وہ نسل نوکے لئے روشن مثال تھے ، جامعہ ضیاءالعلوم کنڈلورکے کے ممتاز فرزندمولوی ذیشان شیخ ؒ کا سانحہ ارتحال

مفتی فیاض برمارے 
استاد جامعہ ضیاء العلوم کنڈلور

آج صبح پہلا گھنٹہ پڑھا کرکمرہ پہنچا تو جامعہ کے استاذ عزیزی قاری ومفتی سہیل ص کا فون آیا کہ فارغین ضیاء کے گروپ پر مولانا ذیشان ص کے سلسلہ میں ناقابل یقین خبر گردش کررہی ہے،میں نے فورا رکھا اور مولوی ذیشان کے نمبر پر رابطہ کیا ادھر سے فون اٹھایا گیا اور میرے سوال سے پہلے ہی انھوں نے تصدیق کردی لیکن مجھے یقین ہی نہیں آرہا تھا پھر میں نے دوبارہ سہ بارہ سوال کیا تو انھوں نے تاکیدی انداز میں کہا کہ میں اس وقت ان کے ساتھ میں ہوں میت میرے سامنے ہے،دراصل دوروزپہلے ان کے پانچ ماہ کے لخت جگر کے اچانک انتقال سے وہ ناقابل بیان صدمہ کے شکار تھے اور ان کے سابق مرض میں اضافہ ہوگیا تھا اس لئے اسپتال میں زیر علاج تھے،گذشتہ رات میں پتہ چلا تھا کہ ان کی طبیعت میں سدھار آریا ہے،لیکن وہ اخروی سفر کی تیاری تھی،الغرض میں جلدی سے کمرے سے نکل کر سارے اساتذہ کو اطلاع دی،سب اساتذہ دفتر میں جمع ہوگئے،عجیب غم کا سماں بن گیا،طلبہ کو بھی اطلاع مل گئی،جامعہ کے درودیوار پر غم واداسی کے بادل چھاگئے،سب ہی افسردہ وغم زدہ تھے،لیکن کیا کرسکتے تھے،بلکہ اس بات پر مزید یقین ہوگیا کہ موت کے سامنے کوئی جیت نہیں۔ سکتا،اگر خدا کی قدرت  کہیں نظر نہ آئے تو موت سے بڑھ کر خدا کی قدرت کو سمجھانے اور انسان کے عجز کو بیان کرنے والی کوئی چیز نہیں پے۔ 
16/ستمبر 2013ء کے دن چھوٹا قد،گول بدن وسیع پیشانی،چہرہ پر ذہانت و فطانت کی لکیریں،پڑھنے کا ذوق وشوق لے کر ذیشان نامی طالب علم جامعہ کے سابق استاذ مولانا آفتاب غازی صاحب کے توسط سے ضیاء العلوم کے احاطہ میں داخل ہوتا ہے،جس کا داخلہ عربی چہارم میں ہوجاتا ہے،چوں کہ ان کی عربی دوم تک تعلیم تیگنگنڈی میں اور اس کے بعد عربی سوم تک وہ جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں تعلیم مکمل کرچکے تھے،یہ حسن اتفاق تھا کہ انھیں جو درجہ کے ساتھی ملے تھے وہ بھی محنتی اور پڑھنے کا شوق رکھتے تھے،یہاں سے ان کا کنڈلور میں یہ تعلیمی سفر شروع ہوا،اللہ تعالیٰ نے انھیں پڑھنے کے ذوق کے ساتھ ذہانت بھی دی تھی،افہام وتفہیم دونوں صفات کے مالک تھے،انھوں اپنے پانچ سالہ تعلیمی سفر کے دوران خوب محنت کی،اساتذہ سے خوب کسب فیض کیا،اور ہمیشہ درجہ میں امتیازی  نمبرات سے کامیاب ہوتے رہے،اور 2018/میں دارالعلوم ندوۃ العلماء سے عالمیت مکمل کی۔
اللہ تعالیٰ نے چند صفات میں انھیں دیگر طلباء سے امتیاز عطا کیا تھا،منجملہ اردووعربی ادب ان کا خاص موضوع تھا،عربی سے انھیں خاص دلچسپی تھی،جامعہ میں عصر بعد عربی وانگریزی اسپیکنگ کے گھنٹوں میں برابر شریک ہوکر اساتذہ سے خوب فائدہ اٹھایا،وہ خود کہا کرتے تھے کہ مجھے عصر بعد کے انگریزی وعربی تکلم کی مشق کی بنیادپر عربی وانگریزی زبان پر قدرت حاصل ہوگئ،اللہ تعالیٰ کی طرف سے انھیں ان دونوں زبانوں پر بہت زبردست مہارت عطا ہوئی تھی،برجستہ دونوں زبانیں اس طرح بول لیتے  کہ مخاطب ان کا گرویدہ ہوجاتا تھا،وہ اپنے ساتھیوں اور ان کے بعد والوں کے لئے ایک روشن مثال تھے،اس لئے کہ وہ زبان کے سیکھنے اور بولنے میں کسی قسم کی آر محسوس نہیں کرتے تھے،اسی کے ساتھ ملیالم زبان پر بھی دسترس حاصل کرلی تھی،چوں کہ وہ رمضان المبارک میں تراویح کیرلا میں سناتے تھے اس لئے چنددنوں میں ہی محنت کرکے اس زبان کو سیکھ لیا تھا۔وہ انتہائی ملنسار تھے،اور پڑھائی کے دوران بھی نچلے درجات کے طلبہ پر بھی مشکل اسباق سمجھانے کا اہتمام کرتے ،نیچلے درجات کے طلبہ بھی ان سے استفادہ کرتے،انھیں ہمیشہ یہ فکر لگی رہتی تھی کہ کوئی ان کا ساتھی یا جامعہ کا فارغ خالی نہ رہے وہ خدمت کے مواقع تلاش کرتے اورساتھیوں کو اس کی اطلاع دیتے،بہت سی خصوصیات تھیں جن سے وہ مالا مال تھے۔
فراغت کے بعد جب ان کا تقرر جامعہ ضیاء العلوم کنڈلور میں ہوا تو نچلے درجات کے طلبہ کو بھی زبان کے سیکھنے پر ابھارتے،اس کی مشق کراتے،وہ چاہتے تھے کہ ہرایک ان کی طرح دونوں زبانوں پر قدرت حاصل کرے۔لیکن کچھ مجبوریوں کی بنیاد پر وہ یہاں سے چھوڑ کر کیرلا میں اپنی خدمات انجام دینے لگے۔چند ماہ قبل کیرلا سے وہ امامت کی غرض سے اڈپی کے قریب ایک بستی میں تقریبا دوماہ مقیم رہے پھر طبیعت کی ناسازی کی بناء پر اپنے گھر چلے گئے۔
ان کی والدہ کے انتقال اور کچھ حالات کی بناء پر ان کی طبیعت کافی متاثر ہوچکی تھی،علاج بھی کرتے رہے لیکن آخر میں ان پر ٹائفائیڈ اور ڈینگو جیسے مرض کا حملہ ہوا اور یہی مرض جان لیوا ثابت ہوا،مختصر وقت اسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد آج صبح ہم سب کو چھوڑ کر وہ رب کے حضور پہنچ گئے۔
مولوی ذیشان کو جن لوگوں سے قلبی لگاؤ تھا ان میں یہ سیاہ کار بھی شامل تھا،اس قلبی لگاو میں ان کے جامعہ کے تدریس کے دوران کافی اضافہ ہوگیا تھا،ہمہ وقت مشورہ کرتے رہتے،ہربات شیر کرتے،اپنی نجی اور پرنسپل امور سے متعلق بھی رائے ملاتے،اور آخری وقت تک یہ تعلق باقی رہا،میری ان سے آخری بات منگل کے دن عصر بعد تفصیل سے  ہوئی تھی،اور بیٹے کے انتقال کی خبر بھی انھوں نے خود ہی دی تھی،یہاں تک بیٹے کا دیدار بھی وڈیوکال سے روتے روتے کرایا تھا،چوں کہ وہ بچپن ہی سے منکی بھٹکل میں اپنی بہن کے یہاں  رہے اور جوانی کی بہاریں کنڈلور میں گذاری،اس لئے انھیں اس علاقہ سے عجیب تعلق تھا،وہ کہتے تھے کہ مجھے اسی علاقہ میں خدمت کا شوق ہے،کرناٹک اور خاص کر یہ علاقہ ان کی اولین ترجیحات میں سے تھا،نیز جامعہ ضیاء العلوم کنڈلور میں خدمت کابڑا شوق تھا،لیکن یہ شوق وہ اپنے ساتھ لے گئے،اس سال وہ اپنے سب سے چھوٹا سالے حافظ شاداب کا بھی جامعہ کے درجہ  خصوصی دوم میں داخلہ کرنے تشریف لائے ،اس کے بعد دو مرتبہ تشریف لائے بہت دیر تک خوشگوار باتیں ہوئیں،بہت سے عزائم اور بلند مقاصد کا اظہار کیا لیکن وہ سب  اپنے سینے میں لے کر دفن ہوگئے،اونچی سوچ بلند پرواز کا قصد تھا،لیکن یہ حقیقت ہے کہ خدا کے فیصلہ کے آگے کسی کی نہیں چلتی،ان کی پیدائش 12/اپریل 1995ء میں ہوئی تھی اس اعتبار سے زندگی کے ستائیسویں سال عین جوانی میں اپنی مختصر دینی خدمات کے ساتھ سب کو سسکتا بلکتا چھوڑ گئے،اس جدائی پر اساتذہ طلبہ،ابناء فارغین ومستفیدین ضیاء خود ناظم جامعہ مولانا عبیداللہ ابوبکر ندوی اور ذمہ داران جامعہ انتہائی مغوم ہیں،جامعہ میں ان کی نماز غائبانہ ادا کرکے دعاء مغفرت بھی کی گئی، مزیدہم سب مرحوم کے اہل خانہ کی خدمت میں تعزیت مسنونہ پیش کرتے ہیں،اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے،درجات بلند فرمائے ان کی خدمات قبول فرمائیں۔

6؍ جمادی الأولیٰ 1443
11؍ دسمبر 2021

«
»

مسلم اور غیر مسلم تعلقات

اصلاحی وتنقیدی مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے