وہ داغ مفارقت دے گیا!

جاويد ایکیری جامعی

مغرب کی نماز بعد قرآنی حلقہ ابھی لگنے والا تھا، ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی چھوٹے بچوں کی کچھ حد تک شرارت معمول کے مطابق تھی، میرے ذہن میں سوالیہ نشان اس وقت ہوا جب محلے کے کچھ نوجوان اور عمر رسیدہ افراد سرگوشی میں مصروف تھے اور کوئی مولانا نعمت اللہ صاحب کی طرف اشارہ کررہا تھا، ہمیشہ کی طرح آج بھی وہ پرسکون چہرہ سنت نماز ادا کرنے میں مشغول تھا، سلام کے بعد مختصرا دعا مطمئن اندازہ سے کی،  عموماً مولانا کا فجر، ظہر اور عصر کی نماز مسجد ابوبکرادا کرنے کا معمول ہے اور میں اکثر انکے قریب بیٹھا رہتا، مغرب اور عشاء جامعہ مخدومیہ میں امامت کے فرائض انجام دیتے ہیں. مجھے ذرا سا خدشہ اس وقت ہوا کہ آج نہ جانے مولانا کیونکر مغرب نماز کیلئے یہاں حاضر تھے، ابھی دل اور ذہن سوال و جواب کے کشمکش میں مبتلا ہی تھے اچانک مولانا سے ہر کوئی مصافحہ کرکے تعزیت پیش کر رہا تھا، پھر کسی شناسا نے اس سانحہ کا ذکر کیا جسے سن کر رونگٹے کھڑے ہوگئے

عموما انسان بیمار پڑتا ہے، علاج معالجہ کرنے پر اچھا اور کبھی طبیعت اور بگڑ جاتی ہے

«
»

مولانا شبر صاحب علی باپو قاسمی ، ایک مثالی شخصیت

انتخابی سیاست سے غائب ہوتے ہوئے مسلمان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے