فتنوں کے دور میں کرنے کا ایک اہم کام !

     (اپنے مَن میں ڈوب کر پاجا سراغِ زندگی)

 

  از : محمد ندیم الدین قاسمی ( مدرس ادارہ اشرف العلوم حیدرآباد )

یہ دور فتنوں کا دور ہے، ہر طرف سے مختلف قسم کے فتنوں کی یورش ہے؛

دینی ،علمی ،عملی،اخلاقی ،معاشرتی اور تمدنی

ہر اعتبار سے اتنے فتنے ظاہر ہوچکے ہیں کہ عقل اب حیران ہے؛ گویا کہ ہر فتنہ ظلمات بعضھا فوق بعض

  کا مصداق ہے؛ جس کی نتیجہ میں اب آئے دن   امت مسلمہ میں مختلف قسم کی برائیاں جنم لے رہی ہیں؛ بے حیائی،بداخلاقی، بد اطواری،چوری،غیبت وبہتان طرازی،حرام خوری،جاہ ومنزلت طلبی،مطلب ومفاد پرستی،

ڈاکہ،رشوت ،کذب وخیانت،  حرصِ دولت وثروت، اورحرام کاری اتنی عام ہوچکی ہے کہ الأمان والحفیظ ! حق بات سننے اور ماننے کے لئے کوئی تیار ہی نہیں ۔  حضرت مولانا یوسف لدھیانوی شہیدؒ انہی ایمان سوز فتنوں کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:''دورِ حاضر کو سائنسی اور مادی اعتبار سے لاکھ ترقی یافتہ کہہ لیجیے؛لیکن اخلاقی اقدار،روحانی بصیرت، ایمانی جوہر کی پامالی کے لحاظ سے یہ انسانیت کا بدترین دورِ انحطاط ہے۔ مکر وفریب ، ظلم و دغا، شر وفساد، لہو ولعب، کفر ونفاق اور بے مروّتی ودنائت کا جو طوفان ہمارے گرد وپیش برپا ہے، اس نے سفینۂ انسانیت کے لیے سنگین خطرہ پیدا کردیا ہے۔( عصر حاضر حدیثِ نبوی کے آئینے میں ،ص ۹)تو اب سوال یہ ہے کہ ایسے پُر فتن دور میں  ایک فکر مند مسلمان اپنے ایمان کی حفاظت کرے تو کیسے کرے؟ کیا فتنوں کے آگے بے بس ہوکر ایمان کا سودا کربیٹھے؟  نہیں ،ہرگز نہیں ! بلکہ آپﷺ نے ایسے پرفتن دور میں ایک اہم کام کرنے کی ترغیب دی ہے کہ ہر شخص اپنی اصلاح کی فکر میں لگ جائے ۔ 

پہلے اپنی اصلاح کی فکر کریں

اللہ تعالی فرماتا ہے : یا ایھا الذین آمنوا علیکم انفسکم۔

ترجمہ: اے ایمان والو! اپنی فکر کرو۔

اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے شیخ الإسلام حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ تحریر فرماتے ہیں:

جب معاشرے میں بد عملی کا چلن عام ہوجائے تو اس وقت اصلاح کی طرف لوٹنے کا بھی بہترین نسخہ یہی ہے کہ ہر شخص دوسروں کے طرزِ عمل کو دیکھنے کے بجائے اپنی اصلاح کی فکر میں لگ جائے، جب افراد میں اپنی اصلاح کی فکر پیدا ہوگی تو چراغ سے چراغ جلے گا اور رفتہ رفتہ معاشرہ بھی اصلاح کی طرف لوٹے گا۔

( آسان ترجمۂ قرآن)

ایک "حدیث" میں ہے : إذا رأيتَ شُحًّا مُطاعًا، وهَوًى مُتَّبَعًا، ودُنْيا مُؤْثَرَةً، وإعجابَ كلِّ ذِي رأيٍ برأيِه، فعليكَ بخاصةِ نفسِكَ، ودَعْ عنكَ أَمْرَ العَوَامِّ.(سنن الترمذی ۳۰۵۸)

ترجمہ : جب تم دیکھو کہ لوگ مال کی محبت کےپیچھے چلنے لگے ، اور خواہشاتِ نفس کی اتباع کرنے لگے،دنیا کو آخرت پر ترجیح دی جانے لگے ، اور ہر شخص اپنے رائے پر گھمنڈ میں مبتلا ہوجائے تو اس وقت اپنی اصلاح کی فکر میں لگ جاؤ۔ 

سب سے بڑا المیہ 

لیکن اب  صورتِ حال یہ ہے  کہ ہر کسی کو دوسروں کی اصلاح ،دوسروں پر تنقید، اوروں کے عیب ونقائص کی فکر ہے،دوسروں کی خرابیوں اور برائیوں پر گہری نظر ہے؛ لیکن اپنی کوتاہیوں اور خرابیوں کا احساس تک نہیں،وہ اصلاح کا خود سے نہیں بلکہ معاشرے سے اس کا آغاز چاہتے ہیں، دوسروں کے عیوب بیان کرتے کرتے راتیں کٹ جاتی ہیں ؛مگر خود کی اصلاح کے لئے وقت ہی نہیں ، اگر چہ خود میں ہزاروں عیوب ہی سہی ! ؂ 

مصحفیؔ ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم 

تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا 

اور  ایک حدیث میں ہے: إذا سمعت الرجل یقول : ھلک الناس فھو اھلکھم۔( صحیح مسلم ) 

جب تم کسی کو یہ کہتے ہوئے سنو کہ لوگ ہلاک ہوگئے تو سمجھ لو کہ وہی سب سے زیادہ ہلاک ہے۔ 

اب ہر کسی کو  دوسروں کی ذمہ داریوں کا تو احساس ہے لیکن اپنی ذمہ داریوں سے بے فکر! انہیں اپنے حقوق تو یاد رہتے ہیں لیکن ان کے ذمہ معاشرے کے کتنے اور کیا کیا حقوق ہیں ؟ان سے سبک دوش رہنا چاہتےہیں۔

اسی وجہ سے حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے ایک شخص کے یزید پر لعنت کرنے کے جواز وعدمِ جواز کے متعلق دریافت کرنے پر فرمایا کہ اس شخص کے لئے جائز ہے جسے یقین ہو کہ یزید سے بہتر ہو کر مرے گا،سائل نے کہا : یہ مرنے سے پہلے کیسے ہوسکتا ہے؟ حضرت نے فرمایا : بس ! پھر مرنے کے بعد جائز ہوگا۔

 حضرت مفتی شفیع صاحبؒ سے کسی نے پوچھا: یزید کی مغفرت ہوگی یا نہیں؟آپ نے جواب دیا " یزید سے پہلے اپنی مغفرت کی فکر کرو"۔

اور یہ حقیقت بھی ہے کہ ہر آدمی کو اپنی ذمہ داریوں اور اپنی اصلاح کا اگر احساس ہوجائے ،اپنے حقوق کی ادائیگی کے تئیں شعور بیدار ہوجائے، ملک وملت کے فرزند ہونے کی حیثیت سے اپنی انفرادی و ملی ذمہ داریوں کی فکر ہونے لگے،انسان دوسروں کی اصلاح کے نعروں کے بجائے اپنی کوتاہیوں کی اصلاح اور درستگی کی فکر کرنے لگے ، اور ملک وملت سے اپنے حقوق مانگنے اور وصول کرنے کے ساتھ ساتھ  انہیں حقوق دینے کی سعی کرنے لگے، تو ہمارے معاشرے کے آدھے سے زیادہ مسائل اسی سے حل ہوجائیں گے،اور معاشرہ کی اصلاح ہوجائے گی،ورنہ ہم قوموں کی دوڑتی ہوئی زندگی میں بہ حیثیت ملک وملت کوئی بلند مقام حاصل نہیں  کرسکتے ہیں۔ ؂

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی 

تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

«
»

کہانی گھر گھر کی! قسط 4 (سرکاری کالجوں میں حجاب تنازعہ)

نئی زبان سیکھنے کا طریقہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے