سوچا میں نے کیا تھا اور سوچ رہا ہوں کیا؟؟

تحریر: عتیق الرحمن ڈانگی ندوی

رفیق فکروخبر بھٹکل 

     رمضان المبارک کا اٹھائیسواں روزہ تھا، گرمی شدید رہنے کے باوجود شام ہوتے ہی ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔  غروب آفتاب کے بعد موسم نے اچانک کروٹ لی اور یوں محسوس ہونے لگا کہ جیسے گرمی کا زمانہ ہی نہ ہو، رات شروع ہوتے ہی ایک عجیب سکون محسوس ہونے لگا اور آج کی رات کے لیلۃ القدر ہونے کی علامتوں میں سے پہلی علامت صاف طور پر نظر آنے لگی تھی۔
     لاک ڈاؤن کی وجہ سے مسجدوں میں جانا ممکن نہ تھا، گھر گھر تراویح کا اہتمام تھا۔ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو دیکھتے ہوئے پڑوسیوں کے گھروں میں جاکر فرض اور تراویح باجماعت پڑھنے سے منع کیا جارہا تھا۔جس سے تقریباً محلہ کے ہرہر گھر میں تراویح ہو رہی تھی۔ میں تراویح پوری کرکے بیٹھا ہی تھا کہ کسی نے دروازے پر دستک دی، ڈور بیل بجنے لگی،  اب میں حیران وپریشان!! کہ رات  کے اس وقت کون؟؟  حالات بھی ایسے ہیں کہ کسی رشتہ دار کا آنا بھی ممکن نہیں۔ میں نے گھر کے جملہ افراد کی موجود گی کا پتہ لگایا،تو تمام گھرپر ہی موجود۔ اسی دورران دوبارہ گھنٹی بجی، میں نے تمام خیالات کو پیچھے چھوڑ تے ہوئے دروازہ کھولا، تو حیرت کی انتہا نہ رہی کہ کیا دیکھتا ہوں، ہمارے پڑوسی چچا احمدتھے، جو اپنے ہاتھ میں ناشتہ دان یعنی ایک ڈش لئے کھڑے تھے۔ اس سے پہلے کہ میں خود سلام کرکے خیریت پوچھتا، انہوں نے السلام علیکم کہا، میں نے جواب دیتے ہوئے کہاپوچھاکہ خیریت تو ہے؟ انہوں نے بڑے تپاک سے میرے سوالات کے جوابات دئیے۔ ان کے چہرے پر عجیب وغریب خوشی کی لہر دوڑ رہی تھی،جو ہمیں بہت ہی کم دیکھنے کو ملتی۔۔۔  میرے ان سے آنے کی وجہ پوچھنے سے قبل ہی کہنے لگے کہ ہمارے یہاں آج الحمد للہ ختمِ قرآن ہوا، تراویح میرے بیٹے حافظ سعیدسلمہ اللہ نے پڑھائی، ماشاء اللہ پورا قرآن مجید سنایا۔ لہذا ختمِ قرآن کی خوشی میں ہمارے گھر کچھ لذیذ کھانے تیار کئے گئے، تاکہ اپنے پڑوسیوں کو بھی ہم اپنی خوشیوں میں شریک کر سکیں۔ میں نے وہ ڈش اپنے ہاتھوں میں لی اور وہ مجھے اسی حالت میں چھوڑ کر اپنے گھر روانہ ہوگئے اور میں ڈش ہاتھوں میں لئے خیالوں کی دنیا میں کھوگیا۔
    محض اللہ تعالی کے فضل سے ہمارے گھر بھی رمضان کی شروع رات سے ہی تراویح کا اہتمام ہورہا تھا۔ میرا بیٹا ایک انجینئر بن کر ہزاروں بلکہ لاکھوں روپئے کمار رہا تھا…. چھوٹا لڑکا ڈاکٹریٹ کے شعبہ میں زیر تعلیم تھا۔ دونوں بچپن میں محلہ کے امام سے ناظرہ قرآن ختم کرچکے تھے اور میں اس وقت ان کے اس مکتب میں جانے کو ضروری دینی تعلیم سمجھ بیٹھا تھا۔۔ ہاتھ میں لئے ڈش نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔ میرے ہاتھوں میں یوں ڈش دیکھ کر گھروالوں نے اس کے متعلق سوالات شروع کردئے لیکن میں اپنے ہی خیالوں میں گم سم تھا۔ ان سوالات کے جوابات بھی میرے پاس موجود تھے لیکن میں جواب نہیں دے پارہا تھا، اسی اثناء میرے چھوٹے بیٹے نے میرے ہاتھوں سے ڈش لے لی اور سب کو مل جل کر کھانے کی دعوت دی، گھر کے تمام افراد دسترخوان پر بیٹھ گئے۔ اس دوران میری اہلیہ نے میرا چہرا پڑھ لیا اور ماتھے پر شکن دیکھ کر کچھ پوچھنا ہی چاہ رہی تھی،لیکن میں نے اشاروں سے منع کردیا۔ اتنے میں چھوٹے بیٹے نے تذکرہ کیا کہ آج سعید بتارہاتھا کہ اسے تراویح میں پورا قرآن مجید سنانے کی سعادت حاصل ہورہی ہے۔ آج آخری پارہ ہے اور وہ ہماری بھی شرکت کا خواہش مند تھا۔۔ میں نے فون پر ہی اسے پیشگی مبارکباد پیش دے دی،اس لئے کہ ہم کورونا وائرس کی وجہ سے شریک نہیں ہوسکتے تھے۔۔ چھوٹے بیٹے کے اس تذکرہ نے میرا غم مزید تازہ کردیا، مجھے رہ رہ کر امام صاحب کی باتیں یاد آنے لگیں جو ہمیشہ مجھے اپنے چھوٹے بیٹے کو حفظِ قرآن میں داخلہ کروانے کو کہا کرتے تھے۔ میں ہمیشہ ان کی باتوں کو غور سے سنتا، لیکن عمل کرنے کی نیت سے نہیں، بلکہ ان سے جان چھڑانے کے لئے کہ غور سے سننے پر وہ مزید نہیں سنائیں گے اور مجھے جلدی چھٹی مل جائے گی۔ انہوں نے مجھے قرآن مجید اور احادیث شریف کے حوالے دے کر بھی سمجھا یا لیکن میں نے اپنے بیٹے کو ڈاکٹر بنانے کا خواب دیکھ لیا تھا جسے ہر صورت مکمل کرنے کا عزم بھی کرچکا تھا۔ مجھے آج ان کی ایک ایک بات یاد آرہی تھی۔ قیامت کے دن چچااحمد کے مرتبہ کا منظر میرے سامنے گھومنے لگا۔ اولین وآخرین کے سامنے ان کے اعزاز کی تصاویر نے میرے ذہن کو گھیر لیا، میں اپنے آپ سے کچھ پوچھنا چاہ رہا تھا لیکن بیٹوں اور اہلیہ کی موجودگی اس کی اجازت نہیں دے رہی تھی۔ امام صاحب کی یہ گذارش بھی میرے کانوں سے ٹکراگئی کہ آپ کے بیٹے کو ڈاکٹر بنانے کا فیصلہ بہت بہت مبارک!!  لیکن اس سے قبل آپ اپنے بیٹے کو حافظِ قرآن بنالیں تو آپ کو ایک نہ ایک دن یہ بچہ ضرور کام دے گا، اگر دنیا میں موقع ہاتھ نہ آیا تو آخرت میں تو اللہ تعالی کے پاس ملنے والے انعامات سے کسے انکار ہو سکتا ہے؟
    آج امام صاحب کی ایک ایک بات مجھے سچ لگ رہی تھی اور میں اُس وقت کے اپنے فیصلہ پر پشیماں بھی تھا۔ مجھے آج لگ رہا تھا کہ کاش میرا بیٹا بھی حافظِ قرآن ہوتا تو آج میرے گھر والے بھی تراویح میں پورا قرآن مجید سننے کی سعادت حاصل کرچکے ہوتے اور ہم بھی اپنے پڑوسیوں سے احمد چچا کی طرح مل کر اپنی خوشیاں بانٹتے۔ لیکن….. اب تو دیر ہوچکی تھی۔ وقت ہاتھ سے نکل چکا تھا، میں سوائے خیالوں میں گم ہونے کے اور کچھ نہیں کرسکتا تھا۔
    میرے بڑے لڑکے نے میرے چہرے پر نظر آرہی پریشانیاں پوری طرح پڑھ لی تھیں، اس سے پہلے کہ میں اپنے احساسات کا اظہار کرتا اس نے پلیٹ صاف کرتے ہوئے میرے دل کی بات کہہ ڈالی۔۔۔ جس نے مجھے خیالوں کی دنیا سے باہر آنے پر مجبور کردیا۔ اب بھی مجھے اپنے خواب مجھے شرمندہئ تعبیر ہوتے نظر آرہے تھے۔۔۔بیٹے نے میرے دل کو ان الفاظ کے ساتھ ٹھنڈک پہنچائی کہ ہم بھی اپنے ضیاء کو حافظِ قرآن بناتے ہیں اور مدارس کے کھلتے ہی پہلی فرصت میں اس کاداخلہ کرادیتے ہیں، تاکہ آگے خدا نہ کرے ایسے حالات آنے پر ہم بھی گھرپرتراویح میں پورے قرآن مجید سننے کی سعادت حاصل کرسکیں، میں خوشی کے مارے بیٹے کے گلے لگ گیا اور اسے مبارکباد پیش کی۔

«
»

پہلے گستاخی، پھر معافی، یہ رسمِ مکاری ہے!!!

اتنا ہی یہ ابھریگا جتنا کہ دباؤگے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے