از : عتیق الرحمن ڈانگی ندوی
(رفیق : فکروخبر بھٹکل)
ملک کے اردو اخبارات چاہے وہ آن لائن ہو یا پرنٹ ایڈیشن حفیظ نعمانی صاحب کے مضامین سے خالی نہیں جاتے تھے۔ اکثر ان کے سماجی، سیاسی اور اصلاحی مضامین شائع ہوتے رہتے تھے، بے باکی کا یہ عالم تھا کہ کسی کو بھی خاطر میں لائے بغیر حق بات کہنا گویا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ جب بھی ملک میں کوئی واقعہ رونما ہوتا یا اس پر کسی طرح کے حالات آتے تو ان کا قلم ضرور حرکت میں آجاتا اور حالات پر اس طرح تبصرہ کرتے کہ اس کی ہر چیز سامنے آجاتی اور پڑھنے والا کسی نتیجہ پر ضر ور پہنچتا ۔بسترِ علالت پر ایک مدت گذارنے کے بعد کل انہو ں نے داعیئ اجل کو لبیک کہا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون
حفیظ نعمانی کے انتقال سے اردو صحافت میں ایک خلا پیدا ہوگیا ہے جس کا پرہونا ناممکن نہ سہی مشکل ضرور ہے۔جس طرح انہو ں نے اردو صحافت کے لیے اپنی گرانقدر خدمات انجام دیں اور صحافتی میدان سے اردو کی بقاء وتحفظ کا جو کام کیا ہے تاریخ میں سنہرے الفاظ سے لکھے جانے کے قابل ہے۔
حیفظ نعمانی صاحب ادارہ فکروخبر کے ان قلمکاروں میں سے تھے جن کے مضامین یو این این ذریعہ موصول ہوا کرتے تھے اور ادارہ نے ہمیشہ اپنا فرض سمجھتے ہوئے ان کے مضامین کو اپنی ویب سائٹ میں جگہ دی۔2012ء میں جب ادارہ فکروخبر کی بنیاد ڈالی گئی تو اس وقت سے لے کر ان کے آخری ایام تک ادارہ برابر ان کے مضامین شائع کرتا رہا۔ ادارہ کا ربط ان سے برابر رہا، وقتاً فوقتاً بات چیت بھی ہوتی رہتی جس میں وہ حالات پر اپنا بے لاگ تبصرہ کرتے اور صحت یابی کے لیے دعا کی درخواست کرتے۔ زندگی کے آخری لمحات میں جب انہو ں نے لکھنا چھوڑ دیا تو اپنے خیالات اور افکار دوسروں کے ذریعہ سے سپردِ قرطاس کرنے کی کوشش ہوتی اور یوں بسترِ علالت پر بھی ان کے مضامین اردو اخبارات کی زینت بنتے رہتے۔
حفیظ نعمانی صاحب نے اردو صحافت کی اس طرح خدمات انجام دیں کہ ان کے نام سے ہی اردو صحافت کی پہچان ہونے لگی اور یوں ان کے انتقال سے بیباک صحافت کا ایک باب بند ہوگیا۔
رودادِ قفس کے نام سے شائع ان کی کتاب میں انہو ں نے اپنی جیل میں گذارے ایام کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے اس کا پس منظر بھی بیان کیا ہے۔ 1965ء میں جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے لفظِ مسلم پر زوروشور سے بحث کا سلسلہ جاری تھا اور اس کی اقلیتی شناخت کو مٹانے کی سعی کی جارہی تھی تو اس وقت لکھنو سے نکلنے والے ”ندائے ملت“ کا ایک خصوصی شمارہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نمبر نکالنے کے لیے اعلان ہوا اور اس کی مانگ اس قدر بڑھ گئی کہ لوگ ندائے ملت کے دفتر سے رابطہ کرکے پیشگی اس نمبر کو بک کرلیا۔ اس وقت کی حکومت نے صحافتی آزادی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس نمبر پر پابندی لگادی۔ لیکن حفیظ نعمانی صاحب کب خاموش بیٹھنے والے تھے، انہو ں نے اس بات کی ٹھان لی کہ چاہے جتنی مخالفت ہو، اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کا ان کے مضبوط ارادے کے سامنے کوئی چیز رکاوٹ نہیں بن سکی اور پابندی کے باوجود بہت سے پرچے عوام تک پہنچ گئے جس کا خمیازہ کے طور پرانہیں نو ماہ جیل میں گذار نے پڑے، جیل کی ہوا کھانے کے باوجود ان کے قلم کو کوئی طاقت نہیں روک سکی اور یوں ان کے لکھنے کا سلسلہ تادمِ زندگی جاری رہا۔
اس موقع پر ادارہ فکروخبر ان کے حق میں مغفرت کی دعا کرتا ہے اور جملہ پسماندگان خصوصاً ان کے بھائی مولانا سجاد صاحب نعمانی مدظلہ العالی کی خدمت میں تعزیتِ مسنونہ پیش کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس مردِ مجاہد کی قبر کو نور سے بھردے۔ آمین۔
جواب دیں