تحریر: ابو رَزِین محمد ہارون مصباحی فتح پوری
این آر سی، جس نے نہ جانے کتنی جانیں لے لیں، کتنے گھر اجاڑ دیے، اور نہ جانے کتنوں کو دہشت میں ڈال رکھا ہے۔ہمارے ملک کی ایک ریاست آسام میں نافذ ہونے والا یہ وہ قانون ہے جس نے ماؤں کو ان کے بچوں سے جدا کر دیا، باپ کو بیٹوں سے الگ کیا، اور بھائی کو بھائی سے بچھڑنے پر مجبور کر دیا۔اسی قانون کی زد میں آ کر اپنا سب کچھ کھو دینے والی اور نہایت کرب آمیز زندگی جینے پر مجبور ہو جانے والی ایک آسامی خاتون ہیں 'زبیدہ بیگم' عرف زبیدہ خاتون۔
آسام کے بکسا ضلعے کی رہنے والی اس خاتون کی داستان اتنی درد ناک ہے کہ آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں، حالات نے اس پر اتنے ظلم کیے ہیں کہ وہ پوری طرح ٹوٹ چکی ہے اور زندگی کی امید کھو چکی ہے۔ اس کی اور اس کے شوہر کی شہریت چھن گئی ہے، شہریت ثابت کرنے کے لیے اس نے اپنا سب کچھ کھو دیا ہے، شوہر بیمار ہے، ایک بیٹی بچی ہے جو پڑھائی کر رہی ہے، اور دن بھر کی محنت کی مزدوری 150 روپے ہے، میاں بیوی اور بیٹی کی زندگی کا ایک ایک لمحہ ڈر، دہشت اور خوف کے سائے میں گزر رہا ہے۔
آئیے جانتے ہیں ان کی زندگی کی درد ناک داستان۔
زبیدہ خاتون گوہاٹی سے تقریباً 100 کلو میٹر دور بکسا ضلعے کی رہنے والی ہیں۔ 'برہما پتّر ندی' کے کٹاؤ کی وجہ سے جب ان کے اور ان کے شوہر رزاق علی کے والدین کی زمین چلی گئی تو وہ اسی ضلعے کے گویاباری نامی گاؤں میں آ کر بس گیے۔سال 2018 میں ان کی زندگی میں مصیبتوں کا پہاڑ اس وقت ٹوٹا جب وہ اور ان کے شوہر آسام میں لوگوں کی شہریت کی پہچان کے لیے بنائے گئے قانون این آر سی کی زد میں آ گیے اور 'فورنرس ٹربیونل' نے انھیں غیر ملکی قرار دے دیا۔
زبیدہ بیگم نے اپنی اور اپنے شوہر کی شہریت ثابت کرنے کے لیے 'فورنرس ٹربیونل' کے سامنے اپنے والد جاوید علی کے سال 1966، 1970، 1971 کی ووٹر لسٹ کے کاغذات سمیت 15 قسم کے دستاویزات پیش کیے، لیکن انھیں ناکامی ہاتھ آئی، کیونکہ ٹربیونل نے ان دستاویزات کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور یہ کہا کہ وہ اپنے والد سے اپنا تعلق اطمینان بخش طریقے پر ثابت نہیں کر پائیں۔ پھر بھی زبیدہ خاتون نے ہار نہیں مانی اور اس معاملے کو 'گوہاٹی ہائی کورٹ' میں چیلنج کیا، لیکن وہاں بھی انھیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔
ہائی کورٹ نے زبیدہ خاتون کی عرضی کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ ”بینک اکاو?نٹس کی تفصیلات، پین کارڈ اور اراضی کی رسید جیسے دستاویزوں کا استعمال شہریت ثابت کرنے کے لیے نہیں کیا جا سکتا ہے۔“ جب کہ ا?سام انتظامیہ کے ذریعہ قابل قبول دستاویزوں کی فہرست میں اراضی اور بینک اکاو?نٹس سے جڑے دستاویزات کو شامل رکھا گیا ہے۔
زبیدہ خاتون نے ' برتھ سرٹیفکیٹ نہ ہونے کے سبب گاؤں کے پردھان' گولک کالتا' سے ایک تصدیق نامہ بنوایا جس میں ان کے اہل خانہ کے نام اور جائے پیدائش کا اندراج تھا، لیکن اسے نہ ٹربیونل نے قبول کیا اور نہ ہائی کورٹ نے۔گاؤں کے پردھان کہتے ہیں کہ ہمیں گواہی کے لیے بلایا گیا تھا اور ہم نے گواہی بھی دی کہ ہم زبیدہ بیگم اور ان کے شوہر کو جانتے ہیں اور ہم نے قانونی طور پر ان رہائش کی تصدیق بھی کی جو نا منظور ہو گئی۔گوہاٹی ہائی کورٹ سے قانونی جنگ ہار جانے کے بعد زبیدہ خاتون کے پاس آخری متبادل سپریم کورٹ ہے لیکن یہ اس غریب خاتون کی پہنچ سے بہت دور اور مشکل چیز ہے، مفلسی کی زندگی گزار رہی اس خاتون کے لیے اپنی اور اپنے بیمار شوہر کی شہریت ثابت کرنے کے لیے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانا اور وکیلوں کی مہنگی فیس ادا کرنا آسان کہاں ہے؟
آج اس وقت ان کی عمر 50 سال ہے، ان کے شوہر رزاق علی لمبے عرصے سے بیمار چل رہے ہیں، جس کی وجہ سے 50 سال کی زبیدہ اپنے کنبے کی پرورش کے لیے محنت مزدوری کرتی ہیں۔زبیدہ بیگم اپنے گھر میں کمانے والی واحد فرد ہیں، زبیدہ کو اپنے کنبے کی پرورش کے لئے بہت ساری پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کی 3 بیٹیاں تھیں جن میں سے ایک کی کسی حادثے میں موت ہو گئی ہے، اور ایک لڑکی لاپتہ ہو گئی ہے جس کی اب تک کوئی خبر نہیں ہے، جب کہ سب سے چھوٹی بیٹی ساتھ میں رہتی ہے جسے وہ محنت مزدوری کر کے تعلیم دلا رہی ہیں۔ زبیدہ کہتی ہیں کہ وہ اپنی چھوٹی بیٹی اسمینہ کو اس امید پر تعلیم دلا رہی ہیں کہ وہ ہماری طرح مزدور کی حیثیت سے زندگی نہ گزارے۔
زبیدہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے جتنی بھی کمائی کی تھی وہ ساری شہریت پانے کیلئے لڑ رہی قانونی لڑائی میں گنوا دی۔ زبیدہ کے پاس تین بیگھہ زمین بھی تھی جو انھوں نے کیس لڑنے کے لیے ایک لاکھ روپے میں بیچ دی اور اب وہ 150 روپے مزدوری پر کام کرتی ہیں۔ زبیدہ کہتی ہیں کہ میری کمائی کا زیادہ تر حصہ میری قانونی لڑائی پر خرچ ہو جاتا ہے، ایسے میں کئی بار میری بیٹی کو بھوکا سونا پڑتا ہے۔ میں خود کے لیے امید کھو چکی ہوں، مجھے تو یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ میرے بعد میری بیٹی کا کیا ہوگا؟
آنسوؤں سے بھری ہوئی آنکھوں کے ساتھ زبیدہ کہتی ہیں کہ میرے پاس جو کچھ تھا سب ختم ہو گیا ہے، اب میرے پاس قانونی لڑائی لڑنے کے لیے پیسے جمع کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں بچا ہے۔
وہیں زبیدہ کے شوہر کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس جو تھا سب خرچ کر دیا، لیکن کچھ کام نہیں آیا، این آر سی میں بھی نام نہیں آیا، امید ختم ہو رہی ہے، موت قریب آ رہی ہے۔
یہ ایک زبیدہ خاتون ہے جو شہریت نہ مل پانے کے خوف سے پل پل مر رہی ہے اور اپنے اہل خانہ کی فکر میں گْھلتی ہی جا رہی ہے۔ آسام میں ایسی ہی ہزاروں زبیدائیں مل جائیں گی جن کی زندگی شہریت چھن جانے کی وجہ سے جہنم بن چکی ہے۔ رزاق علی کی طرح ہزاروں مرد بھی وہاں مل جائیں گے جن کا درد رزاق علی سے کم نہیں ہے،جو زندہ ہو کر بھی مردہ لاش ہو چکے ہیں، خوف و دہشت کی ایسی مار پڑی ہے ان پر کہ ان کے جسم و دماغ مفلوج ہو کر رہ گئے ہیں۔
ڈر، دہشت اور مایوسی سے عبارت زبیدہ خاتون کی یہ داستان جان کر ہی ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں دل تڑپ اٹھتا ہے،اور ہم دردی کے جذبات امنڈ پڑتے ہیں۔
لیکن پتا نہیں کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں وہ سفید پوش لیڈر جو ایسے بھیانک قانون بناتے ہیں اور بے قصور شہریوں سے ان کی شہریت چھین کر انھیں ہر پل رلاتے ہیں اور ذرا بھی ترس نہیں کھاتے۔ اور کتنے نادان ہیں ملک کے وہ شہری جو علاقائی یا مذہبی تعصب کے زیر اثر ایسے قوانین کی حمایت کرتے ہیں اور پتھر دل سفید پوشوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ دوسرے کی تکلیف پر خوشیاں منانے والے اس سے بھی بدتر مصیبت کے شکار ہوتے ہیں اور دوسرے کے لیے گڈھا کھودنے والے اپنے ہی کھودے ہوئے گڈھے میں گرتے ہیں۔ ہر ظلم کے لیے خاتمہ ہے، ہر فرعون کے لیے ایک موسیٰ ہے، اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے، اس کے کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔
اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم موجودہ حالات پر گہری نظر رکھیں، ہر پہلو کا سنجیدگی سے جائزہ لیں، ایسے حالات سے نمٹنے کے حل تلاش کریں اور مل جل کر ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹیں، جسے ہمارے تعاون کی ضرورت ہو اس کی طرف مدد کا ہاتھ بڑھائیں، پریشان حالوں کا سہارا بنیں اور غیر ضروری مصروفیات سے بچتے ہوئے قوم و ملت کے تحفظ اور ملک و ملت کی فلاح و بہبود کے لئے اپنی اپنی بساط کے مطابق قربانی دیں۔ اللہ ہر مصیبت زدہ کی مدد فرمائے، ہمیں عقل و شعور بخشے، ملت کا درد عطا کرے، اور ملک و قوم کے لئے مخلصانہ کوششیں کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے اور ان کوششوں کو بار آور بنائے۔ آمین یا رب العالمین
تہہ دل سے پْکار اپنے خدا کو حالتِ غم میں
کہ وہ اس جا بھی سنتا ہے جہاں کوئی نہیں سنتا
.(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے)
24فروری2020
جواب دیں