخصیت استاذ محترم حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالنپوری رحمہ اللہ کی مفارقت کا غم ابھی تروتازہ ہی تھا کہ ملک کی عظیم دینی درسگاہ جامعہ مظاہر علوم سہارنپور کے قافلہ سالار،سرخیلِ کارواں،عظیم علمی شخصیت، زہد وتقویٰ کے پیکر،  دامادِ شیخ الحدیث ، خسرِ مولانا سعد، مولانا سید سلمان مظاہری نور اللہ مرقدہ و برد اللہ مضجعہ نے بھی کتنے ہی شاگردوں اور متعلقین کو روتا چھوڑ کر اپنی جان جانِ آفریں کے حوالہ کردی
(انا لله وانا اليه راجعون اللهم اغفر له وارحمه واسكنه فسيح جناته)
ستارے زمین کے بجھے جارہے ھیں
ہمارے اکابر اٹھے جارہے ھیں

کچھ اسطرح ٹوٹاھے تسبیح کا دھاگا
کہ سارے ہی موتی گرے جارہے ھیں

مدارس ہمارے ھوۓ بند ایسے
کہ ذی علم روٹھے ھوۓ جارہے ھیں

یہ نبیوں کے وارث ؛زمین کا یہ سبزہ
یہ دھرتی کو ویراں کیے جارہے ھیں

وہ جن سے تھیں روشن فضائیں وطن کی
وہ دیے رفتہ رفتہ بجھے جارہے ھیں

افق پار کیا علمی محفل ھے کوئ ؟
سبھی اہل دانش چلے جارہے ھیں

امتیازی کمالات و خصوصیات

(1)منصب نظامت اور حسنِ انتظام
جامعہ مظاہر علوم سہارنپور کے اہتمام اور انتظام وانصرام کی گراں بار ذمہ داری 30 جولائی 1996 کو آپ کے کاندھوں پر رکھی گئی اور چوبیس سالہ دور اہتمام کو آپ نے خوبی اور خوش اسلوبی، دلسوزی اور اولوالعزمی، حکمت تدبیر اور شبانہ روز کی انتھک وبے لوث جدوجہد اور سعی پیہم سے نبھایا،اور منصب نظامت پر فائز ہونے کے بعد امت کے اعتماد و وقار کو مجروح نہیں ہونے دیا؛جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کے دور نظامت میں جامعہ مظاہر علوم سہارنپور نے جس برق رفتاری سے ارتقاء کی منزلیں طے کیں وہ مظاہر کی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے،جامعہ کے تئیں آپ کی یہ کاوشیں یقیناً تاریخ کے صفحات پر سنہرے حروف سے لکھی جائیں گی
آپ رحمہ اللہ نے منصب نظامت کی اس گراں بار ذمہ داری کو جن اصول اور ضوابط کو ملحوظ رکھ کر انجام دیا وہ یقیناً ہر ذمہ دار شخص کے لیے مشعل راہ ہے،آپ رحمہ اللہ جامعہ مظاہر علوم کے انتظامی امور میں حد درجہ محتاط تھے،اپنے چوبیس سالہ دور اہتمام میں معاملات کی صفائی، حسابات کا مکمل اہتمام،اقرباء پروری سے پرہیز،باصلاحیت افراد کی حوصلہ افزائی، اور وقت کی پابندی کے ساتھ ساتھ طلبہ کے لیے مکمل راحت رسانی اور اسکے لئے کد و کاوش آپ کی حیات کا جزو لاینفک بن گیا تھا،

(2)صفائی اور پاکیزگی کا اہتمام
آپ رحمہ اللہ میں صفائی ستھرائی کا کامل ذوق تھا حتی کہ جب تک صحتمند تھے مکمل جامعہ بشمول پہلی منزل پر خود گشت لگاتے اگر کہیں کوئی کوڑا کرکٹ نظر آتا تو فوری طور پر صفائی ستھرائی کا حکم دیتے،خود حضرت پان کے عادی تھے مگر دیواروں اور کونوں پر پان کی پیک پر غصہ ہوجاتے اور فورا صفائی کرواتے

(3)اپنے اکابر کی بے پناہ تعظیم
حضرت والا خود اکابر اساتذہ کی قدردانی فرماتے، اور
طلبہ کو اکابر واساتذہ کے احترام اور ان سے استفادہ کی ہمیشہ تاکید کرتےفرماتے تھے:کہ یہ قحط الرجال کا زمانہ ہے اس لئے جو اکابر ہیں ان کی قدر کرلو؛
حضرت شیخ یونس رحمہ اللہ اور حضرت مولانا زین العابدین رحمہ اللہ، مولانا پیر طلحہ صاحب رحمہ اللہ اور حضرت مولانا عاقل صاحب دامت برکاتہم کے ساتھ ساتھ دیگر اساتذہ کی بڑی قدر فرماتے تھے،

(4)منصب تدریس کا لحاظ اور رجال سازی
منصب اہتمام کی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ منصب تدریس کا بھی پورا پورا حق ادا فرماتے تھے،تدریس کے اتنے تسلسل کے باوجود بغیر تیاری و مطالعہ کے سبق پڑھانے کو طلبہ کی حق تلفی سمجھتے،رجال سازی کا ذوق جو اس وقت تقریباً ختم ہوتا جارہا ہے مگر حضرت رحمہ اللہ میں اس کا ذوق بدرجہ اتم موجود تھا، تعلیمی بیداری اور طلبہ کی استعداد سازی پر مکمل توجہ دیتے چنانچہ مغرب بعد کی تعلیم آپ کے نزدیک لازمی تھی،جس کے لئے آپ نے باضابطہ اساتذہ کی نگرانی مقرر کر رکھی تھی،ایک مرتبہ طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ علم دین میں دین مقصود ہے

«
»

عید کے دن نماز جمعہ کا حکم احادیث کی روشنی میں

اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے