سرسنگھ چالک کی یاوہ گوئی : کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

  ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی

بھاگوت دعوت دیں تو رواداری دوسرے دیں تو زبردستی؟ یہ دوہرا معیار نہیں تو اور کیا ہے؟
وزیر اعظم نریندر مودی کے تعلق سے سوال ہوتا ہے کہ وہ پریس کانفرنس کیوں نہیں کرتے اور انٹرویو میں اداکاری کیوں کرتے ہیں؟ اکشے کمار کو کیوں صحافی بنا دیا جاتا ہے اور وہ ایسا بے تکا سوال کیوں کرتے ہیں کہ وزیر اعظم آم کاٹ کر کھاتے ہیں یا چوس کر؟ ملک کی موجودہ صورتحال تو ایسی ہے کہ کسی طبقہ کو کاٹ کر اور کسی کو چوس کر ان استحصال کیا جا رہا ہے۔ اس معاملہ میں بیچارہ پردھان سیوک تو دور بی جے پی کی مادرِ تنظیم آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک کے اندر بھی اجنبی میڈیا کو انٹرویو دینے کی ہمت نہیں ہے۔ ایسے میں ان کے سیوک میں یہ صلاحیت کیونکر ہوسکتی ہے؟ موہن بھاگوت کا حال یہ ہے کہ وہ آر ایس ایس کے انگریزی ترجمان دی آرگنائزر تک بھی نہیں جاتے بلکہ ہندی والے پانچ جنیہ پر اکتفا کر لیتے ہیں۔ فی الحال ملک میں دولت کی بدولت ہندوتوا کا بول بالا ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے اس کے باوجود کوئی معروف صحافی سرسنگھ چالک سے انٹرویو لینا ضروری نہیں سمجھتا اور نہ کسی اہم قومی مسئلہ پر ان سے رجوع کرتا ہے۔ اس کے باوجود تنظیمی اجتماعات میں اپنے متنازع خطابات کے سبب وہ خبروں میں رہتے ہیں۔
سر سنگھ چالک نے اپنے حالیہ طویل ترین انٹرویو میں اعتراف کیا ہے اگرچہ بھگوت گیتا میں تعلیم دی گئی ہے کہ امیداور خواہش کو، میں اور میری انا کے احساس کو ترک کرکے اپنی انا کی حدت سے آزاد ہو کر جنگ کی جائے، لیکن سب لوگ ایسا نہیں کر سکتے۔ اس حقیقت بیانی کے بعد وہ ایک خوش فہمی کا اظہار کرتے ہیں کہ سماج کے اندر لوگوں میں ان کے توسط سے بیداری آئی ہے۔ اس مقصد میں اگر سنگھ کو کامیابی ملی ہوتی تو موجودہ وزارت مسلم سماج کی نمائندگی سے خالی نہیں ہوتی۔ بلقیس بانو کے مجرموں کی رہائی عمل میں نہیں آتی اور وزیر اعظم کو جوشی مٹھ کے پانچ ہزار لوگوں کے ساتھ ساتھ غفور بستی کے پچاس ہزار باشندوں کے بے خانماں ہونے کی بھی فکر ہوتی، لیکن ووٹ کی امید اور اقتدار کی خواہش نے ان کو اس تفریق وامتیاز کا شکار کردیا اور وہ اپنی انا کی حدت سے آزاد نہیں ہو سکے۔ سنگھ پریوار اگر اپنے پردھان سیوک کو ان آزار سے نجات نہیں دلا سکا تو دوسروں کو کس طرح آزادی دلا سکتا ہے؟
ہندو مذہب، ثقافت اور سماج کو درپیش تحفظ کے چیلنج کی جانب اشارہ کرتے ہوئے سر سنگھ چالک نے کہا کہ ہندو سماج ابھی بیدار نہیں ہوا ہے۔ یہ لڑائی باہر سے نہیں ہے، یہ لڑائی اندر سے ہے۔ ان کے مطابق ہندو سماج کی سلامتی کے لیے لڑائی جاری ہے۔بیداری کا کریڈٹ لینے کے بعد موصوف نے خود اس کی تردید کردی اور بلا واسطہ نہ صرف سنگھ کی ناکامی کا اعتراف کرلیا بلکہ ہندو ہردیہ سمراٹ نریندر مودی کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا۔ سو سال کام کرنے کے بعد بھی جو تنظیم اپنے سماج کو بیدار نہ کرسکے تو پھر اس کو اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ لینا چاہیے۔ آٹھ سال تک مرکز میں حکومت کرنے اور مختلف ریاستوں میں برسوں تک اقتدار میں رہنے کے بعد بھی اگر برسرِ اقتدار جماعت کی رکن پارلیمنٹ پرگیہ ٹھاکر کو اپنے سماج کی خواتین سے چاقو تیز رکھنے کا مطالبہ کرنا پڑے تو اس سے زیادہ شرمسار کرنے والی بات اور کیا ہو سکتی ہے؟ کیا بی جے پی عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس کو اپنا بوریا بستر لپیٹ کر رخصت ہو جانا چاہیے۔
سرسنگھ چالک نے کہا کہ اب غیر ملکی نہیں رہے لیکن غیر ملکی اثر ورسوخ موجود ہے، بیرون ملک سے سازشیں ہو رہی ہیں۔ اس لڑائی میں لوگوں کے اندر شدت پسندی آئے گی۔ ایسا ہونا تو نہیں چاہیے پھر بھی سخت بیانات آئیں گے۔ یہ تو ایک اصولی بات ہے مگر حقیقت حال اس سے متضاد ہے۔ فی الحال وطن عزیز کے خلاف سب سے زیادہ سازش اور اس پر عملدرآمد چین کے ذریعہ ہو رہا ہے لیکن حکومت میں اس ہمسایہ ملک کا نام لینے کی جرأت تک نہیں ہے۔ نہ لال آنکھوں والے وزیر اعظم چین کا نام لیتے ہیں اور نہ زعفرانی زبان والے سر سنگھ چالک اس کا ذکر کرتے ہیں۔ حکومت نہ صرف سرحد پر چین کی دراندازی کو روکنے میں ناکام ہے بلکہ بازار سے اس کا اثر ورسوخ بھی زائل نہیں کر پا رہی ہے۔
ملک میں بسنے والے نہتے بے قصور لوگوں کے خلاف شدت پسندی میں روز افزوں اضافہ کے شواہد ابھی حال میں ایوان پارلیمان میں پیش کیے گئے۔ مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ نتیانند رائے نے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے اعداد و شمار پیش کرکے مندرجہ بالا دعویٰ کی دلیل پیش کردی۔ انہوں نے گزشتہ ماہ ایوان پارلیمان میں بتایا کہ 2017 اور 2021 کے درمیان ملک میں فرقہ وارانہ یا مذہبی فسادات کے 2900 سے زیادہ واقعات درج کیے گئے۔ سال 2021 میں فرقہ وارانہ فسادات کے 378، 2020 میں 857، 2019 میں 438، 2018 میں 512 اور 2017میں 723 معاملے درج کیے گئے۔ یہ اعداد وشمار مرکزی وزیر داخلہ کے اس بیان کو منہ چڑاتے ہیں جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ بیس سال قبل ایسا سبق سکھایا گیا کہ فرقہ وارانہ فسادات کا سلسلہ ہی رک گیا۔ ان کا اعلان اگر درست تھا تو ان کے نائب ایوان کو کیوں گمراہ کر رہے ہیں؟ اور اگر نتیانند رائے کی اعداد وشمار ٹھیک ہیں تو پھر گجرات کی انتخابی مہم کے دوران وزیر داخلہ نے یہ جملہ کیوں کہا جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
موہن بھاگوت نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ’ہماری سیاسی آزادی کو چھیڑنے کی طاقت کسی میں نہیں ہے، اور کہا ’اس ملک میں ہندو رہے گا، ہندو جائے گا نہیں، یہ طے ہو چکا ہے‘ اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ ہندو اب بیدار ہو چکا ہے۔ حالانکہ ملک کے ہندوؤں سے کسی نے نہیں کہا کہ وہ یہاں سے چلے جائیں۔ اس کے باوجود لاکھوں ہندو شہریت چھوڑ کر برضا ورغبت دیگر ممالک میں جاکر بس رہے ہیں۔ وزارت داخلہ کے مطابق 2021 میں کل 163

«
»

اسمارٹ فون نسل نو کے لیے زہر ہلاہل سے کم نہیں

رحمت عالمؐ کی مثالی دوستی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے