شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات

عاذب حسن کوٹیشور

آئے دن ہم سفاک اسرائیلیوں کی خبریں سنتے ہیں..ان کے ظلم و ستم کے نظارے دیکھتے ہیں..اور ہم نے مظلوم فلسطینی بھائیوں ، ماؤں ، بہنوں کی آہ و فغاں اور سسکیاں سن کر اور ان کی بے بسی و بےچارگی دیکھ صرف آنکھ نہیں دل بھی خون کے آنسو روتا ہے …ابھی کچھ دنوں قبل کی رپورٹ کے مطابق 45 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں  اس تعداد میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے جن میں زیادہ تر ننھے منے بچے..اور عورتیں شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 17 لاکھ سے زائد فلسطینی بے گھر ہوچکے ہیں..کیا ہم کبھی نہیں سوچتے؟ کبھی غور و فکر نہیں کرتے.؟ کبھی جب خبریں سنتے ہیں اور دردناک اور المناک مناظر آئے دن دیکھتے ہیں تو کیا ہم کو تکلیف نہیں ہوتی ؟ اگر ہم کے اندر تھوڑی سی بھی انسانیت باقی ہے..تو ضرور تکلیف ہوتی ہوگی..تو کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کبھی غور و فکر کیا ہے کہ میں اپنی  ذات سے..ان مظلوموں، ضعیفوں اور معصوموں کی حفاظت کے لیے کیا کرسکتا ہوں.؟ اور ان ظالموں ، غاصبوں، سفاکوں کی تباہی و بربادی کے لیے کیا کرسکتا ہوں.؟

 جس طرح ان کے حق میں دعائیں کرنا..اور ظالموں کے خاتمہ کی دعا کرنا..اور اسی طرح اپنی ذات سے جتنا ہوسکے ان کی مالی امداد کرنا ضروری ہے اسی طرح..اور ایک چیز کرنا بھی نہایت ضروری (جو میری اصل منشا ہے) وہ ہے اسرائیلی پروڈکٹس کا بائیکاٹ کرنا.. آج یہ دیکھ کر نہایت ہی افسوس ہوتا ہے کہ ہم لوگ اس کو بالکل بھی اہمیت نہیں دیتے، کتنے ہی لوگوں کو میں اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ مال و دولت اور دنیا کی رنگ رلیوں میں اتنے مست ہیں کہ جانتے بوجھتے ہر دن اسرائیلی پروڈکٹس استعمال کرتے ہیں اور ان کو اسکے بائیکاٹ کا احساس تک نہیں ہے… جان لو کہ جس طرح دعائیں اور مالی امداد کرنا ضروری ہے اسی طرح اسرائیلی پروڈکٹس کا بائیکاٹ کرنا بھی نہایت ضروری ..گویا یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ یہ بائیکاٹ کرنا اس حق و باطل کی جنگ میں ہمارا حصہ لینا ہے..اس طور پر کہ اگر ہم بائیکاٹ کو اہمیت دے کر اس کو اپنا رہے ہیں تو گویا ہم حق کا ساتھ دے رہے ہیں..ہم فلسطینی مظلوموں کے معاون بن رہے ہیں ..لیکن یاد رکھنا..اگر ہم بائیکاٹ نہیں کررہے ہیں..تو یہ کہنا روا ہوگا..کہ ہم باطل کا ساتھ دے رہے ہیں ..باطل کو مزید تقویت دے رہے ہیں ..گویا  ہم بھی ان مظلوموں کے قتل میں برابر کے شریک ہورہے ہیں..سوشل میڈیا میں اس طرح کی کئی ویڈیوز پیش کی جاتی ہیں جس میں ہم کو اسرائیلی پروٹکٹس خریدنے پر فلسطینیوں کا قاتل دکھایا جاتا ہے…لیکن ہم جان کر انجان بنتے ہیں..

 

بائیکاٹ کے متعلق چند باتیں!

 آج کل یہ دیکھا جاتا ہے کہ ہر جگہ،ہر دکان میں جو اسرائیلی پروٹکٹس ہیں ان کو نہایت ہی سستے داموں میں بیچا رہا ہے..تو یہ بھی ان کی ایک سازش ہے..تاکہ ہم خرید سکیں..تو یہ یاد رکھنا اگر ہم کو کوئی مفت میں بھی اسرائیلی پروڈکٹس دے رہا ہو..تو ہم کے ایمان کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم اس کو نہ لیں..

 دوسری بات یہ ہے کہ عام طور پر جتنے بھی اسرائیلی پروڈکٹس ہیں ان کو لوگ بہت پسند کرتے ہیں ، بچپن سے بہت سارے لوگوں نے اسی کو اپنایا ہوتا ہے…پھر بھی نہ خریدیں.. ہم کو کبھی کبھار شدید طلب ہوگی.. کسی چاکلٹ(Chocolate ) کی، کسی مشروب (Cold Drink) کی، کوئی (shampoo) یا (Cream) جو ہم کو نہایت پسند ہو، ہم بچپن سے اسی کو استعمال کرتے آرہے ہیں ..کسی اور چیز کی بھی طلب ہوسکتی ہے.. لیکن صبر کریں اور جنت کی نعمتوں..اور لذتوں کے بابت سوچیں..اور اس دنیا کی لذتوں کو ترک کریں..

 بعض لوگ کہتے ہیں کہ میرے بچوں کو وہی پسند ہے ،وہ اسرائیلی پروڈکٹس ہی پسند کرتے ہیں ..اس کی بدل چیزیں پسند نہیں کرتے ..تو ہم بچوں کو سمجھائیں..فلسطین کے حالات اور وہاں کے معصوموں کے حالات سنائیں..اور اپنے بچوں کو بتائیں کہ اگر تم یہ کھاؤگے تو وہاں پر وہ اسرائیل ان معصوموں پر ظلم کریں گے، ان کو قتل کریں گے..تو ہمارے بچے ضرور بالضرور ان چیزوں سے پرہیز کریں گے..

 یہ بھی سوال کیا جاتا ہے کہ یہ بائیکاٹ کب تک کرنا ہے..؟ تو تعجب ہوتا ہے کہ یہ کوئی قانون نہیں ہے جو وقتی طور پر لاگو کیا گیا ہو..یہ ایک فریضہ ہے جو ہر مومن کو موجودہ دور میں اس پر عمل کرنا ضروری ہے..تو یہ بائیکاٹ لمحوں کا نہیں ہے بلکہ یہ پوری زندگی کا بائیکاٹ ہے.

بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمیں پتہ نہیں چلتا ہے کہ کونسا پروڈکٹ اسرائیلی پروڈکٹ ہے..تو اس کو جاننا آج کل کے زمانہ میں نہایت ہی آسان ہے.. پہلی شکل یہ ہے کہ اس پروڈکٹ میں ہی دیکھ لیں کہ کہاں کی مصنوعیت ( ?… Made in ) ہے..لیکن عام طور صحیح معلومات لکھی نہیں ہوتی..عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ پروڈکٹ پر تو لکھا رہتا ہے کہ مثلا یہ چیز چین کی ہے یا اٹلی کی ، یا پھر کسی اور جگہ کا نام رہتا ہے لیکن اکثر ان کمپنیوں کو اسرائیل نے خرید لیا ہوتا ہے یا اس کمپنی میں اسرائیل حصہ دار (partnership ) ہوتا ہے .. یا پھر اس کی  فنڈنگ اسرائیل کو جاتی ہے ..اس لیے دوسری شکل یہ ہے کہ آج کل ہر شخص کے پاس موبائل تو ہوتا ہے..تو ہر کمپنی کے متعلق گوگل میں معلومات ہوتی ہیں تو ہم خریدنے سے پہلے اس کے بابت ضرور تحقیق کرلیں.. ڈاکٹر جب ایک دوائی دیتا تو اس پر اتنے سوالات کرتے ہیں اور اس دوائی کی تحقیق کرتے ہیں تو جب وہاں تحقیق کرسکتے ہیں تو یہاں بدرجہ اولی تحقیق کرنا ہے

ہم کیا کریں؟؟
آج کل تو ہر چیز کا متبادل (Alteate) موجود ہے..تو آج سے یہ عزمِ مصمم کرلیں کہ ہم اسرائیلی پروڈکٹس کا مکمل بائیکاٹ کریں گے اپنے گھر کی سب اشیاء کو ٹٹول کر دیکھیں کہ کہیں میں کوئی اسرائیلی پروڈکٹ تو استعمال نہیں کررہا ہوں.؟کہیں میں بھی ان مظلوموں کے قاتلوں میں شریک تو نہیں ہوں.؟اگر کوئی چیز ان کی مل جائے تو اس کا استعمال کرنا مکمل چھوڑدیں…اور آج کل تو ہر چیز کا متبادل (Alteate ) موجود ہے.تو ان کا استعمال کرنے کی عادت بنالیں…چاہے نفس پر کتنا ہی دشوار گذرے۔ ہم یہ عہد کرلیں کہ ہم ہرگز فلسطینی مظلوموں کے قتل میں حصہ دار نہیں بنیں گے..اور ظالم اسرائیلیوں کے مدد نہیں کریں گے۔

 انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے

 شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات 

«
»

مولانا شبر صاحب علی باپو قاسمی ، ایک مثالی شخصیت

انتخابی سیاست سے غائب ہوتے ہوئے مسلمان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے