رسوائی کو عزت افزائی اور ناکامی کو کامیابی سمجھنے والے نادان مسلمان توجہ دیں

  ابونصر فاروق

(۱)    موجودہ دنیا کے لوگوں کو اپنے علم سائنس او ر ٹکنالوجی پر فخر و ناز اور غرور ہے۔اور ان کی جہالت یہ ہے کہ اپنے گزرے ہوئے بزرگوں اور اسلاف کو وہ ناسمجھ، نادان،ناواقف اور جاہل سمجھتے ہیں۔اُن کی پیروی کرنا فرسودگی، ذلت و رسوائی تصور کرتے ہیں اور ایسی ہر چیز سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں جس کا تعلق ماضی سے ہے۔لیکن اُن کے دورنگے پن اورناسمجھی کی انتہا یہ ہے کہ وہ اپنے باپ دادا کی بڑائی اور شان و شوکت بیان کرنے سے اپنے آپ کو نہیں روکتے۔فارسی میں کہاوت مشہور ہے”پدرم سلطان بود“مطلب یہ کہ میرا باپ بادشاہ تھا۔دادا بھی بادشاہ رہا ہوگا۔کیا یہ دونوں پرانے اور دقیانوسی نہیں ہو گئے۔اب دیکھئے کہ پیارے نبیﷺ اس دور ترقی کو جہالت کا دور کہتے ہیں۔اوپر جن لوگوں کا ذکر کیا گیا وہ اپنے اسلاف کے ساتھ نبیﷺ کے متعلق بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں۔کیا یہ لو گ مومن یا مسلم کہے جاسکتے ہیں ؟
    زیاد ؓبن ولید کہتے ہیں،رسول اللہ ﷺنے ایک خطرناک بات کا ذکر کیا کہ ایسا وقت آئے گا جب علم مٹ جائے گا۔ میں نے کہا  اے اللہ کے رسول علم کیوں کر مٹ جائے گا جب کہ ہم قرآن پڑھ رہے ہیں اور اپنی اولاد کو پڑھا رہے ہیں اور ہمارے بیٹے اپنی اولاد کو پڑھاتے رہیں گے؟ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:اے زیاد میں تو تمہیں مدینہ کا انتہائی ہوش مند آدمی سمجھتا تھا، کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ یہود و نصاریٰ تورات اور انجیل کو کس قدر پڑھتے ہیں، مگر ان کی تعلیمات پر کچھ بھی عمل نہیں کرتے۔ (ابن ماجہ)نبیﷺ کا یہ فرمان آج سو فیصد سچ اورصحیح ثابت ہو رہا ہے۔کیاآج کا تعلیم یافتہ مسلمان قرآن کا علم رکھتا ہے۔عام مسلمان کو تو چھوڑیے،یہ جو مدرسے سے نکلے ہوئے عالم فاضل ہیں کیا یہ قرآن کا وہ اصلی علم رکھتے ہیں جن کے متعلق نبی ؐنے فرمایا کہ تم میں سب سے اچھے وہ لوگ ہیں جو قرآن کا علم حاصل کریں اور دوسروں کو سکھائیں۔کیا قرآن ناظرہ پڑھنا نہیں اس کا علم سیکھنے سکھانے کا کام ہو رہا ہے ؟
(۲)    آج کا ہر مسلمان عزت کا طلب گار اور شوقین ہے، لیکن اُس کو یہ نہیں معلوم ہے کہ عزت کس کو ملتی ہے اور کس کو نہیں ملتی ہے۔قرآن میں لکھا ہے کہ عزت اور حکومت دینا اور عزت اور حکومت چھین لینا اللہ کے اختیار میں ہے۔کیا بے دین،دنیا پرست اور دولت کے لالچی آج کے مسلمان اللہ سے ملنے والی عزت کے حقدار ہیں ؟  جس کو اللہ عزت اور حکومت نہ دے کر ذلیل اور غلام بنانے کا فیصلہ کر دے، تو پھر ایسے مسلمانوں کوحکومت و عزت کہاں سے ملے گی اور ان حکومت و عزت کون دے گا۔کیا الیکشن کی چالبازیوں سے یہ حکومت اور عزت حاصل کر لیں گے ؟   نیچے کی بات پڑھئے اور سمجھئے:
    عزت اسلام سے ہے:طارق ؓکہتے ہیں،حضرت عمرؓ خلیفہ وقت کی حیثیت سے اونٹنی پر سوار ملک شام کے سرکاری دورے پر نکلے۔ راستے میں کسی مقام پر ندی پار کرنی تھی،(ندی میں پانی کم تھا)حضرت عمرؓ اونٹنی سے اترے، اپنے چمڑے کے موزے اتار کر کندھے پر رکھ لیے اور اونٹنی کی نکیل پکڑ کر پانی میں گھس پڑے۔ حضرت ابو عبیدہؓ نے کہا آپ امیر المومنین اور خلیفہ ہو کر ایسا کرتے ہیں ؟ مجھے اچھا نہیں لگتا کہ شہر کے عیسائی باشندے آپ کو اس حال میں دیکھیں (یعنی حقیر نہ سمجھیں)۔ حضرت عمرؓ نے کہا آہ اے ابو عبیدہ، تم ایسا کہتے ہو،ہم ذلیل ترین لوگ تھے، لیکن اللہ نے اسلام کی بدولت ہمیں عزت و سربلندی بخشی، ہم جب بھی اسلام کے سوا کسی اور چیز کے ذریعہ عزت و سربلندی چاہیں گے، اللہ ہمیں ذلیل کر دے گا۔(یعنی عزت وسربلندی ہم سے چھین لے گااور غلامی ومحکومی ہمارا مقدر بن جائے گی)(المنذری بحوالہ مستدرک حاکم)
    غور فرمائیے کیا آج کا سرمایہ دار مسلم طبقہ سچا مسلمان بننے کو فخر و عزت کا معیار مانتا ہے یہ یہود ی،عیسائی اور صنم پرستوں کی نقالی میں فخر و عزت کا تصور رکھتا ہے ؟   کیا آج کے نقلی مسلمان عزت و عظمت کے حقدا ر بن سکتے ہیں ؟  عام آدمی کی کیا بات کریں نامور علما بھی بے عزتی اوررسوائی کی زندگی گزار رہے ہیں۔حضرت عبد اللہؓ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے تو اس کا شمار انہیں میں ہوتا ہے۔ (ابوداؤد) جو لوگ عیسائی، یہودی اور دوسرے مذہب والوں کی نقل کرتے ہوئے زندگی گزار رہے ہیں، اس حدیث کے مطابق اُن کا حشر کیا ہوگا ؟
(۳)    دنیا کی چاٹ لگ جائے گی:عمر وبن عوفؓ سے روایت ہے:رسول اللہ ﷺنے فرمایا:مجھے تم پر فقر و ناداری کا زیادہ اندیشہ نہیں ہے، بلکہ مجھے اندیشہ اس بات کا ہے کہ تم پر دنیاوی مال و متاع کے دروازے کھول دیے جائیں جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پر کھول دیے گئے، پھر تمہیں دنیا کی اسی طرح چاٹ لگ جائے جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں کو لگی تھی(نتیجہ یہ نکلے گا)کہ دنیا تمہیں اس طرح تہس نہس کر کے رکھ دے جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں کو اس نے برباد کیا۔(بخاری و مسلم)کیا آج مسلمانوں کا یہی حال نہیں ہے ؟

 

     نبی ﷺ فرما رہے ہیں کہ اہل ایمان کے لئے فقر و ناداری اصل مسئلہ نہیں ہے،بلکہ اُ ن کا مالدار اور دولت کا پرستار ہوجانا خطرے کی بات ہے۔کیونکہ دولت اپنے ساتھ انسان کی زندگی کی تباہی و بربادی لاتی ہے۔ اور دنیا کے ساتھ آخرت بھی تباہ و برباد کر دیتی ہے۔کیا آج کا مسلمان اپنے پیارے نبیﷺ کی اس بات کو جانتا اور مانتا ہے ؟  وہ تو اس بات کی شدید مخالفت کرتا ہے اور ہر آدمی دوسرے سے زیادہ دولت مند اور مالدار بن جانا چاہتا ہے۔یہی بات اللہ تعالیٰ نے سورہ الماعون میں بھی کہی ہے جس کی تشریح نبیﷺ کی یہ حدیث ہے۔اس بات کو مسلسل کئی حدیثوں میں بیان کیا گیا ہے:
(۴)    دنیا سازی:    حضرت جابرؓ روایت کرتے ہیں رسول اللہﷺنے فرمایا:میں اپنی امت کے بارے میں دو چیزوں کا بہت زیادہ اندیشہ کرتا ہوں، ایک دنیا و اسباب دنیا کی محبت، دوسرے یہ دنیا سازی کے لمبے چوڑے منصوبے بنانے لگے گی۔تو حب دنیا کے نتیجے میں یہ حق سے دور جا پڑے گی اور دنیا سازی اسے آخرت سے غافل کر دے گی۔سنو دنیا تیزی سے جا رہی ہے اور آخرت تیزی سے آ رہی ہے اور دونوں کے ماننے والے اس سے محبت کرتے ہیں، ہو سکے تو تم دنیا کے پرستار نہ بنو، تم اس وقت عمل کی دنیا میں ہو اور یوم حساب نہیں آیا ہے،کل تم آخرت میں ہوگے جہاں حساب ہوگا اور عمل کا کوئی موقع نہیں ہوگا۔ (مشکوٰۃ)
(۵)    دنیا کی خوش حالی اور تنگ دستی:رسول اللہﷺنے فرمایا:دنیا کے سب سے خوش حال جہنم کے مستحق آدمی کو لایا جائے گااور جہنم میں ڈال دیاجائے گا،جب آگ اس کے جسم پر اپنا پورا اثر دکھائے گی تب اس سے پوچھا جائے گا اے آدم کے بیٹے کبھی تو نے اچھی حالت دیکھی ہے ؟  تجھ پر کچھ عیش و آرام کا دور گزرا ہے ؟  وہ کہے گا  نہیں تیری قسم اے میرے رب کبھی نہیں! پھر دنیا میں انتہائی تنگی کی حالت میں زندگی گزارنے والے جنت کے مستحق آدمی کو لایا جائے گااور جنت میں رکھا  جائے گا۔ جب اس پر جنت کی نعمتوں کا رنگ خوب چڑھ جائے گاتب اس سے پوچھا جائے گا اے آدم کے بیٹے کبھی تو نے دنیا میں تنگی دیکھی ہے؟ کبھی تجھ پر تکلیفوں کا دور آیا ہے؟وہ کہے گا نہیں میرے رب میں کبھی تنگ دستی اور محتاجی میں گرفتار نہیں ہوامجھ پر تکلیفوں کا کبھی کوئی دور نہیں آیا۔(مسلم)
(۶)    حضرت کعبؓ بن عیاض روایت کرتے ہیں انہوں نے رسول اللہ ﷺ  کو فرماتے ہوئے سنا: ہر امت کے لئے ایک آزمائش ہوتی ہے اور میری امت کی آزمائش کے لئے مال و دولت ہے۔ (ترمذی) آدمی آزمائش سے بچنا چاہتا ہے یا آزمائش میں پڑنا چاہتا ہے ؟
(۷)    حضرت سہل ؓبن سعد ؓ روایت کرتے ہیں رسول اللہﷺ  نے فرمایا:اگر دنیا کی وقعت اللہ کے نزدیک مچھرکے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ اس میں سے کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہ پلاتا۔(احمد،ترمذی،ابن ماجہ) 
(۸)    رسول اللہﷺ نے فرمایا:دنیا سرسبز و شاداب اور لذیذ ہے اور اللہ نے تم کو اس میں تم کو خلافت دی ہے تا کہ وہ دیکھے کہ تم یہاں کیسے کام کرتے ہو ؟  (مسلم) 
(۹)    حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ اگر اہل علم اپنے علم کی حفاظت کرتے ہوئے اس کو صرف اہل لوگوں کوسکھائیں تو اپنے زمانے کے سردار بن جائیں گے۔ لیکن علم اگر دنیا داروں کوسکھایا تا کہ دنیا حاصل کر لیں تو انہیں ذلت ہوگی۔آج علماء دولت مندوں کی خوشامد میں لگے ہیں۔
(۰۱)    حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓکہتے ہیں، میں نے رسول اللہ ﷺسے سنا ہے کہ جس نے صرف آخرت کو اپنامقصود بنایاتو دنیا کے مقاصد کے لئے اللہ تعالیٰ اس کو کافی ہے۔اور جس کے مقاصد دنیا کی طرح پراگندہ ہو گئے تواللہ تعالیٰ کو پروا نہیں کہ وہ کس جنگل میں مرتا ہے۔(بیہقی)کیا آج کا مسلمان اپنی دنیا خود بنانے کی جگہ اللہ کے حوالے کرنے کو تیار ہے؟
(۱۱)    ذخیرہ اندوزی:حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:جس نے غلہ روکا وہ خطاکار ہے۔(مسلم)
(۲۱)    ذلت و محکومی مسلط ہو جائے گی:حضرت ابن عمرؓ روایت کرتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم عیِنَہ کے ساتھ کاروبار کرنے لگو گے، جب تم بیل کی دم تھام لوگے اور کھیتی باڑی میں مگن ہو جاؤ گے اور جہاد کو ترک کر دو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر ذلت اور مسکینی مسلط کر دے گا جو تم سے کبھی نہیں ہٹے گی جب تک تم دین کی طرف نہیں پلٹو گے۔(ابوداؤد)  عیِنَہ کہتے ہیں طویل مدت کے لئے سامان ادھار دے کر زیادہ قیمت وصول کرنا۔
(۳۱)    حضرت معاذ بن جبلؓ روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺمجھے یمن کا گورنر بنا کر بھیج رہے تھے تو اس موقع پر فرمایا:اے معاذ! اپنے کو عیش و عشرت میں پڑنے سے بچاناکیونکہ خدا کے بندے عیش کوش نہیں ہوتے۔(مشکوٰۃ)آج کا مسلمان نبی ؐ کی یہ بات کہنے والوں کو بیوقوف سمجھتا ہے۔یعنی نبی ﷺ کو بیوقوف کہہ رہا ہے۔ اس کی شیطانی جرأت کو دیکھئے۔
(۴۱)    حضرت ابو ہریرہ ؓ اس بات کورسول اللہ ﷺ  تک پہنچاتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا: جو کوئی مر جاتا ہے تو فرشتے کہتے ہیں کہ اس نے آگے کیا بھیجا؟ اور آدم کے بیٹے کہتے ہیں کہ اس نے پیچھے کیا چھوڑا۔ (بیہقی)یعنی اپنا سب کچھ دنیا میں چھوڑ کر چلا گیانادان اپنے ساتھ کچھ نہیں لے گیا۔
(۵۱)    معقل بن یسار ؓ نے رسول اللہﷺکو یہ ارشاد فرماتے سنا:جو شخص مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کا ذمہ دار ہو اور وہ ان کے ساتھ خیانت کرے تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کر دے گا۔(بخاری/مسلم) امیر اور امام کی ذمہ داری ہے کہ عدل و انصاف کے ساتھ مسلم عوام کے درمیان نظم قائم رکھے، غیر جانبدار بن کر معاملات کا فیصلہ کرے اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرے۔ جو ایسا نہیں کرے گا وہ جہنم میں جائے گا۔ کیا آج جنت میں جانے والے ایسے امیر اور امام دکھائی دیتے ہیں۔
(۶۱)    بستی والوں پر عذاب:حضرت جابر ؓ روایت کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے جبرئیل ؑ کو وحی کی کہ فلاں بستی کو اس کے باشندوں سمیت الٹ دو۔انہوں نے عرض کیا اے رب! اس میں تو تیرا فلاں بندہ بھی ہے جس نے کبھی تیری نافرمانی نہیں کی۔فرمایا اس کے سمیت ان پر بستی کو الٹ دو کیوں کہ ایک لمحہ کیلئے بھی اس کا چہرہ(برائی پر) غمزدہ نہیں ہوا۔(بیہقی)مسلم سماج میں برائیاں پھیل رہی ہوں اور دین پسند کہے جانے والے لوگوں کو اس کی روک تھام کی کوئی فکر نہ ہو۔ وہ صرف اپنی نمازوں،تسبیحوں اور نبیﷺ پر سلام پڑھنے میں مست ہوں تو ایسے لوگوں سمیت مسلم آبادی کا کیا حال ہوگا، یہ حدیث بتاتی ہے۔کوئی مسلمان سدھرنا اور اپنی اصلاح کرنا نہیں چاہتا ہے اور اس کی دوا اور دعا نہیں کرتا۔ دوسروں سے دعا کی بھیک مانگتا رہتا ہے
(۷۱)    ناتوانوں کا مقام:مصعب بن سعدؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہاسعدؓ نے خیال کیا کہ اسے اپنے سے کمتر لوگوں پر برتری حاصل ہے(اس بات پر) آں حضور   ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں ضعیفوں اور کمزوروں کی وجہ سے ہی خدا کی طرف سے مدد اور روزی میسر ہوتی ہے۔(بخاری)
    ایک خاص گزارش:خاکسار دین کے میدان میں صرف تقریر اور تحریر کے ذریعہ ہی جہاد نہیں کر رہا ہے بلکہ عملی طور پر محتاج اور مجبور بندگان خدا کی امداد و اعانت کا کام بھی انجام دے رہا ہے۔ایک نیک خاتون اور اُن کے مرحوم نیک شوہر کی خو اہش پر2001ء میں ایک”عوامی بیت المال“ قائم ہوا جس کی ابتدا پانچ ہزار روپے کی قلیل رقم سے ہوئی تھی۔بیت المال کی آمدنی بفضل رب بڑھتی گئی اور اس سے فیضیاب ہونے والوں کی تعداد بھی بڑھتی گئی۔ اللہ نے ایسا فضل فرمایاکہ2021 ء سے 2022ء تک کے لاک ڈاؤن کے درمیان دس لاکھ روپے معذور و محتاج مستحقین تک پہنچائے گئے۔اس بیت المال کے کام کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ وقتی طور پرہر طرح کے محتاج و مجبور کی مدد کر دی جاتی ہے۔لیکن جو خاندان یا افراد مستقل مدد کے حقدارہوتے ہیں اُن کے دین پسند، پابند شریعت، نمازی اورنیک انسان ہونے کی مکمل تحقیق کرنے کے بعد ماہانہ امداد کا انتظام کیاجاتا ہے۔اُن سے یہ بھی کہاجاتا ہے کہ جو نیک بندے آپ کے گھر کے چولہے کو روشن کرنے میں لگے ہیں اُن کی دنیا اور آخرت کی فلاح و نجات کے لئے اپنی پانچ وقت کی نمازوں میں خصوصی دعائیں کیا کیجئے۔اس بیت المال کی بنیادنبی ﷺ کا یہ فرمان ہے ”حضرت ابو ہریرہؓ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:  محتاج اور نادار لوگوں کے لئے دوڑ دھوپ کرنے والا، اُس آدمی کی طرح ہے جو اللہ کی راہ(جہاد) میں سرگرمی دکھا رہا ہے۔(راوی کا بیان ہے)میرا خیال ہے کہ آپ نے فرمایا:ایسا آدمی اُس تہجد گزار کی طرح ہے جو نوافل کی ادائیگی سے تھکتا نہیں ہے، یا اُس روزہ دار کی طرح ہے جو روزے رکھنا نہیں چھوڑتا۔(بخاری و مسلم)غور فرمائییکیا محتاج و مجبور کی مدد کرنے کا مقابلہ بے روح نفل نماز،دکھاوے کا عمرہ،تسبیح و وظیفہ کر سکتا ہے  ؟  اور وہ فرمان رسولﷺ جس کا منظوم ترجمہ اس طرح ہے:خدا رحم کرتا نہیں اُس پہ ہرگز-نہیں رحم کرتا جو بندوں پہ انساں۔ماہ رمضان کے قدموں کی آہٹ سنائی دے رہی ہے۔آپ اگر اپنی زکوٰۃ و صدقات اور عطیات صحیح اور حقدار لوگوں تک پہنچانا چاہتے ہیں تو آگے بڑھئے اور ہمارا تعاون کیجئے۔

 

«
»

رحمت،مغفرت اورآگ سے نجات کا مہینہ رمضان

قرآن میں ذوالقرنین کی داستان……کیا کہتی ہے ؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے