دومثال شخصیت مولانا محی الدین منیری اور قاضی اطہر مبارکپوری

ضیاء الدین قاسمی ندوی،خیراباد،مئو،یوپی

  جناب محی الدین منیری رحمۃ اللہ علیہ عالم تو نہیں تھے بڑے عالم گر اور مردم گر تھے وہ  حسن انتظام اور حسن سلوک میں بے نظر تھے 1966۔67 میں جامعہ اسلامیہ بھٹکل جیسے عظیم ادارے کی بنیاد رکھنے والوں میں تھے،1984 میں ،میں جب ندوہ کی طرف سے جامعہ اسلامیہ بھٹکل (کرناٹک) تدریس کے لئے بھیجا گیا تو منیری صاحب ناظم اعلیٰ تھے بہت ہی مخیر،اخلاق حسنہ کے پیکر انسان تھے اللہ نے ان میں ہمہ جہت خوبیاں ودیعت کی تھیں ،ان کے دست مبارک پر بیسیوں غیر مسلموں نے ایمان قبول کیا جو بھی نومسلم ہوتا اس کی تربیت ورہائش کا نظم منیری صاحب کرتے تھے ہر ضرورت کا لحاظ رکھتے تھے جب ایمان وعمل میں پختگی آجاتی تو کہیں خلیجی ملک میں ملازمت کی راہ ہموار کر دیتے تھے کیونکہ اہل بھٹکل بنیادی طور پر یا تو ہوٹل کا کاروبار کرتے ہیں یا گلف میں ملازمت کرتے ہیں بہت فیاض مہمان نواز ہوتے ہیں اکثر نسلا عربی الاصل شافعی المسلک ہیں ،جامعہ اسلامیہ پورے ہندوستان میں شافعی المسلک مسلمانوں کا سب سے بڑا تعلیمی و تربیتی ادارہ ہے جو مساحت میں تیس ایکڑ ہے تو معنوی لحاظ سے علم وفن ،سلوک ومعرفت کا معتبر و مستند تعلیمی ادارہ ہے جس کے فضلاء اپنی مادرعلمی کے ساتھ ندوہ کا نام بھی روشن کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں جس کا تعلق ندوہ سے ہے۔

  منیری صاحب رحمۃ اللہ علیہ مجھے بہت عزیز رکھتے تھے اکثرکرناٹک کے مختلف علاقوں کے سفرپر جاتے تو فرماتے ’’ساتھ چلو‘‘ میں جاتا تھا اور ہر جگہ نوجوانی کے جوش کے ساتھ تقریر بھی کرتا تھا جو بحمدللہ ادارہ کی شہرت وعزت کے حق میں بھی بہت مفید ثابت ہوتی تھی۔

  میرے بھٹکل سے چلے آنے کا ان کو بہت قلق تھا کئی مرتبہ ازراہ شفقت ومحبت مجھے سخت ناراضگی کا خط بھی لکھا کہ کیوں گئے، یہاں سے اتفاق کی بات تھی جب میں نے اپنی گھریلو مصلحت کے باعث بھٹکل کی تدریس ترک تھی تو منیری صاحب حج بیت اللہ اور دیگر عرب ملکوں کے سفر پر گئے تھے،مجھ سے انس ومحبت کی ایک بڑی وجہ قاضی اطہر صاحب مبارکپوری رحمہ اللہ کے دیار پورب اوران کے وطن مبارک پور سے قریب ہونا بھی تھی،میرے اولین تلامذہ میں اس وقت بین الاقوامی شہرت کے حامل مولانا محمدالیاس ندوی بھٹکلی بھی ہیں اور مشہورمفسر وخطیب مولانا عبد السبحان ناخدا بھٹکلی استاذتفیسرو حدیث مدرسہ ضیاء العلوم میدان پور تکیہ، رائے بریلی ہیں ،مولانا الیاس بھٹکلی باوجود بڑے مصنف وبہت ساری تحریکوں کے بانی ہونے کے محبت کا تعلق رکھتے ہیں اور اپنے کواہم سے اہم لوگوں کے سامنے میراشاگرد کہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں ،مشہور زمانہ کتاب سلطان ٹیپو مولانا الیاس بھٹکلی کا ایک تاریخی شاہکار مانی جاتی ہے وہ جب بھی فون کرتے ہیں مجھے اور حاجی بابومولاناضیا الحق خیرابادی کو بھٹکل آنے کی باصرار دعوت دینا نہیں بھولتے مگر ابھی ہم دونوں کا کوئی باضابطہ پروگرام بھٹکل کے نہیں بن سکا ہے ،دیکھیں کب توفیق ہوتی ہے
 

«
»

’پسماندہ مسلمانوں‘ سے ہمدردی حقیقی یا تقسیم کرنے کی سازش؟

جناب مقصود حسن صاحب: ایک مخلص اور کامیاب استاذ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے