مولانا مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلوار ی شریف، پٹنہ
اللہ کے نزدیک اعمال وعبادات وہی معتبر ہیں جو خالص رضاء الٰہی کے لئے انجام دیے گئے ہوں، اس کا مطلب ہے کہ اعمال پر نیتوں کے اثرات پڑتے ہیں، جو اللہ کے لیے ہجرت کرتا ہے اس کی ہجرت مقبول اور جو کسی دوسری غرض مثلاً ’’شادی، بیاہ وغیرہ‘‘ کی وجہ سے نقل مکانی کرتا ہے تو اس کے ساتھ غرض کے اعتبار سے ہی معاملہ کیا جائے گا، مشہور حدیث ہے کہ اعمال کا مدار نیتوں پر ہے، ریاکاری میں عبادت اللہ کی رضاء کے لئے نہیں، بلکہ نمود ونمائش کے لئے ہوتی ہے، جو شریعت میں حرام اور شرک خفی کے قبیل سے ہے، شیخ سعدی نے ایک قصہ لکھا ہے کہ ایک شخص کی دعوت بادشاہ کے دربار میں ہوئی، وہاں سے لوٹنے کے بعد گھر آکر اس نے کھانا طلب کیا، اہل خانہ کو تعجب ہوا کہ ابھی تو آپ بادشاہ کی دعوت اُڑا کر آئے ہیں اور ابھی کھانا مانگ رہے ہیں، بیٹے نے صورت حال دریافت کی تو بتایا کہ وہاں میں نے کھانا تھوڑا کھایا اور عبادتیں زیادہ کیں، تاکہ بادشاہ متاثر ہوجائے، بیٹے نے برمحل، صحیح اور نیک مشورہ دیا کہ ابا جان! پھر تو آپ کو کھانے کے ساتھ نمازیں بھی لوٹانی چاہئے، مطلب یہ ہے کہ جس طرح وہاں کے کھانے سے دکھاوے کی وجہ سے بھوک نہیں مٹی، ویسے ہی دکھاوے کی وجہ سے نماز بھی نہیں ہوئی۔
قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے ان نمازیوں کے لئے جو دکھلاوے کے لیے نماز پڑھتے ہیں ’’ویل‘‘ کا ذکر کیا ہے (سورۃ الماعون) جس کے معنی کم از کم بڑی خرابی کے آتے ہیں، بعضوں نے ’’ویل‘‘ کو جہنم کا بدترین درجہ بھی قرار دیا ہے، ایک دوسری آیت میں فرمایا: ’’جب وہ لوگ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو بہت ہی کاہلی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، صرف لوگوں کو دکھلاتے ہیں، اللہ کا ذکر مختصر کرتے ہیں‘‘(سورۃ النساء:۱۴۲) ایک جگہ فرمایا: اپنی خیرات کو اس شخص کی طرح برباد نہ کرو جو محض لوگوں کو دکھانے کی غرض سے خرچ کرتا ہے، دوسری طرف اللہ رب العزت نے ان لوگوں کے بارے میں جو اپنے رب سے ملنے کی توقع رکھتے ہیں، انہیں نیک کام کرنے اور اللہ کی بندگی میں کسی کو شریک نہ کرنے کا حکم دیا ہے، اللہ کی بندگی میں کسی کو شریک کرنا یہ شرک خفی ہے، مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ جب قیامت کے دن جزا وسزا کے لئے دربار الٰہی لگا ہوگا تو اللہ ریاکاروں سے کہیںگے کہ تم انہیں کے پاس جاؤ، جن کو دکھانے کے لیے تم نے یہ اعمال کیے تھے، مسند احمد، ترمذی اور ابن ماجہ میں ریاکاروں کے لئے ایک دوسری حدیث بھی مذکور ہے کہ اللہ رب العزت کے یہاں قیامت کے دن جب تمام اولین وآخرین جمع ہوںگے تو ایک منادی آواز لگائے گا کہ جس نے کسی عمل میں دوسروں کو شریک کیا ہو وہ اپنا بدلہ ان سے ہی لے۔
حدیث میں شرک خفی کی یہی تعریف کی گئی ہے کہ کوئی آدمی عمل کرے اور کسی آدمی کے وہاں ہونے کی وجہ سے کرے، تاکہ وہ آدمی اس کے عمل کو دیکھ لے، مسند احمد، بیہقی، حاکم اور طبرانی میں تفصیل سے یہ بات موجود ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر کیا ہے کہ جس نے دکھاوے کے لئے نماز، روزہ اور صدقہ خیرات کیا تو اس نے شرک کیا، اسی طرح نماز کو بنا سنوار کر اس لیے پڑھنا کہ لوگ اسے دیکھ رہے ہیں، شرک ہے۔
ریاکار چوں کہ اللہ اور بندے دونوں کو دھوکہ دیتا ہے، اس لیے اللہ رب العزت نے اس پر جنت حرام کی ہے، پہلے کو ریاکار جنت کے باغات ومحلات اور اس کی عنایتوں، نعمتوں کو دیکھایا جائے گا، پھر اسے جہنم میں داخل کیا جائے گا، طبرانی اور بیہقی میں اس موقع سے اللہ جو کچھ انہیں کہے گا اس کی بھی تفصیل سے موجود ہے، اللہ فرمائیںگے:
’’تم لوگوں کے دکھلاوے کے لیے اعمال کرتے تھے، تمہارے دل خلوص سے خالی ہوتے تھے، تم لوگوں سے ڈرتے تھے، مجھ سے نہیں ڈرتے تھے، لوگوں کی وجہ سے بُرے کاموں سے بچتے تھے، میری وجہ سے نہیں بچتے تھے، پس آج میں تم لوگوں کو عذاب چکھاؤںگا‘‘
حضرت عمرؓ کا یہ واقعہ مشہور ہے کہ انہوں نے نماز میں ایک شخص کو گردن جھکائے دیکھا تو فرمایا: خشوع گردنوں میں نہیں، خشوع تو دل میں ہے، اسی طرح ابوامامہ باہلیؒ نے ایک شخص کو مسجد میں روتے ہوئے پایا تو فرمایا کہ زاری کرنے والوں کی ایک تعداد ریاکاری میں مبتلا ہوتی ہے، ایک بڑے عالم سے جب انہیں دعا کرانے کے لئے کہا گیا تو فرمایا: دعا تو میں کراسکتا ہوں، لیکن ’’فنی دعا‘‘ مجھے نہیں آتی، یہ ’’فنی دعا‘‘ وہی ہے جو ریاکاری تک پہونچاتی ہے۔
ریاکاری کی بدترین قسم جو ہمارے درمیان رائج ہے، وہ یہ کہ خود تو عمل نہیں کرتا، دوسروں کے عمل کو اپنے نام سے پیش کرکے لوگوں سے واہ واہی لُوٹنا ہے، قرآن کریم میں ایسے ریاکاروں کا تذکرہ بھی موجود ہے کہ وہ جو لوگ ایسے کام پر تعریف چاہتے ہیں جو انہوں نے کیے ہی نہیں، اللہ رب العزت انہیں عذاب کا مژدہ سناتا ہے، ارشاد فرمایا: ’’ہرگز ان لوگوں کے بارے میں گمان نہ کرو جو اپنے اعمال پر تو خوش ہوتے ہی ہیں، اس بات کو بھی پسند کرتے ہیں کہ ان کی تعریف انکاموں کے لئے بھی کی جائے جو واقعتاً انہوں نے کیے ہی نہیں، ایسے لوگوں کو عذاب سے دور نہ سمجھو، ان کے لئے دردناک عذاب ہے‘‘ (سورۂ آل عمران:۱۸۸) دوسروں کے مضامین، تصانیف، ملی اور سماجی کاموں کو اپنا بنا کر اس طرح پیش کرنا جیسے وہ ان کی محنت سے وجود پذیر ہوئے اور لوگوں سے تعریفیں کروانا ریاکاری کی وہ قسم ہے جس کے لیے ’’بمفازۃ من العذاب‘‘ کا اعلان اللہ رب العزت نے کیا ہے۔ایسے لوگوں کو دنیامیں ہوسکتا ہے تعریف وتوصیف ملے اور ظاہری عز ومنصب میں اضافہ ہوجائے، لیکن بالآخر جب لوگ اس کی تہ تک پہونچتے ہیں تو عزت وشہرت کا پرندہ پرکٹے کی طرح زمین پر آکر گرتا ہے اور جہاں تک آخرت کا سوال ہے، ذلت ورسوائی اور جنت سے محرومی یقینی ہے، کیوںکہ اللہ کے کلمات میں تبدیلی نہیں ہوتی اور نہ ہی اللہ کا طریقہ بدلتا ہے۔
ریا کبھی ایمانیات میں ہوتا ہے اور کبھی عبادات میں، ایمانیات میں ریا کا مطلب دکھاوے کا ایمان ہے، قرآن کریم میں اس کا ذکر کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے فرمایا کہ جب وہ ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی تمہاری طرح ایمان لائے اور جب کافروں (شیطانوں) سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں، یہ ریاکاری منافقت کے قبیل کی ہے اور ایسے لوگوں کو وہی سزا ملے گی جو منافقوں کے لئے متعین ہے، وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں رکھے جائیںگے، اسی طرح عبادات میں ریا یہ ہے کہ جب لوگوں کے ساتھ ہو تو عبادت واذکار کا اہتمام کرے تاکہ لوگ اسے نمازی، متقی، عبادت گذار اور صائم سمجھے اور تنہائی میں ہو تو نمازیں چھوٹ رہی ہوں، اذکار کا خیال نہ آتا ہو، اسی طرح نوافل کا اہتمام مجمع میں کرے اور گھر میں نوافل ترک کردے یا پڑھے بھی تو ثواب کی نیت سے نہ پڑھے، عبادتوں میں ریا خشوع خضوع اور ارکان کو لوگوں کے دکھاوے کے لیے طویل طویل کرنا بھی ہے، ایسی عبادتیں قیامت کے دن منہ پر ماردی جائیںگی، حدیث میں ہے کہ جوشخص نماز کو لوگوں کو دکھانے کے لیے اچھی طرح پڑھے اور تنہائی میں نماز اچھی طرح نہ پڑھے تو یہ اللہ رب العزت کی توہین ہے، حضرت فضیل بن عیاض فرماتے ہیں کہ لوگوں کی وجہ سے عمل چھوڑنا ریا ہے اور لوگوں کی وجہ سے عمل کرنا شرک خفی ہے، حضرت علیؓ نے ریاکاروں کی تین علامتیں بتائی ہیں: تنہائی میں سست اور لوگوں کے درمیان ہو تو عبادت گذاروں میں چست دکھائی دے، جب لوگ اس کی تعریف کریں تو عمل میں زیادتی کردے اور شکایت ہونے لگے تو عمل میں کوتاہی کرنے لگے۔
اسی طرح اگر کسی کے دل میں اوراد واذکار، سنن ونوافل کی کثرت کی وجہ سے یہ خیال پیدا ہوکہ لوگ اسے سلام کریں، اعزاز واکرام، تعریف وتوصیف کریں، ضرورتوں کی تکمیل کے لئے آگے آئیں، معاملات میں اس کے بزرگ ہونے کا خیال رکھیں، اس کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوجائیں تو ایسی عبادت بھی ریا کے زمرے میں شامل ہوگی۔
ریا کے دور کرنے کے لیے ہر کام اللہ کی رضا وخوشنودی کے لیے کرنا شرط ہے، کیوںکہ ہمیں حکم دیا گیا ہے اللہ کی عبادت کو اللہ ہی کے لیے خالص رکھیں‘‘ (البینۃ:۵) اخلاص عبادتوں کی روح ہے، اخلاص کے ساتھ کام کرنے والے کو مخلص کہتے ہیں، بعض اہل علم نے مخلص کی تعریف یہ بتائی ہے کہ جو اپنی نیکیوں اور اچھائیوں کو اسی طرح چھپائے جیسے اپنے عیوب، گناہ اور برائیوں کو چھپاتا ہے اور اس کی انتہا یہ ہے کہ کسی بھی کام پر لوگوں کی تعریف سے خودپسندی اور عجب ذہن ودماغ میں نہ پیدا ہو، پھر اس پر ثبات واستقامت کے لیے دعا بھی کرتے رہنا چاہیے کہ ساری توفیق اللہ ہی کی جانب سے ملاکرتی ہے۔
جواب دیں