مجتبی حسین ، ایک تاثر ایک احساس

تحریر: سید ہاشم نظام ندوی

ایڈیٹر انچیف فکروخبر بھٹکل 

صحت سالہا سال سے خراب چلی آ رہی تھی، چلتے وقت عصا کا استعمال زندگی کا ایک جز بن گیاتھا، ٹہر ٹہر کرنہیں بلکہ  بہت سنبھل سنبھل کر چلتے تھے، البتہ عمر کے آخری حصہ میں طبیعت بہت خراب ہوتی گئی اور اسی میں آپ کا وقتِ موعود بھی آگیا اور دنیائے اردو کا چمکتا ستارہ تعمیری ادب میں طنز ومزاح اورفکر وفن کی کرنیں بکھیر کر غروب ہو گیا۔ یعنی رمضان المبارک کا پر بہارمہینہ گزار کرجناب مجتبی حسین مورخہ ۳  شوال المکرم ۱۴۴۱، مطابق۲۷ مئی ۲۰۲۰ عیسوی اپنے مالکِ حقیقی سے جا ملے۔ إنا لله وإنا إليه راجعون۔
آپ کے وفات کی خبر ملک و بیرون ِملک کے تمام ادبی  اور علمی حلقوں کیلئے انتہائی افسوسناک ثابت ہوئی کہ ہمارے ملکِ ہندوستان کے عظیم ادیب و قلم کار،صفِ اول کے مزاح نگار اورکالم نگارانتقال کر گئے اور ۱۵ جولائی ۱۹۳۶ کو عالمِ فانی میں نمودار ہونے والا بچہ اپنی زندگی کی تقریبا پچھتر  بہاریں گزار کر داغِ مفارقت دے گیا۔ابتدائی تعلیم کا آغاز اپنی جائے پیدائش گلبرگہ سے ہوا، سنہ ۱۹۵۶ ئمیں عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد سے اعلی تعلیم پائی۔ سنہ ۱۹۶۲ء میں محکمہ اطلاعات سے ملازمت کاآغازہوا پھر ۱۹۷۲ئمیں دہلی میں گجرال کمیٹی کے ریسرچ شعبہ سے وابستہ ہوئیاور وہیں پر مختلف محکموں میں اپنی خدمات انجام دینیکے  بعد ۱۹۹۲ء میں ملازمت سے بکدوش ہو گئے۔جس کے بعد مستقل حیدر آباد ہی میں مقیم رہے۔
راقم الحروف کو جب سے اردو ادب سے کچھ وابستگی ہونے لگی اور کتابوں کی دنیا سے آگاہی کے لیے مختلف مصنفین اورانشا پردازوں کا مطالعہ شروع کیا، تو جن چند ناموں نے ابتدائی عمر ہی سے ذہن و دماغ پراپنا نقش چھوڑا اور زبان وبیان سے چسکہ لینے کا شعور پیدا ہونے لگا،تو انہی میں سے ایک  نام مجتبی حسین مرحوم کابھی ہے۔ شہرِ حیدر آباد سے نکلنے والا مشہور روزنامہ سیاست بھٹکل میں ہمارے گھر سے کچھ ہی قدم کے فاصلہ پر واقع" الحجاز ایجنسی" میں آتا تھا، ہمارے جامعہ اسلامیہ میں ہفتہ بھر قیام رہنے کی وجہ سے" روزنامہ سیاست "کو روزانہ تو نہیں دیکھ پاتے، البتہ اس کا ہفتہ واری شمارہ اکثر وبیشتر اپنی نظروں سے گزرتا، جس میں سے بالخصوص دوکالم  ایک مولانا رضوان القاسمی کا دینی کالم اور دوسرا مرحوم مجتبی حسین کا مزاحیہ کالم ہمارے پسندیدہ کالموں میں سے تھے، جن کے مضامین ہوں یا خاکے دلوں کو موہ لیتے  ہیں،جن کی تحریریں بذاتِ خوداتنی دل چسپ ہیں کہ سامعین کے دلوں کومسحورکرلیتی ہیں، اسی لیے ان  کے حسین اسلوبِ نگارش نے کتنے کرداروں کوزندگی بخشی،کتنے ادب کے تشنہ کاموں نے سیرابی پائی، پچاسوں قلم کاروں نے آپ کے اسلوب سے لکھنا سیکھا اوردرجنوں مضمون نگاروں نے طنز و مزاح کے دائرہ میں رہ کر معاشرہ کو آئینہ دکھانے کا ہنر حاصل کیا اور انسانیت کو اپنی اخلاق قدروں سے آگاہ کرایا۔اب تک آپ کے مضامین و تبصروں اور سفر ناموں پر مشتمل بیسیوں کتابیں زیورِ طبع سے آراستہ  ہوچکی ہیں، اور تقریبا بیس کتابیں ہمارے چھوٹے سے ذاتی  کتب خانے میں موجود ہیں۔
عین جوانی سے ہی آپ کو طنزومزاح کی تحریروں کا ذوق تھا اس لیے  ابتدائی دور ہی سے اپنے  بڑے بھائی جناب محبوب حسین مرحوم کے محبوب ادارہ سیاست کے زیرِ اہتمام چلنے والا " روزنامہ سیاست" سے وابستہ ہو گئے، جہاں سے آپ  کے ادبی سفر کا آغاز ہوا اور مجتبی حسین کی پہچان سیاست کے خصوصی کالم نگاروں میں ہو نے لگی، اس کے بعد آپ جہاں کہیں رہے، جس ملازمت یا پیشے سے بھی وابستہ رہے، اپنے ذوق کی تسکین اور فن کی آبیاری کا کام کرتے رہے، اپنے کالم نگاری اور مضمون نویسی کو نہیں چھوڑا،اسے اردو ادب کی خدمت گردانا، اپنی زندگی کا حصہ سمجھا اور بڑی مستقل مزاجی کے ساتھ انجام دیتے رہے۔جس سے آج کل کے ملازمیں کو درسِ عبرت لینا چاہئے  کہ ملازمت کبھی بھی کسی بھی میدان میں خدمت کے لیے مانع نہیں بن سکتی اور آدمی اپنی صلاحیت کو پروان چڑھانے کے لیے اپنے ذوق اور فن کا سودا نہیں کر سکتا، یہی فن سے وابستگی مقصدِ زندگی کے تعین کا ثبوت فراہم کرتا ہے اور یقینا جس میں آپ صد فیصد کامیاب  اترے اور ساری عمر اردو پر اپنی جان قربان کئے رہے،اردو کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا،تقریبا  چار دہائیوں تک دہلی و حیدر آباد کی  ادبی محفلوں کو زینت بخشی،ثقافتی اورتہذیبی زندگی کاسرگرم حصہ بن کر فن کی آبیاری کی،آپ کے بہارِ قلم نے اردو ادب کی دنیا کو اپنا گرویدہ بنائے رکھااور پرورشِ لوح وقلم کا کام تا دمِ آخر انجام دیتے رہے۔ بلاشبہ اردو ادب کی خدمت دین کی خدمت ہے، اس سے وابستگی دین سے وابستگی ہے، اس لیے کہ زبان ہی تفہیم و تشریح اورتبیین توضیح کا واحد ذریعہ ہے اور عربی و فارسی دو زبانوں کے بعد اگر کسی اور زبان میں ہمارے دین کا سرمایہ یا اسلامی معلومات کا خزانہ محفوظ ہے تو یہی ہماری اردو زبان ہے۔
میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی    میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی
آپ کی  شخصیت کا دوسرا رخ جسے راقم نے بہت قریب رہ کر محسوس کیا ہے وہ آپ کی علم دوستی  اورعلماء کا خیال  وبزرگوں کا احترام ہے،راقم کو قیامِ حیدر آباد کے دوران آپ کوبہت قریب سے دیکھنے، آپ کے ساتھ روابط استوار رکھنے اور بار بار ملنے جلنے کا اتفاق ہوا، "روزمامہ سیاست "کے چیف ایڈیٹر جناب زاہد علی خان سے  ہمارے خصوصی روابط کی وجہ سے آپ کی خدمت میں بار ہا جانے کا موقعہ ملتا، کبھی ایک ہی ہفتہ میں تین چار مرتبہ بھی سیاست آفس جانا ہوتا تھا، جہاں پر جناب مجتبی حسین مرحوم اپنے کالموں کو لے کر حاضر ہوتے، وہیں آپ سے ملاقات کا شرف ہوتا، تبادلہ خیالات ہوتے، آپ کی مجلسی گفتگوکار آمد ہوتی، علمی نکتے یالطیفے بھی بر وقت سناتے، جس سے آپ کی حاضر جوابی کا پتہ چلتا، آپ جب بھی ملتے بڑے خوش اسلوبی سے ملتے،حسنِ اخلاق سے پیش آتے، اپنی خُردنوازی کا ثبوت دیتے،کسی علمی اعتراض پر ادبی پیرایہ میں جواب دیتے،جس سے معلوم ہوتا کہ آپ انتہائی مُتواضِع اور منکسرالمزاج تھے، اسی لییجو آپ سے ایک بار ملتا وہ بار بار ملنے کی خواہش کرتا۔ جن ملاقاتوں کے بعد اب جناب ظفرکمالی کا تجزیہ بھی بالکل صحیح لگتا ہے کہ "تعلقات نبھانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں،رشتوں کا پاس ولحاظ کوئی مجتبیٰ صاحب سے سیکھے،یہ رشتے خواہ خاندانی ہوں یا ادبی ومعاشرتی، ایسا لگتا ہے اللہ نے انھیں خصوصی طورپر اسی کے لیے پیدا کیا تھا"۔
ہماری آپ سے آخری ملاقات ۱۷ دسمبر ۲۰۱۹ء کو سیاست آفس ہی میں ہوئی تھی،لیکن کسے پتہ تھا کہ وہ آخری ملاقات ثابت ہوگی، البتہ یہ آخری ملاقات بھی  آپ سے عقیدت میں اضافہ کا سبب بنی۔ حالیہ مرکزی  حکومت کی جانب سے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف روا رکھے گئے معاندانہ سلوک اور ناانصافی کی وجہ سے جہاں ملک بھر میں احتجاجات کی ایک لہر شروع ہو گئی تھی، این آر سی اور شہریت ترمیمی قانون کے خلاف بطور احتجاج اقدامات کئے جانے لگے  اور ملک کے غیور و باضمیر لوگوں میں اپنی غیرت اور حمیت کا ثبوت فراہم کر رہے تھے، جس کا سلسلہ عوام سے کر خواص تک، امیر سے لے کر فقرت اور پڑھے لکھے سے لے کر بے پڑھوں تک محیط تھا اورہر طرف سے  ملک کی موجودہ صورتِ حال  پر مایویسی کا اظہار کیا جا رہا تھا، اسی دوران پدم شری ایوارڈ سے مجتبیٰ حسین کو نوازے جانے کا اعلان ہوا، جو ایوارڈ بھارت رتن، پدم وبھوشن، پدم بھوشن کے بعد دینے والا سب سے امتیازی اعزاز شمار کیا جاتا ہے، جب اس اعزاز کا اعلان ہو گیا تو آپ نے اس اعزاز و ایوارڈ کو ملک کے موجودہ این آر سی اور شہریت ترمیمی قانون کے خلاف اپنا احتجاج پیش کرتے ہوئے اس واپس کرنے کا اعلان کر دیا،اور پورے ملک میں ایک غیرمعمولی مثال قائم کی  اورپدم شری ایوارڈ  واپس کرنے والی اُردو ادب کی پہلی شخصیت ہونے کا اعزاز حاصل ہوگیا۔  جس کے اعلان کے لیے اپنی ضعیف العمری اور نقاہت اور کمزوری کے باوجود  سیاست دفتر تشریف لے آئے، اخباری نمائندوں کو اپنا بیان دیا اور سیاست ٹی وی پر بطور احتجاج ’’پدم شری ایوارڈ‘‘واپس کرنے  کا اعلان بھی کیا  اور بتایا کہ اس اعزاز کومیں مسترد اور ایوارڈ کو واپس کرتاہوں، میں یہ فیصلہ اپنی ضمیر کی آواز پر کر رہا ہوں اورمیں کسی بھی حال میں جمہوریت کی تباہی کو برداشت نہیں کرسکتاے اس طرح دنیا سے رخصت ہوتے  ہوتے اپنی دینی حمیت اور اسلامی غیرت کا ثبوت دیتے گئے جو ان شاء اللہ آپ کے حق میں بروزِ قیامت سببِ مغفرت بننے کے ساتھ ساتھ عند اللہ رفعِ درجات کا بھی سبب بنے گا۔ اللہ تعالی کے یہاں تو مغفرت کے لیے بہانہ چاہئے، جو کام صرف رضائے الہی کے لئے اخلاص کے ساتھ کیا جائے گا اللہ اس کے عوض بہت نوازے گا۔ اللہ تعالی مرحوم کی مغفرت فرمائے،آپ کی خدمات کو قبول فرمائے۔

تحریر کردہ بتاریخ:5 شوال المکرم 1441 ہجری، مطابق: 28 مئی 2020 عیسوی
 

«
»

چند خوش گوار یادیں : مولانا شاہد صاحب فیض آبادی رحمۃ اللہ علیہ

ارباب مدارس اور ان کے ناقدین سے کچھ گزارشات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے