دلہا ابان ، سفرِ آخرت اور اظہارِ تعزیت

شریکِ غم : ۔ سید ہاشم ایس ایم ندوی 

شادی کہتے ہیں عقدِ نکاح کے ذریعہ ایک اجنبی مرد اور ایک اجنبی عورت کا رشتۂ ازدواجیت میں شامل ہونے کو۔لہذا شادی  نام ہے خانہ آبادی کا ، دو خاندانوں کا آپس میں جڑنے کا، خوشیاں منانے کا، مبارکبادیاں بانٹنے کا، دعاؤں سے نوازنے کا، تحفے تحائف کے ذریعہ اپنی خوشیوں کے اظہار کرنے کا۔ 

مورخہ تیس جون سن ۲۰۲۰ عیسوی ،منگل کی صبح  کا آفتاب طلوع ہوتے ہوتے بھائی جناب  ایس ایم سید الیاس صاحب کے ذریعہ  یہ افسوس ناک خبر موصول ہوئی کہ دلہا سید ابان ابن عبد الرحمن ایس ایم اپنے مالکِ حقیقی سے جا ملے،وہی دلہا ابان جن کا عقدِ نکاح صرف چار روز قبل ہی جناب عمران صاحب رکن الدین کی دختر نیک اخترکے ساتھ ہوا تھا۔ جی ہاں وہی نوشاہ اپنےخوابوں کی تعبیر دیکھنے سے پہلے ہی موت کی آغوش میں چلے گئے، میں نے ایک آہ کے ساتھ  ،إنا لله وإنا إليه راجعون  کہا ۔ گویا کانوں نے کچھ غلط سنا ہو یا بتانے والے نے غلط بتایا ہو، او ر میں اس خبر پر اتنی جلد اعتباربھی کیسے کر سکتا ،جب کہ   محفلِ نکاح کو سجائے مکمل ہفتہ بھی کہاں گزرا تھا؟ابھی نئی نئی شادی ہوئی تھی،  شادی کا پانچواں دن تھا۔ بس موت ایک اٹل حقیقت  تھی جو اپنے مقررہ  وقت پر آئی،  اور مرحوم سید ابان اپنی نئی نویلی دلہن کے ساتھ بسنے اور سہاگ منانے سے پہلے ہی  اس دارِ فانی کو الوداع کہہ گئے، اس طرح ایک غنچہ کھل تو گیا مگر کھل کر مسکرا نہ سکا۔اس غمزدہ خبر سے شادی کاگھر ماتم کدہ بن گیا،نوجوان  دلہے کی ناگہانی موت  کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ، دونوں خاندانوں کی خوشیاں و شہنائیاں کافور ہو گئیں اورسارا شہر سوگوار  ۔ گویا  اس شادی کا منظر نامہ اس طرح تھا  کہ ،خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا ۔ 

یہ حاثہ کوئی  اتفاقی نہیں تھا ، اس لئے کہ شریعت ِ مطہرہ میں کوئی حادثہ یا واقعہ اتفاقی  نہیں ہوتا ہے، بلکہ ہر واقعہ  کاتبِ تقدیر کے لکھے گئے فیصلہ کے عین  مطابق ہوتا ہے،اس میں اللہ تعالی کی کیا حکمت  ہوتی ہے؟،اسے ہماری کوتاہ نگاہیں نہیں سمجھ سکتیں، اس لئے اب  سوائے صبرو برداشت  کے کوئی چارہ نہیں،قضا وقدر پر راضی برضا رہنے کے کوئی راہ نہیں ہے، اللہ کی مرضی کے آگے کس کا بس چل سکتا ہے، نوشتۂ تقدیر میں لکھا کون مٹا سکتا ہے، موت کے وقت کو کون ٹال سکتا ہے۔ 

دنیا میں کسی نعمت کے چھن جانے سے انسان کو غم  کاہونا  فطری تقاضا ہے،  زندگی سے  بڑھ  کر اور کونسی نعمت ہو سکتی ہے،  جو کسی کے انتقال کے ساتھ ہی  ختم ہو جاتی ہے  ، بالخصوص والدین کے لئے اپنے لختِ جگر اور نورِ نظر کی جدائی اور بیوی کے لئے اپنی زندگی کے ساتھی اور رفیقِ حیات کی جدائی کا غم ہونا لازمی ہے، اور مزید اس دلہے کی وفات کا سانحہ جو ابھی دو چار روز کا دلہا ہو، غم بالائے غم ہونا تو یقینی ہے، غموں کا پہاڑ ٹوٹنا تو ظاہر ہے :۔ 

رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی

تم  جیسےگئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی

دنیامیں انسان کی جان ، مال،آل و اولاد سب  امانت ہیں،صرف چند روزہ ہیں، دنیا میں ہر چیز کو فنا ہے، بچہ کی پیدائش اس کی وفات  ہونے کو بتاتی  ہے، ہر طلوع ہونے والا سورج غروب بھی ہوتا ہے، صبح کے بعد شام آتی ہے تو یہ شام بھی ڈھل جاتی ہے، پوری دنیا آزمائشوں سے گھری ہوئی ہے، کسی کے ساتھ کم تو کسی کے ساتھ زیادہ، کسی کو کچھ تو کسی کو کچھ۔ والدین کو ان کے صبر پر بےپناہ اجر و ثواب سے نوازا جائےگا، والدین کے لئے اپنی جوان اولاد کی موت  زندگی بھر کا زخم بن جاتاہے۔ مگرایک مسلمان کو کسی بھی صدمہ پر زندگی بھر غمگین رہنا جائز نہیں ہے۔ 

قرآنِ کریم  میں مختلف جگہوں پر صبر کی تلقین فرمائی گئی ہےجیسے سورۂ بقرہ میں ہے کہ ’’اے ایمان والو!صبراورنماز سے مدد حاصل کرو،بے شک اللہ  تعالی صبرکرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔اسی لئے جولوگ اللہ کی ذات  پرایمان کامل  رکھتے ہیں ، اسی سے ڈرتے ہیں ،انھیں کسی طرح کا خوف نہیں ہوتا ہے۔ وہ ہرحال پرصبرو شکر کے ساتھ جمے رہتے ہیں۔ لہذا اس آیتِ کریمہ  میں اللہ تعالی  نے مسلمانوں کوصبر اور نماز کے ساتھ اپنی پریشانیوں میں جمے رہنے کا حکم دیا۔اسی طرح احادثِ مبارکہ میں بھی صبر کرنے پر بہت زور دیا گیا ہے،صحیح مسلم شریف میں ہے کہ ہمارے نبی حضرت محمد  ﷺ نے فرمایا کہ "مومن کا معاملہ تو عجیب ہے ،اس کے لیے ہر حال میں خیر ہی خیر ہے، اور یہ بات سوائے مومن کے کسی اور کو حاصل نہیں ہوسکتی ،اگر کوئی خوشی کا معاملہ پیش آتا ہے  اور  وہ  اس پر شکر ادا کرتا ہے  تو وہ اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے  اور اگر کوئی نقصان یا تکلیف  لاحق ہوتی ہے اور وہ اس پر صبر کرتا ہے تو یہ اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے"۔ اور بخاری شریف میں ہے  کہ "  کسی مسلمان کو کوئی تھکاوٹ ،بیماری ،درد و الم ،فکر، پریشانی  اور حزن و غم یا کوئی بھی تکلیف پہنچتی ہے، یہاں تک کہ اس کو کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ اس پر اس کے گناہوں کو معاف فرماتا ہے" ۔ او ر یہ آزمائشیں جتنی بڑی ہوتی ہیں اس پر اجر وثواب بھی اتنا ہی زیادہ ملتا ہے،جس کی طرف ترمذی شریف میں اس طرح آیا ہے کہ " آزمائش جتنی بڑی ہوتی ہےاس پر ثواب بھی  اتنا ہی زیادہ ملتا ہے،اللہ جب کچھ لوگوں سے محبت کرتے ہیں تو ان کو آزمائش میں مبتلا کرتے ہیں ، جوبندہ  اس پر راضی رہتا ہے اللہ کی رضا مندی اس کو حاصل ہوتی ہے ، اور جو شکوہ و شکایت کرتا ہے ،ناراض ہوتا ہے تو اللہ بھی اس سے ناراض ہوتے ہیں۔

نئی نویلی دلہن کے لئے اپنے شوہر کی جدائی کا صدمہ بھی بہت بڑا صدمہ  ہوتاہے۔ اے بنت عمران ، ہم اس دنیا میں مسافر ہیں ، ہماری زندگی عارضی ہے، چند ساعتوں کی یہ گزر گاہ ہے،ہماری اصل منزل آخرت ہے، اسی لئے ہمارے نبی نے اس دنیا کو مومن کے لئے قید خانہ قرار دے کر کافر کے لئے جنت بتلایا ہے،پتہ نہیں   جلدی کی  اس جدائی میں خالقِ ارض و سماء کی کتنی مصلحتیں پوشیدہ ہوں؟؟ اور مالک الملک  کی کیا کیا حکمتیں ہوں؟؟، ہماری محدود عقلیں ان  کو سمجھ سکتی ہیں نہ ن کی تہہ تک پہنچ سکتی ہے، اس لئے ہمارے خالق و مالک  کے فیصلہ پر راضی برضا رہنا عقل و خرد کا تقاضا ہے، یہی سوچ آدمی کے ذہن و دماغ کو مطمئن کر سکتی ہے، اسے سکون پہچا سکتی ہے۔ ورنہ یہ سب تحریریں بے کار  اور تقریریں بھی بے فائدہ و بے سود ہیں ۔ چوں کہ یہ دو روزہ زندگی تکلیف اور آرام، چین اور بے چینی سے جڑی ہوئی ہے، ان شاء اللہ چند روزہ صبر کے بعد اس کے میٹھے پھل سے  تمہارا مستقبل بنے گا،تمہاری زندگی کے چمن میں اور پھول کھلے گا، کلی مسکرائے گی اور اسی صبر کی بدولت تمہارا مقدر مزید چمکے گا۔

محترم قارئین ۔ مرحوم نوشاہ خاندانِ سادات میں تھے، شریف النسل تھے، طبیعت بڑی اچھی اور سلجھی ہوئی پائی تھی، مزاج میں انتہائی سادگی اورتعلقات میں بے تکلفی تھی، وہ اپنی  تعلیمی قابلیت کے باوجود ایسے متواضع نظر آتے کہ گویا  اپنے کمالات   کا جیسے انہیں خیال ہی نہ ہو، چہرے مہرے سے بہت نیک و صالح ، زہد و تقوی کے پیکر لگتے، چھوٹوں پر شفقت تو بڑوں کااکرام اور علمائے کرام کا احترام کرتے ،تبلیغی کام اور دعوتی محنت  سے ان کا رشتہ  مضبوط تھا ۔دعا ہے کہ اللہ تعالی مرحوم کی مغفرت فرمائے، انھیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور ان کے والدین،بھائی بہنوں  ، بیوی اور ان کے والدین اور جملہ تمام خویش و اقارب کو صبرِ جمیل نصیب  فرمائے ۔ آمین

تحریر کردہ :۔ بروز جمعرات: ۔ مورخہ: 10 /ذو القعدہ 1441ہجری ۔ مطابق : 02/جولائی 2020 عیسوی

 

«
»

یادوں کے جھروکے۔(1)

ارطغرل سیرئیل پر دار العلوم دیوبند کا فتوی؛کیا تنگ نظری پر مبنی ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے