اسلامی معاشرہ میں خواتین کا مقام اور متوقع کردار

اسلامی معاشرہ میں خواتین کا مقام اور متوقع کردار
صفحات : 120
مصنف : الشیخ یوسف القرضاوی
عربی سے ترجمہ : مولانا الیاس نعمانی
ناشر : ہدایت پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرس
قیمت : 150 روپے
مبصر : سہیل بشیر کار، بارہمولہ کشمیر

زیر تبصرہ کتاب عالم اسلام کے مایہ ناز عالم دین علامہ یوسف القرضاوی کی ایک عربی کتاب کا ترجمہ ہے۔ علامہ یوسف القرضاوی ایک بلند پایہ عالم دین، مربی ہونے کے علاوہ بہترین مصنف تھے اس کتاب میں مصنف کہتے ہیں کہ عورت اگرچہ تعداد کے اعتبار سے آبادی کا نصف ہے لیکن قوت تاثیر میں وہ نصف سے زائد ہیں۔ اس لیے کہ خواتین سلبی (نگیٹو) اور ایجابی (پازیٹو) طور پر اپنے شوہروں اور اپنی اولاد پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اس کتاب کو تحریر کرنے کا مقصد مقدمہ میں انہوں نے یوں بیان کیا ہے : ہم مسلمانوں کے پاس ایک خداوندی ہدایت نامہ ہے جو خواتین کے ساتھ آخری درجہ کا انصاف کرتے ہوئے انہیں اعلیٰ درجہ کی عزت سے نوازتا ہے اور انہیں جاہلیت کے ظلم نیز اس کی ظلمت سے چھٹکارا دلاتا ہے، یہ ہدایت نامہ قرآن کریم ہے، جس نے خواتین کو بطور انسان عزت اور انصاف سے نوازا ہے۔ ایک عورت، بیٹی، بیوی، ماں اور ایک رکن معاشرہ ہونے کی حیثیت سے اس کے ساتھ قرآن نے انصاف کیا ہے اور اسے عزت دی ہے۔ ہمیں اس بات کا علم ہے کہ بعض مسلمانوں نے مختلف زمانوں میں خواتین پر ظلم کیا ہے، انہوں نے خواتین کو دینی علم حاصل کرنے اور معاشی سرگرمیاں اختیار کرنے سے محروم رکھا ہے۔ شریعت نے انہیں عبادت کرنے اور تعلیم حاصل کرنے کے لیے مسجد جانے کی اجازت دی تھی، ان مسلمانوں نے انہیں اس حق سے محروم رکھا ہے، انہیں ان کی اپنی پسند کے خلاف شادی کرنے پر مجبور کیا ہے اور ان کو گھر کا قیدی بنا کر رکھا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ صحیح دینی علم نہ ہونے کی وجہ سے ہوا ہے، البتہ ہم اپنی بستیوں میں دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی ایک تعداد اس طرز عمل کی انکاری بھی ہے۔ خواتین کے تئیں اسلام کے اسی موقف کی وضاحت ہماری یہ تحریر کرتی ہے۔ ‘‘ (صفحہ 8)
کتاب کے پہلے باب ’’عورت بطور انسان‘‘ کے موضوع پرمصنف نے سیر حاصل بحث کی ہے۔ رسول رحمت ﷺ کی آمد سے پہلے کچھ لوگ عورت کو انسان تصور ہی نہیں کرتے بلکہ ان کا ماننا تھا کہ وہ مرد کی خدمت کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ مصنف نے پہلے باب میں دکھایا ہے کہ اسلام نے کیسے عورت کی تکریم کی کس طرح اس کا الگ وجود تسلیم کیا، چونکہ اسلام میں کچھ معاملات مرد کو عورت پر فضیلت دی گئی ہے تو ایک غلط فہمی پیدا ہوتی ہے کہ عورت اور مرد برابر کیسے ہیں۔ مصنف لکھتے ہیں کہ یہ فرق دراصل فطرت سلیمہ کے نزدیک مرد و زن کے لیے الگ الگ نوعیت کی ذمہ داریاں ہیں۔ پھر مصنف نے ان اعتراضات کا مفصل جواب دیا ہے جو عام طور پر کیے جاتے ہیں۔ مصنف پہلے اس بات کی حکمت بیان کرتے ہیں کہ آخر خواتین اور مردوں کی گواہی میں فرق کیوں ہے۔ مصنف یہاں وضاحت سے اس حکم کی علت بیان کرتے ہیں مصنف یہاں وہ صورتیں بھی بیان کرتے ہیں جہاں اس حکم کا اطلاق نہیں ہوگا مثلاً وہ جگہیں جہاں صرف خواتین ہی ہوتی ہے وہاں خواتین کی شہادت پر عمل درآمد ہوگا۔ اسی طرح اگر کوئی اپنے شوہر پر الزام لگائے لیکن اس کے پاس ثبوت نہیں ہوں گے وہاں عورت کی قسم کا اعتبار ہوگا۔ دوسرا مسئلہ جس پر اعتراض کیا جاتا ہے وہ خواتین اور مردوں کے درمیان میراث میں تفاوت ہے۔ یہاں بھی مصنف اس حکم کی علت بیان کرتے ہیں اسی طرح انہوں نے ان صورتوں کا بھی ذکر کیا ہے جہاں عورت اور مرد کو برابر وراثت ملے گی مثلا قرآن کریم کی رو سے اگر میت کی اولاد ہو تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا، اسی طرح اگر میت کے والدین اور اولاد نہ ہوں تو اس کے اخیافی (ماں شریک) بہن بھائیوں کا حصہ یکساں ہوگا بلکہ بعض حالات میں خواتین کا حصہ مرد کے حصہ سے بھی زیادہ ہے۔ مصنف لکھتے ہیں کہ ’’بلکہ بعض حالات میں خواتین کا حصہ مرد کے حصہ سے زیادہ ہوتا ہے، مثلاً اگر ایک عورت کا انتقال ہو جائے اور اس کے ورثہ یہ ہوں :
شوہر، ماں، دو سگے بھائی اور ایک اخیافی بہن تو اخیافی بہن کو مکمل چھٹا حصہ ملے گا، جب کہ اس کے دونوں بھائیوں کو (جو کہ مرد ہیں) مل کر ایک چھٹا حصہ ملے گا یعنی ایک بھائی کے حصہ میں ایک چھٹے حصہ کا آدھا آئے گا۔ اسی طرح اگر عورت مر جائے اور اس کے ورثہ میں شوہر، سگی بہن اور علاتی (باپ شریک) بھائی ہوں، تو شوہر کو ایک نصف حصہ ملے گا سگی بہن کو دوسرا نصف حصہ ملے گا ، اور باپ شریک بھائی کو کچھ بھی نہیں ملے گا۔ اس لیے کہ وہ عصبہ ہے اور اس کے لیے کچھ نہیں بچا ہے، لیکن اگر اس کی جگہ پر کوئی بہن ہوتی تو اسے عول کر کے چھٹا حصہ ملتا۔‘‘ (صفحہ 22) عام طور پر یہ مشہور ہے کہ اگر عورت قتل ہوئی ہو تو اس پر آدھی دیت ہے۔ اس بارے میں بھی علامہ یوسف
القرضاوی نے مختلف آرا کا جائزہ لیا ہے لکھتے ہیں ’’خواتین کی دیت کے مرد سے آدھے ہونے کے سلسلے میں کوئی حدیث ایسی نہیں ہے جس کی صحت پر اتفاق ہو اور نہ یقینی اجماع ہے‘‘ (صفحہ 23) شیخ محمود شلتوت کے حوالے سے لکھتے ہیں ’’جب عورت مرد جیسی انسان ہے، اس کے اندر مرد جیسا ہی خون دوڑتا ہے، دونوں کے قتل عمد کی صورت میں قصاص مشروع ہے،ل۔ مرد کے قتل کی صورت میں جو اخروی سزا جہنم، اس میں دائمی قیام اور خداوندی غضب ولعنت کی ہے وہی عورت کے قتل عمد میں بھی ہے تو پھر عورت کے قتل خطا کا حکم بھی وہی ہونا چاہیے جو مرد کے قتل خطا کا ہے‘‘(صفحہ 24) قوامیت پر بھی مصنف نے بحث کی ہے لیکن اس قدر مختصر کہ تشنگی باقی رہتی ہے، اسی طرح عدالتی و سیاسی منصب پر بھی مصنف نے جو بحث کی ہے اس سے بھی تشنگی باقی رہتی ہے۔
کتاب کے دوسرے باب خواتین (اپنی نسوانیت کے پس منظر میں) میں مصنف لکھتے ہیں کہ اسلام نے خواتین کی نسوانیت کو اہم مانا ہے اور اسی وصف کی وجہ سے دین اسلام مرد عورت کے لیے اور عورت مرد کے لیے تکمیل کرنے والا عنصر مانا ہے۔ نہ مرد عورت کا مخالف ہے نہ عورت مرد کی مخالف بلکہ یہ دونوں آپس میں ایک دوسرے کی شخصیت کی تکمیل میں معاون ہوتے ہیں۔ مصنف کہتے ہیں کہ جنت جیسے اعلی مقام میں اللہ سبحانہ و تعالی نے جب آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو اس کا جوڑا حضرت حوا علیہ السلام بھی پیدا کیا تاکہ وہ ان سے انس حاصل کرے اور جنت کے زمانہ قیام میں بھی اسے تنہا نہ رکھا۔ (صفحہ 28) دین اسلام میں رہبانیت کی کوئی گنجائش نہیں لیکن ساتھ ہی اسلام نے چند حدود و قیود بھی رکھے ہیں تاکہ عورت کی نسوانیت باقی رہے۔ اسلام میں شادی کے بغیر عورت سے خاص تعلق کی ممانعت کی گئی ہے۔ اسلام نے زنا کو حرام قراد دیا ہے، ظاہری و مخفی فواحش سے منع کیا ہے اور ان فواحش کے تمام اسباب کو بھی ممنوع قرار دیا ہے تاکہ مرد اور خواتین کو جنسی فتنہ سے بچایا جائے۔ مصنف لکھتے ہیں ’’خواتین کی بابت اسلام نے جو احکام مشروع کیے ہیں اور جو رہنمائیاں پیش کی ہیں ان میں عورت کی اس فطرت، نیز مرد کے ساتھ اس کے تعلق کے مناسب طریقہ کا ہی خیال رکھا ہے۔ اسلام اس کی فطری نسوانیت کا لحاظ رکھتا ہے، اس کے تقاضوں کا خیال رکھتا ہے، ان تقاضوں کو نہ زبر دستی دباتا ہے اور نہ ہی ان کو بھڑکا تا ہے بلکہ وہ خواتین کو ہر اس عمل سے روکتا ہے جو اس کو بے حیثیت کرے اور اس کی نسوانیت کی عظمت پر حرف لگائے۔ اسلام اسے ان انسانی درندوں سے محفوظ رکھتا ہے جو صنف نازک سے نہایت بے دردی کے ساتھ لطف اندوزی کرتے ہیں اور پھر اسے بے یارو مددگار و بے حیثیت چھوڑ دیتے ہیں‘‘(صفحہ 30) آگے مصنف ان نکات کا ذکر کرتے ہیں جس سے عورت کی نسوانیت کی بابت اسلام کا موقف بتاتے ہیں مثلاً دین اسلام میں مردوں پر سونا پہننا اور ریشمی لباس لگانا حرام ہے، جبکہ خواتین کے لیے یہ جائز قرار دی گئی ہے۔ اسی طرح نسوانیت برقرار رکھنے کے لیے وہ اسے ہمیشہ کسی مرد کے زیر سایہ رکھتا ہے جو اس کے اخراجات اور اس کی ضروریات کی ذمہ داری لے لے۔ اسی طرح دین اسلام خواتین کے اخلاق اور حیا کی حفاظت کرتا ہے۔ دراصل دین اسلام عورت کو نیک نام اور باعزت دیکھنا چاہتا ہے اسی لیے اسلام میں نگاہیں نیچے رکھنے، پردہ، اپنی گفتگو اور چال میں وقار وغیرہ کی تلقین کی گئی ہے۔
اس باب میں مصنف نے اختلاط پر بحث کرتے ہوئے اس سخت گیر مشرقی روایات پر بھی تنقید کی ہے جس کی وجہ سے عورت کا دائرہ کار محدود ہوا حالاں کہ دور نبوی اور دور خلفائے راشدین میں عورت کی چلت پھرت تھی، وہ باقاعدہ مساجد جاتی تھی جنگوں میں حصہ لیتی تھی، بحث و مباحث تعلیم اور تعلم میں حصہ لیتی تھی۔ الغرض خواتین گھروں میں قید نہ تھیں۔ یہ سب بحث کرنے کے بعد مصنف لکھتے ہیں ’’حاصل کلام یہ کہ مردوں اور خواتین کے درمیان ملاقات فی نفسہ حرام نہیں ہے، بلکہ یہ جائز ہے اور اس وقت تو مطلوب ہے جب اس ملاقات سے مقصود کسی اچھے کام میں شرکت ہو۔ جیسے علم نافع عمل صالح کوئی خیر کا کام، لازمی جہاد، یا کوئی اور مفید کام جس میں دونوں صنفوں کی کاوشوں کی ضرورت ہو اور جس کی منصوبہ بندی اور عمل آوری میں دونوں کے تعاون کی ضرورت ہو‘‘ (صفحہ 44) یہاں مصنف حدود نا آشنا اختلاط کے حامیوں کے اعتراضات کا جواب بھی دیتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ قاری کو ان نتائج سے دلائل کے ذریعہ آگاہ کراتے ہیں جو مغربی معاشروں میں آزادانہ اختلاط کے نتیجے کے طور پر ہوا جیسے اخلاقی زوال، غیر قانونی اولاد کی کثرت، غیر شادی شدہ لڑکوں اور لڑکیوں کی کثرت، خاندان کا بکھرنا اور مہلک امراض کا پھیلاؤ۔ مصنف نے ان سب پر جامع بحث کی ہے۔
کتاب کے تیسرے باب ’’خواتین بطور ماں‘‘ میں پہلے دین اسلام میں بطور ماں کی عظمت قرآن و سنت سے بیان کی ہے۔ مصنف نے قرآن کریم اور احادیث مبارکہ پیش کیے ہیں جس سے قاری کو ماں کی عظمت معلوم ہوتی ہے۔ وہیں مصنف کا ماننا ہے کہ جس ماں کو دین اسلام نے اس قدر اہمیت دی ہے اس کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرے۔ ان میں اچھائیوں سے محبت اور برائیوں سے نفرت پیدا کرے ساتھ ہی ماں کو چاہیے بچے میں اطاعت کی عادت پیدا ہو اور خدمت دین کا شوق ہو اور ماں کی ممتا کے زیر اثر ان کو جہاد سے نہ روکے بلکہ حق کی آواز پر غالب کرے۔ پھر انہوں نے اسلامی تاریخ کی چند ماؤں جیسے حضرت خنسا، حضرت مریم، حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ کا نمونہ پیش کیا ہے۔
کتاب کے چوتھے باب ’’خواتین بطور بیٹی‘‘ میں مصنف نے عورت کی عظمت بحیثیت بیٹی بیان کی ہے۔ عام طور پر معاشرہ میں یہ محسوس کیا جاتا ہے کہ عورتوں سے خاندان کو زیادہ فائدہ نہیں ملتا لہذا بہت سے معاشروں میں خواتین کو عار سمجھا جاتا ہے، مصنف نے اس سلسلے میں ان احادیث کو بیان کیا ہے جن کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ دین اسلام میں بیٹی کو پرورش کی کس قدر اہمیت ہے۔ مصنف نے یہ بھی بتایا ہے کہ دین اسلام میں شادی کے موقع پر بیٹی کی مرضی پوچھنے کی اہمیت بیان کی ہے اس سلسلے میں مختلف فقہی آرا بیان کی ہے، بحیثیت بیٹی دین اسلام میں خاتون کو عظمت دینا اسلام کا خاصا ہے۔
دین اسلام رہبانیت کے خلاف ہے یہاں شادی کو عبادت کہا گیا ہے۔ کچھ ادیان میں خواتین کو شیطانی مخلوق کہا جاتا ہے۔ کچھ لوگ عورت کو فتنہ کی جڑ کہتے ہیں۔ اس کے برعکس دین اسلام بیوی کو اللہ کی نشانی قراد دیتا ہے ‌(سورہ روم آیت 201) مصنف کہتے ہیں کہ دین اسلام میں نیک بیوی کو ایمان اور تقوی کے بعد قیمتی اثاثہ کہا گیا ہے۔ صالح بیوی کو خوش بختی کہا گیا ہے۔ اس باب میں مصنف نے بیوی کے حقوق بھی بیان کیے ہیں۔ مصنف لکھتے ہیں کہ دوسروں کے بجائے اسلام میں بیوی کی مستقل حیثیت ہے لکھتے ہیں ’’اسلام خواتین کی شخصیت کو مستقل حیثیت دیتا ہے، اسی لیے ہم رسول اللہ ﷺ کی بیویوں کو ان کے اپنے ناموں اور انساب سے جانتے ہیں، جیسے خدیجہ بنت خویلد عائشہ بنت ابی بکر، حفصہ بنت عمر، میمونہ بنت حارث، صفیہ بنت حیی، مؤخر الذکر کے والد تو ایک یہودی اور رسول اکرم کے سخت مخالفین میں سے تھے۔
اسلام کی نگاہ میں شادی سے خواتین کی تمدنی شخصیت پر بھی فرق نہیں پڑتا ہے، وہ عقود معاملات اور تمام تصرفات کی اہل رہتی ہے، خرید و فروخت کر سکتی ہے، اپنی املاک کو کرایہ پر دے سکتی ہے، اسی طرح دیگر املاک کرایہ پر لے بھی سکتی ہے، اپنے مال کو ہدیہ یا صدقہ کرسکتی ہے، وکیل بنا سکتی ہے، خود مقدمہ لڑ سکتی ہے۔‘‘(صفحہ 74)علامہ یوسف القرضاوی مرحوم نے خواتین بحیثیت بیوی پر کتاب کے پانچویں باب میں بہت عمدہ بحث کی ہے۔
جو اسلام عورت کو بحیثیت انسان، بحیثیت ماں، بحیثیت بیٹی، بحیثیت بیوی الگ الگ حیثیت دیتا ہے اس اسلام پر خواتین کے حوالے اعتراض بے معنی لگتے ہیں۔ یہ اسلام ہی ہے جو عورت کے مختلف مراحل میں اس کو الگ الگ حیثیت دیتا ہے۔
دور حاضر میں اسلام کے جن احکام پر سب سے زیادہ اعتراض کیا جاتا ہے ان میں سرفہرست اسلام کا قانون طلاق اور تعدد ازدواج ہے۔ مصنف نے کتاب کے چھٹے اور ساتویں باب میں طلاق اور تعدد ازدواج پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ طلاق کے بارے میں مصنف لکھتے ہیں ’’اسلام کی مشروع کردہ طلاق تکلیف دہ آپریشن کی طرح ہے، آپریشن میں انسان اس کے زخم کی تکلیفات برداشت کرتا ہے بلکہ بسا اوقات تو جسم کے دیگر حصوں کی حفاظت کے لیے اور بڑے ضرر سے بچنے کے لیے جسم کے کسی عضو کو کاٹ دیا جانا بھی انسان گوارا کرتا ہے۔ اگر دونوں میاں بیوی کے درمیان دوری بڑھ گئی ہو اور ان کے درمیان ہم آہنگی قائم کرنے کی تمام کوششیں بے سود ثابت ہو رہی ہوں تو ایسی صورت میں طلاق جیسی کڑوی دوا بھی ہے جس کے علاوہ اگر کوئی اور دوا موجود نہ ہو۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اگر ہم آہنگی نہ ہو تو علیحدگی ہی بہتر ہے، قرآن کہتا ہے: اگر میاں بیوی جدا ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ اپنی وسعت سے ہر ایک کو بے نیاز کر دے گا (سورہ نسا آیت 130)‘‘ (صفحہ 76) اسلام طلاق کا وہ طریقہ بیان کرتا ہے جو عقل و مصلحت کا تقاضا ہے۔ اس باب میں مصنف نے طلاق کے امکانات کی تجدید کے تحت گیارہ اصول بیان کیے ہیں جن پر اگر عمل کیا جائے تو طلاق کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ طلاق کے بعد پر بھی مصنف نے اچھی بحث کی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر طلاق کا حق مرد ہی کو کیوں ہے؟ پر بھی مصنف نے مختصر مگر جامع روشنی ڈالی ہے۔ یہ بھی سوال کیا جاتا ہے کہ اگر کوئی خاتون علیحدگی کی خواہشمند ہو تو پھر وہ کیسے شوہر سے نجات حاصل کر سکتی ہے۔ اس سلسلے میں مصنف نے طلاق تفویض اور خلع پر روشنی ڈالی ہے۔ البتہ ان علاقوں میں جہاں اسلام کا قانون نافذ نہیں ہے وہاں طلاق کا قانون تو فقہا نافذ کرتے ہیں لیکن خلع پر عمل نہیں کرتے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس پر بھی کوئی صاحب لکھیں۔ اسی طرح مصنف نے غصہ کی حالت اور ایک ساتھ تین طلاق پر بھی بحث کی ہے۔ لیکن یہاں بھی قاری کو بہت سے سوالات کے جواب نہیں ملتے اور تشنگی باقی رہتی ہے۔
کتاب کے ساتویں باب میں مصنف تعدد ازواج کے بارے میں لکھتے ہیں عیسائی مشنریز اور مستشرقین تعدد ازدواج کے موضوع پر اس طرح گفتگو کرتے ہیں جیسے وہ اسلام کا شعار ہو اور شریعت اسلامی میں اسے واجب یا کم از کم مستحب تو قرار دیا ہی گیا ہو۔ اسلام کی بابت یہ کہنا یا تو غلط نہیں ہے یا پھر دیدہ و دانستہ غلط فہمی پیدا کرنے کی ایک کوشش۔ مسلمان کے لیے شادی کا اصل اصول یہ ہے کہ وہ صرف ایک ہی خاتون سے شادی کرے جو کہ اس کے لیے راحت جاں، سکون دل، شوہر کے گھر کی مالکن اور اس کی رازداں ہو۔ اس طرح ان دونوں میں وہ انس و محبت موجود رہے جو قرآن مجید کی نظر میں ازدواجی زندگی کا اہم ترین ستون ہے۔ اسی لیے علماء کہتے ہیں کہ جس شخص کی ایک بیوی ہو جو اس کی جنسی ضروریات کی تکمیل کر کے اسے پاک دامن رکھے اور اس کی دیگر ضرورتوں کے لیے بھی کافی ہو تو ایسے شخص کے لیے دوسری شادی کرنا مکروہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اور تم باوجود خواہش کے بھی متعدد بیویوں کے درمیان انصاف کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے، لہذا کسی ایک کی جانب مکمل طریقہ پر میلان نہ رکھو‘‘ (صفحہ 89) اس باب میں مصنف تعدد ازواج کے جواز کی حکمت بھی بیان کرتے ہیں نیز مغربی طرز عمل پر علمی تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’مغربی اقوام کے یہاں پایا جانے والا یہ تعدد غیر قانونی ہے لیکن قانون کے زیر سایہ انجام پا رہا ہے۔ یہ تعدد بیویوں کے نام سے نہیں ہے بلکہ یہ گرل فرینڈس کے نام سے پایا جاتا ہے، اس میں صرف چار کی تعداد کی حد نہیں ہے بلکہ یہ لا تعداد ہے‘‘ (صفحہ 95) اس غیر فطری تعلق کے مضمرات پر بھی مصنف روشنی ڈالتے ہیں۔ اس سلسلے میں تعدد ازواج کے حوالے سے جو عملی رویہ کچھ مسلمان اپنائے ہوئے ہیں پر بھی مصنف تنقید کرتے ہیں۔
کتاب کے آخری باب ’’خواتین بطور رکن معاشرہ‘‘ میں مصنف نے اس پروپیگنڈے کا جائزہ لیا ہے جس کے مطابق اسلام نے خواتین کو گھر کے اندر کا اس طرح قیدی بنایا ہے کہ وہ وہاں سے نکل کر صرف قبر میں ہی جا سکتی ہے۔ اس باب میں مصنف نے اعتدال کا راستہ بتلایا ہے اگر ان باتوں پر عمل کیا جاتا تو معاشرہ پاکیزہ اور پرسکون ہوگا اس باب کا اختتام مصنف اس طرح کرتے ہیں ’’مسلم معاشرہ سے مطلوب یہ ہے کہ وہ صحیح ترتیب قائم کرے اور ایسے اسباب مہیا کرے کہ جب اس کی ذاتی مصلحت یا اس کے خاندان یا معاشرہ کی مصلحت تقاضا کرے تو خواتین معاشی سرگرمیاں انجام دے سکیں، اس سے اس کی حیا پر آنچ نہ آئے۔ دینی، ذاتی اور گھریلو ذمہ دار ہوں پر حرف نہ آئے اور ذمہ داریوں کی ادائیگی نیز حقوق کے حصول کے سلسلہ میں اسلامی معاشرے میں خواتین کا مقام اور متوقع کردار اس کے لیے نظام یوں بھی بنایا جا سکتا ہے کہ وہ آدھا کام کرے اور آدھی اجرت پائے ( مثلا ہفتہ میں تین دن) اسی طرح اسے ازدواجی زندگی کی ابتدا میں خوب چھٹیاں ملنی چاہئیں اور ولادت و رضاعت کے سلسلہ کی بھی اس کے لیے چھٹیاں ہونی چاہئیں۔ اس سلسلے میں خواتین کے لیے خاص اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں لایا جائے جن میں وہ اپنی لیے مناسب ورزشیں کر سکیں، کھیل کھیل سکیں اور انہیں مختلف قسم کی سرگرمیاں انجام دینے کی آزادی حاصل ہو۔
معاشی سرگرمیاں اختیار کرنے والی خواتین کے لیے وزارتوں، اداروں اور بینکوں میں مخصوص یونٹس بنائے جائیں جن میں خلوت اور فتنہ کا اندیشہ نہ ہو۔ اس کے علاوہ اور بھی متعدد بے شمار طریقے اختیار کیے جاسکتے ہیں۔‘‘(صفحہ 119)
مولانا الیاس نعمانی کو رب العزت جزائے خیر عطا فرمائے جنہوں نے اس قدر اہم کتاب کا سلیس ترجمہ کیا۔ مولانا الیاس نعمانی نے ترجمہ اس خوبصورتی سے کیا ہے کہ قاری کہیں بھی بوجھل پن محسوس نہیں کرتا۔ کتاب معروف ناشر ہدایت پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرس نے شائع کی ہے۔ کتاب کی قیمت 150 روپے ہے جو 098-910-51676 وہاٹس ایپ پر مسیج کرکے حاصل کی جا سکتی ہے۔

بشکریہ : دعوت نیوز

«
»

مغربی بنگال کی جیلیں مسلم قیدیوں کا مقتل کیوں بن رہی ہیں؟

بچوں کے ادب میں اخلاقی قدروں کی اہمیت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے