ہندو راشٹر ملک اور انتقامی سیاست

 

 

محمدصابرحسین ندوی

گاہے گاہے رواں حکومت کے ممبران اعلان کرتے رہے ہیں کہ ہندوستان ہندو راشٹر ملک ہے، یہاں مسلمانوں کیلئے کوئی جگہ نہیں، ۴/دسمبر ۲۰۱۹ کو بھی ممبر آف پارلیمنٹ روی کشن نے پارلیمنٹ کے باہر یہ بیان دیا کہ ہندوستان ہندوں کا ملک ہے، سو کڑور ہندو یہاں بستے ہیں، اور مسلمان دوسرے ممالک کیلئے ہیں، ان کے پاس ویسے بھی کئی مسلم ممالک ہیں، جہاں وے جا سکتے ہیں، اس سے قبل آر، ایس، ایس کے چیف خود موہن بھاگوت نے سر عام یہ کہہ کر اسی مدعی کی تائید کی تھی۔ اسی سوچ اور فکر کی عکاسی کرتا ہوا وہ بیان بھی ہے، جسے بی جے پی چیف امت شاہ نے بنگال انتخابات کے دوران دیا تھا؛ کہ یہاں تمام مذاہب کے لوگ قابل قبول ہیں، لیکن مسلمانوں کیلئے یہاں کی زمین تنگ ہے، اس حقیقت کو صرف بیان بازی تک نہ رکھتے ہوئے عملی جامہ پہنانے کی تیاریاں کی گئیں، مسودہ تیار گیا، سیاست کے تمام مہرے بچھائے گئے، خود وزیر اعظم اور ان کے قریبی ساتھی اس کی نمائندگی کر رہے تھے، ہر اسٹیج سے اس کی وضاحت ہورہی تھی، کھلے طور پر اپنے مقصود کو ظاہر کردیا گیاتھا، جمہوریت کی جڑ میں سے ایک اہم اینٹ نکالنے کا اعلان ہوچکا تھا، بعض لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ بی، جے، پی کی غلط بیانی ہے، ملک کے بگڑتے حالات میں ذہنوں کو گنجلک کرنے کی کوشش ہے؛ لیکن یہ ساری باتیں خام خیالی نکلیں، اور اب اسمان صاف ہے۔
       اب پوری طرح سے زعفرانی رنگ سے جمہوریت کو رنگ دینے اور بچی کھچی سیکولرزم کی ساکھ بھی مٹا دینے کی طرف پیش قدمی کی جا چکی ہے، اس کا مغز این، آر، سی یعنی نیشنل رجسٹریشن آف سیٹیزن بل ہے، اور جس کی روح سی، اے، بی یعنی سیٹیزن شپ امینڈمنٹ بل ہے، جس کے مطابق بنگلادیش، پاکستان اور افغانستان سے آئے تمام ہندو، سکھ، عیسائی، بدھ، جین غرض مسلمانوں کو چھوڑ کر سبھی طبقے کے لوگوں جو ۲۰۱۴ سے قبل یہاں آئے ہیں، انہیں ملک کی باشندگی کا حقدار سمجھتے ہوئے، ملکی شناخت دی جائے گی، ۲۰۱۹ کا سرمائی پارلیمانی سیشن جاری ہے، بس ایک ہفتہ اور بچا ہے، اسی ہفتہ یعنی پیر کے دن اس بل کو پیش کردیا گیا اور مکمل اعتماد کے ساتھ پاس بھی کردیا گیا، اس سے پہلے بی، جے پی کیبینیٹ نے اسے پوری رضامندی کے ساتھ منظوری دے دی تھی،  دونوں قانونی ایوان میں مباحثے کیلئے رواں حکومت کے عمائدین کی مشاورتی نشستیں زور و شور کے ساتھ چل رہی تھیں، ہر طرح کے اعتراضات و جوابات تیار کئے جا رچکے تھے، ویسے رواں حکومت کی اکثریت کے مد نظر کسی بحث کی بھی ضرورت نہیںپڑی، البتہ اگر کچھ جمہوری سیاست دان چیخ پڑے تو وہ صرف صدا بہ صحرا بن کر رہ گئے۔
پورے ملک میں سناٹا پسرا ہوا ہے، آگ لگ گئی ہے، یہ بل ایسا ہے کہ اگرچہ ہندوستانی قوانین کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے، یہ براہ راست آئین کو چوٹ پہونچاتا ہے، اور مذہب کی بنیاد پر تفریق نہ کرنے کی یقین دہانی پر کاری ضرب لگاتا ہے، اس کی جڑ مذہبی تشدد کو بتلا کر پہلے ہی قانونی جڑیں اکھیڑ دی ہیں، سری لنکا میں تامل ہندووں کو الگ کر کے اور میانمار کے مظلومین،چین کے ستم زدہ پڑوسیوں کو چھوڑ کر محض تین ملکوں کو توجہ دینا خود آئین کی دھجیاں اڑاتا ہے، اور حکمرانوں کی بدنینتی عیاں کرتا ہے، صرف آسام کی کل تین کڑور کی آبادی میں این، آر، سی کی کاروائی کرتے ہوئے چودہ سال اور سولہ سو کڑور روپئے خرچ کئے گئے، اب پورے ملک میں اسے لاگو کیا جائے تو کتنا خرچ ہوگا اس کا کوئی اندازہ نہیں_ یہ بھی ملک کے خیر خواہاں کیلئے تکلیف دہ ہے؛ لیکن تمام جمہوری پارٹیاں اپنی زبانوں پر تالے لگا چکی ہے، عوام اندھ بھکتی میں مگن ہے، شاذ و نادر آوازیں بلند ہورہی ہیں، نارتھ ایسٹ کے بعض صوبے اور ان میں ڈیموکریٹک جماعتیں مخالفت کر رہی ہیں، میزورم، ناگالینڈ اور آسام جیسے علاقوں میں سخت احتجاج درج کیا گیا ہے، شاید اس کا اثر خوف تھا کہ امت شاہ نے یہ صاف کردیا کہ نارتھ ایسٹ میں اسے لاگو نہ کیا جائے گا۔
ایسے میں یہ دوآتشہ تلوار بن گئی ہے، مگر لاکھ یقین دہانیوں کے باوجود وہ نہیں چاہتے کہ اپنے جیسا درد دوسروں کو بھی ہو، وہ کاغذات کیلئے اور خود کو ہندوستانی ثابت کرنے کیلئے مارے مارے پھریں، چنانچہ وہ اب بھی میدان میں ہیں۔ تو وہیں اس سلسلہ میں نیوز چینلوں سے کوئی امید نہیں، وہ تو پہلے ہی اپنا کام چھوڑ کر حکومت کے تلوے چاٹنے میں مصروف ہیں، شوشل میڈیا پر بڑے چھوٹے پیمانے پر احتجاجی مہمیں چل رہی ہیں؛ لیکن ان کی کوئی حیثیت نہیں، وہ بی جے پی جیسی لارجر دین لائف پارٹی کے سامنے بونے ہیں، مگر اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہندوستان کی منصف جماعتیں اور شخصیتین میدان میں کھڑی ہیں، مارچ کیا جارہا ہے، کالجوں کے طلبہ و طالبات ریلیاں نکال رہے ہیں،اور خود مسلمانوں نے اپنے ہاتھ پیر باندھ لئے ہیں، آپسی اختلافات اور مندر و مسجد کی لڑائی میں مصروف ہوگئے ہیں، انہیں وجود کی خبر نہیں؛ لیکن وجود کے بعد کی پرواہ ہے، قیادت تو ہے نہیں، مگر رہی سہی اعلی صفوں پر ماتم کرنے کو من کرتا ہے، اپوزیشن پارٹیوں کے سامنے حقائق رکھنے، سیاسی داو چلنے، اور امت کے تحفظ اور نسل کی بقا کا بندوبست کرنے کے بجائے انہوں نے خانقاہوں کو ہی اپنا اصل محور سمجھ لیا ہے_ خدا خیر کرے ایس قوم کا اور ایسی بے حس قیادت کا۔
کینے سے کچھ کہا ہی کیا زیر لب مجھے کیا پوچھتے ہو میر مرے مہرباں کی بات
تو وہیںہندوستان پر اسلام اور مسلمانوں کے گہرے نقوش ہیں، حکومت و سیادت سے لیکر معاشرتی زندگی تک ہر ایک ناحیہ میں اسلامی مزاج کہیں نہ کہیں پایا جاتا ہے، تقریبا آٹھ سو سالہ اسلام پسند حکمرانوں کی حکمرانی والا یہ ملک ایک خاص اعزاز رکھتا ہے؛ لیکن یہ ماننے میں کوئی دشواری نہیں کہ بادشاہت اور سیاست کا میدان اپنے اور پرائے کا ہی خون بہاتا ہے، ناانصافیاں بھی ہوتی ہیں، اور انصاف بھی ہوتے ہیں، جب ایک فکر طاقت ور ہو اور دوسرا کمزور ہوجائے تو یقینا مد مقابل متاثر ہوتا ہے، مگر جب ہندوستان نے سامراجی طاقتوں سے آزادی حاصل کی، رام اور رحیم کے ماننے والوں نے ایک ساتھ ملکر ملک کی تقدیر سنوارتے ہوئے اسے ایک خوبصورت جمہوری ملک بنایا، اور یہ قرار پایا کہ یہاں کی ہر ایک آبادی برابر کا حق رکھے گی، شہری حقوق میں کوئی امتیاز نہ ہوگا، بنیادی ضروریات میں کوئی تفریق نہ ہوگی، حق رائے دہندگی ہر ایک کو حاصل ہوگی، مذہب اور ذات پات کے نام پر کوئی سمجھوتہ نہ ہوگا، طبقہ واریت کی کوئی گنجائش نہ ہوگی، عوام اب حقدار ہوں گے، وہ کسی راجا کے غلام یا سامراج کے پیادے نہ ہوں گے۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ ان سب باتوں پر سیاست کرنے والوں نے پانی پھیر دیا، ابتدائی زمانوں میں پوشیدگی کے ساتھ اور اب کھلے عام بالخصوص بی جے پی کی جماعت نے ان بنیادی اصولوں کو چوٹ پہونچانا اپنا فریضہ مان لیا ہے، تین طلاق، بابری مسجد کا فیصلہ، اور اب کیب کی بحث کا خلاصہ یہی ہے کہ صرف ایک گروہ کو ٹارگیٹ کیا جائے اور انہیں حاشیہ پر لا کر سیاسی انتقام لیا جائے، وشوہندو پریشد_ آر، ایس، ایس اور رواں حکومت کے نامور سیادت دانوں نے متعدد بار ایسے بیانات دئے ہیں اور مسلسل دئے جاریے ہیں، جن سے صاف اندازہ ہوتا ہے؛ کہ وے اسلام اور مسلمانوں سے خار کھائے بیٹھے ہیں، تقسیم ہند کا قصور وار مانتے ہیں، ملک کو دو ٹکڑوں میں بانٹ دینے کا مجرم سمجھتے ہیں، پارٹیشن کے وقت ہوئی افرا تفری اور قتل و غارت گری کا الزام رکھتے ہیں، ذرا غور کیجئے_! آخر کیا بات ہے کہ مسلمان حکمرانوں کو ہمیشہ غلط ثابت کرنے کی کوشش ہوتی ہے، فلمی دنیا ہمیشہ ایسے ایسے موضوعات کو کیوں منتخب کرتی ہے جنہوں نے مسلمان حکمرانوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ہو، حتی کہ اگر انہوں نے غداری بھی کی ہو اور مسلمانوں کے پشت پر حمل کیا ہو تب بھی اسے ہیرو بناکر کیوں پیش کرتے ہیں_؟
پانی سر سے اوپر ہوگیا ہے، چنانچہ سیاست کے گلیاروں سے جو دھواں اٹھا تھا، وہ اب عوام تک پہونچ گیا ہے، رواداری اور محبت کی روح ختم ہوتی جاتی ہے، بلکہ کہنا تو یہ چاہئے کہ اس انتقامی جذبہ کو قانونی حیثیت دینے کی جد وجہد جاری ہے، آئین کے ساتھ چھیر چھاڑ اور موب لنچنگ اسی حقیقت کو بیان کرتے ہیں، یہاں تک کہ عدالت عظمی اور آئین ساز کمیٹیاں اور اسمبلیاں بھی اسی طرف اشارہ کرتی ہیں، ایوان بالا یا ایوان زیریں کی کارروائیوں پر غور کیجئے_ ایک خاص سوچ اور رنگ کا انداز ملاحظہ کیجئے_ بی جے پی چیف امت شاہ کا انداز دیکھئے_ وہ حزب مخالف کو گلی کے غنڈے اور بدمعاش کی طرح پکارتے ہیں، آنکھیں دکھاتے ہیں، تیور بتاتے ہیں، زبردستی کرتے ہیں،  ٩/١٢/٢٠١٩ ہی کی کارروائی پر نگاہ ڈالئے، سٹیزن شپ امینڈمنٹ بل کو پیش کرتے ہوئے انہوں نے تمام پارٹیوں کو دھکمی بھرے انداز میں مخاطب کیا، "_سننا ہوگا، مت جائیے، او سنو_ ہماری اکثریت ہے_" جیسے فقرے استعمال کئے، پورے ایوان میں صرف بیاسی لوگوں کو چھوڑ کر سبھی نے تائید کی کہ غیر ملکی مسلمانوں کو ہندوستانی شہریت نہ دی جائے، یہ بل پاس کردیا گیا؛ لیکن ابھی راجیہ سبھا کا مرحلہ ہے، سپریم کورٹ کے دروازے کھلے ہیں، ممکن ہے کہ وہ سب بھی اسی فیصلہ کو قائم رکھیں، اور مسلمان انتقامی سیاست کا شکار ہوکر ڈیٹینشن کیمپ میں جہنم کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجائے_ اٹھئے اس سے قبل کہ یہ انتقام کے بھوکے آپ کو نگل جائیں، جاگئے اس سے قبل کہ یہ فرقہ پرست آپ کا وجود مٹادیں، متحد ہو کر اور ایک محاذ بنا کر حکومت کے سامنے ڈٹ جائیے_ اس سے پہلے کہ آپ منتشر ہو کر پارہ پارہ کردئے جائیں_!!!

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

13دسمبر2019

«
»

ہم نہیں بننے دینگے ’این آرسیستان‘

حفیظ نعمانیؔ : بے باک صحافت کا ایک باب بند ہوگیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے