بسم الله الرحمن الرحيم
وصلى الله علي سيدنا محمد و آله و صحبه وسلم – أما بعد
تحریر ۔ سید ہاشم نظام ایس ایم ندوی
رمضان كے با بركت مہینے كا آخری عشرہ اورآخری عشرے کے پہلے دن ، آفتاب اپنے آب و تاب کو پہنچ کر مائل بہ زوال ہوا، تو ادھر اذانِ ظہر کے ساتھ ہمارے خسر کی حیات بھی ختم ہوئی اور اللہ کے اس نیک بندے نے اپنی رفیقۂ حیات ، بڑی بیٹی اور بڑے نواسے کے سامنے ہم سب كو داغِ مفارقت دیتے ہوئے داعئ اجل کو لبیک کہا ۔ إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ۔
وہ میرے چھوٹے خالو اور نہایت قابلِ احترام خسرِمکرم جناب محمد جعفر بن عبد الرحمن صاحب دامدا فقیہ تھے، جن کی رحلت پر آج تقریبا دو ماہ سے زیادہ عرصہ گزر رہاہے اور ابھی تک ان کی یادیں اور باتیں اس طرح ذہن و دماغ پر نقش ہیں گویا ان کی شخصیت میرے روبرو کھڑی مجھے نصیحت کر رہی ہے اور مجھے ایک نئے مستقبل سے آشنا کرنے کے سلسلے میں فکر مند ہے، شعوری یا غیر شعوری طور پر مجھے جن کے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں بہت کچھ سننے اور سیکھنے کا موقعہ ملا، آپ ان میں ایک تھے۔ اللهم اغفرله وارحمه ۔
آپ کی پیدائش ماہِ دسمبر سن 1949 عیسوی کو صوبۂ کرناٹک، بحرِ عرب کے ساحلی علاقے بھٹکل میں ہوئی، ابتدائی تعلیم اپنے گھریلو ماحول کے مطابق حاصل کی، اس کے ساتھ انجمن حامی مسلمین بھٹکل میں ساتویں جماعت تک تعلیم پائی۔ جب کہ حصولِ تعلیم کا ایک مختصر عرصہ اپنے بھائی مولانا محیی الدین فیاض مرحوم کے ساتھ ویلور میں بھی گزارا۔ جب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو کم سنی ہی میں ذریعۂ معاش سے جڑ گئے ، جس کا آغاز اپنے ملک ہندوستان ہی سے کیا، کچھ عرصہ شہرِ کلکتہ، کیرلا اور کالیکٹ اور آخری حصہ دہلی میں گزارا، اس بیچ متحدہ عرب امارات میں ابوظبی و دبئ میں بھی تجارت سے وابستہ ہو کر اپنی قسمت آزمائی، خوب محنت اور لگن سے تجارتی شروعات ہوئی اور شہرِ نوائط کے اچھے اور کامیاب تاجر کی حیثیت سے سامنے آئے۔ اچھا نام کیا، اصولِ تجارت کے ساتھ تجارت کو بنائے رکھنے کی کوشش کی جو زیادہ عرصے تک جاری نہیں رہ سکی، اس کے بعد سعودیہ عربیہ کے شہر قطیف اور خلیج میں معاش کا آخری حصہ سلطنتِ عمان مسقط میں گزرا۔ جہاں پر اپنی تجارتی زندگی کی بساط لپیٹ کر مادرِ وطن بھٹکل چلے آئے۔جس کے بعد بھی اپنے سابقہ تجربات کی روشنی میں کچھ نہ کچھ تجارتی کوششیں جاری رہیں، جس سے کئی ایک نے فائدہ اٹھایا اور الحمد للہ آپ کےتجربات اور مشاہدات سے فائدہ اٹھا کر بعضوں نے آپ کے ساتھ رہ کر تجارت سیکھنے کی کوشش کی، کبھی نظریاتی تو کبھی عملی میدان میں ساتھ چل کر بتایا، جتنا ہو سکا ہر ایک کو خیر کا مشورہ دیتے رہے، انھیں ناکامیوں کے اندر کامیابیوں کے نقشے دکھائے، تجارتی اصول وضابطے سمجھائے اور پتہ نہیں پچاسوں کی صحیح رہنما ئی کر کے اپنے لیے توشۂ آخرت کر گئے۔
آپ ؒ نے اپنی زندگی کی 74/ بہاریں دیکھیں ، جس میں ان کا ہر وصف انوکھا، ہرخوبی نرالی،اور صفات بے نظیر تھیں، اپنی البیلی ذات،حسن اخلاق وبلند کردار سے دلوں کو فتح کرنے میں کامیابی حاصل کی،اورلوگوں کے مفاد کو اپنے مفاد پر ترجیح دیتے رہے ، دینی اور تعلیمی اداروں سے تعلق و محبت رکھتے ہوئے ضرورت مندو ں کی ضرورتوں کی تکمیل میں حتی المقدور حصہ لیا، عزیز واقارب کی عظمت ومہمان نوازی کے ساتھ پور ی زندگی خوش مزاجی اورکریمانہ برتاؤ کے ساتھ گذاری۔ اپنے رشتے داروں میں والدین کے ساتھ ساتھ دیگر محسنین کا تذکرہ بھی وقفے وقفے سے کر کے ان کے حق میں دعائے مغفرت فرماتے ۔
کیالوگ تھے جو راہ وفا سے گذرگئے دل چاہتا ہے کہ نقش قدم چومتے چلیں
وہ ایک اچھی اور سلجھی ہوئی ذہنیت کے حامل تھے ، اپنے پاس صالح افکار اور طویل تجربات کا خرانہ رکھتے تھے، ہمیشہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور اتحاد کا درس دیتے ۔ اس بات پر سب کا تفاق ہے کہ ان کی فطرت میں رواداری آخری درجے کی پائی جاتی تھی، سب کا ساتھ دینا سب کے ساتھ چلنا ان کی فطرت میں تھا،کسی کی تکلیف پر پریشان ہونا، اظہارِ افسوس کرنا اور دعاؤں سے نوازنا معمول تھا۔ بے شک آپ بلند اخلاق کے مالک تھے، خداپرستی آپ کا شعار تھا، عزت و احترام آپ کا ورثہ تھا، دل جوئی اور ہمت افزائی آپ کی عادت تھی، حکیمانہ نگاہ ان کا طرۂ امتیاز تھا، انسان نوازی اور خدمت گزاری آپ کے مزاج میں تھا، غرباء پروری آپ کی فطرت تھی ، کسی سے ملتے تو ہنستے مسکراتے ہوئے خندہ پیشانی کے ساتھ ملتے، اجنبی لوگوں سے بھی بڑے آسانی سے اور بہت جلد ہی بے تکلف ہو جاتے ۔اسی طرح چندوں اور ہر مالی تعاون کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے، دل کھول کر ضرورت مندوں کی مالی معاونت کرتے۔ اچار کیری میں قیام کے دوران " مسجد عمر بن الخطاب" کے سلسلے میں فکر مندی اور انتقال سے قبل مخدوم کالونی میں زیرِ تعمیر " مسجد ابرہیم " کے سلسلے میں فکر مند رہے، جس جگہ سے انھیں جذباتی تعلق تھا ۔ الغرض وہ ایک درد آشنا اور غمخوار انسان تھے۔
بچوں کی پرورش کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیم و تربیت کا مکمل خیال فرماتے۔ اپنی بیٹیوں اور دامادوں کو اس سلسلے میں بار بار توجہ دیتے، میرے موبائیل پر موجود ان کے پیغامات کا ایک تہائی حصہ بچوں کی تعلیم و تربیت پر انہی کے آواز کے ساتھ موجود ہے، بچوں کی تعلیمی راہنمائی اور کسی ایک فن میں اختصاص کے ساتھ ساتھ دوسرے مزید ایک دو موضوعات سے دلچسپی رکھنا ان کا خاص فلسفہ تھا، وہ تعلیم کے اس نکتہ پر یقین رکھتے تھے کہ دینی اور دنیاوی تعلیم ہماری اپنی بنائی ہوئی تقسیم ہے یا یہ ہمیں انگریزوں کی دین ہے، جس سے اسلام بالکل بالاتر ہے۔ وہ تعلیم میں تقسیم کے قائل نہیں تھے ، بلکہ ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ ہر نفع بخش علم سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، اس لیے اپنے تمام نواسوں سے اس مسئلے پر بات کرتے رہتے ، جو موضوع کبھی تلخی کی صورت بھی اختیار کر جاتا تھا، مگر وہ ایک علمی اور سنجیدہ گفتگو ہوتی تھی، ان کو اپنے اس نظریہ سے کوئی نہیں ہٹا سکا، آخری دم تک وہ اسی نظریہ پر قائم ہی نہیں بلکہ اس کے داعی بھی رہے، بلکہ اپنے نظریات کو پیش کرنے میں ہمیشہ آزادئ رائے کے قائل تھے۔
آپ کے مطالعے میں کتابوں سے زیادہ اخبار و رسائل رہتے تھے۔ پابندی نہ سہی مگر گاہے بہ گاہےخود بھی اُن کامطالعہ کرتے اور اپنے بچوں و اہلِ خانہ کو بھی اس کے اہم مضامین یا سرخیوں کو پڑھواتے تھے، البتہ ملکِ ہندوستان یا پوری دنیا کے سیاسی منظر نامے پر ضرور نظر رکھتے تھے۔ اسی لیےان کی زیادہ تر گفتگو ثقافتی ، فکری اور سیاسی ہوتی تھی، روز بروز پیدا شدہ مسائل پر اپنی رائے دیتے، ایک مخصوص نظریہ رکھتے ، تجزیہ اور تبصرہ فرماتے، ساتھ ہی اپنوں کی عیاری اور غیروں کی ہوشیاری کے تذکرے نجی مجلسوں اور برملا بھی فرماتے، جو تبصرے کبھی ہماری حمیت کو چھیرتے تو کبھی غیرت کو للکارتے، جس پر سننے والا کبھی بے قابو بھی ہو جاتا تھا، مگر اپنی رائے سے بہت کم ہٹتے۔ اکثر و بیشتر اپنی رائے اور اپنے مطالعے کا خلاصہ ہوتا اسی پر مصر رہتے تھے۔ چوں کہ آپ صاحبِ رائے تھے اس لیے یہ آپ کا وصف ہی تھا کہ اپنی رائے کو قائم کرنے سے پہلے ہر پہلو پر غور و فکر کرتے پھر اپنی رائے بتاتے، میرے پاس پچاسوں ایسی بھی مثالیں ہیں کہ جب ہماری بات ان کو دلائل کی روشنی میں صحیح لگی تو انھوں نے اپنی رائے تبدیل کر کے ہماری رائے کو ترجیح دی اور اسی کو اپنایا ۔ آپ کے نزدیک کچھ ایسی شخصیات تھیں جن کی تعریف میں وہ ہمیشہ رطب اللسان رہے، جن میں ہندوستان گیر پیمانے پر مولانا ابو الکلام آزاد، علامہ اقبال ، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، مولانا ابو الاعلی مودودی اور مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہم اللہ وغیرہ سرِ فہرست تھے۔ جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ان کا ذہن تعمیری تھا، ان کی پرورش میں ہمارے قائدین وعمائدین اور علمائے دین کی تصانیف اور ان کے افکار و خیالات شامل تھے۔
ان کے ساتھ سفر و حضر میں رہنے والے ان کے نواسے فرزندِ ارجمند مولوی سید ابو الحسن علی کہتے ہیں کہ وہ انجمن حامی مسلمین اور جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے ذریعے انجام پانے والی خدمات کو بہت سراہتے، کسی بھی نئی خبر پر خوشی اور مسرت کا اظہار فرماتے۔ اسی طرح ان کے فارغین کے ذریعے انجام پانے والی کوششوں کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ۔ تعلیمی ثقافتی اور صحافتی میدانوں میں جو بھی کام کرتے ہیں ان کی پذیرائی کر تے ۔ اسی لیے ہمارے ادارے " فکر و خبر " کے متعلق بھی ہمت افزا کلمات کہہ کر ہماری ہمت بڑھاتے۔ اپنے اسفار میں ملنے جلنے والوں کے سامنے تعارف کراتے۔
میرےخسر اور میرے والدِ ماجد یعنی دونوں ہم زلفوں کی محبت بھی مثالی اور دیکھنے کے قابل تھی، ایک دوسرے کو بہت چاہتے، عمر کا ابتدائی عرصہ میں تو کچھ سا تھ رہا ہی تھا، مگر زندگی کے آخری چند سالوں میں ان دونوں کے بیچ جو باہمی الفت ومحبت اور اپنائیت اور چاہت دیکھی گئی، جس طرح سے ایک دوسرے کو مل بیٹھ کر بات چیت کرتے ، بلکہ خانگی اور عائلی مسائل کے ساتھ ساتھ ملی اور قومی سطح پر بھی باہم فکریں کرتے اور اپنی اولاد کو ایک نئے مستقبل سے آشنا کرنے کی باتیں کرتے دیکھا گیا ۔ یقینا ان کی محبت اور عزت کا اندازہ وہی شخص لگا سکتا ہے ، جس نے ان دونوں کو قریب سے دیکھا ہو، گویا ایک دوسرے کے لیے غمخوار اور ایک معاون ساتھی تھے۔ انتقال کے فورا بعد جب میں دبئ سے بھٹکل پہنچا اور اپنے والدِ ماجد دامت برکاتہم سے صبح ملاقات ہوئی، تو سلام کے جواب کے ساتھ ہی جس طرح سے والدِ ماجد دامت برکاتہم ان کی صفات بیان کرنے میں محو ہو گئے اور ان کا ذکرِ خیر کرنے اور ان کے انتقال پر میری بھی براہِ راست تعزیت کرنے لگے، اس کا تعلق دیکھنے سے ہی تھا۔
ہر انسان کے ساتھ زندگی میں خوشیوں اور راحتوں کے ہم راہ کچھ صدمے بھی لاحق ہوتے ہیں، جس سے آپ کی زندگی بھی مستثنی نہیں تھی ۔ آپ کی زندگی کا بہت بڑا صدمہ ان کے چہیتے اکلوتے بڑے بھائی مولانا فیاض محی الدین دامدا فقیہ لطیفی کا سانحۂ ارتحال تھا، انتقال کے وقت آپ متحدہ عرب امارات کے پایہ تخت شہر ابو ظبی میں مقیم تھے۔مگر آپ نے اس صدمے کامقابلہ اللہ کی رضا پر راضی رہتے ہوے بڑے صبروتحمل سے کیا۔ البتہ اس سانحۂ ارتحال کا اثر ان کی زندگی کے آخری لمحات تک دیکھا گیا۔ آپ وقفے وقفے سے اپنے اس عالمِ دین بھائی کا ذکرِ خیرکرتے رہے ، ہمیشہ ان کی خوبیوں کا تذکرہ اور ان میں موجود تعلیمی اور علمی و فکری خدا داد صلاحیتوں کو بیان کرتے رہتے ، یقینا یہ نوجوان عالمِ دین خانوادۂ دامدا فقیہ کا ایک درِ نایاب تھا، وہ اس کے چشم و چراغ اور اپنے اسلاف کی روایتوں پر قائم تھے، آپ نے دارلعلوم لطیفیہ ویلور سے ساتھویں دہائی میں فراغت پائی، دورانِ طالبِ علمی وہ ایک محنتی اور ہونہار طالب علم رہے ،ہمیشہ امتیازی نمبرات پر کامیابی آپ کا مقدر بن چکی تھی، لطیفیۃ ویلور سے سندِ عالمیت حاصل کرنے کے بعد چینائی ( مدراس ) کی معروف و مشہور دانشگاہ ’’الکلیۃ العربیۃ الجمالیۃ‘‘ میں داخلہ لیا، جہاں سے فضیلت تک کی تعلیم پائی ، اس کے بعد مدراس یونیورسٹی سے افضل العلماء اور منشی فاضل کے امتحانات میں بھی امتیازی نمبرات سے کامیابی حاصل کی ۔ اور آپ کی خدا داد صلاحیتوں کی بنا پر ان کے مادرِ علمی جمالیہ کالج میں بحیثتِ مدرس انتخاب ہوا، جہاں پر اثناء تدریس عین جوانی میں ہی آپ نے اپنی جان جانِ آفریں کی سپرد کر دی ۔ راقم الحروف نے مرحوم خسر صاحب سے حاصل شدہ معلومات کی روشنی میں ایک مضمون تریب دیا ہے، جو ابھی نشر نہیں ہو پایا۔ اللهم اغفرلهما وارحمهما ۔
مرحوم کا عقدِ نکاح شہرِ بھٹکل کی معروف ومشہور شخصیت جناب عبد القادر بادشاہ صاحب دامدا رحمہ اللہ کی چھوٹی بیٹی سے ہوا، بیوی صالحہ اور عابدہ ہیں، بچوں کی تربیت اسلامی خد و خال پر کر کے ان میں احساسِ ذمے داری پیدا کرتے ہوئے انھیں اصولِ خانہ داری سے رو شناس کرایا، اپنی بچیوں کو میکے جانے کے بعد حسنِ سلوک کرنے کا سلیقہ سکھلایا۔ ایک شوہر کی نیک بیوی بننے کا ہنر بتلایا، جس کے اثرات پورے خاندان میں محسوس کئے جا رہے ہیں۔ در اصل بچیوں کی پر مسرت زندگی اور خانہ آبادی کا راز اس میں ہے کہ مائیں اپنی بیٹیوں کی صحیح دینی نہج پر تعلیم و تربیت کا کام انجام دیں۔ ان کی تربیت میں یہ بات بھی لازم ہو کہ اسے سلیقہ مندی، گھر داری کے ساتھ ساتھ رشتوں کو نباہنا اور مسائل کو حل کرنے جیسے امور سے واقف کرایا جائے ۔ الحمد للہ میں بھی اللہ کے حضور اس کی گواہی دیتا ہوں کہ میاں بیوی نے انہی اصولوں پرعمل کر کے اپنے کو کامیاب مسقبل سے وابستہ کیا ہے۔
آپ کی دو بیٹیاں ہیں بڑی بیٹی راقم الحروف کی ازدواجی زندگی میں ہے، بفضلِ خداوندنی میں بھی بیوی کے حسنِ اختیار میں کامیاب ہوا، اچھی صفات کی حامل اور نیک و دیندار خاتون ہی اپنی زوجیت میں آئی ۔ جب کہ چھوٹی بیٹی جناب مرحوم صبغۃ اللہ صاحب کے فرزندِ ارجمند جناب محیی الدین فیصل صاحب کے عقدِ نکا ح میں آئی، موصوف فیصل صاحب ایک کامیاب تاجر ہونے کے ساتھ ساتھ دینی اور دعوتی اچھا مزاج رکھتےہیں ، صاحبِ خیر ہوتے ہوئے داعی الی الخیر بھی ہیں۔ اور دونوں بیٹیوں کے بیج آپ کے اکلوتے فرزندِ ارجمند جناب جاوید صاحب ہیں، بڑے با خلاق اور سنجیدہ مزاج رکھتے ہیں، اپنے والد کے کئی ایک اوصاف کے امین ہیں، دوسروں کے کام آنا اور ان کا آڑے وقت میں ساتھ دینا آپ کا بنیادی وصف ہے، الحمد للہ اچھے اور عمدہ اخلاق کے حامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو متعدد ماشاء اللہ پوتے پوتیوں اور نواسوں سے بھی نوازا ہے۔
صحیح مسلم اور صحیح بخاری شریف کی حدیث ہے کہ نبئ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:’’جس شخص نے اپنی دو لڑکیوں کی یا دو بہنوں کی ان کے بالغ ہونے تک پرورش کی، قیامت کے دن وہ شخص اور میں جنت میں اس طرح ہوں گے جیسے دو انگلیاں وسطی اور سبابہ، اور جس نے ان کی بہترین تربیت کی، ان پر احسان کیا اور ان کو بیاہ دیا تو وہ جنت میں جائے گا۔‘‘ ہم اللہ کی ذات سے یہی امید رکھتے ہیں کہ یہ دونوں بیٹیاں اور اکلوتے بیٹے کا شمار صالح اولاد میں ہو کر وہ اپنے والدین کے لیے ذخیرۂ آخرت بنیں گے۔ امیر ہو یا غریب، بچے سب کے نورِ نظر ہوتے ہیں، وہ دل کے ٹکرے ہیں ، لہذا والدین کے دل کی یہ تمنا ہوتی ہے کہ بیٹیاں سدا خوش و آباد رہیں۔ الحمد للہ موت سے پہلے پہلے آپ اس پر اطمنان حاصل کر گئے کہ ان شاء اللہ وہ سدا خوش رہیں گی۔
آخری ملاقات کے موقع پر جب میں خسر سے ملنے ان کے لیے ہمارے پڑوس ہی میں واقع ان کی چھوٹی بیٹی کے گھر ( دارِ ارقم ) گیا اور ان کو سلام و ووداع کر کے گھر آیا، تب بھی انھیں اطمئنان نہیں ہوا اور اپنی نقاہت و کمزوری کے باوجود میرے پیچھے پیچھے ہمارے گھر تک آئے، گاڑی کے سامنے بیٹھ گئے اور گاڑی کے نکلنے تک مجھ سے نظر سے نظر ملا کر دیکھنے لگے، گویا انھیں اس بات کا اندازہ ہو رہا ہو کہ شاید یہ ہماری ان سے آخری ملاقات ہو اور ایسا ہی ہوا ، اب تک وہ منظر میرے سامنے منقش ہے، جسے تادمِ حیات بھولا نہیں جا سکتا۔ آپ سے تعلق اس حد تک تھا کہ ہمیں چاہتے اور ہم سے ملنے والوں اور ہمیں چاہنے والوں کو بھی آپ بچاہتے تھے، گھر آنے پر ان کا اعزاز و اکرام فرماتے، غائبانہ ان کا ذکرِ خیر کرتے، جو یقینا مرحوم کی بنیادی صفات میں شامل تھی۔
انہوں نے بیماری کے آخری ایام میں بہت تکلیفیں برداشت کی ، اللہ تعالی کی رحیم و کریم کی ذات سے قوی امید ہے کہ بالخصوص آخری دنوں میں وہ جن لمحات سے گزرے ہیں وہ ان کے حق مغفرت اور رفعِ درجات کا سبب بنیں گے اور رمضان المبارک کے آخری عشرے کی پہلی طاق رات کے بعد آپ کا اس دارِ فانی سے کوچ کر جانا اور جہنم سے خلاصی و جنت کے داخلے والے عشرے میں انتقال کی اس سعادت کا ملنا ان کے صفائے قلب اور تعلق مع اللہ کی دلیل ہے۔ یہی ہمارا حسنِ ظن ہے اور یہی کاتبِ تقدیر کا فیصلہ بھی۔
۲۱/رمضان المبارک۱۴۴۳ھ مطابق ۲۳/ اپریل/۲۰۲۲ء کو اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ نماز جنازہ بعد نماز عصرتنظیم ملیہ مسجدمیں آپ کے نواسے ہمارے فرزندِ ارجمند مولوی سید احمدایاد ندوی کی اقتدا ء نے ادا کی گئی اور نوائط کالونی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی،جس میں علمائے کرا م، ہرمکتبہ فکر اور کثیر تعداد میں لوگو ں نے شرکت کی۔
یقینا آپ ایک مثالی باپ اور خسر تھے۔ آپ نےاپنی بیٹیوں ، بہو اور دامادوں کے ساتھ مثالی برتاؤ کیا۔ دعاہے کہ ان کی خوبیاں ان کی اولاد اور ہم متعلقین و رشتے داروں میں پیدا ہوں۔ راقم السطورکے خسرہونے کے ناطے ان کا حق تھاکہ آپ ؒ کی احوال زندگی کو لوگوں اور نسل نو کے سامنے لایاجائے، جو ذکرِ خیر " أذكروا محاسن موتاكم" کے تحت عند اللہ مغفرت اور رفعِ درجات کا سبب بھی بن سکے ۔ اللہ کے اس نیک بندے کی زندگی اور ان کے انمول افکار وخیالات سے ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ اپنی ذات کو محدود نہ رکھیں، بلکہ دوسروں کے لئے نافع بن کر جینا سیکھیں، ان کے دینی، ملی کاموں و نافع تجربات کو لوگوں تک پہونچایاجائے،روزانہ کچھ نہ کچھ صدقہ وخیرات کی عادت ڈالیں،جو دنیا وآخرت میں کامیابی وکامرانی کا ضامن ہے ۔اللہ سے دعا ہے کہ ان پر رحم کرے ،ان کے سیئات کو حسنات میں مبدل فرمائے۔ گناہوں کو معاف کرے، ان کے درجات کو بلند کرے ، ان کی قبر کو جنت کا باغ بنائے اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین
( پیدائش: ۔ ماہِ دسمبر / سنہ 1949 ء ۔ تاریخِ وفات: ۔ /21 /رمضان المبارک1443ھ مطابق 23/ اپریل/2022ء )
جواب دیں