عشرہ اخیرہ کا اعتکاف نفس و شیطان کے فتنوں کا علاج!

    ازقلم: مولانا محمد رضوان حسامی و کاشفی
 

    محترم قارئین کرام! رمضان المبارک کی خصوصی عبادات میں سے ایک خاص عبادت آخری عشرہ کا اعتکاف بھی ہے،جو سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے یعنی پورے محلے میں سے ایک بندہ بھی اگر مسجد میں اعتکاف کرلے تو وہ سب کی طرف سے کافی ہوجاتا ہے۔اگر کوئی ایک بھی نہ کرے تو سب کے سب گناہگار ہوں گے۔اور اعتکاف کا لفظی معنی ہے: ”ٹھہرنا اور رکنا“۔ اعتکاف کرنے والا کچھ مدت کے لیے ایک خاص جگہ یعنی مرد مسجد میں اور عورت گھر کے خاص حصہ میں جسکو اس نے منتخب کیا ہوتا ہے ٹھہرا اور رکا رہتا ہے، اس لیے اسے اعتکاف کہتے ہیں۔اور رمضان المبارک کے مسنون اعتکاف کا وقت بیسواں روزہ پورا ہونے کے دن غروبِ آفتاب سے شروع ہوتا ہے اور عید کا چاند نظر آنے تک رہتا ہے۔ لہٰذا اعتکاف کرنے والے کو چاہیے کہ وہ رمضان کی بیس تاریخ کو سورج غروب ہونے سے پہلے ہی اعتکاف کی جگہ پہنچ جائے۔
    یاد رکھیں! اعتکاف کرنا حضور اقدس ﷺ، حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین، تابعین و تبع تابعین اور ہمارے اسلاف رحمہم اللہ کا معمول رہا ہے۔احادیث و روایات کے اندر اعتکاف کی بڑی عظمتیں اور فضیلتیں وارد ہوئی ہیں۔مثلاً امی جان حضرتِ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے پاس بلوا لیا۔پھر آپ علیہ السلام کے بعد آپکی ازواج مطہرات اعتکاف کیا کرتی تھیں۔(رواہ البخاری)۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: نبی کریم ﷺ ہر رمضان میں دس دن کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے، اور جس سال آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے دنیا سے پردہ فرمایا اس سال بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔(رواہ البخاری)۔حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”جس شخص نے رمضان میں دس دن کا اعتکاف کیا تو اسکو دو حج اور دو عمروں کا ثواب ملے گا“۔(رواہ البیھقی)۔اور حضرتِ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ کی رضا کے لیے ایک دن کا اعتکاف کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسکے اور جہنم کے درمیان تین خندقوں کو آڑ بنا دیں گے، ایک خندق کی مسافت آسمان و زمین کی درمیانی مسافت سے بھی زیادہ چوڑی ہے۔(المعجم الاوسط للطبرانی) سبحان اللہ! جب ایک دن کے اعتکاف کی یہ فضیلت ہے تو رمضان المبارک کے آخری عشرے کے اعتکاف کی کیا فضیلت ہو گی؟ بڑے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو رمضان المبارک کی بابرکت گھڑیوں میں اعتکاف کرتے ہیں اور مذکورہ فضیلت کو حاصل کرلیتے ہیں۔
    اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا زاد بھائی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اعتکاف کرنے والا گناہوں سے محفوظ رہتا ہے اور اسکی تمام نیکیاں اسی طرح لکھی جاتی ہیں جیسے وہ خود انکو کرتا رہا ہو۔(سنن ابن ماجہ) اس حدیث کے اندر اعتکاف کے فوائد میں سے دو فائدوں کو بیان فرمایا گیا ہے: پہلا فائدہ معتکف جتنے دن اعتکاف کریگا گناہوں، خطاؤں سے محفوظ رہے گا۔ دوسرا فائدہ جو نیکیاں وہ باہر کرتا تھا مثلاً مریض کی عیادت، نماز جنازہ میں شرکت، غریبوں، فقیروں، مسکینوں، یتیموں کی امداد، حضراتِ علماء کرام کی مجلسوں میں شرکت وغیرہ، معتکف حالتِ اعتکاف میں ان سارے کاموں کو کر تو نہیں سکتا لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ بغیر کیے کے ہی معتکف کو ان جیسے اعمال کا اجر و ثواب مرحمت فرما دیتے ہیں۔ اس سے بڑی عظمت اور فضیلت کی بات کیا ہو گی کہ مفت میں ہی اجر و ثواب مل جائے۔اور ایک حدیث میں اللہ کے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے اللہ کی رضا کے لیے ایمان و اخلاص کے ساتھ اعتکاف کیا تو اسکے پچھلے گناہ معاف ہو جائیں گے۔(کنز العمال) اس حدیث میں اعتکاف کرنے پر جن گناہوں کی معافی کا وعدہ کیا گیا ہے اس سے صغیرہ گناہ مراد ہیں کبیرہ گناہوں کی معافی کے لیے توبہ و استغفار شرط ہے، لیکن علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی بندہ اعتکاف کی حالت میں توبہ و استغفار بھی کرتا رہے تو اسکے دونوں گناہ معاف ہو جائیں گے۔اعتکاف دین کی عبادات میں سے ایک اہم ترین عبادت ہے، کیا ہمارے دلوں میں اس عبادت کا شوق ہے؟ وہ لوگ جنکے دلوں میں اللہ کا عشق ہوتا ہے وہ پورا سال رمضان المبارک کے آخری عشرے کا انتظار کرتے رہتے ہیں کہ کب اپنے عظیم اور محبوب مالک لیے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مسجد میں جاکر بیٹھیں۔
دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن 
بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے 
    رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف بہت ہی اہم اور عاشقانہ عبادت ہے۔ شیخ الحدیث حضرت زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اعتکاف کا بہت زیادہ ثواب ہے اور اسکی فضیلت اس سے زیادہ کیا ہوگی کہ نبی کریم ﷺ ہمیشہ اسکا اہتمام فرماتے تھے۔معتکف کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو کسی کے در پر جاکر پڑ جائے اور کہے جب تک میری درخواست قبول نہیں ہوگی میں یہیں پڑا رہوں گا۔
نکل جائے دم تیرے قدموں کے نیچے 
یہی دل کی حسرت یہی آرزو ہے
    صاحبِ مراقی الفلاح علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ اعتکاف اگر اخلاص کے ساتھ ہو تو افضل ترین اعمال میں سے ہے، اسکی خصوصیات شمار سے باہر ہیں کہ اس میں دل کو دنیا وما فیہا سے الگ کر لینا ہے اور نفس کو مولیٰ کے سپرد کر دینا ہے اور اپنے عظیم آقا کی چوکھٹ پر پڑ جانا ہے۔اور زبان حال سے کہتے رہنا ہیکہ۔۔۔
ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی 
اب تو آجا اب تو خلوت ہو گئی 
    معزز قارئین! ہم دنیا میں اکیلے آئے تھے اور اکیلے ہی جانا ہے قبر میں کوئی ساتھ نہیں جائے گا قبر کی تنہائی اور وحشت کو دور کرنے کی صرف چند چیزیں ہیں اگر ہم نے ان چیزوں کو اپنا لیا تو قبر میں ہمارے مزے ہو جائیں گے، ان چیزوں میں سے ایک اعتکاف بھی ہے سبحان اللہ! مخلوق کے درمیان رہتے ہوئے مخلوق کو چھوڑ کر خالق سے جڑ جانا یہ وہ عمل ہے جو قبر کی تنہائی اور وحشت کو دور کر دیگا، اللہ تعالیٰ کہے گا ائے بندے تم نے میرے لیے تنہائی کو برداشت کیا آج میں تمہاری قبر سے تنہائی کو دور کروں گا۔اور اعتکاف کا اصل مقصد لیلۃ القدر کو پانا ہے جو آخری عشرے کی طاق راتوں میں آتی ہے جو بندہ آخری عشرے کا اعتکاف کریگا اور شبِ قدر کو تلاش کریگا اسے ضرور بالضرور شبِ قدر نصیب ہوگی جسکے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے بھی افضل ہے۔(سورۃ القدر) یعنی اگر کوئی بندہ صرف اس ایک رات میں عبادت کرے تو اسے ہزار مہینوں سے بھی زیادہ عبادت کرنے کا ثواب ملے گا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے کہ لیلۃ القدر کو رمضان کی آخری راتوں میں تلاش کرو۔(صحیح البخاری)
    اسی طرح ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: حضور اکرم ﷺ نے رمضان کے پہلے عشرہ میں اعتکاف فرمایا اور پھر دوسرے عشرہ میں بھی، پھر خیمہ سے جس میں اعتکاف فرمارہے تھے، باہر سر نکال کر ارشاد فرمایا کہ میں نے پہلے عشرہ کا اعتکاف شب قدر کی تلاش اور اہتمام کی وجہ سے کیا تھا پھر اسی کی وجہ سے دوسرے عشرہ میں کیا، پھر مجھے کسی (یعنی فرشتہ) نے بتایا کہ وہ رات آخری عشرہ میں ہے، لہذا جو لوگ میرے ساتھ اعتکاف کررہے ہیں وہ آخری عشرہ کا بھی اعتکاف کریں۔(بخاری مسلم) ان احادیث میں لیلۃ القدر کو پانے کے لیے آخری عشرہ کا اہتمام بتایا گیا ہے۔ جو دیگر احادیث کی روشنی میں آخری عشرہ کی طاق راتیں ہیں۔ لہٰذا آخری عشرہ کی راتوں میں عبادات کا خوب اہتمام کرنا چاہیے یا کم از کم طاق راتوں میں تو ضرور کرنا چاہیے تاکہ لیلۃ القدر نصیب ہو جائے۔
     اعتکاف کی ان ساری عظمتوں اور فضیلتوں کے باوجود نفس و شیطان ہمیں اعتکاف کرنے سے بہت روکیں گے کہ رمضان کی عید سال میں ایک مرتبہ آتی ہے عید کے لیے خوب شاپنگ کرو گھومو پھرو مزے اڑاؤ، ذرا جوس پی آو، ہوٹل سے کھانا کھا آؤ، تھوڑا گپ شپ کرو، تھوڑا بد نظری کرو، اِن اُن کی غیبت کرو وغیرہ، شیطان اور نفس کے بچھا ہوئے ان فتنوں سے بچنے کا بہترین علاج اعتکاف ہے۔ لہٰذا اس سال چونکہ لاک ڈاؤن ہی میں رمضان کا مقدس مہینہ گزر رہا ہے تو ہمارے اکابر اور حکومت کی پالیسیوں کو سامنے رکھتے ہوئے جو مختصر عملہ مسجد میں نمازیں، تراویح وغیرہ پڑھ رہا ہے، انہی میں سے کوئی ایک بندہ ضرور اعتکاف کرے اور پوری دنیا میں کورونا وائرس وغیرہ کو لیکر جو حالات خراب ہیں اسکے لیے خوب دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ حالات کو پھر سے ساز گار بنادے اور امن و امان کا ماحول قائم ہو جائے۔آمین ثم آمین
فکر دنیا کر کے دیکھا، فکر عقبیٰ کر کے دیکھ
سب کو اپنا کر کے دیکھا،رب کو اپنا کر کے دیکھ

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

16مئی2020فکروخبر

«
»

قوم کے نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کی ضرورت

کورونا وائرس کی وبا اور ماہِ رمضان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے