اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر

بسم الله الرحمن الرحیم

 

 

   محمد مسیب محتشم ندوی ( استاذ جامعہ اسلامیہ بھٹکل )

خالق کائنات نے دنیا کا یہ دستور بنایا ہے کہ یہاں پر آنے والے ہر شخص کو ایک دن موت کا مزہ چکھنا ہے، کسی کو اس سے مفر نہیں ، چاہے وہ شخص کتنا ہی عالی و بلند مرتبت  کیوں نہ ہو، لیکن اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو دنیا میں ایسی عزت بخشتا ہے کہ ان کی وفات  پر پوری ملت رنج و الم میں مبتلا ہوتی ہے، ان کےفراق کا غم بہت ستاتا ہے،ایسی ہی ایک عدیم المثال ہستی میرے مربی و مشفق، استاذ الاساتذہ حضرت مولانا محمد اقبال صاحب ملا ندوی کی تھی، آپ کی ذات عالی نے علم دین کی راہ میں جو تکلیفیں برداشت کی ہیں اور جس ثابت قدمی سے اس کا مقابلہ کرکے اپنی منزل کی طرف بڑھے  اس کا ثمرہ اللہ نے دنیا ہی میں عزت کی بلندیوں سے عطا کیا،  اللہ تعالیٰ اپنے مقرب بندوں کو ہی اس طرح نوازتا ہے۔ اللہ تعالی انہیں  آخرت میں بھی اس کا بھرپور صلہ عطا فرمائے ۔

مولانا کی ذات  علم اور تدبر سے بھرپور تھی مگر زندگی بالکل سادہ،  میں نے آپ میں کبھی بھی حرص و طمع نہیں دیکھی، ہر ایک سے خندہ پیشانی سے ملتے، کلموا الناس علی قدر عقولھم کی آپ زندہ مثال تھے، آپاپنے دور کے بڑے ذہین طالب علم تھے، علم دین کی راہ اپنانے کے بعد آپ نے شرعی علوم پر عبور حاصل کیا اور علم فقہ، علم الفرائض، علم فلکیات و ہیئت پر آپ کو دسترس حاصل تھی، کبھی عہدہ و منصب کی حرص نہیں کی،   اپنی زندگی میں کئی نشیب و فراز دیکھے مگر کبھی جھکے نہیں ، حالات کیسے بھی ہوں آپ ہمیشہ خود اعتمادی اور خودداری کو اپنا ساتھی بنا کر چلے ۔ آپ نے یہاں رہ کر قوم و ملت کی بے لوث خدمت کی، اپنی صلاحیت اور وسعت نظری سے اصلاح و تزکیہ کا کام کیا، اپنی قوم کے ایک عظیم قائد و رہنما بن کر ملت کی رہبری کی، جوانوں کو راہ حق پر مرمٹنے کے لیے تیار کیا، عورتوں کو شرعی علوم سے آراستہ کیا، اور معاشرتی زندگی کے حقوق سکھاکر ان کی ایسی تربیت کی کہ جس سے ہر گھر مستفید ہوا، طلبہ  کی  اپنے انداز تدریس سے بہتر تربیت کی،  ہر وقت طلبہ کی حوصلہ افزائی کرتے، آپ اپنے فن کے ماہر تھے، آپ جیسا فقیہ، مدبر، حکمت سے بھرپور، دور اندیش، اعلیٰ ظرف کا حامل، غیرت مند، بے مثال واعظ اور باکمال مصلح نہیں دیکھا،  حالات پر آپ کی گہری نظر تھی، جدید ٹیکنالوجی کا صحیح استعمال آپ کو خوب آتا تھا، آپ نے افراد سازیاو ر اخلاق سازی میں عظیم رول ادا کیا ہے، آپ کے ذریعے کئی کئی گھرانوں کا نفقہ چلتا تھا، کبھی کسی سائل کو نامراد نہیں لوٹایا، اگر اپنے پاس نہ ہوتا تو کسی سے سفارش کرکے اس کی ضرورت پوری کرواتے، سنت کا حد درجہ اہتمام کرتے، فرائض میں کبھی کوتاہی نہیں کی، اپنی علالت اور پیرانہ سالی کے باوجود کبھی فرض نماز بیٹھ کر نہیں پڑھی، کثرت تلاوت آپ کا معمول تھا، ہمیشہ اذان سے پہلے نماز کی تیاری کرتے اور مسجد کے لیے نکل پڑتے، مسجد پہنچ کر تلاوت، ذکر و اذکار میں مشغول ہوتے ، ایسا عدیم المثال شخص   آج کے دور میں ملنا بہت مشکل ہے۔

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

آپ ان ہستیوں میں سے تھے جنھوں نے اپنے علم و عمل اور  فکر و نظر سے نسلوں کی صحیح تربیت کی، ان کو ہر میدان میں کام کرنے کے طریقے سکھلائے، اور اپنے عمل کے ذریعے ایسا پیغام دیا جو لوگوں کو زندگی کی راہ متعین کرنے میں ممد و معاون ثابت ہو ۔ زمانہطالب علمی سے آپ سے مستفید ہونے کا موقع ملتا رہا، خصوصاً فراغت کے بعد تخصص فی الفقہ الشافعی کے درجہ سے کچھ زیادہ ہی مواقع فراہم ہوئے، آپ ماہر فلکیات تھے، بڑے بڑے ماہرین کی مشکلات کو منٹوں میں حل کرتے، آپ نے اپنے علم کو دوسروں کے لیے نفع بخش بنایا، آپ کے نمایاں کارناموں میں افراد سازی، اصلاح و تربیت کے علاوہ تخریج اوقات الصلاۃ، تعیین قبلہ اور ہجری تقویم کی تدوین و ترتیبہے، اسی سلسلہ میں اکثر آپ کے گھر جانا ہوتا تھا، بساوقات رات گیارہ، بارہ بجے تک آپ سے فلکیات کا علم سیکھتے تھے، معلومات کا خزانہ آپ کے پاس تھا جسے ہمیشہ دوسروں میں بانٹتے رہتے تھے۔

استاذ محترم کے ساتھ میرا ذاتی تعلق اس حیثیت سے بھی  تھا کہ آپ میرے دادا تھے یعنی میری دادی کے خالہ زاد بھائی تھے جس کی وجہ سے آپ سے روابط بہت گہرے تھے، جہاں جاتے مجھے اپنا پوتا ہی کہتے، بہرحال  ہر ایک  کا کوئی نہ کوئی رشتہ دار آپ ہی کے شاگردوں میں سےہے اس طرح آپ ایک نسل کے استاد (استاذ الجیل) ہیں، آپ کے ساتھ رہ کر آپ کے زیر نگرانی آپ کے علوم کا کچھ حصہ سیکھنے کا شرف حاصل رہا، پچھلے کچھ سالوں سے  آپ کے ساتھ مساجد کے قبلہ کی تعیین کے لیے جگہ جگہ جانا ہوا، جب بھی کہیں مسجد کا قبلہ تعیین کرنا ہوتا تو استاد محترم کا فون آتا کہ فلاں جگہ قبلہ کی تعیین کے لیے جانا ہے تیار رہنا اور کہتے  اپنے ساتھ تخصص فی الفقہ الشافعی کے طلبہ کو ساتھ لے آنا، یعنی تعلیم کے ساتھ ساتھ عملی مشق بھی آپ خوب کرواتے تھے، اسی طرح  آپ کے ساتھ ہجری تقویم کو مرتب کرنے کا موقع بھی حاصل ہوا، درحقیقت کسی بھی علم یا فن کو سکھانے کے لیے آپ بہترین معلم و مربی تھے، طلبہ کے مزاج کو سمجھ کر ان کی صحیح تربیت کرنےکا جوہر آپ میں خوب تھا، جہاں نرمی برتنی ہو وہاں انتہائی نرم رہتے اور جہاں سختی کی ضرورت ہو وہاں سختی برتنے سے پیچھے ہٹتے نہیں تھے،ہمیشہ سنت لباس سفید توپ (کندورا) زیب تن کیے سر پر عمامہ باندھے اور ہاتھ میں ایک عصا لیے سنجیدگی اور وقار کے ساتھ چلتے، دیکھنے میں بارعب مگر گفتگو میں نرم، چہرہ پر متانت، حلم و بردباری سے معمور، ہمیشہ اپنے اساتذہ کی تربیت اور نصائح کو یاد کرتے اور اس کو اپنی زندگی سے مربوط رکھتے،ہمیں بھی ان نصائح سے محظوظ کرتے اور اس پر عمل کی ترغیب دیتے،  ہر مجلس و محفل کی آپ رونق تھے۔

نرم دم گفتگو گرم دم جستجو

رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاک باز

کبھی خدا کے علاوہ کسی کا خوف نہیں تھا، اصول کے بڑے پابند تھے، حق بات کہتے اوراس پر جمے رہتے، دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتے ۔ وقت کے پابند تھے، جب بھی ان کا جامعہ میں درس ہوتا یا کسی ضرورت سے جامعہ آنا ہوتا تو پہلے ایک  فون کرکے مطلع کرتے کہ فلاں وقت پر درس ہے تیار رہنا، ایسے کئی مواقع رہے جہاں   آپ کے ساتھ کہیں آنا جانا رہا، جامعہ کی صدارت ہو یا جماعت المسلمین کا منصب  قضاء ت، خواص کے مشورے ہوں یا عوامی جلسے، اجتماعی امور ہوں یا انفرادی مسائل ہر جگہ آپ کا فیصلہ آخری مانا جاتا تھا،  خواص وعوام میں یکساں مقبول تھے، اس بات کی آپ پوری کوشش کرتے کہ اپنی ذات سے کسی کو کوئی تکلیف نہ ہو ۔

تمہارے ساتھ یہ موسم فرشتوں جیساتھا

تمہارے بعد یہ موسم بہت ستائے گا

آپ کے ساتھ گزرا ہر ہر لمحہ یاد آتا ہے ، ہر وہ جگہ جہاں ساتھ  جانا ہوتا ، ہر وہ چیز جوآپ  سے حاصل ہوئی، ہر وہ علم جو آپ سے سیکھا ۔ رہ رہ کر آپ کی یاد آتی ہے، وہ آپ کا بچوں کے ساتھ ہنسنا، مسکرانا، وہ آپ کا سکھانے کا نرالا انداز، وہ علمی گفتگو، غلطیوں پر تنبیہ، وہ جمعہ کے دن کی ملاقات، وہ ساتھ میں مدرسہ یا مسجد سے گھر چھوڑجانا، وہ آپ کی رعب دار آواز ۔

آپ کی یہ عادت تھی کہ جب بھی کسی سے ملاقات کرتے سلام میں پہل کرتے اور مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھاتے، میں وہ وقت کبھی نہیں بھول سکتا جب آپ سے آخری ملاقات ہوئی، وہ جمعرات کا دن تھا ، کچھ دنوں سے آپ علیل چل رہے تھے، مغرب کی نماز پڑھ کر ملاقات کے لیے گھر جانا ہوا، گھر میں رشتہ داروں کا مجمع تھا، معلوم ہوا کہ آپ آرام کررہے ہیں، پھر عشاء کی نماز پڑھ کر ملاقات کے لیے گیا ، آپ نماز سے فارغ ہو کر  کرسی پر تشریف فرما تھے، علالت کی وجہ سے بیٹھے بیٹھے ہی آنکھیں بند ہورہی تھیں، زبان سے کچھ بول نہیں پارہے تھے، قریب جاکر سلام کیا، آپ نے آنکھ کھول کر دیکھا اور پہچانا ، دل ہی دل میں سلام کا جواب دیتے ہوئے  اپنا ہاتھ حسب معمول مصافحہ کے لیے  بڑھا یا ، پھر آپ کی آنکھ بند ہونے لگی، تھوڑی دیر وہیں آپ کے سامنے بیٹھا آپ کو تکتا رہا، اور صحت و عافیت کی دعا کرتا رہا، چاہ تو رہا تھا کچھ باتیں ہوں مگر آپ کی علالت نے چپ رکھا، عیادت کے لیے محلہ کے افراد آرہے تھے، مگر استاد محترم آنکھیں بند کیے اپنی کرسی پر لیٹے ہوئے تھے، آپ کی اس کیفیت کو دیکھ کر دل میں عجیب سی حالت ہوئی، اسی روز دیر رات آپ کی علالت میں اضافہ ہونے کی وجہ سے کنداپور سے مینگلور لے جایا گیا، وہاں علاج چل رہا تھا، ہر طرف سے دعا کے لیے ہاتھ اٹھ رہے تھے ، پل پل آپ کی طبیعت کی خبریں موصول ہورہی تھیں، کبھی معلوم ہوتا کہ  کچھ افاقہ ہورہا ہے تو دوسرے پل طبیعت کے بگڑنے کی خبر آتی، لب پر دعائیں جاری تھیں ، انسان جو چاہے تدبیر کرے لیکن خدا کی مرضی کے آگے کوئی چارہ  نہیں ، اسی کشمکش میں کئی دن گزر گئے ، پھر اچانک ایک وقت وہ آیا کہ عصر سے قبل خبر آئی کہ آپ کی طبیعت بہت بگڑ رہی ہے، کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ کب روح پرواز کرجائے، بالآخر عصر کی نماز کے بعد  روح فرسا خبر آئی کہ آپ اس دار فانی سے کوچ کرگئے ۔ انا  لله وانا الیہ راجعون

وه سخن شناس وه دوربیں وه گدا نواز وه مہ جبیں

وه حسیں وه بہر علوم دیں مِرا تاجدار چلا گیا

کسی قریبی شخص کی رحلت کا صدمہ بڑا ہی تکلیف دہ ہوتا ہے، آپ کی وفات کی خبر سن کر بے یقینی کی کیفیت ہوگئی، اضطراب و الم طاری ہوگیا، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ہوا کیا اور اب کرنا کیا ہے،  دوسروں سے رابطہ کرکے خود کو بھی اور ان کو بھی تسلی دیتا رہا، کیوں کہ ہر شخص آپ کی وفات پر حزین اورغمگین تھا، آپ کی رحلت ہم سب کے لیے خصوصاً پوری قوم کے لیے بہت بڑا خسارہ ہے، آپ جیسا علم و فن میں ماہر شخص دور حاضر میں ملنا محال ہے، ہمیں ان جیسی شخصیات کی ان کی زندگی ہی میں قدر کرنی چاہیے، تاکہ ان کے علم اور تجربات سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہوں

لاکھوں ہی مسافر چلتے ہیں منزل پہ پہنچتے ہیں دو اک

 اے اہل زمانہ قدر کرو نایاب نہ ہوں ، کمیاب ہیں ہم

ان کی زندگی سے ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ علم کو اپنی ذات تک محدود نہ رکھیں بلکہ دوسروں کے لیے نافع بن کر جینا سیکھیں ، بڑوں کا احترام، چھوٹوں پر شفقت اور اپنے اساتذہ کی قدر کریں ، ان کی نصائح پر عمل کریں ، حق بات کہیں اور اس پر  قائم رہیں ، کوئی بھی پریشانی ہو اللہ سےرجوع کریں اور اپنا تعلق اس سے مضبوط کریں ، سنتوں کا اہتمام، فرائض کی پابندی کریں اور تلاوت کلام پاک کا معمول بنائیں ، روزانہ کچھ نہ کچھ صدقہ و خیرات کی عادت ڈالیں ۔

اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے، ان کی قبر کو نور سے بھردے، اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے ، پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے ، اور امت کو آپ کا نعم البدل عطافرمائے۔ آمین

«
»

عشرہ ذی الحجہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مغفرت کا عشرہ

شہرِ بھٹکل سے "مجلۃ الروضۃ”” منظرِ عام پر”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے