بی جے پی کا ترنگا پریم تاریخ کے آئینہ میں!

 

 کلیم الحفیظ، نئی دہلی

ہم بھارت کے لوگ ایمرجنسی کے بعد فسادات کے ایک طویل کال کو دیکھتے ہوئے بابری مسجد کی شہادت کا کال، اس کے بعد پھر فسادات کا ایک طویل کال، پھر گجرات کال ۲۰۰۲ اور اس کے بعد مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کا کال، اس کے بعدڈیجیٹل کال ہوتے ہوئے اب امرت کال میں پرویش کرچکے ہیں۔ امرت کال میں ہماری سرکار نے ہر گھر ترنگا مہم چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ صرف یوپی میں ترنگا خریدنے کیلئے سرکار پر چالیس کروڑ کا بوجھ آئے گا اور ایک اندازے کے مطابق اس کو پھہرانے کیلئے دو سو کروڑ سے زائد کا خرچ آئیگا۔باقی ریاستوں میں اسی پر قیاس کرسکتے ہیں، جبکہ اتر پردیش میں گذشتہ تین ماہ سے سرکاری اسکولوں میں یوپی سرکار نے بھوجن کا پیسہ نہیں دیا ہے۔فرمان آیا ہے کہ پرنسپل خود اس کا انتظام کریں۔اسی طرح سے بچوں  کو ڈریس کے جو پانچ ہزار روپیہ ملتے ہیں وہ بھی نہیں ملے اور دو سال سے ۴۵۰ جو پرائیویٹ اسکولوں کے بچوں  کو دیا جاتا ہے وہ بھی نہیں ملا ہے۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ عوام کی ضرورت کیا ہے اور سرکاری ترجیح کیا ہے۔ 
 بات ترنگے کی، کسی بھی ملک کیلئے دو چیزیں سب سے اہم ہوتی ہیں۔ ایک اس کا آئین، دوسراپرچم۔ ملک کا داخلی اور خارجی دونوں نظام آئین سے چلتا ہے، لیکن اس کی عظمت اس کا پرچم ہوتا ہے۔پرچم کی تاریخ کوئی نئی نہیں ہے، بلکہ دنیا میں جتنی جنگیں ہوئیں،اکثر ان میں ہم پرچم کو سب سے آگے پاتے ہیں۔ فاتح قوموں نے ہمیشہ پرچم کے ذریعہ سے ہی اپنی شان و شوکت کا اظہار کیا۔ اسلامی تاریخ بھی اس سے اچھوت نہیں  رہی۔فتح مکہ جسے اللہ نے فتح مبین کہا ہے، وہاں بھی پرچم کا ذکر موجود ہے۔ معلوم یہ ہوا کہ پرچم کی تاریخ نئی نہیں  ہے۔ اس لئے ہمارا ملک کیسے پرچم سے اچھوت رہتا؟اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت میں پرچم کی ایجاد کب اور کیسے ہوئی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ1921 میں، مہاتما گاندھی نے انڈین نیشنل کانگریس کے اجلاس میں قومی پرچم کی ضرورت کا اظہار کیا۔ جسے ثریا طیب جی نے ڈیزائن کیا۔ کانگریس رہنما نوین جندل کی این جی او فلیگ فاونڈیشن آف انڈیا کے مطابق قومی پرچم ثریا بدرالدین طیب جی کا ہی ڈیزائن تھا، جسے آئین ساز اسمبلی نے قومی پرچم کے لیے منظور کیا تھا۔ اس بارے میں حیدرآباد کے ایک مورخ اے پانڈورنگ ریڈی نے قومی پرچم کے ڈیزائنر کے طور پر پنگلی وینکیا کے نام کو مسترد کر ثریا طیب جی کا نام آگے بڑھایا۔ریڈی اس تناظر میں برطانوی مصنف ٹریور رائل کی کتاب ”دی لاسٹ ڈے آف راج“ کا حوالہ دیتے ہیں۔”نہرو کی گاڑی پر اس رات جو جھنڈا لہرا رہا تھا، اسے طیب جی کی بیوی نے خاص طور پر ڈیزائن کیا تھا۔پارلیمانی ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ ثریا طیب جی کا نام دراصل فلیگ پریزنٹیشن کمیٹی کے ارکان میں سے ایک تھا جنہوں نے 14 اگست 1947 کو قومی پرچم پیش کیا تھا۔
تاہم تاریخ کے اوراق ہمیں یہ بتاتے ہیں  کہ گاندھی جی چاہتے تھے کہ جھنڈے کے بیچ میں چرکھے کو شامل کیا جائے۔ گاندھی جی کی خواہش تھی کہ جھنڈے میں تین رنگ شامل ہوں، جن میں سرخ، سبز اور سفید۔ 1931 میں کانگریس کی فلیگ کمیٹی نے ترنگے میں کچھ تبدیلیاں کیں۔ مورخین کے مطابق گاندھی جی کے کہنے پر سرخ کے بجائے زعفرانی رنگ لایا گیا اور رنگوں کی ترتیب بھی بدل دی گئی، جیسا کہ اب ہم ترنگے میں دیکھتے ہیں۔22 جولائی 1947 کوجواہر لال نہرو نے دستور ساز اسمبلی میں قومی پرچم کی تجویز پیش کی۔ اس تاریخی قرارداد کو پیش کرتے ہوئے انہوں نے ”محترم صدر، مجھے یہ قرارداد پیش کرتے ہوئے بہت فخر ہے۔ ہم عزم کرتے ہیں کہ ہندوستان کا قومی پرچم ایک افقی ترنگا ہوگا،جس میں گہرا زعفرانی، سفید اور سبز تناسب سے رنگ ہوگا…۔ترنگے کے بارے میں پھیلائے گئے تصورات اور خرافات کو نہرو نے آئین ساز اسمبلی میں ہی مسترد کر دیا تھا۔ آئین ساز اسمبلی میں نہرو کی تقاریر کا تذکرہ سینئر صحافی اور مصنف پیوش بابلے کی کتاب نہرو کے افسانے اور سچائیاں میں کہاگیا ہے کہ نہرو نے کہا تھا، ”یہ ایک ایسا جھنڈا ہے، جس کے بارے میں مختلف باتیں کہی جاتی ہیں۔ بہت سے لوگوں نے اس کی غلط تشریح کی ہے۔ وہ اسے فرقہ وارانہ نقطہ نظر سے سمجھتے ہیں، لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ جب یہ جھنڈا تیار کیا گیا تو اس میں کوئی فرقہ وارانہ علامتیں شامل نہیں کی گئیں۔وہ کہتے ہیں، ”ہم نے ایک ایسے جھنڈے کے بارے میں سوچا جو پورے ملک کی روح کو ظاہر کرتا ہے اور اس کے ہر حصے سے اپنی روایات کا اظہار کرتا ہے۔ ایک ملی جلی روح اور روایت کو اپنائیں جو ہزاروں سالوں کے سفر کے ذریعے ہندوستان میں پروان چڑھی…یہ جھنڈا بہت سی دوسری خوبصورت چیزوں کی علامت بھی ہوگا۔ یہ جھنڈا دلوں اور دماغوں سے جڑی ہر چیز کی علامت ہو گا، جس نے انسانوں اور ملک کی جانوں کو عزت بخشی ہے۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ۱۹۲۹میں لاہور کے ادھویشن میں کانگریس نے یہ طے کیا کہ اگلے سال سے ہم ۲۶جنوری پر ترنگا لہرائیں گے اور اسے سلامی دیں گے۔ اعلان کے مطابق ترنگے کے دیوانے اگلے سال ۲۶ جنوری کو ترنگا لے کر نکل پڑے،تو انہیں دو طرفہ مظالم جھیلنے پڑے، ایک انگریز تو تھا ہی دوسری طرف میسور کا راجہ جو ساورکر کا دوست اور ہندو مہا سبھا کا فائناسر تھا۔اس نے چالیس ترنگا پریمیوں کو شہید کردیا۔ آر ایس ایس کے آیڈیو لاگ ساورکر نے ان کی شہادت پر جشن مناتے ہوئے کہا ہے کہ سیڈو نیشنلسٹ کو سبق سکھایاگیا اور ہیڈگوارکی طرف سے ایک سرکلر نکالاگیاکہ چھ بجے سنڈے کے دن ۲۶ جنوری کو ہم ترنگے کی جگہ بھگوا پھہرائیں گے اور سنگھیوں کو جب بھی موقع ملا تو انہوں نے ایسا کیا بھی،  ہال ہی میں راجستھان میں کورٹ پر جس پرچم کو انہوں نے پھہرایا وہ بھگوا ہی تھا۔ ۱۷ جولائی ۱۹۴۷ کو آر ایس ایس کی طرف سے کہاگیا کہ ہم اس بات سے مطمئن نہیں کہ قومی پرچم سبھی جماعتوں کو قبول ہونا چاہئے۔ جھنڈا راشٹر کی علامت ہیا ور ملک میں صرف ایک ہی راشٹر ہے، ہندو راشٹر۔ جس کی لگاتار پانچ ہزار سال کی اپنی تاریخ ہے، جھنڈا صرف اسی راشٹر کی نمائندگی کرنا چاہئے۔ہمارے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم ایسے جھنڈے کومنتخب کریں جو سبھی جماعتوں کی خواہشتات کی تکمیل کرے، ہم جھنڈے کو اس طرح نہیں چن سکتے جس طرح ایک درزی کو کپڑا یا کوٹ تیار کرنے کو دیتے ہیں۔ 
اب آپ سوچئے کہ آر ایس ایس بی جے پی جس کا سیاسی ونگ ہے اور خود وزیراعظم مودی نے ۱۲ جولائی ۲۰۱۳کو گجرات کے وزیراعلیٰ کے طور پر اس بات کو تسلیم کیاتھاکہ وہ ایک ہندو راشٹر وادی ہیں،آر ایس ایس کے ممبر ہیں اور گولوالکر کے تربیت یافتہ ہیں، تو ان کا ترنگا پریم کیسا ہوگا؟ پڑھئے ۱۴ جولائی ۱۹۴۶کو گرو پورنیما کے موقع پر گولوالکر کیا کہتے ہیں؟ ہمیں کامل یقین ہے کہ بھگواپرچم ہماری عظیم سنسکرتی کا نمائندہ ہے۔ یہ ایشور کی شناخت ہے۔ ایک دن پورا ملک بھگوا کو سلامی دے گا۔آزادی سے ایک دن قبل ۱۴ اگست کو آر ایس ایس کی طرف سے کہاگیا کہ جو لوگ قسمت کی بدولت اقتدار تک پہونچے ہیں، وہ بھلے ہی ہمارے ہاتھوں میں ترنگا دے دیں، لیکن اسے ہندؤں کے ذریعہ نہ عزت دیا جا سکے گا اور نہ ہی اپنایا جاسکے گا۔تین کا ہندسہ اپنے آپ میں منحوس ہے۔ ایسا جھنڈا جس میں تین رنگ ہوں وہ ملک کے برا اور  نقصاندہ ثابت ہوگا۔ چونکہ ساورکر ترنگے کو کھادی سے بنائے جانے کے خلاف تھے شاید اسی لئے ہماری سرکار نے فلیگ کوڈ میں گذشتہ سال تبدیلی بھی کرڈالی اوراب یہ پالسٹر کا بنایا جاسکے گا، جبکہ ا س سے پہلے وہ صرف کرناٹک کے کھادی گرام ادیوگ سے ہی بن سکتاتھا۔ سمجھئے! بھاچپائیوں کا راشٹر واد؟ پہلے انہوں نے اپنے ہی میک ان انڈیا اور آتم نربھر بھارت کا مذاق اڑایا اور اسٹیچو آف یونیٹی کو چین سے امپور ٹ کیا اور اب اگر یہ پھر ترنگا کو چین سے امپورٹ کرتے ہیں تو مطلب صاف ہے کہ وہ دشمن جو ہمارے ملک کی زمین پر قبضہ کرکے بیٹھا ہے اسی کے ہاتھوں کو یہ مضبوط کر رہے ہیں  ، یہی ہے ان کا راشٹر واد اور ترنگا پریم۔
ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ترنگے کی تاریخ کو جانیں اور اس کی عظمت کو پہچانتے ہوئے ہر موقع پر اس کو پھہرائیں  بھی۔ اگر ہمیں وہ لوگ ترنگا پھہرانے کی نصیحت دیں گے جنہوں نے ۵۲سالوں تک اپنے ہیڈ کوارٹر پر ترنگا نہیں پھہرایا اور جب ۲۰۰۱میں تین نوجوانوں نے ناگپور میں ان کے دفتر پر ترنگا پھہرایا،تو ان کے خلاف انہوں نے مقدمہ بھی قائم کرایا، تو ہمیں ایسے لوگوں کوآئینہ بھی دکھانا ہے اور ان کو ان کے راشٹر واد کی سچائی تاریخی حوالوں سے بتانی ہے۔ انہیں یہ بھی بتانا ہے کہ ہیڈ گیوار جب جیل گئے تھے،تو وہ کانگریس کے کارکن تھے اور ساوکر تو معافی مانگ کر ویر بن گئے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا ہے کہ جب بھی گلستاں کو خون کی ضرور ت پڑی تو گردن ہمارے ہی لوگوں نے آگے بڑھ کر کٹائی ہے۔ بطخ میاں انصاری جنہوں نیانگریزوں کے ظلم سے اجڑ جانا گنوارا کیا، لیکن گاندھی کو زہر دینا گنوارا نہیں کیا، برگیڈیئر عثمان جنہوں نے ایک نارمل سے کمانڈر کے طور پر زندگی گذارنی قبول کی،لیکن جناح کے آفر کو ٹھکرا دیا یہ ہمارا راشٹر واد ہے۔ ہمیں دنیا کو بتانا ہے اور اسی کے مطابق اپنی زندگی گذارنی ہے، لیکن سوال یہی ہے کہ ہرگھر ترنگے کا خواب کیسے پور ا ہوگا، جب سب کے پاس گھر ہی نہیں ہے، جس کا جواب بہر حال سرکار کو دینا چاہئے۔ 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے۔
 

«
»

مولانا سیّد محمود حسنی رحمة الله عليه

یوم عاشوراء کی اہمیت و فضیلت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے