القاب کا استعمال اور ہماری بے اعتدالیاں

 از: محمد ندیم الدین قاسمی مدرس ادارہ اشرف العلوم ،حیدرآباد 

اعتدال ؛ دینِ اسلام  ہی کا  "خاصہ" ،اور "امتِ محمدیہ" کا ایک وصفِ امتیاز ہے،جو انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں مطلوب ہے ، خواہ وہ عبادات ہوں یا عادات، جذبات ہوں یا افکار وخیالات ؛ حتی کہ کسی کی مدح سرائی ہو یا کسی پر تنقید وتبصرہ؛ہر ایک میں "میانہ روی" اور "اعتدال" کی تعلیم دی گئی ہے؛ لیکن  آج ہم اپنے گرد وپیش کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا  کہ  تعریف وتنقید دونوں شعبوں میں عوام تو عوام ،خواص کا ایک بڑا طبقہ  افراط وتفریط کا شکار ہے،بعضوں نے تو کسی کی تعریف کو شجرِ ممنوعہ، فعلِ حرام اور معصیتِ رب سمجھ رکھا ہے ، دوسروں کے محاسن ومحامد کا اظہار  تو دور کی بات؛ بلکہ دوسروں کی معمولی خامیوں اور کوتاہیوں کو ان کی نظر فورا اچک لیتی ہے،اور خود "ہم چوں دیگرے نیست"  کے خول میں بند ہیں؛ جب کہ حسنِ کارکردگی پر تعریف ، ہونہار اور قابل افراد کے جذبۂ عمل کو مہمیز کرتی ہے، تعریف سے حوصلے پروان چڑھتے ہیں ، ارادوں میں شبابی شان پیدا ہوتی ہے، نیز اسوۂ رسولﷺ سے بھی ہمیں اس کا سبق ملتا ہے ؛ جیسا کہ آپﷺ  نے حضرت عمرؓ کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا:  والذي نفسي بيده ما لقيك الشيطانُ قطّ سالكا فجا إلا سلك فجا غير فجك۔( صحیح مسلم ۲۳۹۶) 

ترجمہ : بہ خدا ! جب بھی شیطان تمہیں کسی راستہ  میں  ملتا ہے تو راستہ بدل لیتا ہے۔

اور حضرت علیؓ سے فرمایا تھا : أَنْتَ مِنِّي بمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِن مُوسَى، إِلَّا أنَّهُ لا نَبِيَّ بَعْدِي  ( صحیح بخاری ۳۷۰۶)

ترجمہ: تمہارا مقام میرے نزدیک ایسا ہی ہےجیسے ہارونؑ کا مقام  موسیٰؑ کے ساتھ تھا؛مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ 

وہیں دوسری طرف تعریف و توصیف بیان کرنے میں مبالغہ آرائیاں ،کوہ پیما جملے ،شاہانہ تعبیرات، مذہبی القابات میں آئے دن جو بے اعتدالیاں ہورہی ہیں ،وہ کسی سے مخفی نہیں ،رائے کو پربت، قطرے کو سمندر، ذرے کو پہاڑ بناکر پیش کرنے کا تو مزاج عام سا 

ہوگیا ہے،جلسوں اور دیگر  مجالس میں آئے روز علماء واکابر کی تعریفوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملادئے جاتے ہیں ؛مثلاً کسی کے لیے حجۃ الاسلام ،تو کسی کے لیے شیخ الاسلام، کسی کے لیے شیخ الفقہ، تو کسی کے لیے شیخ الحدیث، کسی کے لیے مفتی اعظم، تو کسی کے لیے خطیب بے بدل، خطیبِ زماں، طوطیِ ہند، محققِ دوراں، محقق العصر، علامۃ العصر، محدث العصر، فقیہِ زماں، جامعِ علوم عقلیہ و نقلیہ، شیخ المشائخ، مفکرِ اسلام،رازیِ وقت، غزالیِ دوراں، شہنشاہِ خطابت، محقق علی الاطلاق، قطبِ لاریب، محدثِ اعظم، ثانیِ جنیدؒ، مونسِ ہند وغیرہ وغیرہ۔ اورایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب  لفظی امانت داری کا ذرا بھی خیال نہیں،اور سوچتے ہیں کہ الفاظ اور جملوں کی بے اعتدالیوں پر کہاں سر قلم ہونے والا ہے؟

افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ بعض حضرات تو باقاعدہ اپنے حلقۂ احباب کو اس طرح بڑے بڑے القاب کا لاحقہ یا سابقہ اپنے نام کے ساتھ لگانے کی تاکید کرتے ہیں، اور القاب کے بغیر پکارے جانے پر بے التفاتی اور ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں؛ جب کہ احادیث شریفہ میں جہاں تعریف میں مبالغہ آرائی سے روکا کیا گیا ہے،تو وہیں افراط پسند افراد کو افراط سے روکنے کی ترغیب بھی دی گئی ہے۔ 

*احادیث* 

۱۔إذا رأیتم المدّاحین فاحثوا فی وجوہہم التراب۔

ترجمہ :  جب تم تعریف میں مبالغہ کرنے والوں کو دیکھو تو ان کے چہروں پر مٹی ڈال دو(مسند احمد 6/5)

۲۔خود جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذاتِ اقدس کے متعلق ارشاد فرمایا:لَا تُطْرُوْنِیْ کَمَا أَطْرَتِ النَّصَارٰی عِیْسَی بْنَ مَرْیَمَ ۔۔۔۔۔ 

ترجمہ: لوگو! میری تعریف میں مبالغہ سے کام نہیں لینا، جیسا کہ نصاریٰ نے حضرت عیسیؑ بن مریم کے متعلق مبالغہ آرائی کی تھی۔

۳۔ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ فرماتے ہیں :سمع النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یثنی علی رجل ویطریہ فی مدحہ، فقال: أھلکتم أوقطعتم ظہرالرجل۔( صحیح بخاری،کتاب الشہادات)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دوسرے شخص کی خوب بڑھا چڑھاکر تعریف کرتے ہوئے سنا تو فرمایا :’’ تم نے اس شخص کو ہلاک کردیا‘‘ یا فرمایا کہ ’’ تم نے اس کی کمر توڑ دی‘‘۔

۴۔حضرت معاویہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو یہ ارشاد فرماتے سنا ہے: 

إیاکم و التمادح فانہ الذبح۔(سنن ابن ماجہ ۳۷۶۳) 

’’کسی کی تعریف میں مبالغہ آرائی سے بچو؛ اس لیے کہ ایسا کرنا اسے قتل کرنے کے مثل ہے۔ 

۵۔إنی لاأرید أن ترفعونی فوق منزلتی التی أنزلنیہا اللہ تبارک وتعالیٰ۔( مسند أحمد 3/153) 

میں نہیں چاہتا کہ تم لوگ مجھے میرے اس مقام سے اوپر اٹھا دو جس پر اللہ تعالیٰ نے مجھے رکھا ہے۔

حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے ایک سلسلۂ گفتگو میں بعض مخترع القاب کے متعلق فرمایا: 

’’خبر نہیں لوگ کس عبث اور فضولیات میں مبتلا ہیں، اس سے ان لوگوں کے مذاق کا پتہ چلتا ہے، کوئی شیخ الحدیث ہے، کوئی استاذ الحدیث ،کوئی شیخ التفسیر، کوئی شیخ الجامعہ، یہ اس قسم کے جھگڑے ابھی شروع ہوئے ہیں۔ ہمارے بزرگوں میں تو ان چیزوں کا نام و نشان بھی نہ تھا، یہ سب جاہ طلبی ہے۔ اور سب سے زیادہ اچھی اور خوبی کی بات تو وہی ہے جو پہلے اپنے بزرگوں میں تھی: سادگی، اسی میں برکت ہے، ان چیزوں میں برکت کہاں، یہ سب نئی روشنی کا اثر ہے۔                                       (ملفوظ نمبر:۴۲۷،۲۷۳، ملفوظات حکیم الامت ) 

*تعریف میں مبالغہ آرائی کے نقصانات*

تعریف میں غلو، ممدوح کے کبر وغرور میں مبتلا ہونے، خود فریبی کا شکار ہونے، اور دوسروں کو دھوکہ دینے کا سبب ہے، اس سے تمرد وسرکشی کی خو ، ممدوح میں سر ابھارنے لگتی ہے،جو اس کے اخلاقی و روحانی موت کا یقینا پیش خیمہ ہے۔

اس لئے  اب  عوام بلکہ اہل علم کے لئے ضروری ہے کہ نہ تعریف میں مبالغہ آرائی سے کام لیں کہ تعریف کسی کی انا وخود پرستی کی غذا بن جائے اور نہ تعریف کرنے میں  اتنی بخالت کہ،ہمیشہ دوسروں کے عیوب ہی پر نظر ہو ؛ بلکہ اعتدال کے دامن کو ہر حال میں تھامے رکھیں۔ اللہ عمل کی توفیق دے،آمین۔

 

«
»

کہانی گھر گھر کی! قسط 4 (سرکاری کالجوں میں حجاب تنازعہ)

نئی زبان سیکھنے کا طریقہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے