رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی برزخی حیات ___
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
ہمارے عہد میں حضرت مولانا مفتی ثمین اشرف قاسمی صاحب کا شمار’’ موفق من اللہ‘‘ لوگوں میں ہوتا ہے، ان کی صلاحیت وصالحیت، زہد وورع، تقریر وتحریر، خلوص وللہیت ، تقویٰ اور طہارت کی ایک دنیا قائل ہے، ان کی انہیں صلاحیتوں کی وجہ سے حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب ؒ حضرت مولانا قمر الزماں الٰہ آبادی اور حضرت مولانا پیر ذو الفقار احمد صاحب نقشبندی مد فیوضہم سے انہیں خلافت حاصل ہے، میں نے مصلی الحتبور بردبئی میں ان کی تقریریں سنی ہیں اور بار ہا ان سے استفادہ کیا ہے، خرد نوازی کے طور پر انہوں نے اپنی بعض کتابوں پر تقریظ بھی لکھوائی ہے، محبت بانٹتے ہیں، محبت کرتے ہیں او رسراپا محبت ہیں، پہلی خلافت ان کو حکیم اختر صاحب سے ملی ہے اس لیے یہ رنگ ان پر غالب ہے ، لوگ ان کی طرف ان کی نرم دلی اور بے پناہ محبت کی وجہ سے کھینچے چلے آتے ہیں، میں نے ان کی محبت میں لوگوں کو گرفتار ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ جو گرفتار ہو گیا پھر نکل نہیں پاتا ہے، انہوں نے مسجد غریر دبئی میں زمانہ تک درس حدیث بھی دینے کا کام کیا ہے۔
ان کی کتابیں جو اہل علم کے نزدیک مقبول ومتعارف ہیں، ان میں دیدار الٰہی کا شوق، حق جل مجدہ کی باتیں (الاحادیث القدسیہ کی شرح) معارف قدسیہ، تجلیات قدسیہ، وصایا انبیاؤاولیائ، کیمیائے درویشاں، اسماء النبی صلی اللہ علیہ وسلم، علامات سعادت، عقیدہ ختم نبوت، لا حول ولا قوۃالا باللہ، احادیث عقیدہ ختم نبوت ، علامات قیامت، سچے اور جھوٹے نبی میں فرق، سچے اور جھوٹے مسیح میں فرق، امام مہدی احادیث کی روشنی میں ، ایصال ثواب کا مسنون طریقہ ، تلاوت کلام اللہ سے قبل استعاذہ کی حکمتیں خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
مفتی صاحب کی سلسلہ ٔ تحفظ ختم نبوت کی چھٹی کتاب ’’رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بر زخی حیات‘‘ اس وقت میرے سامنے ہے، اس موضوع پر یہ کوئی پہلی کتاب نہیں ہے، ساٹھ سے زائد کتابیں اس موضوع پر عربی اور اردو میں مبطوعہ شکل میں موجود ہیں،جن میں ڈاکٹر علامہ خالد محمود صاحب سابق ڈائرکٹر اسلامک اکیڈمی مانچیسٹر یوکے کی اردو تصنیف ’’مدارک الاذکیافی حیاۃ الانبیاء علیہم السلام‘‘ کو خاص اہمیت حاصل ہے، سات سو برانوے (۷۹۲) صفحات پر مشتمل یہ کتاب اکابر علمائ، دیو بند کی ظر میں انتہائی معتبر ہے۔
حضرت مفتی صاحب نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بر زخی زندگی پر روشنی ڈالی ہے، مفتی صاحب کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنی کتابوں میں موضوع کے مالہ وما علیہ اور جزئیات پر سیر حاصل بحث کرتے ہیں، بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس بحث کی اس کتاب میں ضرورت نہیں تھی، لیکن غور کی نظر اس کے فوائد کی طرف رہنمائی کرتی ہے، اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر یہ بحث نہیں کی جاتی تو موضوع تشنہ رہ جاتا، مفتی صاحب نے اس موضوع پر کم وبیش دو سو اکہتر ذیلی عنوانات کے تحت روشنی ڈالی ہے، اور مدلل گفتگو سے موضوع کو ثابت کیا ہے، حالاں کہ بقول حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم’’یہ ایک نازک اور مشکل موضوع ہے اور اس کی تشریح وتوضیح میں کسی قدر اہل سنت والجماعت کا اختلاف رہا ہے، متکلم اسلام حضرت مولانا محمد الیاس گھمن کے مطابق ’’آپ(مفتی صاحب ) نے اس اجماعی عقیدہ کو دلائل کے ساتھ بیان فرماکر اہل سنت والجماعت کے موقف کی ترجمانی فرمائی ہے‘‘۔
مفتی محمد عارف باللہ القاسمی نے لکھا ہے کہ ’’ انبیاء علہم السلام کی بر زخی حیات کے مسئلے کا حق ادا کیا گیا ہے اور دلائل وبراہین کی فراوانی کے ساتھ علمی نکتے اور سینہ بسینہ منتقل ہونے والے اسرار نے اس کتاب کی قدر وقیمت کو مزید بڑھا دیا ہے‘‘۔
واقعہ یہ ہے کہ یہ اہل سنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے اور نصوص میں اس کی نبیادیں موجود ہیں، کیوں کہ شہداء کو قران میں زندہ کہا گیا ہے اور ہمیں بتایا گیا ہے کہ تم ان کی زندگی کو نہیں سمجھ سکتے، ظاہر ہے انبیاء کرام کی برزخی حیات شہداء کی بہ نسبت اقوی واعلیٰ ہے، البتہ اس کو دنیاوی حالات پر قیاس نہیں کیا جا سکتا، حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی ؒ نے فتاویٰ محمودیہ میں اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’’برزخ کے حالات کو مشاہدہ کے حالات پر قیاس نہیں کیا جاسکتا، قیاس الغائب علی الشاہد نا جائز ہے، کم از کم دو سو جگہ اس کو امام فخر الدین رازی نے تفسیر کبیر میں لکھا ہے۔(فتاویٰ محمودیہ ۳؍ ۹۷)
اس سلسلہ میں استدلال ان احادیث سے بھی کیاجاتا ہے، جس میں مذکورہے کہ زمین پر انبیاء کے اجسام کا کھا نا حرام قرار دیا گیا ہے اور یہ کہ انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں، اور وہ نماز پڑھتے ہیں۔ ان اﷲ حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیائ- الانبیاء احیاء فی قبورھم یصلون۔ اس کے علاوہ انبیاء کی میراث تقسیم نہیں ہوتی، کیوںکہ ان کی بر زخی زندگی عام انسانوں سے الگ ہوتی ہے ، اس طرح ازواج مطہرات سے دوسرا کوئی نکاح نہیں کرسکتا، اگر عام انسانوں کی طرح ان کی برزخی زندگی ہوتی تو ترکہ بھی تقسیم ہوتا، اور ازواج مطہرات اگر نبی کے نکاح سے نکل گئی ہوتیں تو نکاح ثانی بھی جائز ہوتا، لیکن ان کو امہات المؤمنین کا درجہ دے کر نکاح ثانی کے لیے ہمیشہ ہمیش کے لیے حرام قرار دے دیا گیا، حضرت مولانا یوسف بنوری ؒ نے اسی بات کو اپنے خاص علمی انداز میں لکھا ہے:
’’عدم نکاح بالازواج المطہرات اور عدم توریث وغیرہ کی علت اصل حیات کو کیا جائے تو درست ہے بہر حال حکم شرعی کی کوئی علت ہی ہوتی ہے اور یہاں تو علت از قبیل العلل المعتبرہ کے ہوگی، نہ کہ علل مرسلہ کی قسم سے اور اس علت کی تنقیح، اصولی تنقیح، الفاظ اور تحقیق المناط سے زیادہ قطعی ہوگی۔ (تسکین الصدور ۲۵)
کتات کا آغاز تقاریظ سے ہوتا ہے، جو حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ، مولانا الیاس گھمن ، مولانا مفتی احمد خان پوری، مفتی محمد عارف باللہ قاسمی کے قلم سے ہے، مقدمہ خود مؤلف نے لکھا ہے تفصیلی لکھا ہے اور موضوع کے مختلف گوشوں کی طرف راہنمائی کی ہے، دو سو بہتر صفحات پر مشتمل یہ کتاب ادارۃ دعوۃ الحق مادھوپور، سلطان پور ڈاکخانہ ٹھاہر وایا رونی سید پور ضلع سیتامڑھی سے حاصل کی جا سکتی ہے، کتاب پر ہدیہ /قیمت درج نہیں ہے، اس لیے اگر اس نمبر پر 7999999869پر فون کر لیں تو مفت بھی حاصل ہو سکتی ہے، کتاب خوبصورت چھپی ہے، جلد خوبصورت اور کاغذ عمدہ ہے، جلی قلم ہونے کی وجہ سے کمزور بینائی والے بھی پڑھ سکتے ہیں، کتاب کی سیٹنگ کرنے والے نے فنی مہارت کا ثبوت نہیں دیا ورنہ اندر کے اوراق بھی خوبصورت دِکھتے، ہمارے دور میں جب مسلمات دین پر اعتراضات کیے جاتے ہیں اور نئی نسل اجماعی عقائد سے بھی انحراف کر رہی ہے اس کتاب کا ہر گھر میں رہنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔
جواب دیں