نفرتوں سے بھراراشٹریہ نہیں!محبتوں میں ڈوباممتازجہاں بنائیے!

ہندوستان میں مسلمان کا تاریخی جائزہ اورانکے مزاج وامتزاج کامطالبہ

    از : ڈاکٹر آصف لئیق ندوی
ہندوستانی مسلمان اور انکے اثرات: ایک تاریخی جائزہ:یہ ملک جس میں ہم اور آپ صدیوں سے رہتے چلے آرہے ہیں،ساتویں صدی عیسوی میں مسلمانوں کی آمد سے قبل یوروپ کیطرح یہ ملک بھی  پوری تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا، یہاں بھی روایات وخرافات کا بسیرا تھا، اوہام پرستی کامرکز ومسکن بنا ہوا تھا،اسوقت بھی سرکاری سستے مفادات کی خاطر توریت اور انجیل  کیطرح چاروں ویدوں میں بھی انسانوں نے  اپنے مفادات کی خاطر تحریف کردی تھی، اسکو صرف برہمن پنڈت ہی یاد رکھنے کے مجاز تھے، باقی عام انسانوں کو  اسکے پاس پھٹکنے کی بھی اجازت نہیں تھی، جیسا کہ یوروپ کا بھی یہی طرز عمل تھا،  عصر جاہلیت کیطرح پوری دنیا صحیح علم وفکر سے  محروم تھی، انسانیت حق کی متلاشی اورپیاسی بنی ہوئی تھی ،عورتوں کے ساتھ ہرجگہ نارواسلوک ہوتاتھا،سماجی عدل وانصاف کا توازن بالکل بگڑچکا تھا،عام انسانوں کیساتھ ظلم وستم اور حق تلفی و ناانصافی کا برتاؤ کوئی معیوب عمل نہیں بلکہ ایک محمود کام تھا،جیسا کہ ابھی مظلوموں کیساتھ برابرتاؤ اور ظالموں کی پشت پناہی سے پتہ چلتا ہے،انسدادی اقدامات اور ظلم وستم کی روک تھام کی کوئی مؤثر کوشش نہیں تھی، اسی طرح حکمرانی  کرنے کا حق صرف برہمنوں کے لئے مخصوص تھا،چونکہ منوشاشتر کی یہی تعلیم تھی،جن کی بلا جھجھک پیروی کی جاتی تھی، آج بھی انہی فکروں کےاثرات ملک کی سیاست اوراسکے طول وعرض میں روزبروزرونما  ہوتے نظر آرہے ہیں، غرض کہ پوری انسانیت  دردرکی ٹھوکریں کھارہی تھی، خدانےمکہ عرب دیش کیساتھ ساتھ اس ملک پر بھی اپناخاص رحم وکرم کیا اورعظیم انعام واحسان سے نوازا کہ بھٹکتی انسانیت کو یہاں بھی رہنمائی حاصل ہوجائے اس کے لئے اپنے خاص بندوں کو یہاں بھیجا،جن کی آمد کیساتھ ساتھ اسلام کا لازوال پیغام اور عدل وانصاف سے لبریز دین ومذہب بھی آیا، مخلوق کو حقیقی خالق ومالک سے جوڑنے کا نسخہ کیمیا بڑا اثر انداز ہوا، رفتہ رفتہ اسکی شعاعوں اور انسانی پیغام نے برادران وطن کونہ صرف مسحوروگرویدہ بنایا بلکہ وہ خودبخود  اسلام کے عالمگیر انقلاب کاحصہ بن کر ابھرے ، انکےاخلاق وکردارنے ملک میں گہرے نقوش واثرات بھی مرتب کئے،بلکہ ملک کی تہذیبی وتمدنی،تجارتی وثقافتی ،تخلیقی وتعمیری، تجدیدی وتحریکی، تصنیفی وتالیفی، صنعتی وزراعتی،رفاہی وفلاحی، علمی وادبی، اخلاقی واصلاحی،دعوتی وفکری، اجتماعی وانسانی اورحریت وآزادی کے ہر میدان میں انہی مسلمانوں ،مسلم حکمرانوں، علماوصلحا اورہمارے اسلاف واجداد نے متحدہ طورپر وہ نمایاں کارنامہ انجام دیا کہ جن سے ملک نہ صرف  معاشی واقتصادی  ترقی کی بلندیوں پر گامز ن ہوگیا بلکہ ہندومسلم سب بھائی بھائی بن کرسیروشکر کیساتھ زندگی بسر کرنے لگے ،اسلامی تہذیب وتمدن نے  ملک کو بلندیوں کے روشن باب سے روشناس کرایا،جس سےپہلے ایسا دوروسماں یہاں کبھی دیکھا نہیں گیا!
ہمارے اس ملک پرساتویں صدی عیسوی کے اوائل سے اب تک مسلمانوں کا سایہ چھایا رہا اوران کےہی عظیم احسانات وخدمات کا نتیجہ ہے کہ جنکی بے شمار قربانیوں اور کارناموں کےذریعے یہ ملک پوری دنیا میں مشہور ومعروف ہوگیا،علما وشعرا کی آماجگاہ بن گیا، مدارس ومکاتب اور مراکز ومساجد کا سلسلہ قائم ہوا،ملک کا چپہ چپہ ان کے عادلانہ اور منصفانہ سیاست و قیادت کا شاہدہے،بلکہ اس میں پھیلے ہوئے آثاروشواہدانکی بے مثال خدمات، بلند پایہ اغراض  ومقاصداور بے پایاں محبت وعقیدت کی نشاندہی  کرتے ہیں اورموجودہ مسلمان اسی قومی جمہوری اقدار واتحاد کی ترجمانی کرتے ہیں،جسکا اقرار واعتراف ملک کے ناموردانشوران،انصاف پسند لیڈران اورمورخین عظام کو بھی ہے ، تاریخ کی کتابوں سے اس حقیقت کا برملا اظہارہوتاہے  کہ مسلمانوں نے اپنے فائدے سے زیادہ اس ملک کو فائدہ پہونچایا، اسلئے ہمارابھی فریضہ بنتا ہے کہ ہم بھی اس بات کی گواہی دیں اور ہرگزاحسان فراموشی کارویہ نہ اپنائیں کیونکہ دستیاب نعمتوں کے زوال وبربادی کا سبب ہے ،ویسے بھی یہ ملک اسی احسان فراموشی اورگندی سازشوں  کیوجہ سے معاشی و اخلاقی پستی کا شکاربنا ہوا ہے، اب مزید لاپرواہی وناقدری  اورمسلمانوں سےانگریزوں جیسا رویہ ہماری آسمانی تباہی و بربادی کا سبب  نہ بن جائے، کورونا کی وبا اور لاک ڈاؤن کے اثرات نے پہلے سے ہی ہماری کمر توڑ کر رکھ دی ہے،اب مزید کیوں کسی قہروبلا کا انتظار کیاجائے؟ اسلئے ہماری انسانیت اور ہمدردی کا تقاضہ ہےکہ ہم ملک کومزید ڈوبنے سے بچائیں،اخلاقی انارکی اور طبقاتی کشمکش جیسے نظریات کو ملک  میں پھلنے پھولنے سےروکیں،ملک کی پرامن فضا کو مسموم ہونے سے بچائیں، سب سے پہلے تو ہم اپنے آپ کو ان افکار ونظریات  کا ہرگز شکار نہ بنائیں،بلکہ منصفانہ مزاج ، انسانی ہمدردی  اور اخلاقی اقدار سے لیس ہوجائیں ، تاریخ کا صحیح صحیح اور بغور مطالعہ کریں۔
افسوس کے  حالیہ عرصے میں بعض شرپسند عناصر ، تخریبی افکار کی حامل تنظیموں  اورشدت پسند افراد نے ملک کی شبیہ بگاڑنے کی ہرممکن کوشش کی ہے اور ہم مسلمانوں کی بڑی کوتاہی اورغفلت یہ رہی  کہ ہم نے ان گندی نالیوں اور مریض ذہنوں کو مزیدگندہ اوربیمار ہوتے چھوڑدیا اوراسکو صاف وشفاف کرنے کی حتی الامکان کوششیں نہ کیں اورنہ ہی اپنی زندگی اور اعمال وکردارکو سیرت رسول کے مطابق ڈھالا تاکہ  اسکےذریعہ بآسانی اسکا ازالہ ہوتااور ہماری سیرتوں کو دیکھ کر برادران وطن کے شبہات خود بخود  دورہوتے۔ہماری اس کوتاہی کے نتیجے میں اب ہمارا کام دوگنا  ہوگیا ہے اور ہماری ذمہ داریاں مزید دوچند ہوگئی ہیں! اب ہمارا چپ بیٹھنا اور مزید غفلت میں پڑے رہنا قوم وملک کے لئے بہت خطرناک  بالخصوص اسلام اورمسلمانوں کامستقبل دشوار کن ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ ملک کی تازہ صورتحال بہت افسوسناک ہے جوقوم وملک کو آگے بڑھانے کے بجائے انہی  تصورات وآئیڈیالوجی کا حامل بناکرپیچھے کیا جارہا ہے، جس سے ہمارے عظیم انسانی اور اسلامی اقدارکی توہین بھی ہوتی ہے ، جس میں انسانیت کی عزت نہیں بلکہ اسکی ذلت ورسوائی کاسامان ہے،مخصوص طبقہ کی اجارہ داری کاخطہ ہے،اسی لئے اسکی ترویج بڑے پیمانے پرملک میں کی جارہی ہے، جس میں  ایک طرف گندے سیاسی مفادات کی خاطرملک اوراسکے قومی جمہوری اتحادکابھاری نقصان بھی ہے جوبرسہا برس سے ہمارے درمیان قائم ودائم ہے،اسی کیساتھ ہندومسلم ایکتا ،محبت وعقیدت اور آپسی احترام وسمان کے جذبات و احساسات کابھی اسمیں فقدان ہے جوصدیوں سے مسلم بادشاہوں نے بڑی حکمت عملی کیساتھ قائم کیا تھا ، تو دوسری طرف انہی گھٹیااغراض ومقاصد کے حصول کیلئے برادران وطن  کواسلام ،مسلمان بالخصوص  ملک کے مدفون مسلم بادشاہوں کی قبریں کھود کر انکے خلاف گڑھی ہوئی باتیں پھیلا پھیلا کرمسلمانوں سے بدظن کروانا شامل ہے، انہی ناپاک کوششوں اورغلط فہمیوں کے نتیجے میں جنکے اثرات ورجحانات  روزبروزملک پرچھاتے جارہے ہیں۔
جوکبھی نجیب واخلاق!تو کبھی جنیدوپہلوخان کے قتل کی شکل میں ظاہرہورہے ہیں،کبھی  ملک کے نامورسیکولرلیڈر اور بے باک قائدبیرسٹر اسد الدین اویسی کے اوپر گولیوں کی برسات کی شکل میں دکھائی دیتے ہیں توکبھی مختلف فسادات وواقعات کے روپ  میں رونما ہورہے ہیں، بہت افسوس کیساتھ اس حقیقت کااظہار کرناپڑ رہا ہے کہ جو اسد  اویسی ۔آل انڈیامجلس اتحادالمسلمین کے پلیٹ فارم سے  نہ صرف مسلمانوں کی مظلومیت اورانکے ساتھ مساوات کا حکومت سے مطالبہ  کرتے ہیں بلکہ وہ تمام طبقوں بالخصوص ہندومسلم ، سکھ عیسائی کے درمیان عدل وانصاف اورسماجی برابری کی پرزور تائیدووکالت کرتے ہیں،وہ نہ تو اقتدارکے بھوکے ہیں اور نہ دولت کے حریص !بلکہ وہ ملک میں بہترین قیادت کی بھرپور ترجمانی کرتے ہیں،جس میں مظلوموں کے لئے انصاف ہے،اسی طرح وہ نوجوانوں میں ہمت  وغیرت،شجاعت و بہادری اورسیادت وقیادت جیسے اوصاف پیداکرواناچاہتے ہیں اور ایسے ہی قائدین کی قوم و ملک کو شدید ضرورت بھی ہے مگر ایسے بے باک وبیدار مغز  لیڈران ودنشوارن،انصاف پرورمسلم بادشاہ اوراسلامی آثار وقرائن کو ملک سے مٹاکررکھ دینے کی کھلی سازشیں ہورہی ہیں، طویل عرصے سے اقلیتوں مظلوموں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کی غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں، مسلمانوں کی عظیم قربانیوں اور کارناموں کو فراموش کرکے  انکے لئے وسعت کے باوجود یہاں زمینیں تنگ کی جارہی ہیں، انکی مسجدیں توڑی جارہی ہیں، انکی آبادیوں، تجارتوں اورآوازوں کوختم کیا جارہا ہے، انکے خلاف موب لنچنگ کے واقعات پیش آرہے ہیں، پہلوخان کے قاتلوں کو کلین چٹ دی جارہی ہے، کرکٹ کی جیت پر جشن کے معاملے میں مسلم نوجوانوں پر سخت ترین دفعات عائد کئے جارہے، مدارس ومراکز پر بے جا حملے ہورہے ہیں، انکی تعلیمی وسماجی پسماندگی کو دور کرنے کے بجائے مزید مسائل و مشاکل میں الجھا کر حق سے منہ موڑا جارہا ہے،جس میں ہندتوامشن، شدت پسند تنظیمیں، فرقہ پرست پارٹیاں سمیت سیکولر پارٹیاں بھی سرجوڑ کر شامل ہیں، حیرت ہے اس غیور قوم اور احباب ورفقا کی سوچ وکر پر جو اتنی موٹی بات بھی نہیں سمجھ پارہے ہیں کہ کون ہمارا مخلص اور بدخواہ ہے اور جو شخص ہمارے لئے اپنی جان کو ہتھیلی میں لے کر عدل وانصاف کی حکومت وقت  سے گہار لگارہا ہے، ہم انکو تعاون فراہم کرنے کے بجائے انکے سلسلے میں بدگمانیاں کا شکارہورہے ہیں؟انکو بی جے پی کا ایجنٹ یاووٹ کٹوا  شمار کررہے ہیں؟حالانکہ مولاناعلی میاں رح نے مسلمانوں کواس ملک میں رہنے کے سلسلے میں مفصل رہنمائی کی ہے،سیاست کے میدان میں مسلمانوں کو بھی اپنا مقام بنانے کا واضح اشارہ کیا ہے ورنہ اس  ملک کاہندتوا نظریے کے مطابق اسپین بننا طے ہو جائے گا،کاروان زندگی میں مولانا کا مقولہ ہے کہ اگر قوم کو پنچ وقتہ نمازی نہیں بلکہ سو فیصد تہجد گزار بنا دیا جائے لیکن  اس کے سیاسی شعور کو بیدار نہ کیا جائے اور ملک کے احوال سے ان کو واقف نہ کیا جائے تو ممکن ہے اس ملک میں آئندہ تہجد تو دور پانچ وقت کی نمازوں پر بھی پابندی عائد ہوجائے۔اسی لئے اسداویسی کومولانا سید سلمان حسینی ندوی اورمولانا سجاد نعمانی ندوی کا مکمل اعتمادوبھروسہ حاصل ہے، دونوں ممتاز عالم دین اوربلند پایہ مفکر نے اویسی کے  کردارکو بالکل صاف ستھرا کردار بتلایا ہے،بلکہ اسے انسانیت کاہمدرد وخیرخواہ کہا ہے۔افسوس کی بات نہیں تو اور کیا ہے کہ  پھر بھی ہمارا دماغ اپنے ہی بیدار مغز اورمخلص لیڈر کے سلسلے میں بدظنی کا شکار بنا ہوا ہے۔ اویسی اسوقت نہ صرف ایک بڑے سیاستداں ہیں بلکہ مولاناسلمان صاحب کے بقول اویسی ایک بے لوث سماجی وسیاسی کارکن بلکہ ایک مؤمن اورمرد مجاہد بھی ہیں، جوصرف مظلوموں، بے سہاروں، بے زبانوں کی زبان بولتے ہیں، دماغی مریض عناصر کو ایسے لوگوں سے  چڑھ تومعقول لگتا  ہے ، مگر مسلمانوں کا اپنے ہی مخلص لیڈر کی آواز اور پکارپر لبیک نہ کہنا چہ معنی دارد؟۔۔ حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں۔

 کیونکہ اب تو اس ملک میں سیکولر پارٹیوں کے رویوں اور طرزعمل سے بھی اقلیتی طبقوں بالخصوص مسلمانوں کا اعتماد اٹھتا جارہا ہے اور وہ ان پارٹیوں سے بھی ہم  مایوس ومغموم ہوتے جارہے ہیں،جو مسلمانوں کواب تک ووٹ بینک کے طور پر استعمال تو کرتےہیں، مگرضرورت کے وقت  انکے کیساتھ ہمدردی ومساوات کا معاملہ روا رکھنے کے بجائے انکاسیاسی واخلاقی،اجتماعی وانفرادی ،علمی وادبی، سماجی وفلاحی استحصال کرتےہیں، آج ملک میں مسلمانوں کی جودرگت اور خستہ حالی ہے ، اسمیں نام نہاد سیکولر پارٹیوں کی منافقت اور دھوکہ دہی کا بڑادخل ہے، انکا مشکوک چہرہ اورپوشیدہ کردار اب کھل کرہمارے سامنے ظاہر ہوتاجارہا ہے،آخروہ ہمارے ساتھ ظلم وزیادتی پر خاموش کیوں رہتے ہیں، کرناٹک میں حجاب پر پابندی کیلئے لڑکیاں سڑکوں پر تھیں اور سیکولر پارٹیاں چپی سادھے ہوئی تھیں،جگہ جگہ عریانیت اور فحاشی کا ملک میں کھلااڈہ بنا ہواہے مگر اس پر امتناع نہیں ،شریعت کے فیصلے ،حجاب،طلاق، مدارس،علما اور اسپیکر سے اذان پر فاشسٹ پارٹیوں کو کیوں تکلیف ہوتی ہے۔بالآخر ہائی کورٹ کا فیصلہ مسلم خواتین اور قرآن کے مطابق آیا، فاضل جج نے یہاں تک کہا کہ اسلام کے مطابق حجاب پہننا ایک مذہبی عمل ہے قرآن کے خلاف فیصلہ سنا نا ممکن نہیں۔کیونکہ انسانیت کیساتھ ہمدردی کیلئے انکابنیادی ومذہبی مزاج معتدل ہونا ضروری ہے ، اسی طرح اخلاقی و انسانی تعلیم وتربیت کابصیرانہ پہلو بھی بہت لازمی شیٔ  ہیں، جیسے کہ  ظاہری اجزا وعناصر سے مل کر ایک انسان کاظہور ہوتا ہے، بالکل  اسی طرح انکے اندرونی جذبات واحساسات کے بہتری کیلئے ضروری ہے کہ انکانشوونما انسانی اقدار پر ہو، جبھی ملک میں ٹیپوسلطان ، بہادر شاہ ظفر،مولوی احمد اللہ شاہ، مولانامحمود حسن ،مولانا ابوالکلام آذاد،مولانا فضل حق خیرابادی،گاندھی جی، پنڈت جواہر لال نہرو،شبھاس چندر بوس  اور باجپیٔ جیسے محب وطن اور دوراندیش شخصیات پیدا ہونگے، جو ملک کوعظیم مجاہد ،ممتاز قومی رہنما ، بڑے سیاست داں، بے لوث سماجی کارکن،بااثر خطیب، بلند پایہ شاعر ،منصف صحافی ومصنف اور کثیر پہلوئی شخصیت کے مالک افراد اورجمہوری اقدار کی حامل شخصیات وعبقریات  عطا کریں گے، جو قوم وملک کے تئیں بالکل مخلص وہمدردہونگے اور اپنے اعمال و کردار سےانسانیت کی صحیح رہنمائی کریں گے۔ورنہ ان جذبات واحساسات کی غلط پرورش  وپرداخت سے ایسی سوچ وفکر کےحامل افراد پیدا ہونگے جو انگریزوں کے طرز روش پر چلتے ہوئے اپنے ہی قوم وملک کی نسل کشی یا بانٹ بانٹ کر مزید توڑ کر رکھ دینے کی وکالت کریں گے،اسی تخریبی فکر کے نتیجے میں ملک کی تقسیم عمل میں آئی، جبکہ مولاناابوالکلام آزاد اور دیگر بڑےبڑے مسلم  دانشوران ومفکرین نےہندوپاک کی تقسیم سے اسوقت بھی روکاتھا اورایسا کرنے سے بالکل منع کیاتھا ، مگر اسکے باوجودتقسیم کے دستاویزات پر انہوں نے دستخط کئے، مگر آج بھی اسی گندی سوچ کے  نتیجے میں مسلمانوں کو تقسیم کا طعنہ دیا جاتا ہے،حالانکہ ساری غلطیاں خود انکی ہیں، ہندوستانی مسلمان کا اس میں کوئی قصور نہیں ہے، بلکہ انہوں نے جامع مسجد کے اسٹیج سے ببانگ دہل منع کیا، اسکا آج بھی ثبوت یوٹیوب میں موجود ہے، مگر اس ناحیے سے بھی ملک میں مسلمانوں سےنفرت وعداوت کو عام کیا جارہاہے،الحاد وارتداد کا جال پھیلایا جارہاہے، انکے خلاف جوش انتقام ، سفاکیت، درندگی ،قتل وغارت گری،ٖظلم وستم، حق تلفی و ناانصافی جیسے بزدلانہ احساسات وجذبات کوپروان چڑھایاجا رہا ہے۔جس فکر نےکبھی ٹیپو سلطان کے سینے پر چڑھ کر کہا تھا کہ آج سے ہندوستان ہمارا ہے اورکہیں مسلمانوں کے قتل عام  کی واردات کیساتھ انکو سیاست اور سرکاری نوکریوں اور سماجی عدل وانصاف سے ہی محروم کردیاتھا،آج ملک کو ہندتوا نظریہ پرڈھالاجارہا ہے، ساورکرجسکے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں، جنہوں نے جنگ آزادی میں انگریزوں سے معافی  مانگ کر رہائی حاصل کی تھی،وہی  فکر پھرسرچڑھ کر بول رہی ہے، جس نظریے نے کبھی گاندھی جی کوگوڈسے کے ہاتھوں قتل کروایا تھااورآج اسی فکر کا نتیجہ ہے کہ بیرسٹر اسد الدین جیسے عدم تشدداورانصاف پسند لیڈر کوتحفظ فراہم کرنے کے بجائےان پر چار راؤنڈگولیاں چلائی گئیں ۔اللہ کا شکر ہے کہ وہ بال بال بچ گئے، مگر آج بھی جمہوری اقدار کے حامل اشخاص وافراد انکے نشانے پر ہیں۔جسکو روکناارباب اقتدار کیساتھ ساتھ ملک کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔
مثل مشہور ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ جیسی تعلیم ہوگی ویسے اسکے نتائج برآمد ہونگے،جیسا بیج ڈالیں گے ویسا ہی پودا اگے گا، شیواجی اسکول کے پڑھے لکھےاسٹوڈنٹ کا نام ساورکر تھا،جس  نے ہندتوا نظر یے کی بنیاد ڈالی،آج پورے ملک میں اسے جیسے اسکولوں  اورمناہج کی نمائندگی ہورہی ہے، افسوس کی بات ہے کہ اسلامی تعلیمات اوراسکے بلندتصورات  سےدیگرادیان ومذاہب یکسر خالی ہیں، پھر بھی ملک کی نئی تعلیمی پالیسی میں اعلی اخلاقی پہلووں کاخاطرخواہ خیال ملحوظ نہیں رکھاگیا،جب ملک کا تعلیمی واخلاقی ڈھانچہ ہی تخریبی افکار اور مہلک نظریات  پر مبنی ہے تواس کی پیداوار کن فکروں اورمزاج  کی حامل ہوگی ؟اسکا اندازہ آپ خود لگائیں،فی الوقت ملک کو اسی نہج پر لے جانے کی پوری تیاری ہورہی ہے، ملک کاموجودہ سیاسی واخلاقی نظام اسی طریقے اورہندتوانہج پر گامزن ہے،اسکے برے نتائج ملک کی ترقی ومعیشت کیساتھ ساتھ مسلمانوں اور انکے شعائر پر پڑنا لازمی شی ہے، جوہرسطح پرہمارے سامنے مرتب ہوتےنظر آرہے ہیں، ملک کے موجودہ حالات ،اندوہناک واقعات اور افسوسناک رویے سے اسی غلط نظریے اور تحریبی افکار کی ترجمانی ہوتی ہے، سوشل میڈیا کے ذریعے ہمیں بیشتر واقعات سے آگاہی بھی ہوتی ہے،شخصیات وعبقریات کے بیانات سے بھی ہم مستفیدہوتے ہیں،دوراندیش افراد اور بڑے بڑے مفکرین کے افکار ونظریات  اورحالات حاضرہ پر انکے قیمتی تبصرے سے ہم جو تصورات وتوقعات اخذ کرتے ہیں اوراخبارات ومجلات میں بھی وہ دلکش مضامین ومقالات کی شکل میں ہمارے سامنے ہیں۔پھر بھی ہم مسلمان غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔نہایت افسوس اور تعجب کی بات ہے۔
  مسلمانوں کی ناقابل فراموش خدمات  جن سے انکار کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں!پھر بھی انکی روشن تاریخ کو توڑمڑوڑ کر پیش کرنے کا مطلب کیا ہوسکتا ہے؟بھارت میں حکمراں جماعت بی جے پی کے ایک سینئیر رہنما سوم سنگیت نے کہا ہے کہ انڈیا کی تاریخ میں تاج محل کی کوئی جگہ نہیں ہے۔انہوں  نے مزیدکہا کہ گذشتہ سالوں میں تاریخ کو مسخ کر دیا گیا تھا اور اب اسے ٹھیک کیا جا رہا ہے۔ بقول ان کے بھگوان رام سے بھگوان کرشن تک مہارانا پرتاب سے شیو اجی تک سبھی کو صحیح مقام تک لایا جا رہا ہے۔ اکبر اورنگزیب اور بابر کے کلنگ کو ہٹایا جا رہا ہے۔تاہم پارٹی کے ایک ترجمان نریند کوہلی نے تاج محل سے متعلق سوم سنگیت کے بیان کو ان کا ذاتی خیال قرار دیا۔نریند کوہلی نےمزید کہا کہ تاج محل بھارت کی تاریخ کا حصہ ہے ۔ جو واقعات ہوئے ہیں انھیں تاریخی پس منظر میں دیکھنا چاہیے اور اسے مٹایا نہیں جا سکتا۔مجلس اتحاد مسلمین کے رہنما اور رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے ایک پرائیوٹ ٹی وی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ سوم سنگیت نے جو کہا ہے ،وہ بی جے پی کے بنیادی نظریے کا حصہ ہے اور انتخابات کے پیش نظر معاشرے میں منافرت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اسد الدین اویسی نے مزید کہا کہ کیا مسٹر مودی لال قلعے کی فصیل سے بھارتی جھنڈا لہرانا بند کر دیں گے؟ لال قلعہ بھی غداروں کا بنایا ہوا ہے؟ اور اگر حکومت میں دم ہے تو یونیسکو سے کہے کہ وہ تاج محل کو ثقافتی ورثے کی فہرست سے نکال دے۔جبکہ تاج محل دنیا کی حسین ترین عمارت تصور کیا جاتا ہے اور ہر سال لاکھوں سیاح  اس عمارت کو دیکھنے کے لیے بھارت آتے ہیں۔
 ان ظالموں  کو بھی معلوم ہے کہ اس ملک کی تعمیروترقی اورحریت وآزادی میں جتنا لہومسلمانوں کابہا ہے انکا مقابلہ دوسری قومیں ہرگزنہیں کرسکتی ہیں اور اسی طرح ملک کی خیرخواہی وبھلائی میں جتنا بڑا رول مسلم حکمرانوں کاہے اورآج بھی اس چمن کو گل گلزار بنائے رکھنے میں ہندوستانی مسلمان پرعزم وپرجوش ہیں، جوبہت قابل ستائش بات ہے، اتنی مصیبتوں،زخموں اورسازشوں کے باوجود جو قوم صبر وتحمل اور حکمت ومصلحت کادامن تھامے ہوئے ہے، ملک کی سالمیت وصالحیت میں ان سے بہترین کردار کی توقع اور روشن مستقبل کی امید نہ رکھی جائے تو اور کیا رکھی جاسکتی ہے، یہ ملک کی بڑی خوش قسمی اورزہے نصیبی کی بات ہے کہ مدت درازتک مسلمانوں کے عادلانہ نظام،حسن انتظام  اور منصفانہ مزاج سے اس کثیر مذہبی اورتمدنی والے ملک کو شرف حاصل رہا،صدیوں سےیہ ملک انکاوطن وچمن،مسکن وماوی،  مرکز ومامن اوردیارحبیب وانیس کاحسین گہوارہ رہا ہے۔جن سے علیحدہ ہوکر وہ ایک پل بھی زندہ رہناگوارا نہیں کیا،جیسا کہ رنگون کے جیل میں مقید رہ کربہادر شاہ ظفرنےقوم وملک کو جوحسرت بھرا پیغام دیا ہے،وہ اسی محبت وعقیدت  کی عکاسی کرتا ہے، آج بھی وہ  شعری پیغام ہمارے دل وضمیر کو جھنجھوڑتا ہے، اسی عقیدت ومحبت کے جذبات کو دیکھتے ہویے اور اسکی قدردانی کی خاطر خود ہمارے ملک کے وزیراعظم راجیوگاندھی نے رنگون کا دورہ کیا تھا اور انکے مزار پرحاضری دی اورگلہائے عقیدت اور عمدہ خراج پیش کیا تھا۔مگر افسوس کہ آج مخصوص نظریے کے لوگ مغل بادشاہوں کو 'لٹیرے' اور 'غدار' قرار دیتے۔یقینا وہ لوگ بھی انسان تھے، انسانی غلطیوں سے انکار کی ہم اپنی تحریر سے ہرگز کویی ترجمانی نہیں کررہے ہیں بلکہ ناسازگار واقعات کو تاریخی پس منظر سے دیکھنے کی وکالت کرتے ہیں، مگر لٹیرے  اورغدار یا ہندوؤں کا قاتل بتا کر ملک کا ماحول خراب کرنا  اوچھی سیاست کا حصہ تو ہوسکتا ہے، صالح خیال اور تعمیری فکر  ہرگز نہیں کہلاسکتا!جس کی کبھی ہمت افزائی نہیں کی جاسکتی۔
وہ اشعارآپکی عدالت میں بھی پیش ہیں تاکہ آپ بھی محظوظ ہوں اور اس لذت سے سرشار ہو کرملک کے تئیں وہی احساس وجذبہ پیداکریں۔کہ۔۔لگتا نہیں ہے دل مرا اجڑے دیار میں۔۔کس کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں۔۔ان حسرتوں سے کہہ دو کہیں اور جا بسیں۔۔اتنی جگہ کہاں ہے دل داغدار میں۔۔کانٹوں کو مت نکال چمن سے او باغباں۔۔یہ بھی گلوں کے ساتھ پلے ہیں بہار میں۔۔بلبل کو باغباں سے نہ صیاد سے گلہ۔۔قسمت میں قید لکھی تھی فصل بہار میں۔۔کتنا ہے بد نصیب ظفرؔ دفن کے لیے۔۔دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں۔۔۔ آج بھی آپ وطن کی محبت وعقیدت کے احساسات وجذبات کو بخوبی محسوس کرسکتے ہیں۔ مگر تنگ نظروں کو یہ محبت نہیں، بلکہ صرف شک، شبہ اورنفرت نظر آتی ہے۔
مسلم بادشاہوں اور سورماؤں کی تاریخ: سندھ و ہند کی اسی سرزمین میں آج بھی ہزاروں محبین وطن کی لاشیں مدفون ہیں،بنگال، دہلی ،دکن،گلبرگہ بیدر ،میسور،عادل آبادجیسے علاقوں میں مختلف زمانوں میں مختلف خاندانوں کی سلطنتیں قائم تھیں،فتح سندھ وملتان کے بعد کیرل، گجرات،(سیلون (سری لنکا جیسےحصوں پر 7ویں صدی کے اوائل میں مقامی مسلم ریورٹ بادشاہ موجود تھے،مملوک خاندان کی(دہلی) آمد سے قبل ہندوستان میں قابل ذکر اسلامی حکام میں اموی خلافت کےمحمد بن قاسم، غزنوی اورغوری کی سلطنت شامل تھی۔مسلم حکمرانوں میں جس بادشاہ نے سب سے بڑھ کر پورے ہندوستان پر حکومت کی وہ علاؤالدین خلجی تھے،جوترک یا افغان نژادپانچ مشہور خاندانوں نے یکے دیگرے ملک پرطویل حکمرانی کی، وہ خاندان(۱)مملوک(۲)خلجی(۳)تغلق(۴) سید (۵)لودی خاندان کے نام سے جانے جاتے ہیں جنکا زمانہ ۱۲۰۶ عیسوی سے ۱۵۲۶ عیسوی تک محیط ہے، جنوبی خاندان 14 ویں صدی کے  وسط سے 18 ویں صدی کے آخر تک جنوبی ایشیاء کے بیشتر علاقوں پرانکی حکومت قائم تھی، جن میں بہمنی سلطنت، دکن سلطنت اور گجرات سلطنت شامل تھی۔ جب کہ مغل بادشاہوں کے دور میں بابر، ہمایوں، اکبر، جہانگیر، شاہ جہاں اوراورنگ زیب جیسے حکمرانوں نے سیکولر قانونی نظام اپنایا اور مذہبی غیر جانبداری کو پورے ملک میں نافذ کیا۔آخر الذکر بادشاہ کی مخلصانہ قیادت وسیادت کے دوران  ملک میں عدل وانصاف اور انسانی اقدار واخلاق کو جو فروغ و رواج حاصل ہوا،آج تک  ملک میں ویسا دور دیکھا نہیں گیا! آج انہیں بادشاہوں کے خلاف گڑھے ہوئے قصے اور کہانیاں  ہیں بلکہ  انکی قبریں کھودکھود کر ملک کوسیاسی واخلاقی گمراہی و بحران سے دوچارکیا جارہاہے، ان مدفون بادشاہوں کے امتیازی خدمات ،نمایاں کارناموں،یکجہتی ویگانگت اور اخوت ومودت  میں ان کے اصولوں کی پیروی کرنے کے بجائےان  سے بلاوجہ حسد، جلن اور پرخاش کوفروغ دیا جارہا ہے اور اسطرح زندہ مسلمانوں سےنفرت وعداوت کی راہ ہموار کی جارہی ہے اورپرامن  ماحول وفضا کو پراگندہ کیا جارہاہے، جبکہ  ملک کی نامورہستیاں اوردانشوران عظام بالخصوص گاندھی جی، شبھاس چندر بوس،ڈاکٹرامبیڈکر اورجواہر لال نہرو وغیرہم کے قابل ستائش کلمات ہیں، جن سے انکے دورحکمرانی  میں ملک کی ترقی  کابرملا اعتراف ہوتاہے ۔مگر افسوس کہ ملک کامیڈیا ،نیوز ایجنسیاں اور دوسرے ذرائع ابلاغ کس طرح حقائق کو مسخ کرتے ہیں ۔اور کس طرح کسی قوم اور کیمونٹی کے خلاف نفرت کے لیے جھوٹ کا بے دریغ سہارا لیتے ہیں ۔ہمارے ملک میں قربانیوں کا اقرار تو درکنار کسی مسلم بادشاہ کا نام لینا بھی دشوار بنتا جارہا ہے۔
سلطان ٹیپو، بہادر شاہ ظفر،مولوی احمد اللہ شاہ، سیداحمد شہید، علی برادران ،علمادیوبنداورمولاناآزاد کی بلندہمت وقوت اوراعلی فکر ونظر کااقرارتو خود انگریزوں کو بھی تھا،حالانکہ مسلمان قوم ہی فرنگیوں کے نزدیک انکے سب سے بڑے حریف ومخالف تھے،اسی لئے ۱۸۵۷عیسوی میں دہلی میں مسلمانوں کاجہاد اورآزادی کا مشن  جب ناکام ہوگیا تو انگریزوں نےمسلمانوں کاوہاں جوبراحال کیا ،جسے نسل کشی اور قتل عام کہنا زیادہ مناسب ہوگا، جنکی بھیانک تباہی وبربادی کا ڈراور خوف خودانگریزوں کوبھی ستا رہاتھا،جسکااظہار جان لارنس نےاپنے  ایک انگریز کمانڈر سے یہ لکھتے ہوئے کیاکہ ’’مجھے یقین ہے کہ ہم نے جس طریقہ پر بلا امتیاز تمام طبقوں بالخصوص مسلمانوںکو لوٹاہے، اس کے لئےہم  پر ہمیشہ لعنت بھیجی جائے گی، اور یہ فعل حق بجانب ہوگا‘‘۔  آج بھی اس سفاکی ودرندگی کی داستان سن کرانسانی دل اورضمیردہل جاتا ہے،جس نے چنگیز وہلاکو کی یاد تازہ کردی تھی ، بالآخرانہی مسلمانوں اورمجاہدین آزادی کی عظیم  قربانیوں کے نتیجے میں ہمارا ملک انگریزوں کے چنگل سے آزادہوا۔مگر افسوس  کہ آج انکے خلاف نفرت کا بازار گرم کیا جارہا ہے،انکی بہادری  اورقربانیوں کے  واقعات کا اعتراف کرنے میں جھجھک محسوس ہورہی ہے  اورانکے لئے  امتنان وتشکر کے کلمات ادا کرنے کے لئے انکے پاس احسانمند دل نہیں ہے، نہ یوم جمہوریہ اور نہ ہی آزادی کے قومی تہواروںمیں انکاسرسری تذکرہ ہوتا ہے،اورنہ انکو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے، بلکہ اس سے مکمل اجتناب کیا جاتاہے،ہندتوا نظریے کے حامل بعض افراد کو انکا نام بھی سننا  گوارا نہیں ،حد تو یہ ہے کہ  اب ان کی روشن  تاریخ  اورکارنامے کے پیش نظر کسی جگہ اور مقام کا نام رکھنا بھی دشوار ہوتا جارہا ہے، ریاستوں اور سڑکوں کے نام بھی تبدیل کئے جارہے ہیں، برادران وطن  کو چاہئے کہ وہ تاریخ کوتوڑمڑوڑ کرپیش کرنے والوں  کی باتوں میں نہ آئیں اورجہاں جہاں اسطرح کےمواد شامل ہیں خواہ وہ ملک کی نئی تعلیمی پالیسی میں  ہو،حقائق کوسامنے رکھتے ہوئے اسکے حذف اور نصاب سے اخراج کا مطالبہ کریں اورناپاک سازش وکوشش کرنے والے کی ہر کوششوں کو ناکام بنادیں ۔
مسلمانوں کی قربانیاں اور موجودہ حالات کی عکاسی: قارئین کرام کے سامنے  یہ تلخ حقیقت بھی  روزبرزو آشکارا ہوتی جارہی ہے کہ ملک میں جو کچھ ہورہا ہے وہ بالکل بھی ٹھیک نہیں ہورہا ہے ،ان ظالم وجابر انگریزوں نے جب ملک کی ریاستوں کو یکے بعد دیگرے غصب کرنے کی کوشش کی، ملک کی دولت وثروت کا ناجائز استحصال کرنا شروع کیا، برادران وطن کے مذہبی عقائد وجذبات سے کھلواڑ کیا،جبرا گائے اور سور کی چربی کی گولیوں کے استعمال کاہندواورمسلمان فوجیوں کو مکلف بنایااورمذہبی جذبات کو ٹھیس پہونچایا  تو سب سے پہلے مسلمانوں نے  ہی ان سے مقابلہ کرنا شروع کیا اورانکے ناپاک اغراض ومقاصد اوردینی مذاق وکھلواڑکے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہوگئے، انکے خلاف علم جہاد بلند کیا اور قوم وملک  کی حفاظت وسالمیت کیلئے اپنی جان ومال کی بازی لگادی، بے شمارقربانیاں پیش کیں،مگر آج انہی مجاہدین آزادی اور انکی نسلوں کے ساتھ انگریزوں جیساسلوک وبرتاؤاختیار کیاجارہا ہے،فرنگیوں کاطرز عمل اب فرقہ پرستوں کاشیوہ بن گیا ہے، حکومتی سطح سے مظلوم مسلمانوں کے خلاف سازشیں ہورہی ہیں، انکو سرکاری ملازمتوں  سےمحروم کیا جارہا ہے،ملکی سیاست وسیادت اور تعلیم وترقی کے میدان میں انکی پستی و خستہ حالی کے باوجودانہیں مزید پیچھے دھکیلاجارہا ہے، انکے خلاف طرح طرح کے حربے کئے جارہے ہیں،انکے مسائل ومشکلات کوحل کرنے کے بجائے ان سے  چشم پوشی کی جارہی ہے،انکو برابری کے درجےفراہم کرنے کے بجائےانکے حقوق کی پامالیاں ہورہی ہیں، انکے اندراعتماد وبھروسہ پیدا کرنے کے بجائے انکے جذبات و احساسات کو ٹھیس پہنچایا جارہا ہے،  ملک کی امن پسند عوام اپنے ہی ملک کے مخلص مسلمانوں کے خلاف  ایسے رویوں اور سازشوں  کو ہرگزبرداشت نہیں کرسکتے اور ہر ممکن طور پرسیکولر مزاج لوگ  ملک کی سیاست وقیادت سے ایسے عناصر اورارباب اقتدار کونکال باہر کردیں گے،فرقہ پرستوں کو الیکشن میں ہرگز ہرگز اپنا قیمتی ووٹ نہیں ڈالیں گے، جب تک کہ وہ قومی جمہوری اتحاد کے دھارے میں شامل نہ ہوجائیں اورمسلمانوں ،مسلم بادشاہوں اورمجاہدین و شہدا کی قربانیوں اور انکے بیش قیمت خدمات و کارناموں کے خلاف  اپنا رویہ تبدیل نہ کرلیں،موجودہ ارباب اقتدارکو بھی چاہیے کہ وہ تاریخ کو توڑ مڑوڑ کر پیش کرنے والوں پر پابندی عائد کریں۔
اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ملک کی تاریخ  اورحق کے ساتھ بڑامذاق ہوگا، جن سےنہ صرف ہندومسلم انارکی کو ہوا پہونچے گی بلکہ احسان فراموشی کیساتھ ساتھ  ملک کی بڑی توہین  بھی ہوگی اور یہ رویہ انتہائی قابل نفرت  اورعداوت پرمبنی بھی سمجھاجائے گا، جس نظریے کیساتھ ملک کو کبھی ترقی و فروغ حاصل نہیں ہوسکتا کیونکہ صدیوں سےمسلمانوں نے اپنے وطن کو چمنستان بنایا ہے،اسکےوہ خیرخواہ ونگہبان رہےہیں۔ اس چمن کی باغبانی وآبیاری میں مسلمانوں کا بھی مشن اورنمایاں کردار رہاہے۔تقریبا ساڑھے آٹھ سو سال کے طویل عرصے تک ان مسلم بادشاہوں نے قوم وملک کی بہترین خدمت بہترین جذبے  کیساتھ کی ہے بلکہ قوموں کومیل محبت سے رہنے سہنے کےعمدہ طریقے سکھائےہیں،طہارت و نظافت کیساتھ جینے اور مرنے کے  اچھے اصول بتائےہیں،صنعت و حرفت اور زراعت وتجارت اورمیوہ جات کی اقسام اورمختلف پیداوارکے طریقے بتائے ہیں اورقوم وملک کو اسمیں بھی  ترقیات کے راستےبتائےہیں،ملک کے تمدن و ثقافت پرمفید واچھے اثرات مرتب کئےہیں، رفاہ عامہ کے بے شمارکارنامے انجام دئےہیں، شیر شاہ سوری اور اکبر کی اصلاحات اورقوانین آراضی کے نفاذ سےپیمائش ولگان میں عدل وانصاف کا نمونہ پیش کئےہیں،ان سے  پہلے ہندوستان نے ایسا نظام اورطریقہ نہیں دیکھاتھا،ان بادشاہوں کاہی دین ہے کہ جسکی وجہ سے ملک کی تہذیب و تمدن میں ایک بڑاانقلاب برپاہوگیا، فکروخیال میں بیش قیمت ندرت پیدا ہوئی اورزبان وفن اورشعر وادب کےلئے نئے اسالیب ومواضیع سے ملک روشناس ہوا،تاریخ نویسی کےعلم وفن کارواج ہوا، توزک بابری جس میں قدیم ہندوستان کی تصویر و تاریخ ہے، بابر نے خوداپنے ہاتھ سے اپنی زندگی میں لکھی اوروہی اس فن اور دیگر علوم کے شہسواراور بانی مبانی کہلائے، اسی طرح ان بادشاہوں کاعظیم کارنامہ ہے کہ انہوں نے اس ملک کو اپنا ملک اور اسکی ہندومسلم عوام کو اپنی رعایا سمجھتے ہوئے عورتوں کے او پربھی احسانات کئے، عدل وانصاف،مساوات اوربرابری کے حقوق دلائےاورانکے خلاف بعض غلط روایات و رسوم کی بہترین اصلاح کی،جن خرافات واوہام میں ہندوستانی قوم صدیوں سے غرق تھی،جہاںستی کابرا رواج جاری تھا، اخلاقی انارکی کا ماحول چھایا ہواتھا اورطبقاتی کشمکش میں پورا ملک ڈوبا ہوا تھا، اسلامی اخوت و مساوات کی تعلیم نے انکو بے انتہا متاثر کیا، توحید اور خدا پرستی کے طریقے نے انکےشعورکوبالیدگی عطا کی، انکا پرانا طریقہ متزلزل ہوکررہ گیا،نفرت وعداوت کے رویوں نے انکوحیوانیت کے جذبات واحساسات سے معمور کررکھا تھا ،اسلامی عدل وانصاف کے پرکشش نظام ،اسلامی ہمدردی اورانسانی رہنمائی کےمقناطیسی طاقت وقوت اورتصورات ورجحانات نے انکو بھائی بھائی کی لڑی میں پروکر رکھدیا،سب کے اندربھیدبھاو کی جگہ اپنے ملک سے دائمی تعلق،انسانی ہمدردی اور خدمت کے جذبات واحساسات موجزن ہوگئے، اسی طرح ان بادشاہوں نے طبی خدمات اورانسانی سہولیات بہم پہونچانےمیں کوئی کسر نہیں چھوڑی،جسکےلئے انسانیت پوری دنیا میں مسلمانوں کی احسانمندہے،اسکا ایجاد بھی ابن سینانے کیا ہے جوپوری انسانیت کےہمدرد وخیراہ مسلمان سمجھے جاتے ہیں، اسی طرح ان بادشاہوں نے متمدن وترقی یافتہ دنیا سے ہندوستان کے تعلقات بحال کئے، جس کی وجہ سے پوری  دنیا میں اسکا نام روشن ہوا اور اسکا چرچا عام ہوگیا۔اسی طرح ہندوستان میں بحری بیڑوں کی تشکیل بھی انہی بادشاہوں کے وقت میں عمل میں آئی، سمندری راستوں سے بین مملکتی تجارت کی تجدیدواحیاکا بے مثال کارنامہ بھی انہی  مسلمانوں کا ہی دین ہے، مرکزی حکومت کے تحت علاقائی زبانوں کی ترویج وترقی بھی ملک میں امن و خوشحالی کا ضامن ثابت ہو اور ادبی و ثقافتی ترقی سےبے شمار روزگارکے مواقع فراہم ہوئے، ایک مشترک سرکاری زبان اور نثرنگاری کا سادہ اسلوب ایجادہوا جس کی ترقی و تہذیب میں ہندو مسلم نے بطور خاص حصہ لیا، سیاسی اتحاد اور لباس و تمدن کی یکسانیت پیدا ہوئی،  اورہندوستان کا رابطہ خارجی دنیا سےبہت مستحکم ہوا، یہ ساری خدمات بغیر کسی بھیدبھاو اور نفرت وعداوت کے ہوئیں کہ  ملک کی خوب ترقی ہو، عوام کو بھرپورسہولتیں دستیاب ہو۔قومی جمہوری اقدار پر حکمرانی ہی انکی کامیابی کا راز تھا اور نفرت وعداوت کی سیاست سے انکا کوئی تعلق نہیں تھا۔
اسی لئے تمام بادشاہوں نے جمہوری طریقے کو اپناشعار بنایا، وسائل و ذرائع اور اکتشافات و ایجادات کی عدم فراہمی کے باوجود ملک کی ہرممکن تعمیر وترقی کو اپنا نصب العین بنایا،یکجہتی و یگانگت اور اخوت و مودت کو ایسا پروان چڑھایا کہ ہندو مسلم بھائی بھائی بن کر رہنے لگے، ایکدوسرے کی تہذیب وتمدن کےسب قدرداں بن گئے، ہر ایک کے احساسات و جذبات کی رعایت کرنے والے اور عدل و انصاف کے پیکر بن کررہنے لگے، مسلم بادشاہوں نے اپنے دور اقتدار میں ملک میں بسنے والی تمام قوموں، فرقوں اور انکے عقائد وجذبات کا بھرپور خیال کیا، اسی ناحیے سے انہوں نے سب کا اعتماد حاصل کیا، سب کے مزاج ومذاق کاپاس ولحاظ اورعزت و احترام کیا اور انکے ساتھ ہمدردی و مساوات کے ذریعے مثالی حکمرانی کا جو نمونہ پیش کیا، جس کا عنصر نہ تو ظالم و جابر انگریزوں کے غاصبانہ دور اقتدار میں دیکھنے کو ملا اور نہ ہی اسوقت اسکاعملی مظاہرہ ہورہا ہے۔ان تاریخی حقائق کے پیش نظر صاف ظاہر ہے کہ مسلمانوں نے اس عظیم ملک کو جس قدر فائدہ پہنچایا ہے وہ اس فائدے سے بہت زیادہ ہے، جو ہندوستان نے انہیں پہنچایا، مسلمانوں کی آمد اس ملک کی تاریخ میں ایک نئے دور ترقی و خوشحالی کا آغاز تھا، جسے ہندوستان کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔آج بھی تاج محل، قطب مینار، لال قلعہ اور جامع مسجد وغیرہ انکی عظمت وشوکت کی داستان بیان کررہے ہیں۔
مگر آج انہی مسلم بادشاہوں سے بعض تنگ نظر کو اتنا پرخاش ہے کہ انکا نام بھی سننا گوارا نہیں!چہ جائے کہ انکی خدمات کا اعتراف کرے جیسا کہ ابھی چند روز قبل مہاراشٹر کے ملاڈ علاقہ میں اسپورٹس کمپلیکس کے نام کے سلسلے میں دنیا نےنفرت بھرا جوڈرامہ دیکھا،وہ اسی ہندتوا نظریہ کا دین ہے، جسکو ٹیپو سلطان کے نام سے موسوم کیا جارہا تھا، اس بات پر ہندتوا حامیوں نے اتنا ہنگامہ، بمبئ کی سرزمین پر مشتعل بیان اورمظاہرہ کیا کہ اسکے افتتاح کے دوران انتظامیہ کو کثیر تعداد میں پولیس تعینات کرنا پڑی، پھر شیو سینا کے ترجمان سنجے راوت جی کا بے باک بیان اخبارات میں شائع ہوا، جس میں انہوں نے مظاہرین کو مشورہ دیاکہ تاریخ بدلنے کے بجائے اسکا وہ بغور پھر سےمطالعہ کریں۔ ٹیپو سلطان کی تعریف خود ملک کے موجودہ صدر رام ناتھ کووندنے کیا ہے، اس سے پہلے گاندھی جی نے سلطان کی حب الوطنی اور رواداری کا کھل کر اعتراف کیا ہے اور کہا کہ وطن اور قوم کے شہیدوں میں ان سے بلند مرتبہ کوئی نہ تھا۔ مگر افسوس کہ آج ملک میں بعض ارباب اقتدار و فرقہ پرستوں کے اندر مسلمانوں سے ہمدردی و انسیت کے بجائے انگریزوں کے طرز پر ان سے بھرپور دشمنی، ظلم و زیادتی، غارتگری اور سفاکی ودرندگی کے احساسات بلکہ انکی نسل کشی کے جذبات و جوش انتقام خطرناک حد تک بھردئے ہیں۔ بھلا ایسے لوگوں سے قوم وملک کی خیر خواہی کی کیا امیدیں وابستہ رکھی جاسکتی ہیں؟! آخر کیونکر یہ لوگ مسلمانوں کی خدمات اور قربانیوں کا اعتراف کرسکتے ہیں؟ افسوس تو ان زر خریدمسلم لیڈروں پر ہوتا ہے جو ان واقعات سے چشم پوشی کرتے ہوئےایسی فکر کی طرفداری میں اپنے بیانات جاری کرتے ہیں۔
ملک کے حالات وترقیات کی عکاسی: جبکہ آج کے ارباب اقتدار نظم و نسق کے ڈھیر سارے وسائل، اکتشافات  وایجادات کی ریل پیل اور دستورو آئین کی فراہمی کے باوجود بھی قومی جمہوری اقدار اورمسلم حکمرانی کےاصولوں پرقوم وملک کولے کر کے بجائے فرقہ پرستی کی راہ پر گامزن  ہیں،جسکی وجہ سے وہ ملک کی عوام کومسائل و مشکلات، سازشوں اور پروپیگنڈوں میں گرفتار کرتے جارہے ہیں، جمہوری گورنینس،ارتقائی اقدامات، شمولیاتی پالیسیوں، توسیعی ہدایات، لسانی پروگرام، اردوزبان،معیاری تعلیم و تربیت، معاشی ترقی، سماجی اصلاح ،سیاسی سدھار، ذرائع ابلاغ کی تصحیح، انسانی وسائل کے فروغ ،داخلی امور میں مساوات،یکجہتی ویگانگت،رواداری کی یقین دہانی اورعدل و انصاف کی ضمانت و گارنٹی دینے کے بجائےتمام شعبہ ہائےحیات کی سرگرمیوں اور عوام وخواص بالخصوص طلباوطالبات کوبنیادی سہولیات و انتظامات فراہم کرنے اور اسمیں توازن ویکسوئی  برقرار رکھنے سے بھی محروم وقاصر ہوتے جارہےہیں،کیونکہ امن وآشتی کے قیام کے بغیر نہ توملک کی اندرونی حالات  صحیح ڈگر پر گامزن ہوسکتے ہیں اور بغیر اندرونی ترقی کے ملک کوعالمی وآفاقی برتری وفوقیت حاصل کیسے ہوسکتی ہے؟ اندرونی اتنشار وخلفشار کیوجہ سے ملک کی معاشی حالت مستحکم نہیں ہے،نفرت کی سیاست کیوجہ سے بے روزگاری اور مہنگائی عروج پرہے،شخصی و ذہنی ارتقا کی جگہ مذہبی منافرت اور فرقہ پرستی نے لے لی ہے، عمدہ تحقیق و تخلیق اور مثالی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ضروری مہارت و صلاحیت کے بجائےہندو مسلم کے نئے نئے جھگڑے اور مسلم بادشاہوں کی تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی تگ ودو اور الحاد وارتداد کی کوششوں نے لے لی ہے،اعتماد کی جگہ بداعتمادی پیدا کی جارہی ہے، عدل و انصاف کی جگہ ظلم و زیادتی کا بازار گرم کیاجارہا ہے، جمہوری اقدار کے فروغ وترویج کی جگہ فرقہ پرستی، ہندو راشٹریہ یا برہمن داشت کے ایجنڈے کی بالادستی نےلےلئے ہیں، بہترین اغراض و مقاصد کی پلاننگ کی جگہ غلط منصوبے اور حر بوں نے اختیار کرلیے ہیں، ملکی اور ریاستی سطح پر آج سرزمین ہند میں جونئے بھارت اور اسکی ترقیوں کے نام پر جوتبدیلیاں اورخرابیاںرونما ہو رہی ہیں،وہ انسانیت کی بھلائی اور ملک کی صحیح خیر خواہی سے یکسر خالی ہیں اورگورننس کے طریقے اور سیاسی ذمہ داریوں میں عدم شفافیت اورکٹرپنتیوں پرسخت اقدامات سےچشم پوشی کی بنا پر جو رجحانات ان دنوں ابھر کر ہمارے سامنے آرہے  ہیں، وہ بہت افسوسناک اور قابل حیرت ہیں، جس پرلگام کسنا نہایت اہم اور اسکی فوراً اصلاح اشد ضروری ہے، ان تخریبی سرگرمیوں سے جو تصورات پیدا ہورہے ہیں وہ ہمارے تاریک مستقبل کی نشاندہی کر رہے  ہیں، اس میں ہماری اور ہماری نسلوں کی تعمیر و ترقی نہیں بلکہ ملک کی تباہی و بربادی مضمر ہے، جن کے اثرات و تأثرات ظاہر و باہر ہیں، پھر بھی ہمیں احساس و ادراک نہیں ہورہا ہے، جو کسی بھی طرح سے ہمارے جمہوری ملک اور اس کی عوام کے مفاد میں ہرگزنہیں ہو سکتے،یہ انسانی عروج کے بجائے اس کے زوال وانحطاط کے داعی ومستدعی ہیں،یہ ایجنڈے اور منصوبے آسمانی اور خدا ئی نہیں ہیں بلکہ یہ ظالم انسانوں کے ہاتھوں کی کمائی  ہیں، جن میں طبقاتی کشمکش، اخلاقی انارکی،الحاد وارتدادکی سازش،سیاسی پستی اور ایک مخصوص فرقے  کی بالادستی تصور ہے، قرآن نے اسی بات کی تصویر کشی کرتے ہوئے کئی جگہ پر انسانوں کو متنبہ کیا ہے کہ خشکی و تری میں انسانی رویوں اور انکے ہاتھوں کی کمائی سے ظلم وفساد بھرگئے ہیں۔۔الخ ۔اگر ہم اس کے خلاف کھڑے نہیں  ہوئے تو پورے ملک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں بڑا فساد برپا ہو جائے گا۔۔الخ ۔کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ تم اس سے انصاف نہ کرو، انصاف کرو ،کیونکہ یہی پرہیزگاری سے قریب تر ہے  (قرآن)
آج ملک  کو جو خطرات و مشکلات درپیش ہیں، وہ اسی طاقت و قوت کی بالادستی کا نتیجہ ہے ،جس نے جمہوری ملک میں اپنی انتخابی اکثریت کو جمہوریت مخالف مذہبی غلبہ تصور کر لیا ہے،جو نہ صرف دستوری نظام کے خلاف ایک باغیانہ تیور ہے بلکہ قوم و ملک کی روح ومزاج کے خلاف ہے، غیر منصفانہ رویہ ہے ،طاقتور طبقے کا کمزورطبقوں پر اپنا تسلط قائم کرنا ہے اور یہ اتنا آسان کام بھی نہیں ہے کیونکہ یہاں مختلف قومیں اور انکی الگ الگ تہذیبیں ہیں جو صدیوں سے اسلامی تہذیب کے سایے میں آزادی کیساتھ پروان چڑھتی رہی ہیں، اب اگر اس سے کمتر تہذیب وطریقہ کی طرف ملک کو لے جایا جائے گا تو ملک کی عوام خود اسے دھتکاردے گی۔ جبکہ ارباب اقتدار سے ملکی سرحدوں کوبھی محفوظ رکھنا  دشوار ہے اور وہ اپنی سرحدوں کو دشمنوں کے حوالے کر کے اپنے ہی ملک کی اقلیتوں کو ڈرا اور دھمکا کر ان کے حقوق چھیننا اور ملک کے نظام عدل سے انہیں بےدخل کرنا حد درجہ سطحیت کاطریقہ اختیار کرلیا ہے ، اور انکی یہی بڑی نا کامیابی کی دلیل وثبوت ہےاوریہی ہمارے ملک کا حقیقی بحران اور المیہ بھی ہے، جس کو سمجھنا ہر شخص کیلئے بہت ضروری ہے اسی وجہ سے اقلیتیں ظلم و سرکشی کا عرصے سے شکار بنی ہیں،  اس پر جتنا بھی ماتم کیا جاءے وہ بہت کم ہے،اسی نظریے کی خاطر اگر ملک میں رزم آرائی کی گئی،جیسا کہ ابھی ہریدوار، چھتیس گڑھ اور الہ آباد کےدھرم سنسدوں سے مسلمانوں کی نسل کشی کااعلان کیا گیااور اسلامی شخصیات کے خلاف جھوٹی باتیں بولی گئیں، تو یاد رکھیں!مذہب اسلام اس کی شدت کے ساتھ مذمت کرتاہے اور صرف اس سے پرہیز کرنے کی ہی تاکیدنہیں کرتا بلکہ ان لوگوں کے خلاف  کھڑے ہو جانے کا حکم دیتاہے اور ان کے فتنے اور فساد سے زمین کو آزاد کرانے کی ہم سبھوں پر ذمہ داری بھی عائد کرتاہے، لوگوں کو اس بات سے آگاہ اور متنبہ کرنا ہمارا فرض  ہےاورظلم کے خلاف اتحاد واتفاق کی طاقت سے لیس ہونا ہماراایمانی اور آئینی حق ہے اور اس جمہوری ملک میں الیکشن اور انتخابات کے میدان میں اچھے امیدواروں کو اتارنااور انکو ووٹ دینا ہی ہمارا اخلاقی و دستوری فریضہ بنتا ہے،حالات کاتقاضہ بھی ہے کہ اپنے ووٹوں کی طاقت سے ایسے کم ظرف لوگوں کو شکست سے دوچار کردیں اور ملک کی سالمیت کو برقرار رکھنے میں ہرممکن جمہوری طاقت لگا دیں،یہ ملک کے ہر فرد کی ذمہ داری بنتی ہے جیسا کہ ہمیں اس وقت پانچ صوبوں کے اسمبلی انتخابات میں اپناایمانی، آئینی اور جمہوری فریضہ انجام دینا ہے۔ورنہ سن لیں۔
وطن کی فکر کر ناداں! مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے

«
»

ریٹھی دانے، یا ریٹھی صابن پانی

شہر مرڈیشور(کائکنی) علم دوست انسان سے محروم ہوا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے