معاشی خوش حالی اورسماجی انصاف کا نسخہ محمدی ﷺ

 

ابونصر فاروق

    امیری اور غریبی زندگی کی ایسی دھوپ چھاؤں ہے جو اول روز سے ہی انسانوں کے ساتھ لگی چلی آر ہی ہے اور اس نے آج تک انسانوں کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ خدا فراموش دولت مند لوگوں نے ہمیشہ غریبوں اور ضرورت مندوں کو حقیر نگاہوں سے دیکھا، اُن کی غربت کا مذاق اڑایا اور اُن کی مجبوری کا ضرورت سے زیادہ ناجائز فائدہ اٹھایا ہے۔دولت کے تکبر اور غرور نے اُن کو انسان دشمنی کے اس مرض میں مبتلا کر دیا کہ انہوں نے انسانوں کی مجبوری سے صرف ناجائز فائدہ ہی نہیں اٹھایا بلکہ اُن کو غلام بنانا اور اُن کو خریدنا اور بیچنا شروع کر دیا۔زر خرید غلاموں کی ایک نسل پیدا ہو گئی جس کا کام ہی اپنے تمام انسانی حقوق سے محروم رہ کر دولت مندوں کی خدمت کرنا تھا۔پوری انسانی تاریخ میں صرف ایک وقت ایسا آیا جب انسانیت کے مسیحا اور نجات دہندہ نے،جنہیں دنیا یتیموں کے والی، غلاموں کے مولیٰ، فقیروں کے ملجا، ضعیفوں کے ماویٰ، محسن انسانیت اور رحمت عالم ﷺکے نام سے جانتی ہے، غریب، ناتواں، پسماندہ اور بیکس لوگوں کی دستگیری کی اور اُنہیں اُن کا جائز مقام اور حق دلایا۔رسول اللہ ﷺ نے اس کام کے لئے صرف قانون ہی نہیں بنایا اور صرف وعظ و نصیحت اور درس ہی نہیں دیا بلکہ اپنے بہترین عمل سے خود بھی اس کا مثالی نمونہ پیش کیا اور ایک ایسی امت پیدا کردی جو قیامت تک اُن کے نقش قدم پر چلتی ہوئی غریب، ضرورت مند،بیکس اور مجبور انسانوں کے ساتھ حسن سلوک کرتی رہی اور اُن کی خدمت اور امداد کو اپنے لئے نجات اور فلاح کاباعث سمجھنے لگی۔رسول اللہ ﷺنے خدمت کے اس عمل کو ایمان، نیکی اور آخرت کی نجات سے جوڑ کر سب سے بڑی اور اعلیٰ درجہ کی عبادت بتایا۔ 
    پچیس سال کا ایک نوجوان جس کے لئے معاشرے کے بہترین خاندانوں سے اور حسین ترین دوشیزاؤں سے رشتہ آ ر ہا ہو، جس کی خدمت میں سماج کے سرداران یہ پیش کش کر رہے ہوں کہ اگر آپ چاہیں تو ہم اپنے علاقے کی حسین ترین دوشیزہ کو آپ کی زوجیت میں حاضر کر دیں،ان تمام رشتوں کو ٹھکرا کر چالیس سال کی ایک بیوہ سے نکاح کر لیتا ہے۔کیا دنیا میں بیوہ عورت سے ہمدردی اور محبت کی ایسی کوئی مثال پیش کی جا سکتی ہے ؟
    بچپن میں ہی حضرت زیدؓ  کو چرا کر لوگوں نے بیچ دیا اور زیدؓ  حضرت خدیجہ ؓ کی خدمت  میں آ گئے۔دنیا کی مثالی بیگم نے اپنے اس غلام کو اپنے سرتاج کی خدمت میں تحفے کے طور پر پیش کر دیا۔حضرت زیدؓ کے والدین کو اپنے بچے زیدؓ کا پتہ چلا تو وہ اپنے بچے کو ہر حال میں واپس لینے مکہ آئے اورزیدؓ کو آزاد کرانے کے لئے منہ مانگی قیمت دینے کو تیار ہو گئے۔نبی ﷺنے اُن کی پیشکش کے جواب میں فرمایا کہ میں کسی کو خودسے جدا نہیں کر تا ہوں۔زید کو اختیار ہے وہ چاہے تو میرے ساتھ رہے اور چاہے تو اپنے والدین کے ساتھ چلا جائے۔کیا آپ نے کہیں سنا ہے کہ ایک چھوٹی عمر کا لڑکا جو اپنے والدین، خاندان اور وطن سے بچھڑ گیا ہو،ایک گھر میں غلام کی حیثیت سے رہ رہا ہو اور جب اُس کے گھر والے اُسے لے جانا چاہیں تو وہ انکار کر دے اور اپنے آقا کے ساتھ رہنا پسند کرے۔حضرت زیدؓ نے اپنے والدین  سے کہہ دیا کہ وہ محسن انسانیت ﷺکو نہیں چھوڑ سکتے۔ایسا ہونے کی واحد وجہ یہ تھی کہ رسول اللہﷺ کا حضرت زیدؓ کے ساتھ ایسا مشفقانہ برتاؤ اور سلوک تھا کہ جس کا وہ اپنی زندگی میں تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔اس واقعہ کے بعد رسول اللہﷺنے حرم شریف میں آ کر یہ اعلان کر دیا کہ سنو آج سے زیدؓ میرا بیٹا ہے گویا اُنہوں نے اُن کو گود لے لیا۔کیااپنے غلام اور ملازم کے ساتھ حسن سلوک کی ایسی کوئی دوسری مثال پیش کی جاسکتی ہے ؟
    ایک یتیم بچے کا مال ابو جہل نے ہڑپ کر رکھا تھا اور وہ بچہ اپنا حق اُس ظالم سے وصول کرنے کی طاقت نہ رکھتا تھا۔ اُس بچے نے قریش کے سرداروں سے فریاد کی اور مددچاہی۔ اُن شریر لوگوں نے اُس بچے کی مدد کرنے کی جگہ رسول اللہ ﷺکی طرف اشارہ کر دیا اور بچے سے کہا کہ جاؤ اور اُن سے مدد کی درخواست کرو۔ وہی بیکسوں اور بے بسوں کے مددگار اور ہم نوا ہیں۔اُنہوں نے سوچا تھا کہ ابو جہل تو رسو ل اللہﷺ کی بات مانے گا نہیں اور اس طرح وہ بے عزت ہو جائیں گے۔ معصوم بچہ اُن کی شرارت سے بے خبر سادگی میں نبیﷺ کے پاس پہنچ گیا۔نبی ﷺ اُس وقت ہر اعتبار سے کمزور تھے اور ان قریش کے سرداروں کے مقابلے میں کوئی طاقت نہیں رکھتے تھے۔ پھر بھی جب اُس بچے نے فریاد کی توآپﷺ نے فوراً اُس کی مدد کا فیصلہ کر لیا اور ابو جہل کے پاس جا کر اُس سے کہا کہ اس یتیم کا حق اسے دے دو۔اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی مدد کی اور ابو جہل نے بے چوں وچرا نبیﷺ کے حکم کی تعمیل کی اور بچے کا مال اُسے لوٹا دیا۔وہ بچہ انتہائی خوش ہو گیا اور زندگی بھر کے لئے حضور ﷺ کا احسان مند ہو گیا۔جن لوگوں نے شرارت سے یہ مشورہ دیا تھا وہ اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔یتیموں کی مدد کے لئے تقریریں کرنا، اُن کی ہمدردی میں بیان دینا، اُن کی فلاح کے لئے قانون بنانا ایک بات ہے اور عملاً اُن کی مدد کرنا اور اُن کے مسائل حل کرناکرنا ایک دوسری بات ہے۔محسن انسانیت ﷺ نے اپنے حسن عمل سے اس کی جو مثالیں قائم کی ہیں کیا موجودہ دنیائے انسانیت کے مسیحا ایسی کوئی مثال پیش کر سکتے ہیں۔
    قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ خالق کائنات نے ہی لوگوں کو امیراور غریب پیدا کیا ہے۔ایسا اکرنے کی حکمت وہ یہ بیان کرتا ہے کہ اگر لوگ غریب نہ ہوتے تو انسانی خدمت کا وہ کام جو غریب لوگ کرتے ہیں نہیں ہوپاتا اور انسانی معاشرہ نہ زندہ رہ پاتا اور نہ ترقی کر پاتا۔امارت و غربت کے اس فطری فرق کو کسی مصنوعی طریقے سے ختم نہیں کیا جا سکتا ہے۔جن لوگوں نے اس کی کوشش کی وہ اپنی اس کوشش میں ناکام ہو گئے اور اس مسئلہ کو حل نہیں کر سکے۔ہر غریب کو امیر بنا دینا ممکن بھی نہیں ہے۔اصل چیز یہ ہے کہ جو لوگ معذور، غریب اور بے کس ہیں اُن کی عزت نفس کو ٹھیس نہ پہنچے، اُن کو اپنی محرومی کا احساس نہ ہو اوراُن کے اندر پسماندہ رہنے کا جو تصورہے اُس کو ختم کیا جائے۔ اُن کی تمام جائز بنیادی ضروریات کی تکمیل کا بندو بست کیا جائے۔اور اُن کو بھی زندگی کی دوڑ میں حصہ لینے اور آگے بڑھنے کا پورا موقع فراہم کیا جائے۔یہی وہ ممکن اور ضروری مدد اور تعاون ہے جو غریب طبقہ کے ساتھ کیا جاسکتا ہے اور کیا جا نا چاہئے۔ چنانچہ اس پہلو سے دیکھئے توقرآن کے احکام اور رسول رحمت ﷺکی تعلیمات بہترین رہنما اصول ہیں اوراسلامی سماج نے ان ہی زریں اصولوں پر عمل کر کے اس کے بہترین فیوض و برکات کا مشاہدہ دنیائے انسانیت کو کرایا ہے۔ اور آئندہ بھی ان ہی زریں اصولوں سے یہ امید کی جاسکتی ہے۔
    قرآن نیک اور صالح بندوں کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ”اُن کے اموال میں ایک متعین حق اورحصہ ہے سائل اور محروم کے لئے“۔حق کا لفظ استعمال کر کے قرآن یہ تصور دیتا ہے کہ ہر دولت مند آدمی اپنے مال میں سے غریبوں اور ضرورت مندوں کو جو کچھ دیتا ہے وہ اس کا کوئی احسان نہیں ہے بلکہ یہ تو اُس غریب کا حق ہے جو اُس کے پاس آ گیا ہے۔ اُس کی ایمانداری اور دیانت داری کا تقاضہ ہے کہ وہ اس غریب کا حق فوراً  ا داکرے۔اس اصول پر عمل کرنے سے غریب امیر کی مدد کا احسان مند نہیں بنتا اور امیر غریب پر احسان نہیں جتا سکتا۔جو دولت مند محتاجوں کا حق اُنہیں نہیں دیتا وہ بے ایمان، بد دیانت، ظالم اورمجرم ہے۔اللہ کی نگاہ میں بھی اور انسانیت کی نظر میں بھی۔ایسے ہی سرمایہ داروں اور دولت مندوں سے جہنم کا پیٹ بھرا جائے گا۔قرآ ن میں اور احادیث رسولﷺ میں یہ بات جگہ جگہ بتائی گئی ہے۔
    قرآن کے اس حکم کا انکار اور اس عمل سے بیزاری کا اظہار وہی لوگ کر سکتے ہیں جو قرآن پر ایمان نہیں رکھتے اور آخرت کے بھی منکر ہیں۔ قرآن دوسری جگہ کہتا ہے ”تم نے دیکھا اُن لوگوں کو جو آخرت کو جھٹلاتے ہیں، یہی لوگ تو ہیں جو یتیم کو دھکے دیتے ہیں اور مسکین کا کھانا دینے پر لوگوں کو نہیں اکساتے“۔اس بیان سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ غریبوں کا حق ادا نہ کرنا آخرت کے انکار سے تعبیر کیا جائے گا وہیں ہر انسان کو صرف اپنی حد تک غریبوں کا حق ادا نہیں کرنا ہے بلکہ معاشرے کو اس بات پر اکسانا اور آمادہ کرنا ہے کہ وہ مسکین کو کھانا کھلائے۔
     یعنی محتاجوں کی تمام ضرورتوں کو پورا کرے۔ آخرت میں جن لوگوں کو ان کی بد اعمالیوں کی سزا دی جائے گی اُن سے پوچھا جائے گا کہ دنیا میں تمہارا کیا حال تھا؟ وہ اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے جواب دیں گے کہ”ہم نماز نہیں پڑھتے تھے اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے اور لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر(بے دینی)کی باتیں بناتے تھے۔رسول رحمت ﷺ کی شریعت جہاں ایک طرف انسان کو خدا کا انتہائی عبادت گزار بندہ بناتی ہے وہیں انسانیت کی خدمت اور مجبور انسانوں کی خبرگیری اور امداد و تعاون کرنے والا اعلیٰ درجہ کا متقی، صالح اور محسن فرد بناتی ہے۔

    رسول اللہ ﷺ نے بیوہ یتیم اور ضرورت مند کی امداد کی کتنی فضیلت بتائی ہے اس کا اندازہ اس حدیث سے کیا جا سکتا ہے کہ آپ نے فرمایا: بیوہ اور ضرورت مند کی مدد کے لئے دوڑ دھوپ کرنے والا ایسا ہے جیسے کوئی آدمی کسی رات تہجد کا ناغہ نہیں کرتا، ہر دن روزے رکھتا ہے، کبھی روزہ نہیں چھوڑتا اور میدان جہاد میں شہادت کا درجہ پانے کے لئے اپنی جان داؤ پر لگا دیتا ہے۔
    ایک عبادت گزار انسان اپنی عبادت سے صرف اپنی ذاتی حیثیت کو فائدہ پہنچا تا ہے۔خدا کی بارگاہ کے علاوہ دنیا میں بھی اپنی عبادت گزاری کی وجہ سے نیک نامی حاصل کرتا ہے مگر اُس کی عبادت گزاری سے دوسرے لوگوں کو، کوئی فائدہ نہیں پہنچتاہے۔ اس کے مقابلے میں ایک ایسا انسان جو عبادت تو معمول کے مطابق کرتا ہے مگر ساتھ ساتھ بندگان خدا کی خدمت اور اُن کی حاجت پوری کرنے میں ہر وقت لگا رہتا ہے اُس کا درجہ خدا اور رسول کی نگاہ میں بھی اونچا ہوجاتا ہے اور دنیا کے لوگوں کے لئے بھی وہ رحمت اور برکت ثابت ہوتا ہے۔عبادت گزار انسان ہمیشہ رات بھر جاگ کر نماز ادا نہیں کر سکتا ہے اور نہ زندگی بھر روزہ رکھ سکتا ہے۔لیکن خدمت خلق کرنے والا ایک انسان اپنی انسان دوستی اور غرباو مساکین کی ہمدردی و مدد کی بدولت اس مرتبہ و مقام سے سرفراز ہوتا ہے۔ترمذی کی ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺفرماتے ہیں کہ   ”صدقہ اللہ کے غصے کو ٹھنڈا کرتا ہے اور انسان کو دردناک موت سے بچاتا ہے۔“ 
    قرآن کہتا ہے کہ فضول قسمیں نہ کھاؤ۔ اگر کبھی غلطی سے کوئی سنجیدہ قسم کھا بیٹھو تو اس کا کفارہ ایک غلام آزاد کرنا، یادس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا دس مسکینوں کو کپڑ اپہنانااور اگر اس کی استطاعت  نہ ہو تو دس دن کے لگاتار روزے رکھنا ہے۔غور فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ نے جو دین ہمیں دیا ہے اُس کے اصول غریبوں کے کیسے مددگار اور حمایتی ہیں۔قسم کا کفارہ صرف روزہ رکھنا نہیں بتا یا جا رہا ہے۔ بلکہ ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنے کو کہا جا رہا ہے اور اگر قسم کھانے والا خود غریب اور ضرورت مند ہے تب اُس کے لئے یہ گنجائش ہے کہ وہ مال خرچ کرنے کی جگہ روزے رکھے۔رسول رحمت ﷺ کی ان تمام تعلیمات کا فائدہ کن لوگوں کو پہنچ سکتا ہے اور پہنچتا ہے؟  جب تک دنیا میں اسلام کی تعلیمات موجود رہیں گی (اور یہ تعلیمات قیامت تک موجود رہیں گی) تب تک ایک سچے مسلم معاشرے میں غریبی اور محتاجی کوئی مسئلہ نہیں ہوگی۔آج اگر مسلم سماج میں یہ مسئلہ موجود ہے تو اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ یہ مسلم سماج اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ان تعلیمات پر عمل شروع ہو جائے تو آج غریبی کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔
    یہ تو وہ احکام تھے جو لوگوں کو اختیاری طور پر دئے گئے ہیں کہ وہ چاہیں تو ان پر عمل کر کے اپنے رتبے اور مرتبے کو بلند کریں۔کوئی اسلامی حکومت یا کوئی اسلامی حاکم اور قانون ان اعمال کے نہیں کرنے پر آدمی کو سزا نہیں دے سکتا ہے۔اسلام قانون کی لاٹھی کی جگہ انسان کی فطری شرافت، ہمدردی اور انسان دوستی کے جذبات کو اکساتا ہے، ابھارتا ہے اور دعوت دیتا ہے کہ وہ کسی خارجی دباؤ کے بغیر خودسے بے بس و مجبور لوگوں کی مدد کرے۔لیکن ایسا نہیں ہے کہ ان احکام کو صرف اخلاقی نصیحتوں تک ہی محدود کرتا ہے بلکہ اس کے لئے قانون بھی بناتا ہے اور اسلامی قانون کے ماننے والوں کو اس کا پابند بھی کرتا ہے۔ 
    سورہ توبہ کی آیت نمبر 60 میں زکوٰۃ کا حکم موجود ہے۔ زکوٰۃ کی ساری رقم ایک جگہ بیت المال میں جمع کی جائے گی اور وہاں سے مسلم معاشرے کے ذمہ دار ان اس کو خرچ کریں گے۔نہ خرچ کرنے والا کوئی احسان جتا ئے اور نہ زکوٰۃ لینے والا کوئی شرمندگی محسوس کرے کیوں کہ وہ اپنا حق وصول کر رہا ہے۔وہ لوگ جو معذور یا بیمار ہو چکے ہیں، محنت سے اپنی روزی نہیں کما سکتے ہیں اُن کی کفالت کے لئے مااُں کوہانہ وظیفہ دیا جائے گا۔جو لوگ محنت مزدوری کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن سرمایہ کی کمی اُن کے کام کی رکاوٹ بن رہی ہے اُن کو زکوٰۃ کی اتنی رقم دی جائے گی کہ وہ اپنے پیروں پر خود کھڑے ہو سکیں اور زکوٰۃ لینے والے ایک دن زکوٰۃ دینے والے بن جائیں۔جن لوگوں کو شرعی احکام کے مطابق زکوٰۃ، صدقہ اور خیرات کو محتاج اور مجبور تک پہنچانا تھا،وہ خود ناجائز طورپراس کو وصول کر کے کھا رہے ہیں۔اس رقم سے عمارتیں بن رہی ہیں، ذمہ داروں کے بینک بیلنس میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ لوگ سرمایہ داروں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔کیا ایسے لوگ اچھے مسلمان تو چھوڑیے، مسلمان بھی کہلانے کے لائق ہیں ؟؟؟

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

«
»

مولانا سیّد محمود حسنی رحمة الله عليه

یوم عاشوراء کی اہمیت و فضیلت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے