غریب بٌنکر کس سے لڑے سرکار سے یاسرمایہ دار سے!!!

    اب تو مزدوری بھی گھٹنے لگی

غریب بٌنکر کس سے لڑے سرکار سے یاسرمایہ دار سے!!!
تحریر :جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یوپی بنکر یونین)

 

آج بنکروں کی حالت اتنی خراب ہے کہ اس پہلے کبھی بھی اتنی خراب حالت نہیں ہوئی تھی بنکر مزدور فاقہ کشی کا سامنا کررہا ہے، بہت سے غریب بنکر گارا مٹی کا کام کرنے لگے جو کل تک کپڑا پہنتے تھے لوگ اس کے کپڑے کو دیکھ کر اسے خوشحالی سے تعبیر کیا کرتے تھے تو وہ بنکر یہ کہتا تھا کہ صاف کپڑے پہننا یہ ہماری تہذیب ہے لیکن وقت اور حالات نے اور بالخصوص کرونا وائرس کی مارنے
لاک ڈاؤن کے نفاذ و آن لاک کے نظام نے بنکروں کی ساری خوشیاں چھین لیں اور مزدور بنکروں کے منہ کا نوالہ تک چھین لیا بنکروں کے سارے ارمانوں کا خون ہوگیا اس کی ساری امیدیں کافور ہوگئیں اس کے سارے حوصلے پست ہوگئے ان کے چہروں رونق اور ہونٹوں کی مسکراہٹ کا خاتمہ ہوگیا کرونا وائرس کی طرح بیکاری اور بے روزگاری کا وائرس پھیلنا شروع ہوگیا، غربت نے بھی دامن پسارنا شروع کردیا دکانداروں نے بھی ہاتھ کھینچنا شروع کردیا آج بنکروں کے جسم پر پرانے اور بوسیدہ کپڑے سروں پر اینٹ اور پتھر، گرمی اور دھوپ کے تھپیڑے دیکھ کر ہر صاحبِ دل کی آنکھوں سے آنسو نکل آتا ہے اور دل سے آہ بھی نکلتی ہے لیکن ہاں بنکروں میں ہی کچھ ایسے لوگ ہیں جنہیں آج کے اس بحرانی دور میں بھی کھانے کا ذائقہ نہیں ملتا ہے اور وہ شاہراہوں پر اپنے عیش و آرام کا تذکرہ کرتے ہوئے غریب مزدور بنکروں کا مذاق اڑانے سے باز نہیں آتے، بنکروں کا ہی ایک طبقہ ہے جو غریبوں کی مزدوری گھٹانا ہی مسلے کا حل سمجھتا ہے ایسی صورت میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب آپ خود بحرانی دور میں اپنی طرف سے بجائے امداد کرنے کے، خصوصی رعایت برتنے کے مزدور کی مزدوری گھٹا رہے ہو وہ بھی اس کے ساتھ ایسا سلوک جس کی وجہ سے آپ کو دولت کمانے میں کافی تعاؤن ملا ہے اس مزدور کے ساتھ ہمدردی نہیں، اس کے بچوں کے ساتھ ہمدردی نہیں، اس کے کنبے کے ساتھ ہمدردی نہیں تو پھر کس منہ سے تم حکومت سے سہولیات کا مطالبہ کرتے ہو جہاں ایک امیر خوشحال بنکر جسے گرہست کہا جاتا ہے، جسے سیٹھ جی کہا جاتا ہے جب وہ خود اپنے مزدوروں کو بحرانی دور میں کچھ راحت نہیں دے سکتے تو انہیں حکومت سے کچھ مانگنے کا کوئی حق نہیں ہے یہیں ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے کہ آخر
غریب مزدور بنکر پہلے کس سے لڑائی لڑے حکومت سے یاسرمایہ داروں سے حقیقت یہی ہے کہ انگریزوں کے دور حکومت میں زمینداروں کی جتنی گھٹیا سوچ تھی اس سے بھی بدتر سوچ آج کے نئی نسل کے خوشحال و گرہست بنکروں کی ہے یہ اپنے مفاد کے لئے غریب مزدور بنکروں کا استعمال کرتے ہیں اور جب خود کا مسئلہ حل ہوجاتا ہے تو یہی مزدوروں کے ارمانوں کا خون کرتے ہیں، انکے خوابوں کو چکنا چور کرتے ہیں اور امیر و غریب کے مابین کھائی پیدا کرتے ہیں، انہیں گری نگاہ سے دیکھتے ہیں آج کے وقت میں ایسے بھی سیٹھ ہیں جو حالت بیماری میں بھی مزدوروں کی مزدوری چاہتے ہوئے بھی نہیں دیتے ہیں یہاں تک کہ مزدور کے گھر موت تک ہوجاتی ہے ساری حق تلفی اپنوں کے ساتھ گھر بنانے والے مستری کی مزدوری کوئی نہیں گھٹاتا، ڈینٹ پینٹ کرنے والوں کی مزدوری کوئی نہیں گھٹاتا، جوڑائی، تڑائی،کھدائی کرنے والوں کی مزدوری کوئی نہیں گھٹاتا بس اس کی مزدوری گھٹائی جائے گی جو تنائی بنائی سے جڑا ہوا ہے جو اپنے سماج کا ہے لیکن مزدور بیچارہ یہ سوچ کر صبر کرلیتا ہے کہ ہم غریب ہیں دکھ درد سہنا شائد ہماری قسمت ہے آج کے دور میں یہ جب کہا جاتا ہے غریبی بہت اچھی چیز ہے، بے سہاروں کو سہارا دینا بہت اچھی بات ہے تو کوئی نہ کوئی یہ کہدیتا ہے کہ مذکورہ چیزیں اور باتیں بہت اچھی ہیں لیکن بس تقریر و تحریر تک حقیقت میں اور عملی طور پر کچھ بھی نہیں  یہی حال رہا تو وہ دن دور نہیں جب مزدور طبقہ سرمایہ دار بنکروں کی مخالفت اور بغاوت کے لیے کمر کس کر میدان میں اتر جائے گا پھر کوئی نہیں بچا پائے گا اس لئے کہ جس دن غریب بنکر مزدور منظم اور متحد ہوگیا تو حکومت بھی مزدوروں کا ساتھ دیگی اچھائی اسی میں ہے کہ بنکر سیٹھ صاحبان اپنی سوچ اپنا نظریہ بدلیں اور اپنی اولادوں کو صحیح طریقے سے بات کرنے کا سلیقہ سکھائیں تجارت بہت اچھی چیز ہے لیکن آج نئی نسل کے امیر بنکروں نے پشتینی پیشے تنائی بنائی کو جھوٹ کا پلندہ بناکر رکھ دیا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نہ انہیں کبھی مرنا ہے اور نہ حساب کتاب دینا ہے،، بنکروں کے سامنے دوسری ایک بہت بڑی مصیبت یہ ہے کہ انکی ماہانہ بجلی بل فلیٹ ریٹ کی شکل میں پاس بک کی ذریعے جمع ہوتی تھی جس پر موجودہ اترپردیش کی حکومت نے روک لگا دیا ہے اور معاملہ واضح بھی نہیں کیا جارہا ہے کہ بجلی کی بل کس طرح جمع ہوگی جبکہ بنکروں کا مطالبہ ہے کہ 5 کلو واٹ تک کے بجلی کنکشن پر پاس بک سہولت کو بحال کیا جائے رہ گئی بات ریٹ کی تو پہلے کی بنسبت کچھ اضافہ بھلے ہی کردیا جائے لیکن ہر حال میں ماہانہ بجلی کا ریٹ فکس کیا جائے اور پاس بک کے ذریعے بجلی بل جمع کرایا جائے اسی میں بنکروں کی بھلائی ہے بصورت دیگر بنکر بجلی کا بل جمع ہی نہیں کر پائے گا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ سماج میں بھی  بے عزت ہوگا اور حکومت کی نظر میں بھی قرضدار ہوگا اور یہ سلسلہ شروع بھی ہوچکا ہے آج غریب مزدور بنکروں کے حالات یہ ہیں کہ وہ اپنا پیٹ بھرے یا کنبے کی پرورش کرے یا دیگر ضروریات کو پورا کرے اسی لئے ضروری ہے کہ حکومت مارچ 2020 سے اگست 2020 تک کی بجلی بل معاف کرے ایک بات کا اور ذکر کرنا ضروری ہے کہ مارچ سے لیکر اب تک کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جس بات کا اندیشہ تھا آخر وہی ہوا کچھ لوگوں نے راحت پہنچا نے کی غرض سے بطورِ امداد اشیائے خورد نوش تو ضرور تقسیم کیا لیکن اس وقت کہا گیا تھا کہ سبھی لوگ ایک جگہ جمع کرکے تقسیم کریں لیکن ایسا نہیں کیا لوگوں نے فرداً فرداً تقسیم کیا اس لئے کہ ثواب سے زیادہ نام کمانا تھا نتیجہ یہ نکلا کہ آج متوسط طبقہ بھکمری کا شکار ہورہا ہے نہ اس کی زبان کھلتی ہے اور نہ اس کا ہاتھ پھیلتا ہے غرضیکہ اس کی زندگی میں اندھیرا اور اس کا مستقبل تباہ ہوتا نظر ارہاہے بڑے بنکروں میں بھی کچھ گنے چنے لوگ ہیں جن کے اندر انسانیت ہے ان کے سینوں میں غریبوں کا درد ہے لیکن نئی نسل کے خوشحال بنکروں کا جو نظریہ ہے وہ تو پورے بنکر طبقہ کیلئے ناسور سے کم نہیں ہے –

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے 

09 جولائی ۲۰۲۰ (ادارہ فکروخبر)

«
»

کورونا وائرس،لاک ڈاؤن حکومت اور غریب عوام

ہندو اقوام پر مسلمانوں کے احسانات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے