امرت سال میں زہرکی بارش۔۔۔؟

عارف شجر
حیدرآباد(تلنگانہ)

     یہ کسی کے تصور میں نہیں تھا کہ آزادی کے 75 ویں سال میں پی ایم مودی نے جسے امر ت سال قرار دیا تھا  وہ اس سندر اور خوبصورت نام کے پس پردہ فرقہ وارانہ زہر کی بار ش کا سال ہوگا۔ آج جس طرح سے مسلمانوں کے عبادت گاہوں درگاہوں اور قومی اثاثوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اس سے تو یہ صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ ملک کے اندر کس طرح کا زہر مسلمانوں کے خلاف پھیلایا جا رہا ہے اور انکے عقیدے کو کس طرح ریزہ ریزہ کیا جا رہا ہے۔ ایودھیا مندر مسجد کا سپریم کورٹ کے ذریعہ فہصلہ آنے کے  فوراً بعد آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے یہ اعلان کیا تھا کہ سنگھ پریوار کو دوسرے متنازعہ مندوروں کے معاملے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے وہ صرف ملک کی ترقی پر توجہ مرکوز کریں گے لیکن آج جس طرح سے ملک میں بھگوا تنظیموں کے ذریعہ مندر مسجد کا مسئلہ اٹھا کر ملک میں منافرت کی انتہا کی جا رہی ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔متھرا کاشی، تاج محل، قطب مینار، آگرا لال قلعہ، دہلی کا جامہ مسجد حتیٰ کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بھائی چارے کے سب سے بڑی مثال اور مسکن درگاہ اجمیری پر بھگوا نشانہ شامل ہو گیا ہے۔
حیرت کی بات تو یہ کہ راجستھان کے اجمیر میں واقع حضرت خواجہ غریب نواز درگاہ کو اب مہارانا پرتاپ سینا نے مندر ہونے کا دعویٰ کیا ہے جس سے اس تنظیم کے لوگوں کے ذہنی دیوالیہ پن کا کھلا ثبوت دیکھنے کو مل رہا ہے۔ حالانکہ اجمیری درگاہ کے عہدیداروں نے مہاراناپرتاپ سینا کے اس بے بنیاد دعوے کو سر سے خارج کر دیا ہے لیکن دوسری طرف فرقہ پرست تنطیموں نے  اس طرح کے بے بنیاد اور مذہبی جذبات والے مدعے اٹھا کر ملک کو نفرت کی آگ میں جھونکنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔سنگھ کا پورا قبیلہ، بشمول آر ایس ایس-بی جے پی کے کئی لیڈر، بھرپور طریقے سے مہم چلا رہے ہیں کہ گیانواپی مسجد کے نیچے مندر کے کھنڈرات ہیں۔ سپریم کورٹ میں مبینہ ہندو فریق کی جانب سے یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ چونکہ اورنگ زیب نے مندر کی زمین پر غیر قانونی قبضہ کرکے گیانواپی مسجد تعمیر کی تھی، اس لیے مسجد خود غیر قانونی ہے اور یہ ڈھانچہ مندر کی زمین پر تعمیر کیا گیا ہے اور اسے ہٹانا ضروری ہے! یہ ہے وہ منطق جس کی بنیاد پر بابری مسجد گرائی گئی تھی۔ متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد بھی ضلع عدالت کے حالیہ فیصلے کے بعد اچانک زور پکڑ گیا ہے۔ ضلعی عدالت نے عیدگاہ مسجد کو اس زمین سے ہٹانے کی عرضی کو قبول کر لیا ہے۔ یہ اس حقیقت کے باوجود کہ تنازعہ پہلے ہی 1968 میں، وشو ہندو پریشد اور مسجد کمیٹی کے درمیان ایک معاہدے کے ذریعے، حکومت کی منظوری سے طے پا گیا تھا۔ اس تصفیہ میں مندر کی تعمیر کے لیے عیدگاہ کی زمین کا ایک بڑا حصہ سری کرشنا جنم استھان سیوا سنگھ کو دیا گیا اور دونوں فریقوں نے عدالتوں میں زیر التوا تمام مقدمات کو واپس لینے کا وعدہ کیا۔ وی ایچ پی کے اس وقت کے صدر وشنوہاری ڈالمیا خود اس معاہدے میں شامل تھے
       قابل ذکر ہے کہ ضلع عدالت کے تازہ فیصلے سے قبل بھی متھرا کی نچلی عدالت میں مسجد کو ہٹانے کے لیے مذکورہ عرضی دائر کی گئی تھی، لیکن اسے عدالت نے اس بنیاد پر خارج کر دیا تھا کہ مذہبی مقامات کے قانون کے بعد 1991 کی، ایسی کوئی درخواست غور کے لیے داخل نہیں کی جا سکتی۔بابری مسجد تنازعہ کے پس منظر میں بنایا گیا مذکورہ قانون، بابری  مسجد معاملے کو چھوڑ کر، استثنائی طور پر، کسی بھی مذہبی مقام کی 1947 سے پہلے کی حیثیت میں کسی قسم کی تبدیلی کو منع کرتا ہے اور نہ صرف اس طرح کی کسی تبدیلی کے لیے، تازہ دعویٰ پر قائم رہتا ہے بلکہ اسے منسوخ بھی کرتا ہے۔ اسی بنیاد پر عدالتوں میں پہلے سے زیر التوا تمام دعوے خارج کرتا ہے۔ مجھے یہ بات کہہ لینے دیجئے کہ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ 1991 کے مذہبی مقامات کے ایکٹ کے باوجود نہ صرف سنگھ پریوار کے مختلف فریق اس قانون کی دھجیاں اڑانے کی مہم میں مصروف ہیں بلکہ مودی-یوگی کی ڈبل انجن والی حکومت اپنی خاموشی  سے فرقہ پرست قوتوں کو ہو بھی ا دے رہے ہیں۔ 1991 کے ایکٹ کے باوجود، یہاں تک کہ سپریم کورٹ کا، عدالتوں کو ایسے تنازعات پر غور کرنے سے براہ راست روکنے سے گریز کرنا بالواسطہ طور پر ملک کو بابری مسجد-رام جنم بھومی واقعہ کی خطرناک تکرار کی طرف دھکیل رہا ہے۔ ملک کے حالات کو خراب کرنے اور مذہبی منافرت پھیلانے کی سازش تو اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات میں ہی ہو گئی تھی جب انتخابی مہم  کے دوران نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ نے زہر اگلا تھا اور کہا تھا کہ اب متھرا کی باری ہے جس پر اشاروں اور کنایوں میں سی ایم یوگی ادتیہ ناتھ نے منظوری دے دی تھی۔ بی جے پی کے اتر اپردیش انتخابات جیتنے کے بعد اسے زور شور سے اٹھایا جا رہا ہے یہی نہیں 2024 کے عام انتخابات کو مد نظر رکھتے ہوئے بھی  اس طرح کے غیر ضروری  مسئلے کو اٹھایا جا رہا ہے۔ ذرا سوچئے کیاہمیں امرت دور کے نام پر نوے کے دہائی کی شروعاتی سالوں کے زہریلے تباہی  کے جانب نہیں دھکیلا جا رہا ہے، کیا نام نہاد امرت دور میں ہندوستان کو ’ہندو راج‘ بنا دینے کا راستہ ہموار نہیں کیا جا رہا ہے جسے آئین کے معمارڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے ہندوستان کے لئے سب سے بڑی تباہی قرار دیا تھا۔ آج  ایک بار پھر ملک کو فرقہ پرست تنظیموں  کے ذریعہ ملک کو  تباہی کی جانب دھکیلا جا رہا  ہے ملک کے ہر مسجد اور ہر مذہبی مقامات کو ہندو دیوی دیوتااؤں کا بتا کر اسے مسمار اور قبضہ کرنے کی سازش  چل رہی ہے ہر سیاسی لیڈر اس بہتی گنگا میں کود پڑا ہے اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگل رہا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے میں تلنگانہ کے بی جے پی صدر بنڈی سنجے کا جواب نہیں ہے۔ بنڈی سنجے نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ تلنگانہ کی ہر مساجد کی کھدائی کی جائے  شو(لاشیں) تو ہم مساجد انکے لئے چھوڑ دیں گے اورا گر شیو لنگ پائے گئے تو ہم اس پر قبضہ کر لیں گے ہم ملک میں  مسلمانوں کو  مل ہے سرکاری امداد پر بھی وک لگائیں گے اور ملک میں رام راج قائم کریں گے۔ مجھے یہ بات کہہ لینے دیجئے کہ آج جو کچھ  بھی مسلمانوں کے خلاف منافرت پھیلائی جا ری ہے اس میں پوری  طرح  بی جے پی اور آراایس  ایس رہنما شامل ہیں۔ ملک میں مذہبی منافرت روکنے کے لئے نہ تو پی  ایم مودی سامنے آ رہے ہیں اور نہ ہی آ ر ایس ایس کے  سربرراہ موہن بھاگوت ہی منھ دکھا  ہے ہیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے خلاف پوری طرح سازش رچی جا رہی۔ پی ایم مودی نے تو یہ عہد کر لیا ہے کہ ملک کے باشندوں کے ساتھ خصوصی طور سے اقلیتوں کے ساتھ کچھ بھی ہو،وہ نہ تو منھ کھولیں گے اور نہ ہی ٹو ئٹ کریں گے۔ ہاں جب انہیں اپنی من کی بات کرنی ہوگی تو وہ ریڈیو  سے ضرور بولیں گے ملک میں امن و شانتی کیسے بحال ہو ملک کا آئین کس طرح محفوظ رہے آپسی اخلاق کس طرح قائم رہے اپنے فرقہ پرست لیڈروں کے زہر افشانی بیان پر کس طرح روک لگائیں ا س پر کچھ بھی بات نہیں کریں گے بلکہ اپنی حصولیابی گنانے کے لئے ریڈیو سے من کی بات ضرور کریں گے۔ مجھے یہ بات کہہ لینے دیجئے کہ پی ایم مودی کو ملک کی سیر کرنے اور اپنی من کی بات کہنے میں ہی دلچسپی زیادہ ہے اس کے علاوہ  انکاملک کی ترقی میں کسی طرح کا اہم رول نہیں ہے۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری، مہنگائی اور کرائم پر سے دھیان ہٹانے کے لئے مندر مسجد کا معاملہ اٹھایا جا رہا ہے۔ یہی نہیں اس مدعے کو 2024 تک کے الیکشن تک کھینچنے کی تیاری ہے کیوں کہ پی ایم مودی اور انکے اتحادی تنظیموں کو اب یہ لگنے لگا ہے کہ آئندہ عام انتخاب میں پی ایم مودی کی حالات خستہ ہونے والی ہے کیوں کہ پی ایم مودی نے  اپنے صرف تین ہمنوا دوستوں کی ترقی کے سوا ملک کی ترقی میں انکا کوئی اہم رول نہیں ہے ملک کی زیادہ تر کمپنیوں کو اپنے دوستوں کے ہاتھ فروخت کر دیا گیاہے اسکا علم ملک کے لوگوں کو ہے اور انہیں سبق سکھانے کے لئے عام انتخابات کا انتظار کر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ ملک کا دھیان خصوصی مسائل سے ہٹا کر مسجد مند رکی جانب لے جایا جارہا ہے جس میں ملک کی فرقہ پرست تنظیم پوری قوت کے ساتھ لگی ہوئی ہے اور یہ بھی مجھے کہنے میں کوئی گریز نہیں کہ ملک کا چند گودی میڈیا اس مہم کو ہوا دینے میں اپنا اہم رول ادا کر رہا ہے۔اگرچہ یہ منظرنامہ جو کہ انتخابات کے پس منظر میں مودی-یوگی راج کے ہندوتوا کو نمایاں کرتی ہے، 'کاشی کی باری' کو روایتی گیانواپی مسجد-وشوناتھ مندر تنازعہ سے مختلف راستے پر لے جانے کی کوشش کرتی نظر آتی ہے، ماہرین نے پھر بھی نشاندہی کی تھی۔ انہوں نے خبردار کیا تھا کہ کاشی کوریڈور کی اس 'تعمیر' سے نہ صرف اس مہتواکانکشی مذہبی منصوبے کی راہ میں آنے والے سینکڑوں چھوٹے مندروں سمیت بے شمار پرانی تعمیرات کو منہدم کر دیا جائے گا، بلکہ مندر-مسجد تنازعہ کی شعلہ بھی تیز ہو جائے گی اور بالکل ایسا ہی ہو رہا ہے۔
 بہر حال!  اس پر آشوب  دور میں ملک کے مسلمانوں کو چاہئے کہ صبر تحمل سے کام لیں اور عدالت کے فیصلے پر اعتماد کریں جس طرح سے بابری مسجد معاملے میں عدالت کے فیصلے پر لبیک کیا تھا اور پوری دنیا میں صبر تحمل کا مظاہرہ کرکے مثال قائم کی گئی تھی۔ یہ طے ہے کہ ہمارے ہاتھ سے اب نہ کوئی مساجد جانے والی ہے اور نہ ہی درگاہوں پر قبضہ ہونے والا ہے یہ سب وقتی پریشانیاں ہیں یا یوں کہیں کہ اللہ کی یہ آزمائیش ہے اسے ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے اور اپنے بہترین مسلمان ہونے کا ثبوت دینے کا وقت ہے۔
 ختم شد

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 
 

«
»

گستاخِ رسول کا عبرتناک انجام

رشتوں کی پہچان____

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے