ایام قربانی میں کیا قربانی کا کوئی بدل ہے؟

شفیع احمد قاسمی خادم التدلیس جامعہ ابن عباس احمد آباد

    اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ذی الحجہ کا پہلا عشرہ فضیلت والا ہے، اس کے فضل و شرف کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کا تقابل ماہ مبارک کے اخیر عشرہ سے کیا گیا ہے، بلکہ علماء کے حوالے سے ملا علی قاری نے ان دونوں کے درمیان تطبیق اس طرح نقل کی ہے،مختار یہ ہے کہ ذی الحجہ کے دس ایام یوم عرفہ کی وجہ سے افضل ہیں، اور رمضان کے اخیر عشرہ کی دس راتیں لیلۃالقدر کی وجہ سے افضل ہیں، اسلئے کہ یوم عرفہ سال کے دنوں میں سب سے افضل دن ہے، اور لیلۃالقدر سال کی راتوں میں سب سے افضل رات ہے،  واضح رہے کہ ان ایام میں سب سے افضل اور محبوب عمل اللہ کے نزدیک قربانی کرنا ہے،حدیث پاک میں وارد ہے، ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے منقول ہے وہ فرماتی ہیں کہ،اللہ کے محبوب جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قربانی کا دن ابن آدم کا کوئی عمل اللہ کو خون بہانہ سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ نہیں ہے، قیامت کے دن قربانی کا وہ جانور سینگوں بالوں اور کھروں سمیت آئیگا،اور قربانی کے جانور کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالٰیٰ کے یہاں قبولیت کا مقام حاصل کر لیتا ہے۔         رواہ الترمذی وابن ماجہ: مرقات المفاتیح/ ج: 3 (حدیث نمبر 1470)
    حدیث پاک کی شرح کرتے ہوئے شارح مشکوۃ ملا علی قاری نے حضرت زین العرب کے حوالہ سے عجیب بات نقل کی ہے جس سے قربانی کی عظمت ووقعت نمایاں ہوتی ہے۔ 
    قال زین العرب: یعنی افضل العبادات یوم العید اراقۃ دم القربان، وانہ یأتی یوم القیامۃ کما کان فی الدنیا من غیر نقصان شئی منہ، لیکون بکل عضو منہ اجر ویصیر مرکبہ علی الصراط وکل یوم مختص بعبادۃ، ویوم النحر بعبادۃ فعلھا إبراہیم علیہ السلام من التضحیۃ والتکبیر، ولوکان شئی افضل من ذبح الغنم فی فداء الانسان لما فدی إسماعیل علیہ السلام بذبح الغنم۔        مرقات المفاتیح  /ج ۳ ص /۴۷۵ 
    حضرت زین العرب فرماتے ہیں: عید الاضحٰی کے دن افضل عبادت قربانی کے جانور کا خون بہانا ہے، اور یہ جانور اپنے پورے وجود کے ساتھ قیامت کے دن حاضر ہوگا، اور اس کا کوئی عضو کم نہ ہوگا، جیسا کہ دنیا میں وہ اپنے مکمل اعضاء کے ساتھ تھا، تاکہ اس کے ہر عضو کے بدلہ اجر وثواب حاصل ہو، اور وہ پل صراط پر اس کی سواری بن جائے گا، ہر دن کسی عبادت کے ساتھ مختص ہے، اور قربانی کا دن بھی ایک عبادت کے ساتھ خاص ہے جس کو سیدنا خلیل اللہ نے بخوبی انجام دیا ہے، یعنی قربانی کرنا اور تکبیر کہنا، اور اگر انسان کے فدیے میں جانوروں کی قربانی سے کوئی چیز زیادہ فضیلت والی ہوتی، تو حضرت اسماعیل علیہ السلام کا فدیہ ذبح غنم سے نہ ادا کیا جاتا۔  الخ
    جوں جوں قربانی کا وقت قریب آتا جا رہا ہے، یہ بات پورے زور و شور کے ساتھ اٹھائی جارہی ہے، کہ قربانی کے نام پر ہزارہا ہزار بلکہ لاکھوں لاکھ جانوروں کو کاٹا جاتاہے، قوم کی ایک خطیر رقم اس میں صرف ہوجاتی ہے،اور بعض جگہوں پر انتہائی بے دردی کے ساتھ اس کے گوشت کو زمین دوز کردیا جاتا ہے، کاش ان رقوم کو غریبوں ناداروں اور مسکینوں پر صدقہ کردیا جاتا، تو اس سے ملک کی معیشت میں کسی قدر اچھال آتا، اور ملک خوش حالی کی طرف ایک قدم آگے بڑھتا، لیکن خدا معلوم لوگ کیوں اس بات کو سمجھنے کیلئے تیار نہیں، جبکہ ثواب تب بھی ملیگا،جب وہ راہ خدا میں صدقہ کریں، ان دانشوروں کی اس رائے پر بے ساختہ شیخ سعدی شیرازی کا وہ مصرع نوک قلم پر آرہا ہے۔  ع
بریں عقل ودانش بباید گریست 
    اس جیسی عقل و دانش پر تو ماتم کرنا چاہیے، تعجب ہے، اپنی رائے کی اس قدر وقعت و اہمیت کہ خدا کے حکم کے مقابلے میں اسے پیش کی جائے،قرآن تو یہ اعلان کر رہا ہے۔
    ہم نے ہر امت کیلئے قربانی مقرر کی، تاکہ وہ چوپایوں کے مخصوص جانوروں پر اللہ کا نام لیں،جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عطاء فرمایا ہے، سورۃ الحج 34 قربانی ایک عظیم الشان عبادت ہے،جو سیدنا حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر نبی آخر الزماں جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت تک مشروع چلی آرہی ہے، ہر مذہب و ملت کا اس پر عمل رہا ہےَ
    حدیثِ پاک میں وارد ہے، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے، وہ فرماتے ہیں، جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں دس سال قیام فرمایا،(اس قیام کے دوران) آپ قربانی کرتے رہے۔     الخ ترمذی جلد اول: ص/ 277
    لیکن آج کل ترقی یافتہ دور کے دانشور اور قوم کے چیدہ لوگ  اسلام کی ادھوری اور ناقص معلومات رکھتے ہیں، اور پھر شریعتِ اسلامیہ کی جس بات کو سمجھنے سے ان کی عقل قاصر ہوتی ہے، اور اس مسئلہ کے فلسفہ تک ان کے ذہن کی رسائی نہیں ہوپاتی،تو وہ اس پر  خلاف عقل و دانش کا فتویٰ لگادیتے ہیں، گویا وہ شریعت کی ہر چیز کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنا چاہتے ہیں، پھر عقل اس پر جو فیصلہ سناتی ہے،اس پر وہ کامل یقین کربیٹھتے ہیں،لیکن واقعہ یہ ہے،کہ ان کی یہ بنیاد ہی غلط ہے،کہ وہ عقل کی کسوٹی پر وحی کے علوم کو پرکھنا چاہتے ہیں، حالانکہ عقل کے ذریعے حصول علم کا ایک محدود دائرہِ کار ہے، جس مرحلہ پر پہنچ کر اس کی پرواز ختم ہوجاتی ہے، اور عقل اپنا گھٹنا ٹیک دیتی ہے، اور جہاں عقل کی آخری حد ہوتی ہے، اس سے آگے حصول علم کا ذریعہ وحی ہوتی ہے، ایسی صورت میں عقل کے ذریعے وحی کے علوم کو پرکھنا کس قدر بے عقلی کی بات ہے، اور یہ بات قابل ذکر ہے کہ شریعت کا کوئی مسئلہ عقل کے خلاف نہیں ہے،البتہ بعض احکام امر تعبدی اور غیر معقول ہیں، یعنی عقل کی رسائی وہاں تک نہیں ہوپاتی ہے، ایسے موقعوں پر ہمیں گھٹنا ٹیک دینا چاہیے، اور بس، اسی مفہوم کو ادا کرتے ہوئے شیخ سعدی شیرازی یوں گویاں ہیں، ع
نہ ہر جائے مرکب تواں تافتن 
کہ جاہا سپر با ید  انداختن 
ترجمہ؛  عقل کی سواری ہر جگہ نہیں دوڑائی جاسکتی، کہ بہت سی جگہوں پر سپر ڈال دینا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں عقل سلیم کی دولت سے مالا مال فرمائے۔آمین

مضمون نگار کی رائےسے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

«
»

بھارت چھوڑو تحریک اوربھارت چھوڑو نعرے کاخالق یوسف مہر علی

ذی الحجہ کے دس دنوں کی فضیلت و اہمیت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے