کرنٹ زدہ امیت شاہ کی سیاسی توبہ ! ’ہائے اس زودِ پشیماں کا پشیماں ہونا‘

 عبدالعزیز 
    2014ء سے بھاجپا اور آر ایس ایس کے چھوٹے بڑے لیڈروں کی ہر طرح کی بدگوئی، بدزبانی، تہمت طرازی، الزام تراشی کے ساتھ تشدد اور بربریت معمول سا بن گیا ہے۔ ’عذرِگناہ بدتر از گناہ‘کا بھی مظاہرہ اکثر و بیشتر کرتے رہتے ہیں۔ اپنی غلطی یا اپنے لوگوں کی ہر طرح کے جبر و ظلم پر نہ صرف اصرار کرتے ہیں بلکہ جواز (Justify) پیش کرتے رہتے ہیں۔ 
    یوں تو ہر الیکشن کی مہم کے دوران بے حیائی، بدتمیزی اور ہر قسم کی بدگوئی اور بدزبانی کرتے ہیں مگر دہلی کے الیکشن کی مہم کے دوران دیانت اور اخلاقیات کی ساری قدریں توڑ دی تھیں۔ ’دیش کے غداروں کو- گولی مارو سالوں کو“۔ ”شاہین باغ کے لوگ الیکشن کے بعد ہندوؤں کے گھروں میں گھس کر عورتوں کی عصمت دری کریں گے۔ اس وقت امیت شاہ اور نریندر مودی بچانے نہیں آئیں گے“۔ ”ہندستان اور پاکستان کے مابین مقابلہ درپیش ہے۔ شاہین باغ سے پاکستانی داخل ہوئے ہیں“۔ انوراگ ٹھاکر،پرویش ورما اور کپل شرما جیسے بی جے پی وزیر، ایم پی اور لیڈروں نے اس طرح کی بیہودہ، شر انگیز اور فساد انگیز باتیں انتخابی مہم کے دوران کی تھیں۔ اس وقت نہ مودی کو برا لگا، نہ امیت شاہ کو ناپسند آیا اورنہ کسی سنگھی لیڈر نے اس کی مذمت کی۔ سب نے دل میں نہ صرف خوشی محسوس کی ہوگی بلکہ نریندر مودی اور امیت شاہ نے بھی اپنے دل کی بھڑاس مٹانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ دونوں نے شاہین باغ کی خواتین پر نشانہ سادھا۔ بڑے شاہ نے شاہین باغ، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور سلیم پور کے کالے قانون کے خلاف مظاہرے کو ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی سازش سے جوڑا جبکہ چھوٹے شاہ دہلی کے ووٹروں کو ووٹنگ مشین کے بٹن کو اتنے غصے اور زور سے دبانے کی اپیل کی کہ ’بٹن یہاں بابر پورمیں دبے اور کرنٹ شاہین باغ میں لگے۔ 
    گزشتہ 13فروری کو انگریزی نیوز چینل ’ٹائمز ناؤ‘ سمٹ 2020ء‘ کے سوال و جواب کے سیشن کے دوران اینکر نویکا کمار نے جب امیت شاہ سے سوال کیا کہ آپ کے لیڈروں نے آگ بھڑکانے والے تبصرے کئے، مثلاً ’دیش کے غداروں کو- گولی مارو سالوں کو‘…… ’دہلی الیکشن کو ہندستان اور پاکستان میچ سے تعبیر کیا‘۔ امیت شاہ نے خودساختہ بزرگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہاکہ ایسا بیان نہیں دینا چاہئے“۔ امیت شاہ اس وقت بھی، آج بھی پارٹی کے Over Acting President (غیر معمولی قائم مقام صدر ہیں) اس وقت پارٹی الیکشن کمیشن کی گرفت کو روکنے کی کوشش کی تھی۔ 
    موصوف جب پارٹی کے صدر تھے 2019ء کے لوک سبھا کے الیکشن میں اس سے ملتی جلتی بہت سی باتیں ہوئی تھیں۔دہشت گردی کی مجرمہ پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو بھوپال سے بحیثیت امیدوار کھڑا کیا گیا۔ مہم کے دوران انھوں نے ناتھو رام گوڈسے کو ’دیش بھکت‘ کہا تھا۔ مودی جی نے کہا تھا کہ ان کو بڑی تکلیف ہوئی ہے، وہ پرگیہ کو دل سے کبھی معاف نہیں کریں گے۔ امیت شاہ نے کہا تھا کہ تادیبی کارروائی کیلئے انھیں نوٹس دی گئی۔ ان پر مناسب کارروائی کی جائے گی۔ آج تک ان پر کارروائی ہی ہورہی ہے۔ پرگیہ ٹھاکر نے اسی دوران اے ٹی ایس افسر ہیمنت کرکرے کو سراپ (بد دعا) دینے کی بات بھی کہی تھی۔ مودی اور امیت شاہ خود اسی قسم کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ جب بڑوں کی طرف سے حوصلہ افزائی ہو تو چھوٹے تو ہر اخلاقی حد کو پار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے۔ ایک سوال یہ بھی کیا گیا کہ ”آپ کی پارٹی کے لیڈروں نے کہا تھا کہ شاہین باغ والے ماؤں، بہنوں کی عصمت دری کریں گے؟“ اس پر شاہ نے صریحاً جھوٹ سے کام لیتے ہوئے کہاکہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی اتنا بڑا اور سفید جھوٹ مودی یا شاہ ہی بول سکتے ہیں۔ جیسے مودی جی نے رام لیلا میدان میں ’این آر سی‘ کے بارے میں کہاکہ اس پر کہیں اور کبھی چرچا ہی نہیں ہوا۔بحث و مباحثہ ہی نہیں کیا گیا۔ 
    کسی کو گولی مارنے کی بات کہنا، کسی کو غدار کہنا صریحاً جرم ہے مگر ایسے جرم کو سنگھی یا ان کی پارٹی اپنا ایجنڈا سمجھتے ہیں تو پھر انوراگ ٹھاکر یا پرویش ورما جیسے لوگوں کے خلاف کارروائی کیسے کی جاسکتی ہے؟ 
    میرے خیال سے شاہ نے پہلی بار رسماً یہ بات کہی کہ ایسا بیان نہیں دینا چاہئے، گویا معمولی سی غلطی کی ہے، ایسی غلطی نہیں ہونی چاہئے۔ یہ ہے بھاجپا اور ہندوتو۔ ایک بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ دہلی کے الیکشن کی شکست فاش نے کم سے کم اس مغرور و متکبر شخص سے دکھاوا ہی سہی ”نہیں“ کہلوالیا۔ حقیقت میں دہلی کے الیکشن سے کئی نتائج سامنے آئے۔ ایک نتیجہ تو یہ سامنے آیا کہ دہلی کے ہندو بھائیوں نے ان کی نام نہاد دیش بھکتی اور فرقہ پرستی کو پس پشت ڈال دیا اور کام پر ووٹ ڈالا۔ ”ہندو خطرے میں ہے“ اس نعرہ اور بیان پر دہلی کے ووٹروں نے پانی پھیر دیا۔ شاہین باغ کو جو ’پاکستان‘ کہا یا بتایا، اسے بھی رائے دہندگان نے کوئی اہمیت نہیں دی۔ ’سی اے اے‘ کے نام پر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی مگر دہلی والوں نے ’سی اے اے‘ کا اثر بھی قبول نہیں کیا۔ اسے کالے قانون کے خلاف ایک ریفرنڈم سمجھنا چاہئے۔ شہریت ترمیمی قانون بنایا ہی گیا ہے ہندوؤں کو خوش کرنے اور ان کا ووٹ لینے کیلئے۔ ان کو بار بار بتایا جارہا ہے کہ تین ملکوں سے جو مذہب کے نام پر ستائے ہوئے ہندو آئیں گے ان کو شہریت دی جائے گی اور جن کے پاس دستاویز نہیں ہوگا انھیں بھی شہریت سے محروم نہیں کیا جائے گا۔ صرف مسلمانوں کو دستاویز نہ ہونے کی صورت میں شہریت نہیں دی جائے گی۔ دہلی کے ووٹروں نے بی جے پی کی فرقہ پرستی کی چال میں آنے سے انکار کردیا۔ بی جے پی کی نہ صرف سیاسی ہار ہوئی ہے بلکہ ان کے نظریہ اور ایجنڈے کی بھی ہار ہوئی ہے۔ 
    بہار اور مغربی بنگال میں چند مہینوں میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ ان کو معلوم ہوگیا ہے کہ ان کی فرقہ پرستی اور مسلم دشمنی الیکشن میں کام آنے والی نہیں ہے۔ اب یہ کیا انداز اور موقف اپنائیں گے؟ دیکھنے کی چیز ہوگی؟ میرے خیال سے ان کے لب و لہجہ اور ایجنڈے میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ ان کے دامن میں شر انگیزیوں اور فساد انگیزیوں کے سوا کچھ ہے ہی نہیں۔ انہی شر انگیزیوں اور فتنہ پردازیوں سے کرسیِ اقتدار تک پہنچتے ہیں۔ آخر اسے کیوں چھوڑیں  ؎ ’چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی‘۔ دوسری بات یہ ہے کہ پیالہ میں سے وہی ٹپکتا ہے جو پیالے میں ہوتا ہے۔ 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 
15/ فروری 2020

 

«
»

’قوم پرستی‘ اور ’بھارت ماتا‘کا نشہ پلایا جارہا ہے

ہندوستان میں جمہوریت کا استحکام کیونکر ممکن ہوا؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے