انسانیت سے ہوگئے ہم دور، بہت دور

تحریر :  عتیق الرحمن ڈانگی ندوی 

(رفیق فکروخبر بھٹکل)

    راستے کنارے چل رہی بوڑھی ماں کا کسی کو پتہ معلوم نہ تھا۔ وہ اِس دکان سے اُس دکان اور اُس دکان سے اِس دکان جارہی تھی، کبھی ہوٹل کے باہر کھڑی ہوتی اور کبھی ریستوران کے باہر کسی کا انتظار کرتی،ہر آنے جانے والا اسے دیکھتا اور بے بس ومجبور سمجھ کر آگے بڑھتا۔ کچھ لوگ اس کا تعاون کرنے کے لیے بھی آگے بڑھے اور اس کی جھولی میں کچھ رقم ڈال کر اس کی بے بسی اور عاجزی پر افسوس کرنے لگے۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر اس بڑھیا کا قصہ ہے کیا؟ وہ کون ہے اوراس کا تعلق کس علاقہ سے ہے….؟؟
    رات کے ساڑھے دس بج چکے تھے، ہر شخص سونے کی تیاری کررہا تھا۔ لاچار بوڑھی ماں کو ٹھکانہ کی تلاش تھی۔ بے چاری کہاں جاتی، اس کی خود سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کہاں جائے..؟۔ اندھیرا بڑھ رہا تھا، لوگ اپنے گھروں کی بتیاں بھی بند کرنے لگے تھے۔ بوڑھی ماں کورات گذارنے کا کوئی ٹھکانہ نظر نہیں آرہا تھا۔ وہ بس سامنے سڑک پر آگے بڑھ رہی تھی، شاید ماضی کی یادوں میں گُم وہ رات کو بھی بھول چکی تھی۔ اسی دوران خاتون نے ایک گھر پر دستک دی۔ رات کی اس تاریکی میں دستک سے گھروالے پریشان ہوگئے اور اس کی پریشانی ان کے چہروں سے عیاں ہورہی تھی۔ بیوی اپنے خاوند کو اور خاوند اپنے بچوں کو دیکھ رہا تھا۔ کوئی ہمت نہیں کر پا رہا تھا کہ معلوم بھی کرے آخر اتنی رات کو دستک کون دے رہا تھا…؟  دوبارہ خاتون نے آواز لگائی تو ادھیڑ عمر کے باریش شخص نے دروازہ کھولا، بڑھیا کو سامنے پاکر اس کے ہوش وحواس اڑگئے۔ اس کا چہرہ دیکھ کر اسے دھندلا دھندلا کچھ یاد آنے لگا۔ سامنے کھڑی بوڑھی کو اس نے کہیں دیکھا تھا وہ ماضی کے دریچوں میں گم ہو گیا، وہ بار بار اپنی یادوں کو تازہ کرنے لگا اور کچھ ہی دیر بعد اسے یاد آگیا کہ یہی وہ بوڑھی ہے جو کچھ ماہ قبل ان کے گھر آئی تھی اور اپنی لاچاری او ربے بسی کا قصہ سنا رہی تھی۔ 
     بوڑھی ماں کا اکلوتا بیٹا تھا۔ شوہر بھی مزدوری کیا کرتا تھا اور جو کچھ مقدر کا ہوتا شام کو گھر لے آتا،۔ اللہ کے فضل سے زندگی کی گاڑی چل رہی تھی، اچانک ان کی زندگی نے کروٹ بدلی۔ بیٹے کا ایک حادثہ میں انتقال ہوگیا، پھر کیا تھا، ان کی زندگی میں اندھیرا چھانے لگا۔ جس بیٹے میں بوڑھے ماں باپ اپنا سہارا تلاش کررہے تھے وہ اس دنیا سے رخصت ہوچکا تھا۔ زندگی کی جتنی سانسیں لے کر وہ اپنی ماں کی پیٹ سے اس فانی دنیا میں آیا تھا وہ ختم ہوچکی تھی، قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ انسان کتنا عاجز ہے، وہ سمجھتا ہے کہ میرے بیٹے بڑھاپے میں میرا سہارابنیں گے، میرے دکھ درد میں کام آئیں گے،  میری خدمت کریں گے اور ان کے ذریعہ سے دو وقت کی روٹی کا بندوبست ہوجائے گا۔ اسے معلوم ہے کہ اللہ کے چاہنے سے سب کچھ ہوتا ہے اور اس کے نہ چاہنے سے کچھ بھی نہیں ہوتا، اس کے باوجود فانی دنیا کی زندگی میں کھوکر اس کا یقین متزلزل ہوجاتا ہے اور وہ خدا پر بھروسہ کرنے کے بجائے فانی چیزوں پر بھروسہ کر بیٹھتا ہے۔ 
    بیٹے کے انتقال کے بعد دنیا انہیں تاریک نظر آنے لگی، اپنے ہونہار بیٹے کے انتقال سے اسے بڑا صدمہ لاحق ہوا۔ غم میں ڈوبی آنکھیں کسی کو تلاش کررہی تھی جو ہمیشہ کے لیے ان کی آنکھوں سے دور ہوچکا تھا۔دن کے اجالے اور رات کی تاریکی میں وہ اسے ڈھونڈنے کی کوشش کررہے تھے۔ اس کے بچپن کی زندگی ان کے سامنے گھومنے لگی۔ تعلیمی مراحل اور مجبوری کی وجہ سے کم عمری میں ہی اس کے روزی تلاش کرنے کے ایام آنکھوں کے سامنے نظر آنے لگے۔ اسی صدمہ میں ان کی کمزوری بڑھتی گئی اور اجل نے ان کے گھرپر دستک دی اور ہمیشہ کے لیے اپنی بوڑھی بیوی کو تن تنہا چھوڑ کر وہ بھی ہمیشہ کے لیے گھر سے رخصت ہوگئے۔ 
    بوڑھی ماں اب پریشان رہنے لگی۔ اس کی زندگی کا سارا اثاثہ ختم ہوچکا تھا۔ اب کوئی اس کا پرسانِ حال نہیں تھا۔ بیٹیاں بیاہ کر اپنا گھر بسا چکی تھیں۔ اپنی ماں کو ہمیشہ اپنے آنکھوں کے سامنے رکھ کر ان کی خدمت کی آس لگائے بیٹھی ہوئی تھی لیکن بوڑھی ماں اپنی کسی بیٹی پر بوجھ بننا نہیں چاہ رہی تھی۔ اپنے پرانے ہی گھر میں رہنے کی اس نے ٹھان لی اور جب تک اعضا ساتھ دیتے رہے اس وقت تک اپنا پیٹ مزدوری کے ذریعہ پالتی رہی اور جب وہ جواب دے چکے تو اللہ پر توکل کر کے زندگی گذراتی رہی۔ 
    اس کا بیٹا اپنے پیچھے صرف دو پوتے چھوڑ کر چلاگیا تھاجن کی بڑے لاڈو پیار اور نازونعم میں پرورش ہوئی تھی۔ بہترین تعلیم کا ان کے لیے بندوبست کیا تھا۔ بوڑھی ماں بھی اپنے شوہر اور بیٹے کے انتقال کے بعد ان کا خیال رکھتی تھی۔ہمیشہ اپنے کھانے میں ان کا حصہ ہوتا تھا، بوڑھی ماں کے آغوش میں پرورش پانے والے یہی بچے اب بڑے ہوکر خود کو تعلیم یافتہ کہنے لگے۔ انہیں اپنی تعلیم پر اتنا ناز تھا کہ وہ خود کو تیس مارخاں سمجھنے لگے۔اس تعلیم نے انہیں تعلیم یافتہ تو بنایا تھا لیکن اخلاقِ عالیہ سے بہت کوسوں دور تھے۔ ان کے اندر دوسروں سے غمخواری اور مدد کا جذبہ تو درکنار، اپنوں کی ہی فکر نہیں تھی۔ وہ اپنے فرائضِ منصبی اور احساسِ ذمہ داری سے اتنے غافل تھے کہ اسی غفلت نے ان کے اندر کی انسانیت کو بھی ختم کردیا تھا۔ انسان اپنے انجام سے کس قدر غافل ہے کہ وہ جوانی میں اپنا بڑھاپا بھول جاتا ہے۔ وہ اللہ پر توکل اور اس کے فیصلوں پر یقین کرنے کے بجائے اسے اپنی تعلیم پر بھروسہ ہوتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اسے جو کچھ عزت اور دولت حاصل ہوئی ہے وہ اسی تعلیم کا نتیجہ ہے، اپنے بیٹوں اور پوتوں کو بڑی امیدوں کے ساتھ تعلیم دلائی جاتی ہے اور یہی بیٹے اور پوتے تعلیم کے حصول کے بعد اپنوں کو ہی بھول جاتے ہیں، وہ اپنے اور پرائے میں فرق نہیں کرسکتے، انہیں تو بس اپنی زندگی اور ترقی پر ناز ہوتا ہے، اپنی بیوی بچوں میں ہی گِھر جاتے ہیں اور اسی کو وہ سب کچھ سمجھنے لگتے ہیں۔ اپنے بچپن اور لڑھکپن کا زمانہ وہ اس قدر بھول جاتے ہیں کہ انہیں یاد دلانے پر بھی وہ جان کر انجان بن جاتے ہیں۔ حالات دیکھ کر محسوس یہی ہونے لگا ہے کہ شاید اب اپنا گھر بسانے اور دوسروں کے گھروں کو اجاڑنے والے کو دنیا تعلیم یافتہ کہنے لگی ہے۔ اپنوں سے دوریاں پیدا کرنے والے کو ترقی یافتہ کہا جانے لگا ہے اورتعلیم کے اعلیٰ مقاصد کو پسِ پشت ڈال کر اپنے ذمہ داریوں سے منھ موڑ کر زندگی گذارنے والے کو عزت واکرام سے نوازا جانے لگاہے۔ 
     بالآخر بوڑھی ماں رات کی اندھیری میں کہا ں جاتی، وہ اس ادھیڑ عمر کے گھر پر بھی رہنے کو تیار نہیں تھی۔ اس نے ایک گلاس پانی پیا اور اللہ کا شکرادا کرتے ہوئے گھر سے نکل گئی۔ باریش شخص کو بوڑھی ماں کی فکر ستانے لگی۔ وہ ہمت کرکے اس کے پیچھے پیچھے چلتا رہا اور بار بار اس سے پوچھنے کی کوشش کرنے لگا کہ اتنی رات کو کہاں جارہی ہو لیکن وہ بوڑھی ماں بتانے کو تیار نہیں تھی۔ آگے بڑھتے ہوئے وہ ایک کینٹین کے پاس آکر رک گئی، شاید اسے کچھ یاد آنے لگا، وہ غور سے کینٹین اور وہاں کھڑے اس کے مالک کو پہچاننے کی کوشش کرنے لگی اور کچھ ہی دیر میں اس کے مالک سے یوں باتیں کرتا دیکھ کر محسوس ہونے لگا کہ برسوں سے شناسائی ہو۔ اس نے اتنی رات آنے کی وجہ بھی دریافت کی،پہلے بوڑھی ماں کو اپنی کینٹین میں بٹھایا، پانی پیش کیا اور حال چال دریافت کی جس پر بوڑھی ماں نے اپنا دکھ بھرا قصہ سنایا۔ بھوک کی شکایت پر فوراً روٹی تیار کروائی۔ مذہبِ اسلام سے تعلق نہ رکھنے کے باوجود اس میں انسانیت تھی، وہ اپنے بیٹے اور بہو کے ساتھ بہت دیر تک اس سے باتیں کرتا رہا، اسے سمجھانے کی کوشش کرتا رہا، وہ بھی کیا کرتا جتنا اس کے بس میں تھا وہ کرچکا تھااور انسانیت کا فرض ایک حد تک پورا کرچکا تھا۔ 
    رات کی بڑھتی تاریکی میں جب باریش نوجوان نے اپنے کچھ شناسہ لوگوں سے اس بوڑھی ماں کے رشتہ داروں کے متعلق دریافت کیا تو اس کے آنکھوں کے سامنے اندھیراچھانے لگا۔وہ کوئی اورنہیں تھابلکہ اس کا ہی ایک شناسا تھا۔فوراً اس سے رابطہ کیا، اس نے کال اٹھائی اور خیر خیریت معلوم کی تو دوسری جانب سے بڑا اچھا جواب آیا…  اُس نے بھی اِن کی خیریت دریافت کی۔ باتوں باتوں میں جب باریش شخص نے دادی کے متعلق سوال کیا تو اس نے ایک لفظ کہے بغیر ہی کال کاٹ دی۔ دوبارہ، سہ بارہ اور بار بار اس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی جانے لگی، دوسری طرف سے موبائل سوئچ آف کی آواز کانوں سے ٹکرانے لگی اور یوں اس بوڑھی ماں کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوتا نظر آنے لگا۔ 
    بے بس اور مجبور بوڑھی کی خبر پاکر کچھ نوجوان گلی کے نکڑ پر جمع ہوگئے اور اُس بوڑھی خاتون کے پوتوں کی زندگی پر تُف کرنے لگے… اس کے دیگر رشتہ داروں سے رابطہ کرکے ان کے مسائل حل کرنے میں لگ گئے۔ پریشان بوڑھی ماں کو دیکھ کر محسوس یہی ہورہا تھا کہ اس کے پوتوں نے بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کرکے اپنے کو تعلیم یافتہ لوگوں میں شامل تو کرلیا تھالیکن اخلاقِ حسنہ اور عالی کردار سے عاری ہوکر انسانیت سے بہت دور نکل چکے تھے۔

«
»

گودی میڈیااورصحافت کے عصری تقاضے

اے صاحب ایمان ! تیری سادگی پہ رونا آیا !!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے