مساجد کی تعمیر میں فخرو مباہات قرب قیامت کی نشانی ہے

اللہ کے گھر کے دروازے ہر کسی کے لیے کھلے رکھیے

  ڈاکٹر سراج الدین ندویؔ
  چیر مین ملت اکیڈمی ۔بجنور

  اسلامی ثقافت اور روایات میں مسجد کا خاص احترام ہے ،یہاں تک کہ مسجدوں کو قائم کرنے والوں کے مومن ہونے کی گواہی دی ہے’إِنَّمَا یَعْمُرُ مَسَٰجِدَ اللَّہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَوٰۃَ وَاٰتَی الزَّکَوٰۃَ وَلَمْ یَخْشَ إِلَّا اللَّہَ ، فَعَسَیٰٓ أُوْلَٰٓئِکَ أَن یَکُونُواْ مِنَ الْمُہْتَدِینَ(التوبۃ۔18)’’اللہ کی مسجدوں کو وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لاتے ہیں اور نما ز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تو عنقریب یہ لوگ ہدایت والوں میں سے ہوں گے۔‘‘، اور قرآ ن نے ایسے شخص کو ظالم (مشرک) قرار دیا جو لوگوں کو مسجدوں میں ذکر کرنے سے روکے اور ایسوں کے لیے آخرت میں شدید عذاب کا مژدہ سنایا گیا’’إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُواْ وَیَصُدُّونَ عَن سَبِیلِ اللَّہِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِی جَعَلْنَٰہُ لِلنَّاسِ سَوَآئً الْعَٰکِفُ فِیہِ وَالْبَادِ  وَمَن یُرِدْ فِیہِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُّذِقْہُ مِنْ عَذَابٍ أَلِیمٍ(حج۔25)،’’جن لوگوں نے کفر کیا اور جو (آج) اللہ کے راستے سے روک رہے ہیں اور اُس مسجدِ حرام کی زیارت میں مانع ہیں جسے ہم نے سب لوگوں کے لیے بنایا ہے، جس میں مقامی باشندوں اور باہر سے آنے والوں کے حقوق برابر ہیں (اُن کی روش یقیناً سزا کی مستحق ہے) اِس (مسجدِ حرام) میں جو بھی راستی سے ہٹ کر ظلم کا طریقہ اختیار کرے گا اسے ہم درد ناک عذاب کا مزا چکھائیں گے‘‘ حضور اکرم ؐ نے مسجدوں کے متعلق فرمایاکہ اللہ کو تمام جگہوں میں مسجدیں سب سے زیادہ محبوب ہیں احب البلاد الی اللہ مساجدھا(مسلم) آپؐ نے یہاں تک فرمایا کہ’’ جب تم کسی شخص کو مسجد کی خبر گیری کرتے ہوئے دیکھو تو اس کے ایمان کی گواہی دو۔‘‘ (ترمذی)۔
مسجد اور اسلام کا بہت مضبوط تعلق ہے۔دونوں لازم اور ملزوم ہے ۔جہاں اسلام ہوگا وہاں مسجد ہوگی ۔اسی لیے نبی اکرم ﷺ جب مدینہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے آپ نے مسجد تعمیر کی ۔یہ سلسلہ کافی حد تک آپ ؐ کے بعد بھی قائم رہا یہاں تک کہ ہندوستان کے مسلم سلاطین اور وزرا ء جب کسی نئی جگہ قیام کرتے تو وہاں مسجد کی تعمیر ضرور کرتے ۔اسی لیے ہم ملک کے بعض شہروں میں شاہی مساجد دیکھتے ہیں۔
مساجد کی تعمیر دراصل اللہ کے گھر کی تعمیر ہے ۔ظاہر ہے اللہ کا گھر تعمیر کرنا بڑی سعادت کی بات ہے ۔اس پر بڑے اجر کا وعدہ کیا گیا ہے ۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:۔’’ مَنْ بَنَی مَسْجِدًا یَبْتَغِی بِہِ وَجْہَ اللَّہِ بَنَی اللّٰہُ لَہُ مِثْلَہُ فِی الْجَنَّۃِجو شخص مسجد بنائے اور اس کا مقصود اللہ کی رضامندی ہو، اللہ اس کے لیے جنت میں گھر بناتا ہے۔(بخاری،کتاب الصلوٰۃ ،راوی عثمان بن عفان ؓ)
ایک حدیث میں یہ شرط بھی لگائی گئی کہ اس مسجد میں نماز کا اہتمام بھی ہوتا ہو ایسا نہ ہو کہ کسی جنگل میں مسجد بنادی اور وہاں کوئی اس کا پرسان حال نہیں ہے۔ حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: مَنْ بَنٰی لِلّٰہِ مَسْجِدًا یُذْکَرُ فِیْہِ بَنَی اللّٰہُ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ( سنن ابن ماجہ) ’’جس نے ایسی مسجد تعمیر کی،جس میں اللہ کا ذکر ہوتا ہے،اللہ اس کے لیے جنت میں گھر بناتا ہے۔‘‘ 
یہ بھی کوئی ضروری نہیں کہ بہت بڑی یا جامع مسجد ہی بنائیںتب جاکر یہ اجر و ثواب ملتا ہے،بلکہ حسب ضرورت مسجد چھوٹی ہو یا بڑی،ہر طرح کی مسجد بنانے پر ثواب ملتا ہے ۔نبی اکرم ؐ نے فرمایا’’جس نے کوئی چھوٹی یا بڑی مسجد بنائی،اللہ اس کے لیے جنت میں گھر بناتا ہے۔‘‘ 
مساجد کی تعمیر کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بلاضرورت مسجدیں تعمیر کی جائیں ،یا کسی فرقہ و مسلک کی بنیاد محض انتشار پھیلانے کے مسجدیں تعمیر کی جائیں ،جہاں آپ ؐ نے مسجد نبوی کی تعمیر اپنے ہاتھوں سے کی ہے وہیں مسجد ضرار کو منہدم کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے ۔اسی طرح مسجدوں کی تعمیر میں فخرو مباہات کا اظہار بھی مناسب نہیں ہے ۔آج بھی ہم مسلم معاشرے میں مساجد کی تعمیر میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں ۔مگر یہ مقابلہ اس کی تعمیر اور رنگ و روغن میں ہے اس کی افادیت میں نہیں ہے ۔بلا تکلف ہم اپنی مساجد کی تعریف کے پل باندھتے ہیں ۔دوسری مساجد والوں کو ذلیل تک کردیتے ہیں۔ ہمیں یہ خیال بھی نہیں آتا کہ اس طرح ہم اللہ کے گھر کی بے حرمتی کرنے کے مجرم ہورہے ہیں۔ہمارا یہ عمل قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ہے ۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی یَتَبَاہَی النَّاسُ فِی الْمَسَاجِدِ’قیامت نہیں آئے گی، یہاں تک کہ لوگ مسجدوں (کو تعمیر کرنے) کے سلسلے میں ایک دوسرے پرفخر کرنے لگ جائیں گے‘‘۔(ابو دائود،کتاب الصلوٰۃ،راوی انس ؓ )
حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک لوگ مساجد کے بارے میں ایک دوسرے پر فخر کرنا شروع نہ کر دیں۔ مساجد کے سلسلے میں مباہات کے معنی ہیں ان کی تعمیر، آرائش و زیبائش، بلندی اور ان کی چھتوں کی اونچائی پر ایک دوسرے پر فخر کرنا، مثلا آدمی دوسرے شخص سے کہے کہ میری مسجد تیری مسجد سے زیادہ اچھی ہے اور میری مسجد کی تعمیر تیری مسجد سے بہتر ہے وغیرہ وغیرہ۔ بسا اوقات یہ مباہات قول کی بجائے فعل (عمل) کے ذریعہ ہوتی ہے، مثلا مسجد کی آرائش و زیبائش اور اس کی عمارت کی بلندی میں مبالغہ کیا جائے؛ تاکہ دوسری سے زیادہ خوب صورت نظر آئے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ مساجد کے معاملے میں غلو نہ برتا جائے اور ان کی زیبائش نہ کی جائے؛ کیوں کہ مساجد اس مقصد کے لیے نہیں بنائی جاتیں۔ انھیں تو نماز، اللہ کے ذکر اور اس کی اطاعت سے آباد رکھنے کے لیے بنایا جاتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا اور فرمایا: ''لوگوں کو بارش سے بچاؤ اور سرخ اور زرد رنگ مت کرو۔ مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے لیے ایسی مسجد بناؤ کہ اگر وہ نماز پڑھ رہے ہوں، تو بارش ہونے پر انھیں بارش سے اور سورج کی گرمی سے بچائے۔ یعنی اپنا مقصد پورا کرے۔ انسؓ نے فرمایا: ''لوگ مساجد پر باہم فخر تو کریں گے، لیکن انھیں آباد کم ہی کریں گے''۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ''تم مساجد کی ایسے زیبائش کرو گے، جیسے یہود و نصاری نے کی''۔ یہ شے یعنی مساجد کے سلسلے میں باہم فخر کرنا قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے، جو اس وقت ظاہر ہوگی، جب لوگوں کے احوال میں بگاڑ، ان کے دین میں نقص اور ایمان میں کمزوری آ جائے گی۔ جب ان کے اعمال اللہ کے لیے نہیں بلکہ ریا، شہرت اور فخر و مباہات کے لیے ہوں گے۔  
مسجد کی حیثیت اسلام میںمرکز کی ہے ۔ایک مومن کا دل مسجد میں اٹکا رہتا ہے ۔مسجد اللہ کا گھر ہے وہی اللہ جس کے ہم پر بے شمار احسانات ہیں۔اللہ کے گھر کا مقصد یہ ہے کہ لوگ وہاں آکر نماز پڑھیں ،دین سیکھیں،اللہ کا ذکر کریں،اپنے مسائل حل کرنے پر غور و مشورہ کریں۔مسجد اگر اپنے مقصد میں کامیاب ہے تو پھر اس کی عمارت ،رنگ و روغن ،زیب و زینت کی کوئی اہمیت نہیں۔ اگر مسجد جس مقصد کے لیے تعمیر کی گئی ہے وہ پورا نہیں ہورہا ہے تو خواہ اس پر سنگ مرمر لگا ہو،چاہے اس کی وسعت تاحد نظر ہو اللہ کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی ۔ ملک میں اس وقت ہزاروں مسجدیں ایسی ہیں جن کے بنانے والوں نے ان کی تعمیر میں فنکاری کے اعلیٰ اور بے مثال نمونے اپنائے ہیں لیکن آج وہ ویران ہیں وہاں اللہ اکبر کی صدائیں تک بلند نہیں ہوتیں۔بلکہ افسوس یہ ہے کہ وہاں جانور گھومتے ہیں،سیاح جوتوں سمیت اس کی بربادی کا تماشہ دیکھتے ہیں۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ بنانے والوں نے کوئی گناہ کیا یا وہ مجرم ہیں ،البتہ ان کے بعد آنے والوں نے ان کی حفاظت نہیں کی ،تقسیم ملک کے نتیجے میں مسلمان اپنی مسجدوں کو چھوڑ کر بھاگ گئے ۔انھوں نے اپنی جان کی پرواہ کی اللہ کے گھر کا کوئی خیال ان کے دل میں نہیں آیا ۔بعض مسلم نوابین اور بادشاہوں نے اپنی ذاتی مسجدیں ایسے مقامات پر تعمیر کرائیں جہاں ان کے بعد ان کا کوئی پرسان حال نہیں رہا ۔ظاہر ہے وہی اللہ کے یہاں اس کی بربادی کے ذمہ دار ہوں گے ۔ہمیں اس بات کی کوشش کرنا چاہئے کہ مسجدوں کی تعمیر سے پہلے ان کے تحفظ ،ان کے درست استعمال پر توجہ دیں ۔
مسجدوں کو آباد کیجیے ۔ان کے تحفظ کے لیے ان کے کاغذات بنوائیے ۔اگر زمین خالی ہے تو اس کی بائونڈری کرائیے ۔مسجد کے تحفظ کی خاطر ضلع سطح پر کیمیٹیاں تشکیل دیجیے ۔مسجدوں کو نماز کے ساتھ ساتھ ،اجتماعات ،شبینہ و صباحی مکاتب ،لائبریری  کے طور پر بھی استعمال کیجیے ۔اپنی مسجدوں کو تما م انسانوں کے لیے کھلا رکھیے ۔ہر مسلک کے لوگ وہاں نماز پڑھ سکیں ایسا ماحول بنائیے ۔اللہ سب کا خالق و مالک ہے اس کا گھر بھی سب کے لیے کھلا ہونا چاہئے ۔برادران وطن کو بھی مسجد کی اہمیت ،اس کی حیثیت اور افادیت سے آگاہ کیجیے ۔کبھی کبھی ان کو مسجدوں میں بلا کر نماز کے مناظر دکھائیے ۔ایک زمانہ تھا جب ہمارے ہندو بھائی مسجدوں کے سامنے اپنے بیمار بچوں کو لے کر کھڑے ہوتے تھے اور نمازیوں سے دم کراتے تھے ،امام صاحب سے پانی پڑھواکر لے جاتے تھے ،لیکن آج وہی برادران وطن مسجدوں کی موجودگی پر اعتراض کرتے ہیں ،سوچیے اس میں ہماری کہاں کوتاہی اور کیا کمزوری ہے ؟

«
»

موت کے بعد آنسو

تاریخِ مسجدِ اقصی ٰ اور اہل فلسطین پر یہود کا ظلم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے