آباد جنکے دم سے تھا میرا آشیانہ : جناب کولا مظفر صاحب:ایک دین پسند اور باتوفیق انسان

از: محمد عاكف جامعي ندوي 
 
سال ۲۰۲۰عیسوی اور ١٤٤١ھجری کے اس سال کو اگر عام الحزن بلکہ عام الأحزان کا نام دیا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ ایک ایسا سال ہے جو غم و اندوہ اور مصائب کے بے شمار واقعات کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے خدا تعالیٰ کی قدرت کا مظہر بنا ہوا ہے۔ ایک طرف اموات کی کثرت اور بیماری کے بے شمار واقعات سے دل بوجھل ہے تو دوسری طرف اعزاء و اقارب اور علماء و مشائخ کی جدائی سے آنکھیں پرنم اور دل پریشان ہے لیکن خدا تعالیٰ کے فیصلوں پر راضی برضا رہنا اور مشیت الٰہی پر آمنا و صدّقنا کہنا ہی ایمانی تقاضا ہے۔
قاضیِ شہر بھٹکل مولانا ملا اقبال صاحب کی وفات سے ہم اہلیان بھٹکل کے دل بوجھل ہی تھے کہ ہمارے ایک قریبی اور کرم فرما بھٹکل کے مشہور تاجر،دین پسند اور علماء کی قدرداں شخصیت جناب مظفر کولا صاحب کی خبرِ وفات نے ایک اور صدمہ سے دوچار کردیا ۔

محترم مرحوم  سے مجھے ذاتی طور پر کئی نسبتیں حاصل تھیں۔ رشتہ میں میری پرنانی اور انکی والدہ  چچیری بہنیں تھیں۔ اس کے علاوہ وہ میری ممانی کے ماموں اور میرے  نانا مرحوم ڈاکٹر علی ملپاصاحب کےمحب اور  ان کے عاشق تھے۔ بچپن میں پہلے پہل میں نے انہیں نانا مرحوم کی خدمت میں حاضر ہوتے ہوئے دیکھا تھا،وہ وقتاً فوقتاً نانا صاحب کی خدمت میں تشریف لاکر ان کے مواعظ سے استفادہ کرتے،انہیں نانا مرحوم سے قلبی تعلق تھا،وہ جب بھی ان کی خدمت میں تشریف لاتے تو ان کی پیشانی کو بوسہ دیتے ان کے ہاتھوں کو چومتے اور حد درجہ ادب و احترام کا معاملہ فرماتے۔ نانا مرحوم بھی انکی محبت اور سچے تعلق کی قدردانی کرتے ہوئے ہمیشہ محبت اور اکرام کا معاملہ فرماتے۔انہوں نے اس بات کو اپنا معمول بنا لیا تھا کہ وہ ہفتے میں ایک دن نانا مرحوم کی خدمت میں حاضری دیکر ان سے ملاقات اور استفادہ کریں، وہ کبھی  اپنے فرزند مولوی عبداللہ ندوی اور کبھی اپنی اہلیہ محترمہ کے ساتھ نانا مرحوم کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ اپنی معمول کی حاضری میں ہمیشہ اپنے ساتھ محبت بھرا تحفہ ضرور پیش کرتے،وہ جب بھی ان کی خدمت میں حاضر ہوتے تو ملک و ملت اور دین کی باتیں کرتے، نانامرحوم کی میٹھی میٹھی باتوں اور انکی نصیحت سے مستفید ہونے اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اتارنے کی کوشش کرتے، اسطرح وہ وقتا فوقتاً اپنی مختلف سرگرمیوں سے واقف کراتے ہوئےان سے مشورے بھی طلب کرتے۔  وہ جب بھی ان کی خدمت میں حاضری دیتےتو ہم سے مخاطب ہو کر یہ ضرور کہتے  کہ یہ بندہ(نانا مرحوم) خدا کا ولی ہے جسکی مثال بھٹکل ہی نہیں بلکہ  ہندوستان بھر میں خال خال موجود ہے۔ لہذا  آپ  اُنکی قدر کریں اور ان سے حتی المقدور استفادہ کرنے کی کوشش کریں۔ وہ وقتافوقتاًہونے والی اپنی ملاقاتوں سے اپنی محبت کا ثبوت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ  ہمیں اس بات کا پیغام دے جاتے کہ اللہ کے نیک بندوں کی انکی زندگی ہی میں قدر کی جائے اور انکی موت پر کفِ افسوس مَلنے کے بجائے انکی ایمانی و اخلاقی نصیحتوں سے اپنی زندگی کی اصلاح کی جائے ۔ 

مرحوم جناب مظفر کولا صاحب ایک دین پسند اور علماء کےقدرداں شخص تھے۔اس بات کا ثبوت ان کے اس عمل سے بھی ہوتا ہے کہ وہ وقتا فوقتاً  ہندوستان کے جلیل القدر علماء اور  صلحاءکو بھٹکل آنے کی دعوت دیتے، ان کا گھر چاہے بھٹکل میں ہو یا دبئی میں ہر جگہ علماء و صلحاء کا مستقر اور مہمان خانہ بنا رہتا،ان کا دسترخوان اکابر علماء و بزرگان دین کے لئے سجا رہتا،وہ ایک نیک دل اور سخی انسان تھے انکی دریا دلی سے مدارس میں بڑی رونق تھی، ہندوستان کے مدارس اور وہاں کے ذمہ داران کی کثیر تعداد اس بات کی گواہی دے سکتی ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنی دولت اور خدا کی نعمت کو دین کے مراکز اور اسلام کے قلعوں کی حفاظت کے لئے قربان کر دیا تھا۔باری تعالی سے دعا ہے کہ وہ ان کے اعمال کو شرف قبولیت سے نوازے جو انکے لئے توشہ آخرت ثابت ہوں ۔

 مرحوم نے اپنی زندگی میں کئی طرح کے حالات دیکھے، ان کی زندگی نشیب و فراز سے عبارت تھی، انہوں نے عسرت کی پریشانیاں بھی دیکھیں اور اپنوں کی بے التفاتیاں بھی جھیلیں۔ لیکن انہوں نے ان تمام حالات میں کبھی صبر کا دامن نہیں چھوڑا۔ 

انھوں نے اپنی زندگی کے ابتدائی ایام میں معاشی تنگی کی وجہ سے بڑی محنت اور قربانی کا ثبوت پیش کیا تھا۔گزرتے وقت کے ساتھ انکی محنتیں رنگ لائیں اورقسمت نے بھی ساتھ دیااور پھر خدا تعالیٰ کی بے پناہ عنایتوں سے انھوں نے عشرت کی وادی میں قدم رکھا،مرور ایام کے ساتھ انکی تجارت کو خوب فروغ حاصل ہوا۔ ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ کے کئی ممالک میں ان کی تجارت پھیلی اور گویا آپ "إنّ الله يرزق من يشاء بغير حساب"كے مصداق بن گئے۔

 اِدھر چند برسوں سے ان کا یہ معمول بن چکا تھا کہ وہ سال میں ایک مرتبہ ہندوستان کے تمام بڑے مدارس اور خانقاہوں کی طرف سفر کر کے وہاں کے علماء و صلحاء سے استفادہ کرتے اور مدارس اور خانقاہوں کی مالی امداد بھی فرماتے۔ سچی  بات تو یہ ہے کہ انہوں نے  علماء اور صلحاء کی محبت کو اپنا شیوہ بنا لیا تھا جس کی مثال اب خال خال ہی نظر آتی ہے ۔ 

مرحوم کو ہندوستان کے اکابرین اور  علماء و صلحاء سے قریبی تعلق تھا ۔وہ ہندوستان کے مشہور عالم دین اور خطیب الاسلام حضرت مولانا  محمد قاری طیب صاحب کے فرزند ارجمند مولانا محمد سالم صاحب قاسمی رحمة اللہ عليه سے بیعت و ارادت کا تعلق رکھتے تھے ان کی خدمت میں وقتاً فوقتا حاضری دے کراور اکثر خط و کتابت اور فون کے ذریعے اپنے حالات سے مطلع فرماتے۔
 مولانا مرحوم کی وفات کے بعد انہوں نے حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوری کے خلیفہ مولانا مفتی عبد القیوم صاحب رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ سے اپنا اصلاحی تعلق قائم کر لیا تھا۔ اسی طرح وہ ہندوستان کے مشہور عالم دین دارالعلوم ندوۃ العلماء کے مہتمم حضرت مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی ندوی سے بھی قریبی تعلق رکھتے تھے۔ وہ جب بھی دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ تشریف لاتے تو مولانا کی خدمت میں حاضری دیتے  اور ان سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے کی کوشش کرتے ۔ مولانا کے موصوف سےقلبی تعلق کا اندازہ اس تعزیتی پیغام سے بھی ہوتا ہے جو مہتمم صاحب نے انکی وفات پر پیش کیا ہے ۔مہتمم صاحب لکھتے ہیں:
"ابھی ابھی یہ اندوہناک خبر ملی کہ ہمارے محسن، دوست اور دینی کاموں میں پیش پیش رہنے والے بھٹکل کے مخیر اور اسلام دوست تاجر بھائی مظفر کولا صاحب کا انتقال ہو گیا، إنّاللہ وانا الیہ راجعون۔
مظفر صاحب کا مرتبہ دینی امور میں نہایت اخلاص کے ساتھ بڑھ چڑھ کر حصہ لینا بہت بلند تھا، وہ ندوۃ العلماء کے لئے ہمیشہ اپنی خدمات سب سے پہلے پیش کیا کرتے تھے ، اس خاکسار سے گہرا تعلق تھا۔ دبئ اور  بھٹکل میں ہر جگہ ان کی خصوصی توجہ ندوہ کے منصوبوں کی طرف قائم رہی اور انہوں نے دوسرے اہل ثروت کی بھی ندوہ کے منصوبوں میں حصہ لینے اور ان کی مستقل مدد کرنے کی طرف توجہ مبذول کرائی۔ ان کی مہمان نوازی قابل رشک تھی اور کار خیر میں حصہ لیکر بے حد خوش ہوا کرتے تھے۔"

مرحوم نے اپنی زندگی کی ٧٠ بہاریں دیکھیں۔ انہوں نے اپنی زندگی میں ایسی کئی یادگار خدمات انجام دی ہیں جو انکی شخصیت کو ہمیشہ زندہ و تابندہ رکھے گی۔ انکی دین پسندی اور علماء کی قدردانی کے علاوہ خدا کی راہ میں پیش کی جانے والی خدمات کو دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی ذات سے امید ہے کہ وہ انہیں اپنے خاص بندوں میں شامل فرماتے ہوئے ان پر اپنی رحمت نازل فرمائے گا ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کی نیکیوں کو قبول فرماکر انکی خطاؤں سے درگزر فرمائے اور انکو جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام نصیب فرمائے ۔ آمین

«
»

عید کے دن نماز جمعہ کا حکم احادیث کی روشنی میں

اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے