کہانی گھر گھر کی! قسط 4 (سرکاری کالجوں میں حجاب تنازعہ)

شکر ہے خدا کا لیکن فکر بھی ضروری! 

تحریر : عتیق الرحمن ڈانگی ندوی 

آج ام ضیاء کچھ پریشان سی لگ رہی تھی، کئی دنوں سے وھاٹس ایپ پر وائرل اڈپی سرکاری کالج کی خبرنے اسے تشویش میں ڈال دیا تھا ، اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار نظر آرہے تھے ، ضیاء نے مجھے آج باہر جاتے وقت روکتے ہوئے کہا؟ ابو جان ! کئی دنوں سے امی پریشان پریشان لگ رہی ہے۔ جب بھی وھاٹس اپ کھولتی ہے پریشان سی نظر آتی ہے۔ میں نے بار بار پوچھنے کی کوشش کی لیکن اس سے پہلے ہی وہ وہاں سے اٹھ کر کچن کی طرف چلنے لگتی ہے اور بہت دیرتک وہیں رہتی ہے ، پتہ نہیں وہ کیا سوچ رہی ہے؟  میں نے ضیاء کو دلاسا دیتے ہوئے کہا ۔ بیٹا! پریشان ہونے کی بات نہیں ، میں معلوم کرلیتا ہوں۔ 
آج میں معمول سے پہلے ہی گھر لوٹ چکا تھا ، گھڑی میں رات کے دس بج رہے تھے، میرے سلام کی آواز کی آتے ہی سبھوں نے جواب دیا ، ام ضیاء نے پانی پیش کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے آج کی اہم خبر نہیں دیکھی؟ میں سوچوں میں گم سا ہوگیا ، میں نے سوچنا شروع کردیا لیکن میرا ذہن ملک کے بجٹ کی خبروں کے درمیان ہی گردش کرنے لگا ، ام ضیاء کو مخاطب کرتے ہوئے میں نے پوچھا کہ کیا بجٹ سیشن پر کوئی اہم خبر آئی ہے ، اس نے کہا کہ اس سے بھی اہم ، میں نے پھر دوبارہ سوچنا شروع کردیا لیکن میرے یکے بعد دیگرے جوابات ام ضیاء کو مطمئن نہیں کرسکے ، اس نے ایک آہ بھرتے ہوئے اپنی بات شروع کردی، 
کئی دن قبل اڈپی سرکاری کالج میں چند طالبات کو کلاس میں صرف اس وجہ سے بیٹھنے کی اجازت نہیں دی گئی کہ وہ حجاب پہنتی ہیں اور آج تو حد ہوگئی ، اس کی دیکھا دیکھی  کنداپور کالج میں حیران کن واقعہ پیش آیا۔ کالج گیٹ پر پرنسپال نے طالبات کو اندر داخل ہونے سے منع کیا، طالبات آئین کا حوالہ دیتی رہی ، اپنے مستقبل کو برباد نہ کرنے کی گذارش کرتی رہی لیکن پرنسپال پر اس کا کوئی اثر نظر نہیں آیا۔ بار بار گذارش کے باوجود پتھر دل پرنسپال نے کالج حدود میں داخل ہونے ہی نہیں دیا۔ نفرت کی اس ہوا نے ضلع اڈپی کے ایک اور تعلقہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ میں نے اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا کہ اس سے زیادہ شرمناک بات نہیں ہوسکتی ہے کہ آج دستور میں دئیے گئے حقوق کو ہم سے چھیننے کی کوششیں یکے بعد دیگرے علاقوں میں کی جارہیں ہیں۔ اڈپی کے بعد اب کنداپور میں نفرت کی ہوا چلانے والوں کی کوششیں لگاتار ہورہی ہیں اور یوں معاشرہ کو مسموم کیا جارہا ہے۔ سال 2016 میں کیرلا ہائی کورٹ نے اپنے حکم نامہ کہا تھا کہ حجاب پہننا دستوری حق ہے لیکن دستور میں دئیے گئے حقوق کی اس طرح دھجیاں اڑائی جارہی ہیں اور عوامی نمائندے اس حقوق کو بچانے کی کوشش کرنے کے بجائے اسے ہوا دے رہے ہیں۔ کرناٹک کے وزیر تعلیم کے شرمناک بیان سے رہی سہی کسر بھی ختم ہوگئی ہے۔ اس نے صاف طور پر اپنے ایک بیان میں کہا کہ کسی بھی صورت میں حجاب کے ساتھ کلاس روم میں داخلہ کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔  
ام ضیاء میری باتوں کو بغور سن رہی تھیں ، اس نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا کہ تو پھر اپنے حقوق کی لڑائی کیوں نہیں لڑی جارہی ہے؟ کیا ہندوستان کے آئین کے تحفظ کے لیے قائم ادارے ہر مذہب کے ماننے والوں کو ان کے حقوق پر عمل کرنے کی آزادی نہیں دے سکتے؟ میں نے اس کے سوال کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے جواب دیا ، کیوں نہیں دے سکتے! ، اب حکومت سے کوئی امیدیں قائم نہیں جاسکتیں ، جب ان کے وزراء ہی جلتے پر نمک چھڑکنے کا کام کریں تو پھر ہمیں عدالتی چارہ جوئی کی طرف قدم اٹھانا چاہیے اور یہی اڈپی سرکاری کالج کی ان غیرت مند طالبات نے کیا ہے۔ وہ اپنی لڑائی لڑنے کے لیے خود آگے بڑھ رہی ہیں ، سلام ہے ایسی طالبات پر جنہوں نے اسلام کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کرلیا ، کنداپور کالج کی مذکورہ ان طالبات سے بھی یہی امید ہے کہ وہ بھی اڈپی سرکاری کالج کی ان غیور طالبات کے نقشِ قدم پر چلیں گی۔ آئین کی دفعات کو بالائے طاق رکھ کر ہندستان پر حکمرانی کرنے کا مسلم دشمن طاقتوں کا یہ خواب کبھی پورا نہیں ہوگا۔ چاہے وہ لاکھ کوششیں کرتے رہیں اور روڑے اٹکاتے رہیں لیکن غیرت مندی ابھی باقی ہے اور جب تک یہ باقی رہے گی ہمیں آئین میں دیئے گئے حقوق پر عمل کرنے سے باز رکھنے کی کوششیں کچھ دیر کے لیے تو سر اٹھاسکتی ہیں لیکن کامیاب نہیں ہوسکتیں۔ یہ کہتے ہوئے میں کچھ جذباتی ہوگیا اور اپنی پیشانی پر بہنے والے پسینے کو پونچھتے ہوئے کمرے کی طرف بڑھنے لگا۔ 
میں نے کمرے کا دروازہ جیسے ہی بند کیا تو ام ضیاء کو یہ کہتے ہوئے سنا! شکر ہے اللہ کی پاک ذات کا  کہ اسلاف نے ہمارے شہر میں شروع ہی سے اپنے تعلیمی اداروں کے قیام سے اس طرح کے مسائل میں گھرنے سے ہمیں پوری طرح دور رکھا! ایل کے جی سے لے کر ڈگری تک ہمیں غیر ملی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ پوری طرح اپنے مذہب پر عمل کرتے ہوئے اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے مواقع میسر ہیں! اس کے باوجودغیر ملی اداروں کو ترجیح دینے والے ان سر اٹھاتے مسائل کو سامنے رکھ کر اپنے نونہالوں کے مستقبل کے بارے میں ضرور سوچیں!

 

کہانی گھر گھر کی !!؟؟؟ قسط 1

کہانی گھر گھر کی!!؟؟ قسط 2

کہانی گھر گھر کی!!؟؟ قسط 3

«
»

ریٹھی دانے، یا ریٹھی صابن پانی

شہر مرڈیشور(کائکنی) علم دوست انسان سے محروم ہوا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے