یادوں کے جھروکے(4) مولانا امان اللہ صاحب بروڈ قاسمی رحمۃ اللہ علیہ مہتمم جامعہ حسینیہ عربیہ شریوردھن

از : مولانا مفتی فیاض احمد محمود برمارے حسینی

جامعہ حسینیہ عربیہ شریوردھن کا تعلیمی وقت عام مدارس کی طرح دو مرحلوں پر مشتمل ہے،صبح سات/ ساڑھے سات سے گیارہ/ ساڑھے گیارہ تک،اس کے بعد دوبجے سے سوا چار بجے تک،پہلے مرحلہ کا اختتام عام طور پر بھوک پر ہوتا ہے،اس لئے یہ  وقت دوپہر کے کھانے کا وقت ہے،اس وقت سارے طلبہ مطبخ کا رخ کرتے ہیں،اساتذہ اپنے کمروں اور گھروں کا رخ کرتے ہیں تاکہ جلد ازجلد کھانے سے فارغ ہوکر کچھ دیر ظہر سے پہلے آرام کا موقع مل سکے،اسی دوران سب کی نظریں دفتر کے سامنے کھڑی ایک موٹر سائیکل پر بھی ٹکی رہتی تھی کہ اس سے اندازہ ہوجاتا تھا کہ مہتمم صاحب موجود ہیں یا چلے گئے،مولانا مرحوم عام طور اس چھٹی کے بعد جامعہ سے تقریبا دو ڈھائی کلو میٹر کے فاصلہ پر موجود  شریوردھن گاؤں میں اپنے گھر تشریف لے جاتے اور عین وقت دوبجے جا معہ میں حاضر ہوتے،یہ آپ کی زندگی کا معمول تھا۔
مولانا مرحوم کے دوراہتمام میں جناب عبداللہ چلوان صاحب دفتر میں بحیثیت چپراسی  ایک طویل مدت تک خدمت انجام دیتے رہے اور ماضی قریب میں طبیعت کی ناسازگی کی بناء پر اس خدمت سے سبکدوش ہوئے،اس وقت وہ بیمار ہیں اللہ تعالیٰ انھیں صحت تامہ عطا فرمائے۔مولانا مرحوم کی ملنسار اور خوش مزاج طبیعت کی بناء پر ان دونوں کے درمیان اکرام اور محبت کا رشتہ تھا، یہی وجہ تھی کہ اگر کسی موقع پر مہتمم صاحب اس کھانے کے وقفہ میں گھر تشریف نہیں لے گئے تو مطبخ سے دیگر اساتذہ کی طرح ٹفن منگوالیتے اور سیدھے عبداللہ بھائی کے کمرہ کا رخ کرتے،کھانے سے فارغ ہوکر اسی کمرہ میں آرام فرماتے،اس پر مستزاد کہ عبداللہ بھائی اپنے پلنگ پر آرام کرتے اور مہتمم صاحب زمین پر بستر بچھا کر آرام فرماتے۔
جامعہ حسینیہ عربیہ شریوردھن میں مہتمم صاحب کے لئے کوئی مستقل کمرہ نہیں تھا،کہ اس میں جاکر ارام کریں ،نیزجامعہ میں عالیشان خصوصی مہمان خانہ ایک نہیں دو دو ہیں ،اور عمومی بھی ایک وسیع مہمان خانہ ہے،اسی طرح دفتر اہتمام بھی کا فی کشادہ ہے اورآرام دہ ہے،لیکن ان سب کو چھوڑ کر یہ درویش جامعہ کے چپراسی کے کمرہ کو منتخب کرتا ،اس کے ساتھ کھانا کھانے کو ترجیح دیتا،عبداللہ بھائی کا چپراسی ہونا ان کے ساتھ کھانے اورآرام کرنے کے لئے مانع نہیں تھا،اس لئے کہ مولانا مرحوم کی زندگی ہر قسم کے تکلف اور تصنع سے پاک تھی،سادگی جن سے شرمائے کے مصداق بہت ہی سیدھی سادھی زندگی گذارنے پر یقین رکھتے تھے،تعجب تو یہ ہے کہ یہ بات بہت سے لوگوں سے مخفی تھی،مولانا کے انتقال کے بعد جامعہ کے ایک قدیم استاذ سے اس کا تذکرہ کیا گیا تو انھوں نے اس سے لاعلمی کا اظہار کیا۔کیسے اخلاق پائے تھے،سیرت رسول کا کس قدر ان کی زندگی پر عکس تھا،خلفاءراشدین کی طرززندگی اور اپنے اسلاف سے پڑھا ہوئے سبق پرکس قدر خاموشی کے ساتھ عمل پیرا تھے۔

سبق
کسی بھی دینی و دنیوی اداروں  کے مرکزی دفتر یا آفس میں چپراسی پائے جاتے ہیں،ان میں سے بہت سے دفتروں کے چپراسیوں کو جس حقارت سے دیکھا جاتا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں،بہت سے دینی ادارے جہاں سے ہر ایک کی تعظیم اور قدرکا سبق سکھایا جاتا ہے وہاں کے چپراسی سے کوئی سوال کرے اور اس کی آپ بیتی کو کوئی سنے تو اندازہ ہوجایے گا کہ اس پر کیا بیت رہی ہے اور اس کے عزت نفس کے ساتھ کیسا کھلواڑ کیا جارہا ہے،مولانا مرحوم یہ سکھا کر گئے ہیں کہ چپراسی پہلے انسان۔اور اس سے بڑھ کر ایک مومن  ہے پھر چپراسی،اس کے چپراسی بننے سے اس کی انسانیت اور مومنانہ صفات کی عظمت میں کسی قسم کی کمی نہیں آتی ،جس طرح بڑا سے بڑا صاحب علم وفضل اچھے سلوک اور اچھے برتاوکا مستحق ہے اسی طرح چپراسی بھی،اور یہ بھی سکھاکر گئے کہ بغیر ایر کنڈشن اور ارام دہ کمرہ کے بھی اس قدر بڑے ادارہ کے لئے  چالیس سالہ اہتمام کی زمہ داری ادا کی جاسکتی ہے،ائیے ہم عہد کریں کہ مولانا مرحوم کی زندگی سے سںبق لیتے ہوئے اپنے اداروں کے چھوٹے سے چھوٹے خادم کا بھی اکرام کریں گے اسے عزت وعظمت کی نگاہ سے دیکھیں گے،اور اللہ کی طرف سے عطا کی ہوئی اس معمولی زندگی کو سادگی کے ساتھ گذارکر رب کے حضور اکرام کے ساتھ حاضر ہوں گے۔ 

مضمون نگار جامعہ ضیاء العلوم کنڈلورکے استاد ہیں۔

08 جولائی 2020 (فکروخبر بھٹکل)

«
»

کورونا وائرس،لاک ڈاؤن حکومت اور غریب عوام

ہندو اقوام پر مسلمانوں کے احسانات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے